ڈاکٹر جاوید منظر کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

کتاب : ڈاکٹر جاوید منظر کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ
مقالہ نگار : خالد محمود
صفحات : 142 قیمت:300 روپے
ناشر : مکتبہ فکر و ادب۔ مکان نمبر6، گلی نمبر15، سوانی نگر روڈ، گھوڑے شاہ، لاہور
رابطہ : 0321-4507370
ڈاکٹر کاظم جاوید عالم جو ادبی حلقوں میں جاوید منظر کے نام سے معروف ہیں، شہر کی فعال ادبی شخصیت ہیں۔ محبی یاور مہدی کے ہاں آپ سے اکثر سلام دعا ہوتی رہتی ہے۔ شستہ اور مدلل گفتگو فرماتے ہیں۔ جس موضوع پر بولتے ہیں اُس میں ذاتی تعلق بھی شامل کرکے اپنی اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں جو دلوں کو موہ لیتا ہے۔
’’ڈاکٹر جاوید منظر کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ‘‘ خالد محمود کا ایم فل کا مقالہ ہے جو شعبہ اردو لیڈز یونیورسٹی لاہور میں تحریر کیا گیا ہے، جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل میں شخصی پس منظر اور خاندانی حالات ہیں۔ باب دوئم میں ادبی کام کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔ باب سوئم میں شاعری کا فنی و تنقیدی جائزہ، اور باب چہارم محاکمہ اور کتابیات پر مشتمل ہے۔ خاندانی حالات سے پتا چلتا ہے کہ ان کا گھرانہ مذہبی اور ادبی ماحول کی وجہ سے بدایوں بھارت میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ والد ڈاکٹر الحاج ممتاز عالم بھی شاعر تھے۔ ان کے دادا اور پردادا بھی شاعر تھے۔ والدہ منور جہاں ناظرہ زمانی کا شعری مجموعہ ’’کلام ناظرہ‘‘ بھی شائع ہوچکا ہے۔ بڑے بھائی جعفر محمود عالم المعروف محمود ساگر بھی شاعر ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’گردش‘‘ بھی شائع ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ ذوق گھر سے ملا اور آپ تیرہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں:

محمدؐ محمدؐ پکارا کروں
اسی نام سے دل نکھارا کروں

اور دل نکھرنے لگا، اور یہ نکھار ’’مرے دل پہ کعبے کا در کھلا‘‘ کی صورت ہمارے سامنے آیا:

اے خدا! اے مرے معبود، مرے ربِ جلیل
ایک انساں کے لیے تُو نے جہاں خلق کیے
یہ جہاں کیا ہے کیے سیکڑوں عالم تخلیق
ایسے پیکرؐ کے لیے، ایسے شناور کے لیے
جسے کوئی تصور میں نہیں لا سکتا
ایسا ذرہ کہ جو صحرا میں نہیں آسکتا

اسلم فرخی کہتے ہیں: ’’جاوید منظر کا یہ دلکش اور پاکیزہ کلام میں نے اور میرے احباب نے بار بار سنا، ہر دفعہ سرشاری کی ایک کیفیت کا احساس ہوا‘‘۔ عارف منصور کہتے ہیں: ’’اس منظرنامے میں جذب و سکون کے تمام رنگ، قوسِ قزح کی طرح آنکھوں کے راستے روح میں اُتر جاتے ہیں‘‘۔ مقالہ نگار نے درست کہا کہ ’’ان کی شاعری روحانی کیفیت پیدا کرتی ہے، عام آدمی بھی ان کا کلام سُن کر متاثر ہوتا ہے۔ انہیں زبان پر پوری قدرت حاصل ہے، ان کے سادہ اسلوب میں روانی ہے، ترنم ہے اور تاثیر ہے۔ ان کے احساسات قاری کو اپنے احساسات لگتے ہیں:

یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر تھا ورنہ
کون روتا ہے چمٹ کر در و دیوار کے ساتھ‘‘

ڈاکٹر جاوید منظرؔ کی ایک اور اعلیٰ فکری کاوش ان کا مقالہ ’’کراچی کا دبستانِ غزل‘‘ ہے جس پر انہیں کراچی یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ یہ مقالہ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ’’اردو دنیا کا ایک نیا دبستان ہے‘‘۔ مقالہ نگار نے ان کی غیر مطبوعہ شاعری کا بھی احاطہ کیا ہے۔ ان کی غیر مطبوعہ شاعری میں مرثیہ اور نظم کو اہمیت حاصل ہے۔ مقالہ نگار نے ایک عمدہ نظم چُنی ہے:

ایسا لگتا ہے کہ اب شاخ بریدہ کا سراغ
ایک لمحے میں کسی ہاتھ سے مل جائے گا
روح احساس کے دامن سے شناسا ہوگی
وقت ہر فکر سے آزاد بھی ہوگا لیکن
کون کہتا ہے کہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے
اپنے کاندھوں پہ لیے اپنے سراپا کا وجود
ہم اندھیروں کے سیاہ غار تک آپہنچے ہیں
اور یہ چاہتے ہیں
آسماں ہم پہ اُجالوں کی نوازش کردے
اور پھر یہ بھی نہ پوچھے ہم سے
تم نے اس طرح شب و روز گزارے کیوں تھے
اپنے افکار سے کیوں ہاتھ لہو رنگ کیے
دامنِ کوہ سے کیا تم کو ملے گا منظرؔ
جو گزر جاتے ہیں وہ لمحے کہاں آتے ہیں

متفرقات میں ان کی ایک اور تخلیق ’’سُروں کے آئینے میں‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’جہانِ لطیف‘‘ جس میں صوبہ سندھ کے صوفی شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے تیس سُروں پر مشتمل آپ نے کئی سو اشعار کی مثنوی تحریر کی ہے۔ اس طویل مثنوی میں ہر سُر کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ محققین کی متفقہ رائے ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ پر اس سے قبل ایسا کوئی کام نہیں ہوا۔
خالد محمود کا ادبی ذوق ان کے مقالے سے عیاں ہے، اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اختصار سے کام لیا جو قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ ان کی سخن فہمی کہ جو بھی اشعار بطور حوالہ انہوں نے رقم کیے وہ بہت خوب ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’جاوید منظرؔ نے اپنی بقا کی جنگ خود لڑی ہے اور ستم ہائے زمانہ کو بڑی جرأت کے ساتھ سہا۔ ان کی غزلیہ شاعری ان کی قلبی واردات کی مجسم تصویر ہے، انہوں نے اپنا نیا شعری پیکر بھی تراشا ہے، ان کے الفاظ جذبوں کو ظاہر کرنے میں ایک مکمل شعوری اظہار اور تاثر پیش کرتے ہیں‘‘۔

حُسن ہی حُسن ہے محفل میں تمہاری لیکن
تابِ دیدار نہیں طالبِ دیدار کے پاس
……
چاند ڈوبا تو یہ سزا پائی
بات کرنے لگی ہے تنہائی
پھر ملے بھی تو اجنبی کی طرح
کام آئی نہیں شناسائی
……
بچھڑنا ہے تو مت الفاظ ڈھونڈو
ہمارے واسطے لہجہ بہت ہے

۔146 صفحات پر محیط خالد محمود کا یہ تحقیقی مقالہ نہ صرف جاوید منظر بلکہ ہمارے عہد کے ادبی منظرنامے سے بھی ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ کتاب عمدہ کاغذ، اچھی طباعت اور رنگین سرورق کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