پاکستان کی سیاست 1954ء سے اسٹیبلشمنٹ مرکز ہے۔ جنرل ایوب نے بلاشبہ مارشل لا 1958ء میں لگایا، مگر وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکہ کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو بار بار خفیہ مراسلوں کے ذریعے بتایا کہ پاکستان کی فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ یہ پاکستان کی سیاست کے مستقبل کا تعین تھا۔ جنرل ایوب کے مارشل لا کے بارے میں عام خیال تھا کہ وہ ملک کی تاریخ کا پہلا اور آخری مارشل لا ہے۔ مگر یہ تجزیہ غلط تھا۔ جنرل ایوب کا مارشل لا پہلا مارشل لا تو تھا، آخری مارشل لا نہ تھا۔ جنرل ایوب کمزور ہوئے تو وہ اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کرگئے۔ جنرل یحییٰ کے بعد جنرل ضیا الحق اقتدار میں آگئے، اور جنرل ضیا الحق کی جگہ جنرل پرویزمشرف نے لے لی۔ جنرل پرویزمشرف کے بعد سے اب تک مارشل لا تو نہیں آیا مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مرکزیت اپنی جگہ موجود ہے، اور آج بھی ہماری سیاست اسٹیبلشمنٹ کی خواہش، تجزیے، تناظر، ترجیحات اور مفادات کی تابع ہے۔ بدقسمتی سے اس مرکزیت کا اصول صرف طاقت ہے۔
اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاسی حرکیات پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے، اس کا اندازہ حالیہ سیاسی رویوں اور رجحانات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ عمران خان شہبازشریف کو قائد حزبِ اختلاف کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ شہبازشریف کو لندن نہ جانے دیا جائے۔ وہ آصف علی زرداری کو بھی جیل میں دیکھنے کے تمنائی تھے۔ مگر یہ ملک اُن کی خواہشات سے نہیں چل رہا تھا۔ عمران خان کی سیاسی خواہشات پر اوس پڑ رہی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز بنے نظر آرہے تھے۔ اس کی اطلاع کم از کم میاں نوازشریف اور اُن کے کیمپ کے اہم افراد، خاص طور پر بعض کالم نویسوں کو بھی تھی۔ چنانچہ جاوید چودھری نے 11جون 2019ء کے روزنامہ ایکسپریس میں ’’اگر یوٹرن نہ لیا‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’سپریم جوڈیشل کونسل میں 14 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی پہلی سماعت ہوگی، یہ کیس کس کروٹ بیٹھتا ہے ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن یہ طے ہے کہ حکومت یہ ریفرنس لانچ کرکے تاریخی غلطی کربیٹھی ہے، وکلاء سے لڑائی ڈیم کے اسپل وے پر نہانے کی کوشش ہے، لہٰذا اسپل وے کھلنے کی دیر ہے اور یہ پوری حکومت تتربتر ہوجائے گی، کالے کوٹ وہ طاقت ہیں جن کا مقابلہ جنرل پرویزمشرف یونیفارم میں بھی نہیں کرسکا تھا، جبکہ یہ حکومت صابن کے بلبلے پر کھڑی ہے، یہ کتنی دیر وکلاء کا مقابلہ کرلے گی! ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ملک میں آج تک جس نے بھی مدرسوں اور وکیلوں سے چھیڑ چھاڑ کی وہ پھر اس کے بعد ایوانِ اقتدار میں نظر نہیں آیا، چنانچہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اپنی اوقات سے بڑی غلطی کربیٹھی ہے، اور اگر حکومت نے اس غلطی پر یوٹرن نہ لیا تو یہ قدم اس کی آخری غلطی ثابت ہوگا، یہ لوگ اس کے بعد مزید کوئی غلطی نہیں کرسکیں گے، یہ ختم شد ثابت ہوجائیں گے‘‘۔
