اپوزیشن میں “فارورڈ بلاک” بننے کی افواہیں، اندھا دھند گرفتاریاں اور حکومت کے لیے امکانی خطرات

معروف صحافی یاسر قاضی نے جمعرات 4 جولائی 2019ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں محولابالا عنوان سے جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

سندھی تحریر: یاسر قاضی، ترجمہ: اسامہ تنولی

’’ایک طرف عالمی سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ حیرت انگیز حد تک کروٹ بدل رہا ہے، تو دوسری جانب ہمارے ہاں کی گھریلو صورتِ حال بھی نت نئے رنگ میں تبدیل ہورہی ہے۔ احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اس قدر زور پکڑتا جارہا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے مرتکب افراد کو خود بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ بات بالآخر خود ان کے گلے پڑ جائے گی۔ نئے مالی سال کے پہلے روز یعنی یکم جولائی 2019ء کو مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور نون لیگ کے پرانے، مخلص اور مستقل مزاج رہنما رانا ثناء اللہ کی گرفتاری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت اب انتقام کے گھوڑے پر سوار ہوکر اندھا دھند تیراندازی کررہی ہے۔ کوئی بھی پارٹی خواہ کتنی ہی کرپٹ کیوں نہ ہو، لیکن ہر پارٹی کے اندر ساکھ کے حامل ایسے افراد بھی موجود ہوتے ہیں جن کے سیاسی کردار پر بآسانی انگشت زنی نہیں کی جاسکتی، اور ان پر بدعنوانی کا الزام لگانا بھی اتنا آسان نہیں ہوا کرتا۔ رانا ثناء اللہ سے مجھ سمیت سیاسی حوالے سے کسی کے بھی ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں، اور ہوں گے بھی! تاہم بدعنوانی کے حوالے سے ان کا نام کسی بھی بڑے اسکینڈل کا حصہ ابھی تک نہیں بنا۔ ان پر ’’نیب‘‘ میں بھی فیصل آباد میں فلائی اوور کی تعمیر میں پیسوں کے غبن کا ایک کمزور سا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس کے سوا ان پر مزید کوئی بھی بڑا الزام نہیں ہے۔ محض انہیں گرفتار کرانے کے شوق میں الزام لگانا، وہ بھی ہیروئن کی موجودگی کا، بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح سے راستوں یا ریلوے اسٹیشنوں پر ہماری پیاری پولیس پردیسی مسافروں کی تلاشی لیتے ہوئے ازخود ہی ان کی جیب میں چرس کا ٹکڑا ڈال کر انہیں روک لیتی ہے۔ اگر متعلقہ فرد دو تین سو روپے دے کر اپنی جان آزاد کروالے تو چہ خوب! ورنہ گھنٹہ سوا گھنٹہ تھانے میں لابٹھاکر ’’ملزم‘‘ سے دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے دو تین سو روپے نکلواہی لیتی ہے۔ کسی کی گاڑی میں 10 کلو تو کیا کتنی بھی بڑی مقدار میں نشہ آور شے رکھوا دینا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے ہیروئن کا برآمد ہونا دیدہ دانستہ اس امر کو ثابت نہیں کرتا کہ اس سطح کا سیاست دان ہیروئن کی فروخت اس طرح سے کھلے عام کرے گا… اور وہ بھی اپنی ذاتی گاڑی میں…؟ یہ تو بالکل ہی ایک بچکانہ بات لگتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ محکمہ انسدادِ منشیات اس رات دیر تلک رانا ثناء اللہ کے خلاف کوئی بھی چارج شیٹ پیش ہی نہیں کرسکا۔ بعض حلقوں کا تو صاف صاف یہ بھی کہنا ہے کہ اگر منشیات کی خرید و فروخت میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہونے والوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کی گرفت میں سب سے کہیں زیادہ خود حکومتی جماعت کے افراد ہی آئیں گے۔ رانا ثناء اللہ خود گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے سے اس بارے میں ٹی وی کے مختلف شوز میں اس خدشے کا اظہار برملا کرتے بھی رہے ہیں کہ انہیں گرفتار کرنے کا حکم نامہ جاری ہوچکا ہے اور اب محض وجہ کی ’’تلاش‘‘ جاری ہے کہ کس کیس میں انہیں گرفتار کرکے حوالۂ زنداں کیا جائے۔ خود عمران خان کرسیِ اقتدار پر براجمان ہونے سے پیشتر فیصل آباد میں سرِعام رانا کو گرفتار کرنے کے حوالے سے انتہائی نامناسب الفاظ میں اپنے عزائم اور ارادوں کا اظہار کرچکے ہیں۔ حکومت کو اگر انہیں ہر صورت میں گرفتار ہی کرنا تھا تو اس بارے میں کوئی مناسب یا معقول بہانہ ملنے تک انتظار کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ یہ جلد بازی تو حکومت کی ساکھ کے لیے بہت سارے سوالات کھڑے کررہی ہے۔ صرف رانا ثناء اللہ ہی نہیں بلکہ حالیہ عرصے میں خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق، مریم نواز، مریم اورنگ زیب، اور دوسری جانب پی پی پی کے رہنمائوں میں سے خود بلاول بھٹو جیسے ہائی پروفائل سیاست دانوں کی گرفتاریوں کے اشارے بھی مزید واضح اور نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں اسحق ڈار کی گرفتاری کے لیے بھی انٹرپول کی منت سماجت کا سلسلہ جاری ہے۔ امکانی طور پر گرفتار ہونے والی ان شخصیات کی فہرست میں دوسری جماعتوں کے کچھ دیگر ایم این ایز اور سینیٹرز کے نام بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اس ساری صورت حال کا فائدہ حزب مخالف ہی کو ہونا ہے، نہ کہ حکومت کو۔ یہ بھی امکان ہے کہ (شنید ہے کہ ایسی ہدایات ملی ہیں) رانا ثناء اللہ کو جیل میں نہیں رکھا جائے گا، اینٹی نارکوٹکس فورس کے کسی اور خفیہ ٹھکانے پر رکھا جائے گا، اور انتقامی کارروائی کے طور پر ان کے ساتھ کسی بھی حد تک برا سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔ یہ وہی رانا ثناء اللہ ہیں جنہیں پرویزمشرف کے دور میں جسمانی ہی نہیں بلکہ حد درجہ ذہنی اذیت بھی دی گئی تھی، یہاں تک کہ ان کی مونچھیں اور بھنویں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔ سیاست بے حد ظالم شے ہے، اگر کوئی فرد منظر سے غائب ہوجائے تو وہ دل سے بھی اتر جایا کرتا ہے۔ پرویزمشرف دور میں مخدوم جاوید ہاشمی جیسے شریف شخص کو بھی کس قدر جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور اس وجہ سے وہ تاحال ذہنی طور پر اذیت میں ہیں، جبکہ جسمانی طور پر ان کے چہرے کی ساخت اور آواز کی خوب صورتی ہی چھن گئی، لیکن یہ مخدوم جاوید ہاشمی ہم میں سے بیشتر افراد کو یاد ہی نہیں ہیں۔ یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ’’اربابِ اختیار‘‘ کی جانب سے مداخلت کی صورت میں رانا ثناء اللہ کو ایک دو روزکے اندر چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔
سیاسی کھیل کے میدان میں اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ہوبہو 2002ء کا سیاسی منظرنامہ خود کو دہراتا ہوا دکھائی دے گا۔ جس طرح 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ (ق) بنی تھی، اسی طرح سے اب بھی مسلم لیگ (ن) میں سے ایک فارورڈ بلاک ابھرتے اور بنتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے جو حکومت میں شامل ہوکر موجودہ نواز لیگ کے لیے کسی نئے انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نوازلیگ توڑنے کا کام اب بھی اسی موصوف کو دیا گیا ہے جسے 2002ء میں یہ کام سپرد کیا گیا تھا، تب ان صاحب نے یہ کام بہ طریقِ احسن سرانجام دے کر ’’انعام و اکرام‘‘ بھی حاصل کیا تھا۔ اب تو یہ کام مزید آسان ہوگیا ہے، اس لیے کہ نواز لیگ کے اپنے گھر ہی میں بحران جنم لے چکا ہے۔ جیل کے اندر اور جیل کے باہر والے الگ الگ حساب کتاب لینے کی کھینچاتانی میں مصروف ہیں۔ چچا معیشت پر مبنی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو بھتیجی ان کا سارا کھیل ہی خراب کردینا چاہتی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بجٹ پاس ہونے والے اہم دن پر اہم اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی عمارت کے اندر اپنے چیمبر میں موجود ہونے کے باوجود حزبِ مخالف کے رہنما حمزہ شہباز کا اس اجلاس میں شریک نہ ہونا، اسی طرح سے ان کے والد شہبازشریف کا قومی اسمبلی کے 4 گھنٹے تک جاری رہنے والے بجٹ اجلاس میں فقط 20 منٹ کے لیے آنا اور عمران خان کے اٹھ کر جاتے ہی خود ان کا بھی اٹھ کر چلے جانا ان کے حزب اختلاف کے قائد کے طور پر ملے ہوئے کردار کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے؟ یا پھر اپنی پارٹی کے نام میں شامل حرف ’’ن‘‘ سے دوری کا اظہار کرتا ہے؟ اس کی ان کی جماعت کے عام کارکن کو کیا خبر۔ یہاں تک کہ اتوار 30 جون کو نواز لیگ کے جنوبی پنجاب (سرائیکی پٹی) سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز کا وفد ’’بنی گالا‘‘ جاکر وزیراعظم سے ملاقات کرکے آیا ہے (جن کی تعداد پی ٹی آئی کے ترجمان نے تو 15ایم پی ایز بتائی ہے لیکن اصل تعداد نواز لیگ کے 8 اور پی پی پی کے ایک ایم پی اے پر مشتمل ہے) جس کی وجہ سے نواز لیگ کے فارورڈ بلاک کے جلد ابھر آنے کے روشن امکانات ہیں۔
دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس فارورڈ بلاک کے دھڑے پر مبنی یاروں کے باضابطہ طور پر حکومت میں شامل ہونے کے بعد وہ خود پی ٹی آئی کے اندر موجود دھڑوں میں سے کون سے ایک حلقے کو کمزور کریں گے؟ اور کس کو مضبوط؟ دیکھنا یہ ہے کہ یہ اہم جتھا (گروپ) شاہ محمود قریشی کے کیمپ میں جاکر بیٹھے گا یا پھر جہانگیر ترین کے ہاں!!؟ دوسری جانب علیم خان کے بھی پارٹی قیادت سے تحفظات بڑھتے چلے جارہے ہیں اور وہ ’’قربانی کا بکرا‘‘ بننے کا فوری ’’صلہ‘‘ نہ ملنے کی صورت میں کوئی ایڈونچر بھی کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب چودھری سرور کا کیمپ بھی نوواردارکان کا ضرور گرم جوشی کے ساتھ ’’جی آیا نوں‘‘ کہہ کر استقبال کرے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے ارکان کس کے ہاں (کیمپ میں) جاکر ٹھیرتے ہیں؟ ادھر اس نازک صورت حال میں قاف لیگ کی حکومت سے فرمائشیں بھی بڑھتی چلی جارہی ہیں اور چودھری پرویز الٰہی کا دوبارہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ بننے کا خواب بھی تاحال ختم نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم یہ موجودہ صورت حال بہرحال قاف لیگ اور حکومت کے مابین تعلق کو قدرے کمزور ضرور کرے گی۔ یہ بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ پنجاب میں آج یا کل کسی بھی تبدیلی کی صورت میں ایک طرف رکھا ہوا ایک مزید ناراض مہرہ (چودھری نثار) بھی بہ وقتِ ضرورت حسب ذائقہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
اختیار ملنے کے بعد اس کا باضابطہ استعمال بھی ایک بڑا ہنر ہے، جس سے موجودہ حکومت بالکل نابلد ہے۔ حکومت کو سوا ماہ کے بعد پورا ایک برس ہونے والا ہے اور وہ تاحال ملک کو اس کی تاریخ کے سنگین ترین اقتصادی بحران سے نکالنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا یہ منجن اب مزید زیادہ عرصے تک فروخت نہیں ہوسکے گا کہ ’’یہ حشر سابق حکومتوں نے کیا ہے، اس لیے ہماری کوئی بھی خطا نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ساتھ انہوں نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے اور اس کے سبب حکومت میں آئے، ان خوابوں میں سے کسی ایک خواب کی بھی تعبیر کا تاحال دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بنیادی حقوق پر پابندی، پریس اور میڈیا پر خاموشی سے آنے والا مشکل وقت، مہنگائی، بے روزگاری، عوام کا حکومت کے بارے میں عدم اطمینان اور عدم اعتماد، بدامنی اور ہر معاملے میں غیر یقینی کی سی صورتِ حال… ملک کو یہ سارے امور مسلسل انارکی کی سمت دھکیل رہے ہیں۔ حکومت کے لیے آنے والے بڑے جھٹکوں میں سے ورلڈ کپ میں ہماری امکانی شکست، نئی معاشی ٹیم اور عبدالحفیظ شیخ جیسے ساکھ کے حامل ماہر اقتصادیات کو معاشی باگ ڈور سپرد کرنے کے باوصف متوقع نتائج کا نہ ملنا بھی ہنگامہ برپا کریں گے، اور عوام میں اس کی وجہ سے ردعمل جنم لے گا۔ اور بالآخر حکومت کے لیے اس ردعمل کا سامنا کرنا روز بروز مشکل ہوتا جائے گا۔ ادھر آصف علی زرداری نے بھی انکشاف کیا ہے کہ لندن میں بڑے پیمانے پر ایک تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور عمران خان کے خلاف ’’وکی لیکس‘‘ کی طرح کا ایک بہت بڑا اسکینڈل سامنے آنے والا ہے۔ اس ساری صورت حال میںٖ حکومت اپنے آپ کو اسی وقت کامیابی سے بچا سکتی ہے جب وہ احتسابی عمل احتسابی اداروں کے حوالے کرکے خود اپنا اصل کام کرے۔ یہ ادارے اپنی خودمختاری استعمال کرتے ہوئے قانون کے مطابق جس پر جرم ثابت ہو، اسے گرفتار کریں، جو الزام سے بری الذمہ ہوجائے اسے چھوڑ دیں، اور اس سارے عمل سے حکومت کا کوئی بھی تعلق یا واسطہ نہ ہو۔ حکومت اس بغض کی آگ میں سے نکل کر اپنی پارٹی میں ہونے والی اندرونی توڑ پھوڑ کو روکے، اور پاکستان کی معیشت کے گرداب میں پھنسی ہوئی نیّا کو ساحلِ مراد پر لانے کی سعی کرے، تاکہ ہم (عوام) سُکھ کا سانس لے سکیں، اور کوئی بھی غریب صرف بھوک اور بے روزگاری کی وجہ سے اپنی جان نہ دے سکے۔‘‘