ترپھلہ۔۔۔ ایک سستی سہل الحصول دوا، سو دواؤں پر بھاری

ترپھلہ… قدیم دور کے اطباء کے علاوہ قدیم دور کے علما، فضلا اور صحت مند زندگی گزارنے والوں کے لیے ایک پسندیدہ دوا کے علاوہ خوراک کی طرح زندگی کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ تین پھلوں کا یہ مجموعہ اپنی افادیت اور اثر آفرینی کے اعتبار سے واقعی قدرت کا عطیہ ہے۔ ترپھلہ میں تین پھل ہلیلہ، بلیلہ (بہیڑا) اور آملہ شامل ہیں۔ تینوں پھل برابر وزن میں گٹھلی وغیرہ صاف کرکے اچھی طرح پیس لیں، ترپھلہ تیار ہے۔
اس کا مداومت سے استعمال صحت کو برقرار رکھنے، جسمانی امراض کے خاتمے اور کثیرالوقوع امراض کے علاج میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قدیم طریقہ علاج ویدک اور طب یونانی دونوں اس پر متفق ہیں کہ ترپھلہ عملاً سو دوائوں پر بھاری ہے۔ اس کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ وید اور طبیب کہتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ علاج کی غرض سے ان تین پھلوں کے سوا اور کوئی دوا پیدا نہ فرماتے تو یہ ترپھلہ انسانوں کی شفا اور علاج کے لیے کافی تھا۔
ان تینوں پھلوں کی طبی افادیت کا ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
-1 ہلیلہ: طبی زبان میں ہلیلہ کے علاوہ اس کو عرفِ عام میں ہڑ بھی کہتے ہیں۔ تین قسم کے ہلیلہ جات بطور دوا استعمال ہوتے ہیں: ہلیلہ کابلی، ہلیلہ زرد، ہلیلہ سیاہ۔ طبی تحقیق کے مطابق افادیت کے اعتبار سے ہلیلہ کابلی درجہ اولیٰ رکھتی ہے، ممکن ہے کسی دور میں یہ ہلیلہ صرف کابل میں پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہو، یا کابل سے برآمد ہوتی ہو، لیکن اب اس کے درخت پاکستان کی آب و ہوا میں بعض میدانی علاقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ سال میں ایک دفعہ بھرپور پھل لگتا ہے۔ ہلیلہ زرد دوسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے اور یہ برصغیر کے اکثر علاقوں میں پروان چڑھتی ہے۔ ہلیلہ تازہ خوش رنگ، سڈول اور عمدہ نتائج کی حامل ہوتی ہے، تاہم اس کے پھل کو خشک کرکے محفوظ کیا جاتا اور استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے اثرات کئی سال تک موجود رہتے ہیں۔
مولانا رومیؒ کی حیات کے بارے میں مؤرخ یہ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ ایک ہلیلہ چبا چبا کر کھاتے تھے، اگرچہ تازہ ہلیلہ کڑوی اور حلق کو خشک کرتی ہے۔ ہلیلہ کا استعمال صدیوں سے مربہ کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ اگر ہلیلہ کابلی یا زرد کا تازہ مربہ بنایا جائے تو اس کی افادیت کا جواب نہیں، لیکن ہمارے ہاں اکثر خشک ہلیلہ کو لے کر چونے میں بھگو کر مصنوعی طریقے سے سڈول کیا جاتا ہے اور اس کا مربہ تیار کیا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات خوش رنگ اور سیاہی مائل بنانے کے لیے ہلکا رنگ بھی دیا جاتا ہے۔ مربے کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے مصنوعی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جس سے ہلیلہ کی طبی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر مربہ تازہ ہلیلہ سے تیار ہو تو دائمی قبض کے لیے رات کو سوتے وقت ایک ہلیلہ دودھ سے کھانے کے بعد اپنے خوش گوار نتائج سے متاثر کرتی ہے۔ روزانہ رات کو ہلیلہ کھانے والے کبھی قبض کا شکار نہیں ہوتے، روزانہ اجابت بہ فراغت ہونے سے انسان ہشاش بشاش رہتا ہے، معدہ کی گرانی، گیس، تبخیر اور تیزابیت جنم نہیں لیتی۔ تازہ ہلیلہ کا مربہ ایک عدد، مغز بادام 10 عدد، سونف چٹکی بھر رات کو چبا کر کھانے کو معمول بنایا جائے تو بینائی برقرار رہتی ہے اور بعض اوقات معمولی کمزور نظر والے اصحاب کی عینک تک اتر جاتی ہے۔ شوگر کے مریض ہلیلہ کے استعمال سے صحت یاب ہورہے ہیں۔