ذرا جاوید چودھری کے لب و لہجے کا تیقن ملاحظہ کیجیے۔ موصوف بقول شاعر خدا کے لہجے میں کلام کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ وہی جاوید چودھری ہیں جو بحریہ ٹائون کے مالک، ملک ریاض کے پرستار ہیں، حالانکہ ملک ریاض سپریم کورٹ میں تسلیم کرچکے ہیں کہ انہوں نے بحریہ ٹائون کی زمین غیر قانونی طور پر ہتھیائی۔ وہ اس سلسلے میں 400 ارب روپے سے زیادہ کی خطیر رقم دینے کا بھی اعلان کرچکے، مگر جاوید چودھری کا خیال ہے کہ ملک ریاض پاکستان کے کرم فرما ہیں اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ خیر یہ ایک الگ ہی کہانی ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ جاوید چودھری 11 جون 2019ء کے کالم میں یوٹرن نہ لینے کی صورت میں عمران کی حکومت کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وکلاء کی تحریک عمران خان کی حکومت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دے گی، اسی طرح جس طرح وکلاء کی تحریک نے جنرل کیانی کی خفیہ حمایت کے ذریعے جنرل پرویز کی حکومت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے تھے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ جاوید چودھری کو ایک بار پھر کہیں کوئی جنرل کیانی بیٹھے نظر آرہے تھے۔ جاوید چودھری اس خیال میں ’’تنہا‘‘ نہیں تھے۔ میاں نوازشریف نے اس سلسلے میں حد ہی کردی۔ اُن کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس کراچی میں صفحہ اول پر تین کالمی خبر شائع ہوئی۔ خبر کی سرخی تھی:
’’عمران خان کا وقت پورا ہوچکا، جلد انجام کو پہنچیں گے‘‘۔
لیکن یہ سرخی اصل کہانی بیان نہیں کررہی۔ اصل کہانی خبر کے اندر ہے۔ خبر کے مطابق
’’سابق وزیراعظم نوازشریف سے گزشتہ روز کوٹ لکھپت جیل میں اہلِ خانہ، والدہ، بیٹی مریم اور بھائی شہبازشریف سمیت خاندان کے دیگر افراد اور پارٹی رہنمائوں نے ملاقاتیں کیں، جس میں سیاسی صورتِ حال سمیت حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ میاں نوازشریف نے رہنمائوں سے گفتگو میں کہاکہ میں کوئی ولی، پیر یا قسمت کا حال بتانے والا نہیں، لیکن عمران خان کا وقت پورا ہوچکا، جلد اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں، ان کا جلد کڑا احتساب ہوگا۔ عمران خان ایسا کھلاڑی ہے جسے تماشائی جلد اسٹیڈیم سے باہر پھینک دیں گے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 11جون 2019ء۔ صفحہ اول اور صفحہ 5)
اللہ کی پناہ، ایک کرپٹ ترین اور غدارِ وطن شخص کس طرح کہہ رہا ہے کہ میں اگرچہ ولی، پیر یا قسمت کا حال بتانے والا نہیں ہوں، مگر پھر بھی پیشگوئی کرسکتا ہوں کہ عمران خان کا وقت پورا ہوگیا۔ آپ نے دیکھا جاوید چودھری کے کالم اور میاں نوازشریف کے بیان میں ایک ربطِ باہمی ہے۔ جاوید چودھری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کے حوالے سے عمران خان کا دھڑن تختہ ہوتے دیکھ رہے ہیں، میاں نوازشریف کسی اور حوالے سے فرما رہے ہیں کہ عمران کا وقت پورا ہوچکا ہے۔ ایسی باتیں ’’تجزیے‘‘ کی بنیاد پر نہیں کی جاتیں۔ جاوید چودھری اور میاں نوازشریف اور تجزیہ…؟ توبہ توبہ، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ اصل میں دونوں کے پاس کہیں سے ’’اطلاع‘‘ آئی تھی اور اطلاع کا مرکز اسٹیبلشمنٹ میں ہی کہیں موجود تھا۔ کوئی ’’نیا جنرل کیانی‘‘۔
اتفاق سے 10 جون کو آصف علی زرداری گرفتار ہوگئے۔ 11 جون 2019ء کے روزنامہ ’دنیا‘ کی شہ سرخی زرداری کی گرفتاری سے متعلق تھی۔ شہ سرخی کی ذیلی سرخی میں بلاول بھٹو کا بیان موجود تھا۔ وہ کہہ رہے تھے: اب عوامی رابطہ مہم چلائیں گے، اب دمادم مست قلندر ہوگا۔ روزنامہ دنیا کراچی کے صفحہ اوّل پر آصف زرداری کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ تصویر میں آصف علی زرداری مسکرا رہے تھے اور ’’V‘‘ کے ذریعے ’’Victory‘‘ کا نشان بنا رہے تھے۔ ہوشیار، کہانی میں ایک بڑا تغیر آیا ہی چاہتا ہے۔
11 جون 2019ء کی رات اور 12 جون 2019ء کی صبح یعنی بارہ بجے کے بعد عمران خان نے قوم سے اچانک خطاب کر ڈالا۔ اس خطاب کی اطلاع اچانک آئی اور خطاب میں کئی بار تاخیر ہوئی۔ خطاب کے اہم ترین پہلو یہ تھے:
’’پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نے 2008ء سے 2018ء تک 24000 ارب روپے کے قرضے لیے۔ قرضوں میں اضافے کی وجوہ جاننے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے گا۔ عمران خان نے کہاکہ اب تک ان پر ملک کو بحران سے نکالنے کا ’’دبائو‘‘ تھا لیکن ’’اب‘‘ وہ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والوں کو ’’نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ میری جان بھی چلی جائے تو ان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے کہاکہ حزبِ اختلاف این آر او چاہتی ہے، مگر دو این آر اوز کی قیمت ملک نے ادا کی ہے۔ تحقیقاتی کمیشن آئی ایس آئی، آئی بی، ایف بی آر اور کئی دوسرے اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ہوگا‘‘۔
عمران خان کا خطاب ہوچکا تو ہمارے ایک عزیز دوست کا فون آیا۔ پوچھنے لگے کہ عمران خان کے خطاب کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ جب کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا انجکشن لگ جاتا ہے تو وہ اسی طرح اعتماد سے کلام کرتا ہے اور اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ خطاب رات بارہ بجے کے بعد ہے یا صبح چھ بجے کے آس پاس۔ ہمارا یہ تجزیہ کسی ’’اطلاع‘‘ کی بنیاد پر نہیں، پاکستانی سیاست کے ’’فہم‘‘ کی بنیاد پر تھا۔ اتفاق سے ہمارا یہ خیال غلط نہ تھا۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم آپ کو اپنے خیال کی درستی کے تجزیے کی طرف لے جائیں، آیئے دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عمران خان کے خطاب کو کس طرح لیا۔
روزنامہ ڈان کراچی کے مطابق ’’بلاول زرداری نے کہاکہ عمران خان کو خوف ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے بجٹ منظور نہیں کرا سکیں گے، چنانچہ ان کی حکومت گر جائے گی‘‘۔ (ڈان کراچی، 13جون 2019ء)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سیاسی حرکیات کا کتنا کم فہم رکھتے ہیں، حالانکہ وہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور آصف علی زرداری کے فرزند ہیں۔
خورشید ندیم، میاں نوازشریف کے صحافتی عاشقوں میں سے ایک ہیں اور خیر سے ’’دانش ور‘‘ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے کالم ’’خطابِ نیم شب‘‘ میں لکھا:
’’عمران خان کی تقریر میں مدت سے کوئی نئی بات نہیں ہوتی، اس لیے اب سننے کا اشتیاق بھی نہیں ہوتا۔ تقریر سنے بغیر آپ بتا سکتے ہیں کیا کہا ہوگا۔ ’’چھوڑوں گا نہیں‘‘، ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ جیسے جملوں کی تکرار اور ریاست مدینہ کا بات بے بات ذکر۔ منگل کی شب کا خطبہ بھی ان کی دیگر تقاریر سے جوہری طور پر مختلف نہیں تھا۔ اِس بار بھی خیال ہوا کہ کاش وہ لکھی ہوئی عبارت روانی سے پڑھ سکتے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 13 جون 2019ء)
خورشید ندیم کے خیال میں عمران خان کی تقریر میں روایتی مار دھاڑ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لیکن عمران خان کی تقریر میں کیا تھا، اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ 17جون کو پاکستان کے تمام اہم اخبارات کی شہ سرخیوں سے بخوبی ہوگیا۔ 17 جون 2019ء کو روزنامہ جنگ کراچی کی شہ سرخی اور ذیلی سرخیاں کچھ اس طرح تھیں:
٭فوج میں اہم تبادلے
٭لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ بنادیا گیا۔
٭ لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز جنرل ہیڈکوارٹر میں انجینئر انچیف ہوگئے۔
