بی ایل اے پر امریکی پابندی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے منگل 2 جولائی 2019ء کو جاری کیے گئے بیان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مسلح علیحدگی پسند جماعت بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر پابندی عائد کرنے کا سرکاری اعلان کیا۔ امریکہ کے ڈپارٹمنٹ آف ٹریژری نے بی ایل اے کو فار ایسٹ کنٹرول لسٹ کی خصوصی لسٹ میں شامل کرلیا۔
بلوچستان کے اندر علیحدگی کی سوچ کی تاریخ پاکستان کی پوری عمر کے برابر ہے۔ انگریز کے خلاف ریاست قلات، دانش وروں، ادیبوں، سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نے شعوری جدوجہد کی۔ ریاست قلات کے اندر خاندانی سیاست کے خلاف بھی سیاسی سوچ موجود تھی۔ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ایک اہم حوالہ ہے، جس سے وابستہ رہنمائوں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ اظہارِ رائے پر قدغن کی صورتِ حال تھی۔ بہرحال اس موضوع کی تفصیل بہت طویل ہے۔ چناں چہ تقسیمِ ہند اور ریاست قلات کے پاکستان میں ادغام کے بعد بھی الگ ریاست اور صوبائی خودمختاری کی سوچ موجود رہی۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کے بھائی آغا عبدالکریم 1948ء میں اپنے حامیوں کے ساتھ افغانستان چلے گئے۔ ان کی تحریک کامیاب نہ ہوئی، وہ واپس آکر گرفتار ہوئے۔ گویا یہ شورش کی پہلی کوشش تھی جو دبادی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ علیحدگی پسند اور انتہا پسند رہنما آئینِ پاکستان کا حلف لیتے ہوئے حکومتوں، عہدوں اور ایوانوں کا حصہ بھی بنتے رہے۔
1970ء کی دہائی میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، چوتھی بغاوت اُٹھی۔ بلوچ اور پشتون علیحدگی کی تحریک کی پوری مالی وسیاسی امداد افغانستان سے ہورہی تھی۔ بھارت سرپرستِ اعلیٰ تھا۔ روس کی افغانستان میں گہری دلچسپی تھی، وہاں سے بھی ہر ممکن تعاون ہوتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پشتون، بلوچ علیحدگی کی تحریک کا ہمہ وقت سامنا تھا۔ انہوں نے دونوں رویوںکا آہنی ہاتھوں سے مقابلہ کیا۔ اگرچہ ان گروہوں کی وجہ سے نقصانات بھی اٹھائے گئے، لیکن جلد یہ تحریک قابو میں کرلی گئی۔ کئی رہنما جیلوں میں ڈالے گئے، جو جنرل ضیاء کے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی رہا کردیئے گئے۔ مختصر احوال یہ ہے کہ جب افغانستان پر روسی قابض ہوگئے تو قوم پرستوں کو پھر سے ہر طرح سے شہ ملی۔ پشتون حلقۂ اثر کو سبوتاژ کی غرض سے استعمال کیا گیا۔ البتہ بلوچ قوم پرستوں نے اس دوران مسلح سیاست نہ کی۔ روسیوں کے نکلنے اور افغانستان میں طوائف الملوکی کے آغاز کے ساتھ ہی سخت گیر سوچ کے حامل بلوچ رہنما واپس پاکستان آنا شروع ہوگئے۔ نواب خیر بخش مری مرحوم، اور ان کے صاحبزادے نواب زادہ بالاچ مری، نواب زادہ حیربیار مری،نواب زادہ گزین مری، زامران مری اور جنگیز مری بھی آئے اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ چناں چہ 1990ء کی دہائی میں اِکا دُکا واقعہ رونما ہوجاتا، خفیہ طور پر فکری نشستوں کا اہتمام ہوتا، دیواروں پر چاکنگ گوریلا جنگ کی دکھائی دیتی۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد پاکستان پوری طرح سے افغانستان کے معاملات سے بے دخل کردیا گیا اور بھارت آکر بیٹھ گیا تو اس کے ساتھ بلوچ علیحدگی کی خفیہ طور پر داغ بیل ڈالی گئی۔ مختلف علاقوں میں تربیتی کیمپ بنائے گئے۔ بالاچ مری کی قیادت میں بی ایل اے پھر سے منصۂ شہود پر آگئی۔ بالاچ 2002ء کی اسمبلی کے رکن تھے۔ اسی دوران پہاڑوں پر چلے گئے۔ یوں ایک پُرآشوب و تباہ کن دور کا آغاز ہوا۔ بلوچ سیاست میں ترش مزاجی در آئی۔ 26 اگست2006ء کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نواب بگٹی کا پوتا براہمداغ بگٹی افغانستان فرار ہوگیا۔ بالاچ مری بھی افغانستان چلے گئے۔ تخریبی سرگرمیوں میں تیزی آگئی اور بلوچستان کے اندر گویا ریاستی مشنری مفلوج ہوکر رہ گئی۔ صوبے کے غالب حصے پر گویا علیحدگی پسندوں کا راج قائم ہوا۔ رفتہ رفتہ ان کے خلاف ایکشن بڑھتا گیا اور انہیں پیچھے دھکیلنے کا عمل شروع ہوا۔ بالاچ مری افغانستان میں انتقال کر گئے۔ بی ایل اے کی کمان حیربیار مری نے سنبھال لی۔ کچھ عرصے بعد ان کے چھوٹے بھائی زامران مری نے اپنی الگ تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے قائم کرلی۔ اسی دوران آواران سے تعلق رکھنے والے متوسط گھرانے کے سیاسی کارکن ڈاکٹر اللہ نذر نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے نام سے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ یہ تنظیم نوابوں اور سرداروں کے بجائے ایک عام بلوچ سیاسی رہنما و کارکن کی قیادت میں تھی، جس نے پذیرائی حاصل کرلی۔ حال ہی میں بی ایل اے سے الگ ہونے والے اسلم اچھو نے الگ دھڑا قائم کرلیا تھا۔ گویا اس کی کمان بھی ایک عام بلوچ کارکن کے ہاتھ میں آگئی۔ اسلم اچھو دسمبر 2018ء میں قندھار میں ایک مبینہ بم دھماکے میں ہلاک ہوگیا۔ دراصل اچھو ہی نے نومبر 2018ء میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کروایا۔ پیش ازیں اگست 2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئروں اور مزدوروں کی بس پر حملے کا خودکش بمبار اسلم اچھو کا بیٹا تھا، اور مئی 2019ء میں گوادرکے پنج ستارہ ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے اندر بھی اسی کی تنظیم کے فدائین گھس گئے تھے۔ سردار اختر مینگل کے بھائی میر جاوید مینگل لشکرِ بلوچستان کے سربراہ ہیں۔
غرض بی ایل اے پر یہ پابندی تمام بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ یہ تنظیمیں دوسرے ممالک میں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کے خلاف مظاہرے منعقد کرتی ہیں۔ برطانیہ کے اندر کرکٹ گرائونڈ کے اوپر پاکستان اور افغانستان کے میچ کے دوران جہاز کے ذریعے بینرز گرائے گئے، جن پر ’’جسٹس فار بلوچستان‘‘ لکھا ہوا تھا۔اُدھراگرائونڈ کے اندر اور باہر افغان شائقین کی غیر اخلاقی، مار پیٹ کی کوششیں اور اودھم سمجھ سے بالاتر نہیں۔ یقینا بھارت ہی دراصل استادِ کبیر ہے، اور اب پشتون تحفظ موومنٹ کے ذریعے الگ طریقے کی آزمائش کی جا رہی ہے۔
بی ایل اے اور بی ایل ایف کی جانب سے امریکی پابندی کے اعلان پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور اپنے بیان و خطوط میں امریکہ کو فیصلہ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یقینی طور پر یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے، لہٰذا اب ضروری ہے کہ بلوچ جلا وطن علیحدگی پسند رہنما بھی بات چیت کے ذریعے وطن آکر سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ پہل ریاست کرے، صلح پاکستان ہی کے مفاد میں ہے۔ لازم ہے کہ ان رہنمائوں کو بہرطور ملک واپسی پر آمادہ کیا جائے۔ بلوچستان پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔ سردار اختر مینگل اس حوالے سے پُر امید ہیں۔کہتے ہیں’’ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اب بھی مذاکرات کی طرف لایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ ریاست اس بارے میں ماحول تیار کرے۔
ان کو لانا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کو احساس دلانا ہو گا کہ سرکار بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘ (5 جولائی 2019ء)۔ سچ یہ بھی ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں بہت ساروں نے فائدے حاصل کیے، جبکہ نوجوان مر رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی کالعدم تنظیم کے لیے ہمدردی کی سوچ کی نفی کرے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ کالعدم تنظیمیں دوسرے ناموں سے سیاسی، فکری اور فلاحی کام کا آغاز کردیتی ہیں جو کہ درست نہیں، بلکہ یہ دہرا معیار ہے۔ بی ایل اے کو حکومتِ پاکستان نے2006ء میں کالعدم قرار دیا تھا، جس کے بعد دیگر تنظیموں کو بھی کالعدم قرار دیا گیا۔ بلوچستان کے اندر چار مسلح تنظیموں جن میں بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور بلوچ ری پبلکن گارڈ (بی آر جی) نے بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے نام سے اتحاد تشکیل دے رکھا ہے۔