ڈاکٹر وقار احمد زبیری کی رحلت

عارف الحق عارف
ہمارے دوست ڈاکٹر فیاض عالم کی پوسٹ سے ابھی ابھی ہمیں یہ المناک خبر ملی ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری کا کراچی میں انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ہمارا اُن کے خاندان کے ساتھ نصف صدی سے بھی زیادہ کا گہرا تعلق ہے۔ ان سے یہ رابطہ 1968ء میں اُس وقت قائم ہوا جب ہم اور ان کے والد انیس زبیری ناظم آباد نمبر ایک ہی میں تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے۔ اس تعلق کی ایک وجہ ان کے والد تھے جو جماعت اسلامی کے بزرگ مگر متحرک رکن تھے، جو ضعیف العمری کے باوجود ناظم آباد نمبر چار میں روزانہ جماعت کے دفتر آکر باقاعدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری انجام دیتے تھے۔ ان کے ذمے جماعت کی سرگرمیوں کی رپورٹ کی تیاری تھی۔ ہم بھی وہاں جاتے تھے اور ان سرگرمیوں کی خبر بناکر اخبارات کو جاری کرتے تھے۔ ہمارے اس خاندان سے رابطے کا دوسرا سبب ان کے بیٹے نثار زبیری تھے، جو اب میڈیا کے ایک مشہورِ زمانہ استاد پروفیسر ڈاکٹر نثار زبیری کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ 1967ء میں روزنامہ جنگ میں پاکستان بھر کے چوٹی کے صحافیوں کی اُس کہکشاں کے ایک اہم ستارے تھے جن کو جنگ کے بانی میر خلیل الرحمن کی نگاہِ انتخاب نے چن چن کر ایک جگہ جمع کیا تھا۔ اس خاندان سے تعلق کی تیسری وجہ محترم خورشید الاسلام زبیری تھے جو ہماری ڈسٹرکٹ ایڈیٹری کے زمانے میں روزنامہ جنگ کی ڈے شفٹ میں ہمارے لائق ترین ساتھی تھے، وہ وقار احمد زبیری اور نثار احمد زبیری کے ماموں اور مشہور شاعر شمس زبیری کے بھائی تھے۔ یہ تعلق اس قدر گہرا اور قریبی تھا کہ 1970ء میں ہماری شادی کے موقع پر محترم انیس زبیری نے ولیمہ کے انتظامات اور باورچی سے کھانا پکوانے کی نگرانی اپنے ذمے لے لی تھی اور صبح ہی سے آکر سب کچھ اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا، اور اپنی نگرانی میں مزیدار بریانی، قورمہ، تندوری نان، شیرمال اور تافتان تیار کرائے تھے، اور ہمیں ولیمہ کے جملہ انتظامات سے فارغ کردیا تھا۔
ڈاکٹر وقار زبیری سے اگرچہ ہمارا رابطہ زیادہ نہیں رہا، لیکن ہم ایک دوسرے کو بخوبی جانتے اور پہچانتے تھے، اور جب بھی ہمارا کیفے الحسن کے پاس ان کے گھر جانا ہوتا تو اکثر ان سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ ان کی پوری زندگی درس و تدریس میں گزری۔ وہ سائنس کے استاد تھے اور zoology ( علم الحیوانات) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی۔ انہوں نے اردو کالج سے استاد کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا اور ریٹائرمنٹ تک اردو یونیورسٹی ہی سے وابستہ رہے۔ وہ اردو سائنس کالج کے پرنسپل کے باوقار عہدے پر بھی عرصے تک متمکن رہے، جو اُن کی اردو زبان، اردو کالج اور اردو یونیورسٹی کے ساتھ محبت کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ ان کے دور میں اردو سائنس کالج میں بڑی ترقی و توسیع ہوئی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ کرلیا تھا، وہ اپنا زیادہ وقت معروف فلاحی ادارے جمعیت الفلاح میں گزارتے تھے، اور اس کے عہدیدار بھی منتخب ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ اسلامی ریسرچ اکیڈمی میں ریسرچ ڈائریکٹر کے طور پر وابستہ ہوگئے تھے، ان کی کوششوں سے اکیڈمی میں ریسرچ جرنلز اور کتابوں میں خوب صورتی پیدا ہوئی۔ انہوں نے بچوں کے لیے قرآن فہمی کی ایک کتاب کا اردو ترجمہ بھی کیا، وہ اس کے علاوہ کئی کتب کے مصنف تھے جن کا زیادہ تر تعلق ان کے موضوع علم الحیوانات (Zoology) سے ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مقالات کئی بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وقار زبیری طلبہ میں بڑے مقبول اور ایک شفیق استاد کے طور پر مشہور تھے۔ انہوں نے اپنے تدریسی دور کے ہزاروں طلبہ اور ساتھیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ان کی تعلیمی، تدریسی اور فلاحی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی وفات سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو مشکل سے پُر ہوگا۔ ڈاکٹر نثار زبیری کے بقول ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، اور زندگی کی 82 بہاریں دیکھنے کے بعد واپس اپنے خالقِ حقیقی کے پاس جا پہنچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے، غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