٭عامر عباسی کو کواٹر ماسٹر جنرل تعینات کردیا گیا۔
٭ساحر شمشاد مرزا جی ایچ کیو میں ایڈ جو ٹینٹ جنرل بنادیئے گئے۔
٭لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے کائونٹر انٹیلی جنس ونگ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکے۔ انہیں اپریل میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔‘‘
اس خبر کے تمام ’’ممکنات‘‘ پر گفتگو دشوار ہے، مگر دو تین باتیں عیاں ہیں۔ ایک بات تو یہ عیاں ہے کہ شاید جنرل باجوہ نے عہدے میں توسیع کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری بات یہ عیاں ہے کہ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ فیض حمید کا نام کسی زمانے میں نواز لیگ کے بعض کالم نگاروں نے اپنے کالموں میں خوب اچھالا تھا۔ تیسری بات یہ عیاں ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ عاصم منیر کو اکتوبر 2018ء میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا، اس اعتبار سے وہ صرف 9ماہ آئی ایس آئی کے سربراہ رہے اور کسی وجہ سے وہ اپنے عہدے پر برقرار نہ رکھے گئے۔
16جون 2019ء کو فوج میں اہم تبادلے ہوئے اور اسی دن بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان ہونے والی ملاقات میں طے پایا کہ وہ بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ دونوں کے درمیان ’’مشترکہ احتجاجی تحریک‘‘ پر بھی غور ہوا۔ ایک طرف یہ صورت حال تھی، اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ قوم سے پہلے خطاب کے ساتھ ہی عمران خان کا لب و لہجہ، زبان و بیان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ 17جون 2019ء کو انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے صاف کہاکہ شہبازشریف یا کسی اور چور ڈاکو کو قومی اسمبلی میں تقریر نہ کرنے دی جائے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سے کہاکہ وہ کسی چور، ڈاکو کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں (روزنامہ جنگ کراچی)۔ 18جون 2019ء کو عمران خان نے صاف الفاظ میں کہاکہ بجٹ ہر صورت منظور کرا لیں گے (روزنامہ دنیا، کراچی)۔ یعنی ایک جانب حزب اختلاف بجٹ کی منظوری کی راہ روکنے کا اعلان کررہی ہے، مگر قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت کی حامل پی ٹی آئی کی حکومت کا سربراہ کہہ رہا ہے کہ بجٹ ہر صورت میں منظور کرا لیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں امید ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے کئی اراکینِ اسمبلی بھی بجٹ کی منظوری کے سلسلے میں وقت آنے پر پی ٹی آئی کے ساتھ ہوں گے۔ کہاں یہ عالم تھا کہ 11 جون کے کالم میں جاوید چودھری عمران خان کی حکومت کو وکیلوں کے کالے کوٹوں کے سیلاب میں غرق ہوتے دیکھ رہے تھے، اور میاں نوازشریف ’’مدبرانہ‘‘ انداز میں فرما رہے تھے کہ میں ولی یا پیر تو نہیں ہوں مگر میرا خیال ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہوگیا… اور کہاں یہ منظر ہمارے سامنے ہے کہ عمران خان بیک وقت پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پر سواری کرنے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ ذرا نواز لیگ کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار روزنامہ جنگ میں عمران خان کے بیان کی رپورٹنگ تو ملاحظہ کیجیے:
٭اینٹ کا جواب پتھر سے دیں (شہ سرخی)
٭ٹینشن نہ لیں، بجٹ منظور کرالیں گے(ذیلی سرخی)
٭اپوزیشن سو بار احتجاج کرے (ذیلی سرخی)
٭عوام کی زندگی میں خلل ڈالا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ (ذیلی سرخی)
(روزنامہ جنگ کراچی۔ 19جون 2019ء)
