پاک بھارت تعلقات اور پاکستانی حکمرانوں کی شرمناک “بھارت پرستی”۔

انسان اپنی امیدوں اور اپنے خوف سے پہچانا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ایک مسلمان سے زیادہ ’’امیر‘‘ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ مسلمان کی اُمید بھی خدا ہوتا ہے اور اس کا خوف بھی خدا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک کافر سے زیادہ ’’غریب‘‘ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کافر کی امید بھی دنیا ہوتی ہے اور خوف بھی دنیا ہوتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نوازشریف نے بھارت کو اپنی امید اور اپنا خوف بنایا ہوا تھا، اور وہ بھارت کے آگے جھکے جارہے تھے۔ اس صورتِ حال میں عمران خان کہا کرتے تھے:۔

۔’’جو مودی کا یار ہے غدار ہے‘‘۔

بات بالکل ٹھیک تھی۔ مگر اب عمران خان نے جس طرح بھارت کو اپنی امید اور اپنا خوف بنایا ہے، اور وہ جس طرح بھارت کے آگے سجدہ ریز ہورہے ہیں اُسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ عمران خان تو نوازشریف سے بڑھ کر مودی کے یار ہیں۔ چنانچہ وہ نوازشریف سے کہیں زیادہ غدار ہیں۔
اس وقت بھارت دنیا کی تین متکبر ریاستوں میں سے ایک ہے۔ بھارت کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ عمران خان نے پاک بھارت بحران کے دوران مودی کو تواتر سے تین فون کیے مگر مودی نے ایک فون کا بھی جواب دینا پسند نہ کیا۔ عمران خان نے مودی کے وزیراعظم منتخب ہونے پر روایتی خط تحریر کیا، اور شاہ محمود قریشی نے اپنے بھارتی ہم منصب جے شنکر کو روایتی تہنیتی پیغام بھیجا۔ اس کے جواب میں مودی اور جے شنکر کی طرف سے جو جوابی خطوط آئے انہیں غلطی سے سہی، اس طرح لیا گیا جیسے بھارت مذاکرات پر مائل ہو۔ مگر بھارت نے فوراً اس کی تردید ضروری سمجھی کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کرکٹ میچ میں شکست دی تو بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اسے بھی پاکستان کے خلاف ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے ڈالا۔ مگر پے در پے جوتے کھانے کے باوجود بھی عمران خان کا پیٹ نہ بھرا، اور وہ عمران خان سے ’’عمران سنگھ‘‘ بننے کے لیے کوشاں رہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار بھارت کو سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنانے کی حمایت کی ہے۔ اس کے بعد صرف عمران خان ہی ’’عمران سنگھ‘‘ نظر نہیں آرہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی ’’اسٹیبلشمنٹ سنگھ‘‘ نظر آرہی ہے۔ اس صورتِ حال نے ’’عمران سنگھ‘‘ اور ’’اسٹیبلشمنٹ سنگھ‘‘ کے لیے تین شعر کہنے پر مجبور کردیا ہے۔ شعر یہ ہیں:

اپنوں پہ میں اکڑ کر یلغار ڈال دوں گا
پر انڈیا کے آگے ہتھیار ڈال دوں گا
ہتھیار ڈالنے میں ہوں طاق اس قدر میں
اک بار کوئی کہہ دے، سو بار ڈال دوں گا
مودی جو مسکرادیں، مودی جو کھلکھلادیں
میں آکے ان کے گھر میں اخبار ڈال دوں گا