ترپھلہ میں استعمال کرنے کے لیے خشک ہلیلہ کابلی یا ہلیلہ زرد کا چھلکا اتار کر گٹھلی پھینک دی جاتی ہے اور پوست استعمال کیا جاتا ہے۔
پوست ہلیلہ، گلِ سرخ، سنامکی برابر وزن لے کر سفوف تیار کرکے حسبِ ذوق نمک یا چینی ملاکر سفوف تیار کرلیں۔ رات کو سوتے وقت ایک چمچی بھر دودھ کے ساتھ نوش کریں، دائمی قبض کا خاتمہ اللہ کے فضل سے ہمیشہ کے لیے ہوجاتا ہے۔
ہلیلہ سیاہ کو گھی میں بریاں کرکے سونف ملاکر سفوف تیار کیا جاتا ہے جو کم مقدار میں کھائیں تو سنگرہنی اور بار بار اجابت کا خاتمہ کرتا ہے، اگر زیادہ مقدار میں کھائیں تو پرانی سے پرانی قبض کا خاتمہ کرتا ہے۔
-2 بلیلہ: عرفِ عام میں اسے بہیٹرا بھی کہتے ہیں۔ پہلے یہ پھل ہندوستان سے درآمد کیا جاتا تھا، اب اس کے پودے پنجاب کے میدانی علاقے میں تجارتی نقطہ نظر سے لگائے جاتے ہیں۔ اس کے درخت بھی اخروٹ کے درخت کی طرح کثیر مقدار میں پھل سے لد جاتے ہیں۔ عام طور پر پھل کو اتار کر خشک کرلیا جاتا ہے۔ اس پھل کا بھی چھلکا بطور دوا استعمال ہوتا ہے۔ طبی دوا کے طور پر اس کا استعمال بھوک کی کمی کو دور کرنے، غذا کو ہضم کرنے، پیٹ کی گیس کے خاتمے، ڈکار، معدہ کی گرانی، پیاس کی زیادتی اور آنکھوں کے فعل کو تیز کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جدید طب کے مطابق اس میں کیلشیم اور آئرن کی کمی کو دور کرنے کی بھی صلاحیت ہے، اس کی گٹھلی کو توڑا جائے تو سبز رنگ کا مغز نکلتا ہے جو حافظہ اور سر درد کے لیے بے حد مفید ہے۔
بلیلہ کا چھلکا خشک کرکے ترپھلہ میں ایک اہم جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، دوا میں اس کا تنہا استعمال بھی قبض کے خاتمے کے لیے مفید ہے۔
-3 آملہ…آنولہ: آملہ کے بارے عام اصطلاح بنارسی آملہ استعمال ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ بنارس کا آملہ اپنے بڑے سائز اور افادیت کے اعتبار سے درجہ اولیٰ رکھتا ہو، تاہم آملہ اب کثیر مقدار میں بطور تجارت بویا جاتا ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں کی آب و ہوا اس پودے کے لیے انتہائی سازگار ہے اور جہاں جہاں اس کے درخت ہیں، منوں جھاڑ دیتے ہیں۔ عام طور پر وہ آملہ جو چھوٹے سائز میں ہوتا ہے اُسے دیسی آملہ کہا جاتا ہے، اور جو موٹے سائز کا ہوتا ہے اسے بنارسی یا ولایتی آملہ کہا جاتا ہے۔ یہ خوش رنگ پھل بھی ہلیلہ کی طرح کثیر الفوائد ہے۔
مربہ ہلیلہ کی طرح مربہ آملہ بھی صدیوں سے انسان استعمال کرکے قدرت کے اس عطیے سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مربہ آملہ کا خالی پیٹ استعمال بھوک لگاتا ہے، پیاس کو کم کرتا ہے، معدہ کی تیزابیت کا خاتمہ کرتا ہے، اختلاجِ قلب، دل کی گھبراہٹ میں مربہ آملہ ایک عمدہ تحفہ ہے۔