روزنامہ ’دنیا‘ میاں نوازشریف کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، مگر فوج میں اہم تبادلوں کے بعد روزنامہ دنیا نے صفحہ اوّل پر طارق عزیز کی خصوصی رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کی سرخی ہے: ’’ن لیگ میں کیا سوچ پائی جاتی ہے؟‘‘ طارق عزیز لکھتے ہیں:
’’مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے اس بات پر غور شروع کردیا ہے کہ حکومت مخالف ملک گیر تحریک کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ پیپلزپارٹی تحریک چلانے میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 19جون 2019ء)
مگر ابھی چند روز پیشتر تو میاں نوازشریف ولی اور پیر نہ ہونے کے باوجود کسی ولی اور پیر کی طرح یہ فرما رہے تھے کہ عمران خان کا وقت پورا ہوچکا ہے اور وہ جلد انجام کو پہنچیں گے۔
اس سلسلے میں 21 جون 2019ء کے اخبارات کی دو اہم خبروں پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔ پہلی خبر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر رہائی کی درخواست مسترد کردی ہے۔ دوسری اہم خبر یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ پکڑ دھکڑ اور حساب کتاب بند کرو۔ آئو مل کر آگے چلتے ہیں (روزنامہ دنیا کراچی)۔ جیسا کہ ظاہر ہے تحریک چلانے والے ایسے الفاظ اور ایسے لب و لہجے میں باتیں نہیں کرتے۔ بلاشبہ آصف زرداری نے 21 جون 2019ء کے دن کے اختتام پر یہ فرمادیا ہے کہ جنرل پرویزمشرف اور عمران خان میں فرق یہ ہے کہ جنرل پرویز نے وردی پہنی ہوئی تھی اور عمران خان وردی کے بغیر ہے۔ اور نواب شاہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول دہاڑے ہیںکہ عمران خان اتنا ہی ظلم کرو جتنا تم خود برداشت کرسکو۔ مگر یہ باتیں انگریزی میں “Posturing” کہلاتی ہیں۔ Posturing کی بہترین مثال یہ ہے کہ دو بلیاں ایک گھنٹے تک آمنے سامنے کھڑے ہوکر ایک دوسرے پر غراتی رہتی ہیں مگر ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتیں۔ اصول ہے: حملہ کرنے والیاں غراتی نہیں، اور غرانے والی بلیاں حملے نہیں کرتیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین بات یہ ہے کہ عمران خان نے دوبارہ قوم سے خطاب کر ڈالا ہے اور کہا ہے کہ وہ کرپٹ عناصر اور ٹیکس چوروں کو نہیں چھوڑیں گے۔ بدقسمتی سے عمران خان کی سیاسی، معاشی، مالیاتی اور سفارتی کارکردگی اب تک صفر ہے، چنانچہ وہ کرپٹ عناصر اور ٹیکس چوروں کے خلاف یلغار کے تاثر سے اپنے ووٹرز کی تسکین کا سامان کررہے ہیں۔ اتفاق سے احتساب عمران خان اور پی ٹی آئی کا ’’تشخص‘‘ بھی ہے۔ وہ احتساب کی بات چھوڑ دیں گے تو ان کی ’’سیاسی شخصیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’احتسابی شخصیت‘‘ بھی ’’منہدم‘‘ ہوجائے گی۔ یہ ایسا نقصان ہوگا کہ عمران خان جس کی تاب لاسکیں گے نہ اس کا ازالہ کرسکیں گے۔
میاں نوازشریف چونکہ خود سیاسی اور جمہوری رہنما نہیں ہیں اس لیے نواز لیگ بھی کبھی سیاسی اور جمہوری جماعت نہ بن سکی۔ چنانچہ نوازلیگ سے کسی سیاسی مزاحمت کی توقع عبث ہے۔ میاں نوازشریف کی پوری سیاسی زندگی جرنیلوں کے سائے میں بسر ہوئی۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے انہیں پال پوس کر بڑا کیا، انہیں ’’سیاسی رزق‘‘ کمانے اور کھانے کے قابل بنایا۔ میاں صاحب جنرل پرویزمشرف کو برا بھلا کہتے ہیں، مگر وہ جنرل پرویز کے ساتھ ہی خفیہ سمجھوتہ کرکے ملک سے فرار ہوئے تھے۔ جنرل پرویز جنرل ضیا الحق کی طرح اَڑ جاتے تو میاں صاحب کا بھی وہی حشر ہوتا جو ذوالفقار علی بھٹو کا ہوا۔ چنانچہ جنرل پرویز بھی میاں صاحب کے سرپرست ثابت ہوئے۔ میاں نوازشریف کو افتخار چودھری کی بحالی کے لیے برپا وکلاء کی تحریک کے دوران جمہوریت بہت ’’یاد‘‘ آئی، مگر سب کو معلوم ہے کہ جنرل کیانی جنرل پرویز کے خلاف وہی کھیل کھیل رہے تھے جو کبھی جنرل یحییٰ نے جنرل ایوب کے خلاف کھیلا تھا۔ جنرل کیانی کی سرپرستی نہ ہوتی تو میاں صاحب کو کبھی جمہوریت اور اس کی بحالی یاد نہ آتی۔ اتفاق سے میاں صاحب کو شاید ایک بار پھر کوئی خفیہ جنرل کیانی میسر آگیا تھا، اسی لیے میاں صاحب فرما رہے تھے کہ میں ولی اور پیر نہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہوچکا، وہ جلد انجام کو پہنچیں گے۔ تاہم بظاہر حالات کے جبر نے اچانک میاں صاحب اور ان کی جماعت کو خفیہ جنرل کیانی سے محروم کردیا ہے، چنانچہ اب ذرا میاں صاحب ایک بار پھر کہہ کر دکھائیں کہ عمران خان کا وقت پورا ہوچکا، وہ جلد انجام کو پہنچیں گے۔ کہنے کو میاں صاحب یہ بات پھر کہہ سکتے ہیں، مگر اس بار ان کی بات کی پشت پر ’’ایقان‘‘ یا Conviction نہیں ہوگا۔
پاکستانی سیاست کی غلام گردشوں میں سازشیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ علاقے میں اہم تزویراتی تغیرات واقع ہورہے ہیں۔ امریکہ، بھارت اور افغانستان کا تکون پاکستان کے خلاف متحرک ہے۔ اس تکون کے کچھ عزائم عیاں ہیں اور کچھ عزائم عیاں بھی نہیں ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں شطرنج کی بساط بچھی رہے گی۔ میاں صاحب پنجاب کے مقبول رہنما ہیں، وہ ہماری سیاسی تاریخ کے واحد رہنما ہیں جنہوں نے فوج کے ڈسپلن کو توڑ کر ضیا الدین پیدا کرکے دکھایا تھا۔ چنانچہ میاں صاحب کی سازشی طاقت کو کم سمجھنے والا احمق ہی کہلائے گا، خواہ وہ عمران خان ہو یا کوئی اور۔
مذکورہ بالا سطور لکھی جاچکی تھیں کہ مریم نواز کی نیوز کانفرنس سامنے آگئی۔ اس نیوز کانفرنس کی دو باتیں اہم تھیں، ایک یہ کہ مریم نواز نے میثاقِ معیشت سے متعلق شہبازشریف کی تجویز کو ’’مذاقِ معیشت‘‘ کہہ کر مسترد کردیا۔ نیوز کانفرنس کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ مریم نواز نے فرمایا کہ پاکستان مصر ہے نہ نواز لیگ نوازشریف کو صدر مرسی بننے دے گی۔ انہوں نے ’’اداروں‘‘ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو کچھ ہوا تو ’’سب‘‘ اس کے ذمے دار ہوں گے۔ جہاں تک مریم نواز کے پہلے تجزیے کا تعلق ہے تو مریم نواز نے شہبازشریف کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مریم نواز، نواز لیگ کی نائب صدر ہیں اور شہبازشریف صدر، مگر نائب صدر نے اپنے صدر کا بیان اُس کے منہ پر دے مارا۔ یہ ہے شریف خاندان کی اصل تہذیب۔ مفادات کا تقاضا ہوا تو مذہب، تہذیب، ملک، پارٹی کے صدر اور چچا سب کو کچل ڈالا۔ سنا ہے کہ مریم نے اپنے بیان پر معذرت کرلی ہے، مگر ان کا پہلا طرزِعمل ’’برجستہ‘‘ اور ’’حقیقی‘‘ تھا۔ معذرت کا ردعمل ’’سیاسی‘‘ اور ’’مصنوعی‘‘ ہے۔ جہاں تک میاں نوازشریف کا صدر مرسی سے موازنہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک شرمناک حرکت ہے۔ صدر مرسی اسلام کے شیر اور شہیدِ اسلام ہیں، جبکہ میاں نوازشریف ایک بدعنوان اور غدار شخص۔ دوسری بات یہ کہ نوازشریف سے متعلق مریم نواز کا بیان ’’سیاسی‘‘ نہیں ’’ماتمی‘‘ ہے۔ اور ماتمی بیان سے نواز لیگ کی طاقت نہیں اس کی کمزوری ظاہر ہورہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب چند روز پیشتر تو کہہ رہے تھے کہ میں ولی یا پیر نہیں ہوں مگر میرا خیال ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہوگیا ہے اور وہ جلد انجام کو پہنچیں گے۔
سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کی یہ ’’عبقریت‘‘ اچانک کہاں چلی گئی؟ کیا اس کی و جہ یہ ہے کہ میاں صاحب کا ’’جنرل کیانی‘‘ اچانک کھو گیا ہے؟