عطااللہ مینگل کا وہ فقرہ اُن دانشوروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو پاکستان کے حصے بخرے چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا ’’آزادی حاصل کرنا آسان ہے لیکن اسے سنبھالنا مشکل ہے‘‘۔ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد کیسے کیسے عالمی گدھ بلوچوں کی سرزمین پر قبضے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اس سب کے باوجود میرا یہ دانشور طبقہ اس ملک کو شروع دن سے ایک ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ ستّر سال سے یہ بک بک جاری ہے۔ لیکن ان ستّر برسوں میں دیکھیے کہ کیا کچھ بدل گیا۔ تخلیقِ پاکستان یعنی 1947ء میں 7 لاکھ 28 ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر میسر تھا، تیرہ سال بعد یعنی 1960ء میں یہ تعداد 10 ہزار 6 سو رہ گئی، اور آج 1500 لوگوں کی صحت کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے، جبکہ لاتعداد ڈاکٹر ملک سے باہر چلے گئے ہیں، جن میں سے 45 ہزار تو صرف امریکہ میں ہیں۔ ہماری زرعی اجناس کی پیداوار میں چھ گنا اضافہ ہوا، چاول اور گندم کی فصل دوگنا اور کپاس تین گنا ہوگئی۔ اس ملک کی تخلیق کے وقت صرف چھ بڑے صنعتی یونٹ تھے، جبکہ آج اس وقت پاکستان میں 6417 انڈسٹریل یونٹ ہیں جن میں ہر طرح کی صنعت شامل ہے۔ میرے ملک کا یہ دانشور طبقہ اور عالمی معاشی ادارے پاکستان کی معیشت کے جائزے ان اعدادوشمار کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں جو بینکوں کے کھاتوں اور ٹیکس کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی 285 ارب ڈالر ہے، جبکہ تمام باضابطہ اور غیر رسمی معاشی سرگرمیوں کو ملایا جائے تو یہ 485 ارب بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید سرکاری طور پر بتائی گئی فی کس آمدنی یعنی 1560 ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں لوگوں نے پہلے سے ہر سال 20 فیصد پیٹرول زیادہ خرچ کیا، 18 فیصد ایئرکنڈیشنر، 17 فیصد کاریں اور 16 فیصد ریفریجریٹر زیادہ خریدے۔ لیکن مایوسی پھیلانے کے علَم بردار دانشور آپ کو کبھی بھی ہنستا بستا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی لیے ہر روز اس ملک کے دیوالیہ ہوجانے، ٹوٹ جانے، بکھر جانے، تباہ و برباد ہوجانے کے تجزیے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ستّر سال سے ہم ان کے منہ سے ایک اور گفتگو سنتے آئے ہیں: یہ دیکھو ہمارے پڑوس میں بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا، وہاں جمہوریت کیسی پھل پھول رہی ہے، ہمیں تو بار بار فوج کی مداخلت نے تباہ کردیا۔ انہیں دیکھو، انہوں نے پہلے دن سے مذہب کو ریاست سے دور رکھا، سیکولرازم اور لبرل ازم پر سیاست کی بنیاد رکھی، آج دنیا بھر میں وہ سب سے بڑی جمہوریت کی وجہ سے نیک نام ہیں۔ ہمارے ہاں تو مولوی ہی ہماری جان نہیں چھوڑتا۔ ہماری تباہی مولوی کی وجہ سے ہوئی۔ بھارت میں آئین سیکولر ہے، فوج بیرکوں میں ہے، ستّر سال سے اسلام اور ملّا وہاں پابند ہیں۔ ان دانشوروں کے نزدیک یہ آئیڈیل جمہوری سیکولر ریاست ہے۔ بھارت میں بھی تقریباً اتنے ہی مسلمان آباد ہیں جتنے پاکستان میں۔ جی چاہتا ہے کہ آج دونوں ملکوں میں ایک معاہدہ طے پا جائے، کہ جس کو سیکولرازم، لبرل ازم اور جمہوریت کا مزا چکھنا ہے وہ بھارت چلا جائے، اور جسے ملّائیت، اسلام اور شریعت کے نعروں کی چھائوں میں آنا ہے وہ پاکستان آجائے۔ ستّر سال بعد ایک بار پھر تبادلۂ آبادی، ایک اور ریڈ کلف ایوارڈ۔ لیکن میں شرط لگا کر کہتا ہوں ان دانشوروں میں سے کوئی ایک بھی بھارت جانا پسند نہیں کرے گا۔ البتہ اس ملک کا کھا کر، یہاں رہ کر اسے گالی ضرور دیتا رہے گا۔
(اوریا مقبول جان۔ روزنامہ 92نیوز۔ 2جولائی 2019ء)
