مولانا سید سلیمان ندوی کا مکتوب کاسینووشی… (فرانس) سے مورخہ یکم اگست 1920ء (منقول از مسودۂ مکتوبات سلیمانی جلد اول):
’’میں جس مقام سے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں، یہ اس شہر کا، جو عارضی طور سے موسم میں آباد ہوجاتا ہے، کلب ہے۔ یہ ایک وسیع باغ و عمارت ہے، جس میں مختلف مقامات پر کئی ہزار کرسیاں پڑی ہیں، جس کے ممبر ہی ان پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اب آپ سنیے کہ یہ تمام کرسیاں شروع سے آخر تک ہمیشہ معمور رہتی ہیں۔ اس کے ایک گوشے میں تھیٹر ہے، دوسرے گوشے میں ریسٹوراں ہے، ایک کمرے میں اخبارات ہیں، جن کو لوگ پڑھ رہے ہیں۔ اس کے مقابل کے بازو کے کمروں میں میز و کرسی اور بنچ میں خط لکھنے کے لیے لفافے، کاغذ اور دوات قلم ہیں، اور یہ دونوں کمرے لکھنے والوں سے بھرے ہیں۔ سامنے لائبریری ہے اور لائبریری کے سامنے ہی قمار خانہ ہے، جہاں تمام دن فرانس کے شرفا بیٹھے جوا کھیلتے رہتے ہیں، کھیلنے والوں کے چاروں طرف تماشائی ہیں۔ باغ کی ایک روش پر ’’لذتِ شب‘‘ کے سوداگروں کا بازار ہے۔ تماشا خود محو خراب ہے اور تماشائی زربجیب چکر کاٹ رہے ہیں۔ ایک اور طرف رقص و سرود کا سامان ہے۔ یہ مجموعی نیرنگی و بوقلمونی اور ایک ہی دسترخوان پر صف بہ صف مختلف الوان طعام، فرنچ تمدن کی خصوصیت ہے۔ کیا آپ ہندوستان میں بھی یہی نقشہ چاہتے ہیں۔
افسوس کہ میں ’’اہلِ تجربہ‘‘ میں سے نہیں، ورنہ کچھ ’’نیچرل میوزیم‘‘ کی ہسٹری بھی سناتا۔ دور سے دیکھتا ہوں اور سہم جاتا ہوں کہ یورپ کے علم کا سایہ جس سرزمین پر پڑا، وہ اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ فلسطین اور عراق انگریزی برکات کے ظلم ہمایوں میں اور ملک شام ’’رندلم یزل‘‘ فرانس کے زیر سایہ انہیں سعادتوں سے مالا مال ہوگا۔ اب آپ سنیں گے کہ بیت المقدس میں مقام خلیل میں، خانقاہ بغداد میں، مدفن بلال میں، وطن حسن بصری میں، مقتلِ حسین میں کس قدر قمار خانے، کس قدر قہوے خانے، کس قدر دارالفواحش قائم ہوئے ہیں۔ تھیٹروں اور سینمائوں کے لیے ان مقاماتِ مقدس کے کون کون سے موزوں قطعے منتخب ہوتے ہیں۔ ترکوں کے عہدِ حکومت میں یہ چیزیں قانوناً منع تھیں، کیونکہ وہ جفاکار وحشی تھے اور اب آزادی کا دور دورہ ہے۔
یورپ ہم کو اخلاقی آزادی بخشتا ہے، کیوں؟ تاکہ ہم سیاسی آزادی کے قابل نہ رہیں۔ ورنہ کون سی آزادی ہے، جو مغربی اقوام کے تحت مشرقی قوموں کو نصیب ہے؟ یہاں الجیریا کے مسلمانوں سے بکثرت ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ آزادی کی وہ دردناک کہانی سناتے ہیں کہ آپ اپنے امن کا فسانہ ان کے سامنے بھول جائیں۔“
یہ منظر اس صاحبِ علم و نظر، فکر و خبر نے آج سے 42 سال قبل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا، اور آج کے منظر کی بدرجہا زائد شدید بے حیائیوں کی طرف تو ان کی نظر بھی فرط ِغیرت سے نہ اٹھ سکتی! منظر کی انتہائی شناعت سے متعلق دو رائے نہ اس وقت ہوسکتی تھیں اور نہ آج ہوسکتی ہیں! (12اپریل 1963ء)
(بحوالہ: عالم اسلام دجالی تہذیب کی زد میں۔ محمد موسیٰ بھٹو)
عصرِ حاضر
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام!
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام!
مُردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطیِ افکار سے مشرق میں غلام!
لادینی:بے مذہب۔
(1) پختہ خیالات اور پکی باتیں کوئی کہاں جاکر ڈھونڈے؟ زمانے میں ایسی ہوا چل گئی ہے، جس سے کوئی بھی چیز پختہ نہیں ہوتی، خام رہتی ہے۔
(2) آج کل کی درس گاہوں میں عقل کو بے شک آزادی مل جاتی ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ درس گاہیں نوجوانوں کے خیالات میں کوئی ربط و نظام پیدا نہیں کرتیں، اور انہیں بے ربطی و پریشانی کی حالت میں چھوڑ دیتی ہیں۔
مطلب یہ کہ نوجوانوں کی عقل پرانے زمانے کی طرح ہر الٹی سیدھی بات کو قبول نہیں کرتی، جو کچھ بھی اس کے سامنے پیش کیا جائے اس کے لیے دلیل مانگتی ہے، لیکن جو نوجوان درس گاہوں سے تعلیم پاکر نکلتے ہیں اُن کے خیالات عموماً بے ربط ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایک مسئلے پر نہ ٹھنڈے دل سے غور کرسکتے ہیں، نہ خود ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں، نہ دوسرے کو سمجھا سکتے ہیں۔ نہ زندگی میں ان کا کوئی خاص نصب العین ہوتا ہے جس کے لیے دل جمعی سے کوشش کرتے رہیں۔ اس حالت میں عقل کی آزادی سے کیا خوشی حاصل ہوسکتی ہے؟ وہ تو صرف شکوک پیدا کرنے میں لگی رہے گی جس سے عملی قوت برباد ہوتی جائے گی۔
(3)اہلِ یورپ کی مصیبت یہ ہے کہ ان کے افکار و خیالات مذہب کی روح سے خالی ہوگئے۔ اس لیے ان میں عشقِ حق کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہا، بلکہ کہنا چاہیے کہ عشق مرگیا، مشرق کی یہ حالت ہے کہ یہاں عقل موجود ہے، تاہم اہلِ مشرق کے خیالات میں کوئی ربط و مقام نظر نہیں آتا۔ اس وجہ سے عقل غلام بن کر رہ گئی ہے۔
خودی یا حقیقی زندگی کے لیے عقل اور عشق دونوں ضروری ہیں۔ یورپ میں عشق مرگیا، ایشیا میں عقل پر غلامی کی موت طاری ہوگئی۔ گویا دونوں جگہ صحیح زندگی بسر کرنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