دی نیوز میں حفیظ الرحمن صاحب نے مضمون لکھا ہے ’’عوت عالم دین کیوں نہیں ہوسکتی‘‘۔ بعض اخبارات میں یہ بحث بھی چھیڑی گئی ہے کہ عورت نکاح خواں کیوں نہیں ہوسکتی، منصبِ قضا پر کیوں نہیں فائز ہوسکتی؟ اس سوال پر بھی مغز ماری ہے کہ عورت کی گواہی مرد کے برابر کیوں نہیں ہے؟ اس طرح کی بحثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے کوئی مقصد نہیں ہے، وہ ذہنی عیاشی یا تفریح طبع کے لیے شگوفے چھوڑتے ہیں، یا اپنی ذہنی آوارگی کا شوق پورا کرتے ہیں، جبکہ معاشرے میں حقیقی مسائل توجہ طلب ہیں، اور خود عورتوں کے تعلق سے کئی سنگین مسائل ہیں۔
جہاں تک عورتوں کے عالمِ دین ہونے کا تعلق ہے، اسلامیات کی فاضل اعلیٰ ڈگریوں کی حامل خواتین موجود ہیں۔ اسلام آباد کی بین الاقوامی یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں اسلامک اسٹڈیز کی طالبات میں کمی نہیں، اضافہ ہورہا ہے۔ ایسی بہت سی عورتیں ہیں کہ حدیث، فقہ، تفسیر کسی شعبے میں اُن کا علم مرد علما سے کم نہیں۔ قرآن کا درس دینے والی خواتین عام ہیں۔ اب اگر ان خواتین میں کچھ عمامہ باندھنا اور چغہ پہننا چاہتی ہیں تو اسلام میں اس کی بھی کہیں ممانعت نہیں ہے، لیکن کیا وہ اپنی اس ہیئت کذائی کو پسند کریں گی اور پھر داڑھی کی جگہ کیا چیز ہوگی؟
دراصل اسلام میں برہمنوں کی طرح ایک مذہبی طبقہ الگ سے نہیں ہے۔ ہر کوئی علمِ دین حاصل کرسکتا ہے اور دوسروں کو دین کا درس دے سکتا ہے۔ سب سے پہلی عالمِ دین خاتون حضرت عائشہؓ تھیں جو مسجد نبویؐ میں پردے کی آڑ میں درس دیا کرتی تھیں۔ ان سے سینکڑوں لوگوں نے مسئلے مسائل معلوم کیے، اور انہوں نے احادیث بھی روایت کی ہیں۔ خواتین علما کی طرح صوفی خواتین بھی رہی ہیں، اور اہل تحقیق کا کہنا ہے کہ رابعہ بصری نام کی ایک سے زیادہ صوفی خواتین گزری ہیں، یا صوفی ہونے کی وجہ سے انہیں رابعہ بصری کہا جانے لگا۔
ہر زمانے میں اور خاص طور پر اِس زمانے میں اسپیشلائزیشن کی اہمیت رہی ہے، اور جس طرح ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور دوسرے پیشوں کی ضرورت محسوس ہوئی اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قوانین کو سمجھانے، سمجھنے کے سلسلے میں بھی اسپیشلائز افراد کی ضرورت تھی، جو اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کردیں۔ عورتیں بھی دین کی باتیں سیکھنے سکھانے کے سلسلے میں اپنے آپ کو مختص یا مخصوص کرسکتی ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کی گھریلو ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی عورتوں کے لیے پہلی ترجیح ہوگی اور مردوں کے لیے پہلی ترجیح معیشت کے انتظام کی ہے۔ ان ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد مرد، عورتیں آزاد ہیں کہ وہ تبلیغ، تعلیم اور اصلاح کے لیے کام کریں، بلکہ ایسے کام کے لیے ہر مرد اور عورت کو فرصت ضرور نکالنی چاہیے، ورنہ گھر بنانے اور بسانے کا انتظام پرندے بھی کرلیتے ہیں، اور پیٹ بھرنے کا مسئلہ چوپائے بھی حل کرلیتے ہیں۔ انسان اور جانوروں میں فرق یہی ہے کہ انسان اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کے بھی کام آتے ہیں اور اجتماعیت قائم کرکے معاشرتی ارتقا کے مراحل طے کرتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نے عورتوں کے متعلق غلط طرزِعمل اختیار کیا اور انہیں پسماندہ رکھا، اور یہ سمجھ لیا کہ ان کا وجود صرف روٹی پکانے اور بچے پالنے کے لیے ہے۔ حالانکہ جس قوم کی عورتیں بے کار اور نکمی بناکر صرف گھر چلانے کے لیے خاص کردی جائیں وہ صحیح طریقے سے گھر بھی نہیں چلاسکتی ہیں۔ تعمیر و ترقی اور خدمت کے مختلف محاذوں پر اگر عورتیں نہ ہوں تو اس قوم کے مرد بھی پسماندہ ہوجائیں گے۔ مرد کی تربیت بھی مائوں کی گود میں ہوتی ہے اور گھرانوں میں تہذیب عورت سکھاتی ہے، اگر عورت کو جاہل اور اس کے فکر و عمل کو محدود رکھا گیا اور اس کا معاشرے میں کردار نہیں رہا تو معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اگر عورتیں بنائو کے کام کے لیے کوشاں نہیں رہیں گی تو بگاڑ کی باتوں کو اختیار کریں گی، ان میں فضول رسومات و توہمات کا زور ہوگا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سرسید کی طرح کے روشن خیال بھی عورتوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ لڑکیاں تعلیمی اداروں میں جائیں گی تو ہر طرح کی اچھی بری مسلم، غیر مسلم لڑکیوں سے ان کے روابط ہوں گے اور یہ بات ان کے اخلاق کو بگاڑ دے گی۔ حالانکہ گلی، محلوں میں بھی اور اڑوس پڑوس میں بھی اچھی بری عورتیں اور لڑکیاں ہوتی ہیں، ان سے ملنا جلنا ہوتا ہے، اور مرد تو جلد بگڑ جاتے ہیں مگر عورتوں کا بگاڑ کی راہ پر جانا مشکل ہوتا ہے۔ قدرت نے انہیں اپنی روش میں محتاط بنایا ہے اور ان کا وجدان مردوں سے زیادہ طاقتور رکھا ہے کہ وہ اچھے برے کو جلدی پہچان لیتی ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ اور جب وہ تعلیم حاصل کریں گی تو اس تعلیم سے معاشرے کو کچھ فائدہ بھی ملنا چاہیے۔ اس لیے ان کا تعمیر معاشرہ کے لیے کردار ضروری ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں عورتیں شامل ہیں اور انہوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ سماجی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہیں۔
سرسید تو عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے، ہمارے قدامت پسند بزرگ علامہ راشد الخیری نے تعلیم نسواں کے لیے بڑا کام کیا۔ ایک ایسے زمانے میں جب مسلمان نواب اور جاگیردار اپنے لڑکوں کو یہ کہہ کر تعلیم نہیں دلاتے تھے کہ خدانخواستہ ہمیں ان سے نوکری تو نہیں کرانی ہے، اُس دور میں تعلیم نسواں کے لیے کوشش آسان بات نہیں تھی، اور آج یونیورسٹیوں میں طلبہ سے زیادہ طالبات نظر آتی ہیں اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے والوں میں بھی طالبات کا تناسب طلبہ سے زیادہ ہے۔ تاہم جس طرح کی تعلیم مردوں اور عورتوں کو ملی ہے اس سے کچھ شعور ضرور پیدا ہوا، لیکن اس تعلیم نے ذہنوں کو خراب بھی کیا ہے۔ مردوں کا نصب العین تعلیم سے یہ قرار پایا کہ کلرکی اور افسری کو اپنا نصب العین بنائیں، اور عورتوں کی تعلیم نے ان میں نمود و نمائش، بنائو سنگھار اور اسراف کی عادتوں کو زیادہ کیا۔ تعلیم نے یہ احساس نہیں پیدا کیا کہ ہم صرف اپنی ذات کو سنوارنے کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے بھی کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری مرد ہی کی نہیں عورت کی بھی ہے کہ وہ ملک و ملت کے مفاد کے لیے سرگرم ہو۔ اس سلسلے میں مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ اصلاحی اور تحریکی کاموں کے لیے عورتوں کی حوصلہ افزائی کریں اور اس غرض کے لیے ضرورت ہو تو گھریلو کاموں میں بھی عورت کا ہاتھ بٹائیں۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ گھریلو کام صرف عورت کی ذمہ داری ہے اور مردوں کا اس سے لاتعلق رہنا ضروری ہے۔
عورتوں کو اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے مسلم معاشرے میں جنم لیا اور ان کا مذہب ’’اسلام‘‘ ہے جو عورتوں کے حقوق اور عورتوں سے سلوک کے معاملے میں بھی دیگر تمام مذاہب سے اعلیٰ و ارفع ہے، ورنہ عیسائی اور ہندو مذاہب میں عورت کے حقوق کچھ بھی نہیں ہیں۔ مغرب کی عورت کو ان حقوق کے لیے اپنے مذہب سے بغاوت کرنی پڑی۔ ہندو عورت بھی اس مذہب پر کاربند نہیں ہوسکتی جس میں شوہر کے انتقال پر اس کی چتا کے ساتھ اس کی بیوی کا جل جانا بھی ضروری قرار دیا گیا تھا۔ ’’ستی‘‘ کی اس رسم کو مسلمانوں نے بند کرایا۔ آج بھی بھارت میں جہیز کم لانے کے طعنوں پر عورتیں خودکشی کرتی ہیں، عورت طلاق لینا چاہے تو ہندو دھرم یا عیسائی مذہب میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم معاشرے میں خلع کے حق کے استعمال کو مشکل بنادیا گیا ہے، لیکن یہ حق موجود ہے۔ اسلامی قانون عورت کو وراثت، ملکیت، کاروبار، سیر و تفریح ہر طرح کے حقوق دیتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب میں عورت کے لیے کوئی حق نہیں۔ اس لیے خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو سب سے پہلے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے میں ہیں جہاں ہندو معاشرے کے مقابلے میں عورت زیادہ بہتر حالت میں ہے اور یورپ و امریکہ کی طرح عورت کو منڈی اور بازار کی جنس نہیں بنادیا گیا ہے، اور اس کی گھریلو خاندانی زندگی ہر وقت خطرات میں گھری نہیں رہتی۔
حال ہی میں ہندوستانی عورتوں کا ایک وفد ’’امن مشن‘‘ پر پاکستان آیا تھا، اور اس وفد کی اراکین یہ دیکھ کر حیران ہوگئیں کہ پاکستانی عورت بازاروں میں چلتی پھرتی ہے، دفتروں میں کام کرتی ہے اور اس کے لیے چہرہ چھپانا بھی لازمی نہیں۔ بھارت میں پاکستان کی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا جو پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے اس کی وجہ سے ضیا الحق کے زمانے سے ہی ہندو خواتین کا خیال تھا کہ پاکستان میں عورتوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں اور وہ قیدی بناکر رکھ دی گئی ہیں۔ اس لیے اچھی خاصی تعلیم یافتہ عورتیں بھی پاکستان آکر مبتلائے حیرت ہوجاتی ہیں کہ عورت تو یہاں آزاد ہے، اور آزادی کے باوجود بے حیائی اور فحاشی نہیں ہے جو اب بھارتی کلچر کا حصہ بن گئی ہے۔ لیکن ہم نے روک تھام نہیں کی تو یہ کلچر پاکستان میں بھی فلموں اور ٹی وی کی وجہ سے عام ہوسکتا ہے۔ بھارت میں بھی بے حیائی کا سرچشمہ یہی چیزیں رہی ہیں، ورنہ تو ہندو عورت میں شرم و حیا بہت زیادہ تھی جو اب غارت ہوچکی ہے، اور ہمارا حال بھی اس اعتبار سے اچھا نہیں۔
(۔7تا13اپریل2000ء(