ہمارا رہن سہن اور عادت و اطوار ہی بدل چکے ہیں
میں نے اپنے گھر پر کراچی کے معروف اسکالر خالد جامعی صاحب کو مدعو کررکھا تھا۔ خالد جامعی مکالمے کے شہسوار ہیں۔ آپ ان کو سجاد میر، اوریا مقبول جان اور دوسرے اس نوع کے فصیح و بلیغ لوگوں کے ساتھ رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کو یعنی جامعی صاحب کو سننے والے بھی عالم فاضل ہی تھے۔ ان کی باتیں بڑی پُرمغز تھیں، اور اتنی زیادہ تھیں کہ ان کو سمیٹنا میرے بس کی بات ہی نہیں۔ ایک بات جو بنیادی تھی کہ ہمارا پیراڈائم بدل چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا سارا پرانا سیٹ اَپ تہس نہس ہوگیا ہے۔ تمام روایات اور اقدار ایک طرف… ہمارا رہن سہن اور عادت و اطوار تک بدل چکے ہیں۔ مثلاً آپ دیکھیے کہ قدرت نے رات کو سونے کے لیے تخلیق کیا اور دن کو محنت، مشقت یا کاروبار کے لیے، مگر یہاں تو یہ سب کچھ الٹ ہوگیا۔ لوگ راتوں کو جاگتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں۔ راتوں کو شاپنگ مال چلتے ہیں اور دن کو سب کچھ ٹھپ نظر آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ہم نے فطرت سے بغاوت کررکھی ہے۔ یہ سب اس لیے ہوا ہے کہ انسان نے گائیڈ لائن لینے کے بجائے خود اپنے ذہن سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے، اور جب سے ٹیکنالوجی اور ماڈرن سوچ آئی ہے تب سے انسان بے بس ہوگیا، اور مشین کو پہلے وہ چلاتا تھا، پھر مشین نے اسے چلانا شروع کردیا۔ مجھے اقبال یاد آئے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
جامعی صاحب نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ ماڈرن اپروچ نے چیزوں کو آگے بڑھایا تو اسے عام شخص سے کاٹ کر رکھ دیا، جو بھی ترقی ہوتی رہی وہ مراعات یافتہ کے لیے ہوتی رہی۔ مثال میں انہوں نے کہا کہ وہ خواہش کے باوجود موٹروے پر سائیکل نہیں چلا سکتے، نہ رکشے والا رکشہ چلا سکتا ہے۔ اُن کی اس مثال سے ہم بھی چونکے کہ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ موٹروے پر نہ سہی میٹرو پر ہم موٹر سائیکل ہی چلا سکیں۔ آخر ان جگہوں کو اتنا محدود کیوں کررکھا ہے! ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر میں موٹر سائیکل پر اپنے مہمانوں کو لینے لائونج تک کیوں نہیں جا سکتا؟ آخر گاڑی ہی کیوں ضروری ہے؟ بات تو سوچنے کی ہے کہ ان بڑے بڑے پراجیکٹس نے جسے جنگلہ بس بھی کہا گیا، علاقوں کو دولخت کرکے رکھ دیا۔ اِدھر کے لوگ اُدھر، اور اُدھر کے اِدھر نہیں آسکتے۔ اور فراز کہتے ہیں کہ ’’مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں‘‘۔ چلیے پہلا مصرع ملا کر شعر لکھتے ہیں:
سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
یقینا خالد جامعی صاحب یہ جانتے ہی ہوں گے کہ اب تو سب کچھ کارپوریٹ سیکٹر ہی کنٹرول کررہا ہے، مگر مودی جیسا قاتل بھارت کا وزیراعظم کیسے بنتا۔ ایک بات انہوں نے بہت اچھی کہی کہ ہمیں اپنے بچوں کو اپنے عظیم ماضی سے روشناس کرانا چاہیے۔ ان کی عادات کو خطرات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا مذہب فطری مذہب ہے، اسے بچوں کے شعور اور لاشعور کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ جو دنیا میں تیزی آرہی ہے اس نے سب کچھ تلپٹ کردیا ہے۔ افراتفری پیدا ہوگئی ہے۔ سب ایک دوسرے کو پامال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کسی کے پاس ٹھیر کر سوچنے کا موقع ہی نہیں۔ ایک مسابقت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اور سب کچھ مادہ پرستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف ہرگز نہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والے نقصان کو تو کم کیا جا سکتا ہے۔
(سعد اللہ شاہ۔ 92نیوز۔ 2جولائی2019ء)