عمران خان نے ایک بار مودی کو چھوٹا آدمی کہا تھا۔ مگر یہ بات کہتے ہوئے عمران کے ذہن میں یہ بات تھی کہ مودی کبھی ’’چائے والے‘‘ رہ چکے ہیں۔ مگر چائے والا چھوٹا آدمی نہیں ہوتا۔ چھوٹا آدمی وہ ہوتا ہے جس کی امید اور خوف چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹا آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے ملک اور اپنی قوم کو ذلیل کرکے چھوٹا بناتا ہے۔ بھارت سے میچ ہارنا معمولی بات ہے، مگر جب پاکستان کے جرنیل اور سول حکمران بھارت کے سامنے دل ہارتے ہیں تو ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے۔
پاکستان نے بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا ہے اُس کو امیر جماعت اسلامی نے بجا طور پر کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ بھارت گزشتہ 71 سال میں چار لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے۔ حالیہ برسوں میں اس نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مسلمانوں کو تہِ تیغ کیا ہے۔ کشمیر میں بھارت کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ وہ Rape کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس نے سیکڑوں کشمیری بچوں کو پیلٹ گنوں سے نابینا بنادیا ہے۔ ایک جانب یہ صورتِ حال ہے اور دوسری جانب پاکستان بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بننے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ کشمیریوں پر ظلم ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیریوں نے کبھی اپنی تاریخ میں مسلح جدوجہد نہیں کی تھی، مگر ’’پاکستان سے رشتہ کیا… لاالٰہ الااللہ‘‘ کے نعرے میں اتنی جان تھی کہ اس نے کشمیریوں کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ بھارت کہتا تھا کشمیر کی آزادی کی تحریک کی پشت پر پاکستان ہے، ورنہ یہ تحریک چند ہفتوں میں ختم ہوجائے۔ لیکن کشمیر کے نوجوانوں نے پاکستان کی مدد کے بغیر زیادہ بڑی اور زیادہ شدید تحریک چلا کر دکھادی۔ نظریے کی طاقت ایسی ہی ہوتی ہے، مگر کیا ’’عمران سنگھ‘‘ اور ان کے سرپرست بھارت کے آگے سجدہ ریز ہوکر کشمیریوں کی قربانیوں کا مذاق اُڑانے کی سازش کررہے ہیں؟ بدقسمتی سے بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بنانے کے عمل میں سعودی عرب بھی شریک ہے۔ سعودی ایران کو ’’شیعہ ایران‘‘ کہتے ہیں، مگر سعودی عرب کا دل جس طرح اسرائیل اور بھارت پر آیا ہوا ہے اس کے تناظر میں ’’آلِ سعود‘‘ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا اسرائیل اور بھارت نے مسلکِ ’’اہلِ حدیث‘‘ اختیار کرلیا ہے؟ مگر اس سلسلے میں سعودی عرب سے ایک حد تک ہی شکوہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ بھارت نے کبھی سعودی عرب کو دو ٹکڑے نہیں کیا، اور بھارت کبھی بچے کھچے سعودی عرب کے درپے نہیں ہوا۔ مگر پاکستان کا قصہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا ہے، اور بچے کھچے پاکستان کو فنا کرنے پر تُلا ہوا ہے، مگر پاکستان کے حکمران بھارت کے حوالے سے کسی تلخ حقیقت کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان ایک جانب پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب وہ ’’عمران سنگھ‘‘ بنے جارہے ہیں، اور بھارت کے سامنے کھڑے ہوکر تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ ریاست مدینہ اللہ کو واحد اُمید اور اللہ کو واحد خوف بنانے کی علامت ہے، اور ریاست مدینہ کا نام لینے والا بھارت کیا ساری دنیا کی اجتماعی قوت کے سامنے بھی تھرتھر نہیں کانپ سکتا۔ چنانچہ یا تو عمران ریاست مدینہ کا نام لینا ترک کریں، یا ریاست مدینہ کے حکمرانوں کی طرح باطل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا سیکھیں۔ بصورتِ دیگر قوم سمجھ لے کہ عمران خان ریاست مدینہ کا ذکر ریاست مدینہ سے لوگوں کو بیزار کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ’’Fighter‘‘ کہلانے والے عمران خان کے دور میں پاکستان کے اندر بھارت کا خوف بلکہ ’’سکھّا شاہی‘‘ تک پھیل رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لاہور کے شاہی قلعے میں ’’سکھّا شاہی‘‘ کی سب سے بڑی علامت مہاراجا رنجیت سنگھ کا 8 فٹ بلند کانسی کا مجسمہ ایستادہ کردیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ مجسمہ برطانیہ کے ایک سکھ ’’بوبی سنگھ‘‘ نے تیار کرایا ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ مجسمے کو پاکستان کے کندہ کاروں نے تیار کیا ہے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بوبی سنگھ نے بتایا کہ مجسمے کی تخلیق کا مقصد رنجیت سنگھ کے ’’جبروت‘‘ کو آشکار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عمران خان کے نفسِ امارہ، آرمی چیف کے عاشق اور اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی شہرت رکھنے والے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے حد کردی ہے۔ انہوں نے رنجیت سنگھ کے مجسمے کے افتتاح کے بعد ایک ٹوئٹ میں فرمایا:
“Today is the 180th death anniversary of Maharaja Ranjeet Singh greatest king of the Punjab, one eyed Maharaja ruled from kabul to Delhi with belligerence, symbol of Punjabi Supremacy”
ترجمہ: ’’آج پنجاب کے عظیم ترین بادشاہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی ہے۔ کانے مہاراجا نے کابل سے دہلی تک جنگ پسندی یا جارحانہ رویّے کے ساتھ حکومت کی جو پنجابی فوقیت و بالادستی کی علامت ہے‘‘۔
عام لوگ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بارے میں نہیں جانتے۔ یہ صاحب سکھ تھے اور مسلمانوں اور اُن کے دین کے دشمن۔ انہوں نے پنجاب پر چالیس سال حکومت کی اور پنجاب کے مسلمانوں پر بڑے ظلم کیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے لاہور کی بادشاہی مسجد کو اپنے گھوڑوں کے اصطبل میں ڈھال دیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق رنجیت سنگھ کے طویل دور میں نہ شاہی مسجد میں اذان کی صدا بلند ہوئی، نہ وہاں نماز پڑھی جاسکی۔ اب اچانک لاہور کے شاہی قلعے میں اسی دشمنِ اسلام اور دشمنِ مسلمان کا مجسمہ نصب کردیا گیا ہے، اور عمران خان کا ایک وفاقی وزیر اس اطلاع پر خوشی سے نہال ہوگیا ہے، اور اس نے رنجیت سنگھ کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کو نظرانداز کرکے اسے ’’پنجاب کا ہیرو‘‘ بنادیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رنجیت سنگھ کی جارحانہ فطرت اور روش کو ’’پنجابی فوقیت و بالادستی‘‘ کی علامت بناکر پیش کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان واقعتاً ’’عمران سنگھ‘‘ بن چکے ہیں؟ اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی ’’اسٹیبلشمنٹ سنگھ‘‘ کا کردار اختیار کرلیا ہے؟ آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟ پاکستان اسٹیبلشمنٹ، نوازشریف یا عمران خان کو جہیز میں نہیں ملا۔ چنانچہ یہاں نہ ’’سکھا شاہی‘‘ چلے گی، نہ بھارت کی غلامی۔
ہم نے یہاں رنجیت سنگھ کے مجسمے اور وفاقی وزیر فواد چودھری کے ’’ٹوئٹ‘‘ کا ذکر خوامخواہ نہیں کیا۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں نوازشریف کے برادرِ خورد میاں شہبازشریف ایک زمانے میں بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ’’ایک‘‘ کرنے کے معاملے پر بات چیت کررہے تھے۔ اس کتاب کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا مگر اب تک شریفوں نے نہ خود پر لگائے گئے الزام کی تردید کی، نہ جنرل اسد درانی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں جنرل اسد درانی کا کردار بھی مشتبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جنرل درانی کے علم میں تھا کہ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو انہوں نے آئی ایس آئی یا ایم آئی کے سربراہ کی حیثیت سے شریفوں کے خلاف کیا کیا؟ نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ کیا ریاستی ادارے بھی اس گھنائونے کام میں شریک تھے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ جی ایچ کیو نے جنرل درانی کی اس بات پر تو سرزنش کی کہ انہوں نے ’’را‘‘ کے سربراہ کے ساتھ مل کر کتاب کیوں لکھی، مگر دونوں پنجابوں کو ایک کرنے کی کہانی پر وہ بھی خاموش ہے۔ بہرحال دیکھتے ہیں لاہور کے قلعے میں رنجیت سنگھ کے مجسمے اور اس پر شرمناک ٹوئٹ کرنے والے فواد چودھری کے خلاف کچھ ہوتا ہے یا نہیں۔ اس سے کئی چیزیں خود ہی عیاں ہوجائیں گی۔ یہاں یہ پوچھ لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ کرتارپور راہداری کے پیچھے کیا ہے؟ ’’پاکستانیت‘‘ یا کچھ اور؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان اقبال اور قائداعظم کے Ideas اور ان کی مزاحمتی قوت کا پاکستان ہے۔ یہ ٹٹ پونجیے جرنیلوں یا ٹٹ پونجیے سیاست دانوں، اور ٹٹ پونجیے دانش وروں اور ٹٹ پونجیے صحافیوں کا پاکستان نہیں ہے۔ اقبال کا ایک Ideal خودی ہے۔ اقبال کہتے ہیں:

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
٭٭
خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا
٭٭
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی
٭٭
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
٭٭
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

یہ چار سطریں بھی اقبال کے پاکستان کا ورثہ ہیں:

ترا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے

اقبال کی مزاحمتی روح کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اردو کے پورے شعری مزاج اور روایت کو پھلانگ کر دکھایا۔ انہوں نے اپنے عہد کی مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے باطن کی بے عملی کی مزاحمت کی۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری، اقبال کی شاعری نہیں ہوسکتی تھی۔
قائداعظم کا Ideal یہ تھا کہ قرآن پاکستان کا آئین ہوگا اور پاکستان کو عہدِ جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنادیا جائے گا۔ قائداعظم کی مزاحمتی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی قوت سے بھیڑ کو قوم بنایا۔ پاکستان کو تاریخ کے عدم سے تاریخ کے وجود میں ڈھال دیا۔ انہوں نے ایک طرف وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ سے پنجہ آزمائی کی، دوسری جانب انہوں نے ہندو اکثریت کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قائداعظم کی اُمید بھی خدا تھا اور اُن کا خوف بھی خدا تھا۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان بنانے کے بعد کہا کہ اب میں خدا سے کہہ سکوں گا کہ میں نے اپنا فرض ادا کردیا۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کے پاس نہ اقبال کی خودی ہے، نہ اقبال و قائداعظم کی مزاحمتی روح۔ چنانچہ وہ خود بھی رسوا ہورہے ہیں اور اپنے طرزِ فکر و عمل سے پاکستانی قوم کو بھی رسوا کرچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں یہ بات ایک لاکھ مرتبہ دہرانی پڑے تو اسے دہرانا چاہیے کہ پاک بھارت تعلقات جنرل پرویز واجپائی۔ مودی نواز۔ یا مودی عمران تعلقات نہیں۔ یہ دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے اور اپنی قوم کے وقار کا قائل نہیں تو نہ سہی، مگر وہ اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے وقار کا تو خیال کرے۔
یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ ورلڈ کپ میں بھارت اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے میچ کا نتیجہ سامنے آگیا۔ اس میچ سے ایک رات پہلے ہمارے بڑے بیٹے نے پوچھا کہ میچ میں کس کی فتح ہوگی، بھارت کی یا انگلینڈ کی؟ ہم نے اس سے کہا: ٹیم تو بھارت کی بہتر ہے مگر فتح انگلینڈ کی ہوگی۔ اس نے کہا: کیوں؟ ہم نے کہا کہ بھارت جان بوجھ کر انگلینڈ سے ہار جائے گا تاکہ پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کے امکانات معدوم ہوجائیں۔ اس نے کہا کہ کیا یہ کرکے بھارت اپنی Reputation کو دائو پر لگائے گا؟ ہم نے کہا کہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا بھارت پر تھوک رہی ہے۔ لیکن عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کو ایسی باتوں سے کیا! وہ تو بھارت سے بات چیت کے غم میں گھلے جارہے ہیں۔ چنانچہ اطلاع آئی ہے کہ کرتارپور راہداری کے افتتاح کے موقع پر عمران مودی ملاقات کا امکان ہے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کو پاک بھارت تعلقات کی فلم میں ’’بھکاری‘‘ کا کردار مل گیا ہے۔