ہاتھ پائوں کی جلن، پیشاب کی جلن، بے جا پسینہ آنے میں بے حد مفید ہے۔ آملہ بینائی کو تیز کرتا ہے۔ قدیم اطباء نے اس کو مختلف سُرموں میں استعمال کیا ہے۔ بالوں کو سیاہ کرتا ہے، سیاہی کو برقرار رکھتا ہے، سر درد میں مفید ہے، بالوں کو گرنے سے روکتا ہے۔ جن لوگوں کو دماغی خشکی سے نیند نہیں آتی وہ اس کے تیل کی مالش کریں۔ بھوک کی کمی دور کرنے کے لیے بطور سالن پکاکر کھایا جاتا ہے۔ اس کا اچار معدہ کے امراض میں مفید ہے۔ شربتِ آملہ یرقان کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ اکثر لوگ موسم گرما میں شکایت کرتے ہیں کہ صبح اٹھتے وقت منہ خشک اور کڑوا ہوتا ہے، حلق میں کانٹے چبھتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے لیے خالی معدہ مربہ آملہ کا استعمال شافی علاج ہے۔
غرضیکہ یہ مفید پھل دل کے امراض، معدے کے امراض، آنکھوں اور بالوں کے امراض، آنتوں اور مثانہ کے امراض، کمر درد، ٹانگوں کے درد، وٹامن سی اور ڈی کی کمی سے پیدا ہونے والے تمام عوارض میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
ان تینوں پھلوں کے تیار کردہ سفوف کو ترپھلہ کہا جاتا ہے۔ ترپھلہ میں چونکہ ہلیلہ اور بلیلہ خشک ہونے کی بنا پر خشکی پیدا کرتے ہیں، لہٰذا اطباء ترپھلہ تیار کرنے کے بعد اس کو گائے کے گھی، روغنِ بادام یا روغنِ زیتون سے چرب کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایک پائو ترپھلہ میں ایک یا دو چمچی گھی، روغنِ بادام یا روغنِ زیتون ڈال کر ہاتھوں سے مَل لیں، یہ مچرب ترپھلہ بے حد مفید ہے۔
ترپھلہ کا روزانہ استعمال بہت سی دوائوں سے نجات دیتا ہے۔ قبض نہ ہو تو درجنوں امراض جنم ہی نہیں لیتے۔ تبخیر معدہ، گیس، تیزابیت، معدہ کی جلن، ڈکار، معدہ کی گرانی کا مکمل خاتمہ ہوجاتا ہے۔
پیٹ میں ہونے والے کیڑے، ان کے انڈے ترپھلہ سے نکلنے والے Juice سے مر جاتے ہیں۔ غذا کو ہضم کرنے اور بھوک لگانے کے لیے اس سے پیدا ہونے والے Enzyme اور Pepsine انتہائی مفید دوا ہیں۔ ترپھلہ کو مسلسل استعمال کرنے والے لوگوں کے بال برسوں تک سیاہ رہتے ہیں، بینائی برقرار رہتی ہے اور کمزور نہیں ہوتی۔ دعوے کے طور پر نہیں بلکہ تجربے کے طور پر یہ راز قارئین کی نذرہے کہ میں نے میٹرک سے لے کر فارغ التحصیل ہونے تک تقریباً آٹھ نو سال مسلسل رات کو ترپھلہ استعمال کیا۔ الحمدللہ ساٹھ سال کی عمر تک کوئی بال سفید نہیں تھا، اور آج زندگی کی 72 ویں بہار دیکھ رہا ہوں، اللہ کا احسان ہے کہ اب بھی اخبار اور قرآن پاک پڑھتے ہوئے عینک کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
ترپھلہ بطور شیمپو:آج مارکیٹ میں درجنوں مہنگے شیمپو فروخت ہورہے ہیں جن کے منفی اثرات بالوں کی سفیدی اور بالوں کے جڑ سے اکھڑنے کی صورت میں نظر آتے ہیں، کیونکہ وقتی طور پر بالوں کی چمک اور صفائی کے لیے کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں۔ ترپھلہ شیمپو کی طرح استعمال کریں اور دعا دیں۔ رات کو چمچی بھر ترپھلہ کسی شیشے یا چینی کے برتن میں کپ بھر پانی میں بھگودیں (ایلمونیم کا برتن ہرگز استعمال نہ کریں)، نہانے سے پہلے اچھی طرح اس پانی سے بالوں کی جڑوں تک بال دھوئیں۔ خشکی اور بالوں کا گرنا بند ہوجائے گا (ان شاء اللہ)، بال سیاہ بھی رہیں گے۔ اگر شیمپو کو مزید مفید بنانا ہو تو اس میں شکاکائی بھی باریک کرکے ملالیں۔
ترپھلہ ایک آسانی سے تیار ہونے والا سفوف ہے، بازار سے بھی آسانی سے دستیاب ہے، اور اپنی افادیت کی وجہ سے سو دوائوں پر بھاری اور شفا کا خزینہ ہے۔ سر درد، نزلہ، زکام کے لیے جتنے اطریفل جات صدیوں سے استعمال کیے جارہے ہیں، سب میں بنیادی دوا ترپھلہ ہے۔