کراچی کی المناکی کو بیان کرنا آسان نہیں۔ اس کے تین بڑے دلائل یہ ہیں: کراچی کی آبادی کم از کم ڈھائی کروڑ ہے، اور کراچی اس اعتبار سے دنیا کے 182 ممالک سے بڑا ہے۔ کراچی کہنے کو ایک شہر ہے مگر مسائل کے اعتبار سے کراچی براعظم سے کم نہیں۔ کراچی کے مسائل کے حوالے سے ملک کے فوجی اور سول حکمرانوں کی بدنیتی اور نااہلی کو دیکھا جائے تو کراچی سیارے کے برابر ہے، اس لیے کہ جتنی بڑی بدنیتی اور نااہلی کراچی کو Manage کرنے کے حوالے سے پائی جاتی ہے، اتنی بڑی بدنیتی اور نااہلی ایک پورے سیارے کو Manage کرنے کے حوالے ہی سے سامنے آسکتی ہے۔ اس بدنیتی اور نااہلی کو نارمل الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے اس کے لیے صرف گالی کفایت کرتی ہے…بہت ہی بڑی گالی۔ یاد رہے کہ کراچی سے متعلق پاکستان کے حکمران طبقے کے سلسلے میں پنجابی، مہاجر، سندھی اور پٹھان کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کچھ زیادہ، کچھ کم۔
کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ اس آبادی میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ کچی آبادیوں میں نہ فراہمیٔ آب کا اہتمام ہے، نہ نکاسیٔ آب کا۔ ان آبادیوں میں کہیں بجلی ہے، کہیں نہیں ہے، کہیں ہوکر بھی نہیں ہے۔ ان آبادیوں میں کہیں اسکول ہیں اور کہیں نہیں ہیں۔ جہاں اسکول ہیں ان کی حالت اتنی خستہ ہے کہ انہیں کسی بھی اعتبار سے اسکول نہیں کہا جاسکتا۔ ان آبادیوں میں علاج معالجے کی کوئی معقول صورت موجود نہیں۔ ان علاقوں میں کچھ فلاحی اداروں کے شفاخانے اور ڈسپنسریاں موجود ہیں، مگر فلاحی اداروں کے شفاخانے اور ڈسپنسریاں جس طرح کی ہوسکتی ہیں ان کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے مگر کراچی کو فراہم ہونے والا پانی صرف سوا کروڑ آبادی کی ضرورت پوری کرپاتا ہے اور آدھی آبادی مدتوں سے قلتِ آب کا شکار ہے۔ ہم 1980ء کے اوائل میں ناظم آباد نمبر پانچ سے نارتھ ناظم آباد منتقل ہوئے تھے۔ اس کی کئی وجوہ میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ تھی کہ ناظم آباد نمبر پانچ میں پانی کی شدید قلت تھی۔ 1980ء سے 1990ء تک نارتھ ناظم آباد میں پانی کی صورتِ حال بہتر رہی، مگر اب 18 سال سے نارتھ ناظم آباد کے اس علاقے میں پانی کا بحران ہے جہاں ہم آباد ہیں۔ یادش بخیر، جب ہم نارتھ ناظم آباد آئے تھے تو یہ کراچی کے ’’پوش علاقوں‘‘ میں شامل تھا۔ بعض لاعلم لوگ اب بھی اسے ’’پوش علاقہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد میں پانی کی قلت کا آغاز ہوا تو پانی کا ٹینکر 900 روپے تک میں آجاتا تھا، ڈیڑھ دو سال پہلے اس ٹینکر کے نرخ بڑھ کر چار اور ساڑھے چار ہزار روپے ہوگئے تھے۔ چناں چہ اپارٹمنٹس کے لوگوں نے مجبور ہوکر ٹینکر پر انحصار ترک کردیا۔ اب ہمارے علاقے کے اکثر اپارٹمنٹس بورنگ کے پانی پر چل رہے ہیں۔ بورنگ کا پانی انتہائی کھارا ہے اور ماہرین اسے جِلد اور بالوں کے لیے مناسب خیال نہیں کرتے۔ اس سے کپڑے دھوئے جاسکتے ہیں مگر کپڑوں کے پانی میں کسی بھی ڈٹرجنٹ پائوڈر سے جھاگ نہیں بنتے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نارتھ ناظم آباد کے ایک علاقے کا یہ حال ہے تو پانی کے سلسلے میں کراچی کے دوسرے علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ پانی سے زیادہ انسان کی بنیادی ضرورت کا تصور محال ہے، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ کراچی کی سوا سے ڈیڑھ کروڑ آبادی کو پانی جیسی بنیادی ضرورت مہیا نہیں کررہا، حالاں کہ کراچی سمندر کے کنارے آباد ہے۔ کراچی پورے پنجاب، پورے دیہی سندھ، پورے کے پی کے، پورے بلوچستان کو پالنے کے عمل میں براہِ راست شریک ہے۔ چناں چہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے بھی کراچی کوڈی سیلے نیشن پلانٹ لگا کر دیا جاسکتا تھا، آج بھی یہ کام ممکن ہے، مگر ڈی سیلے نیشن پلانٹ تو دور کی بات، کراچی کے لیے نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں تیار کیے گئے ’’کے فور‘‘ منصوبے کے سلسلے میں بھی تاخیری حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو منصوبہ نعمت اللہ صاحب کے زمانے میں 20 سے 25 ارب روپے میں تعمیر ہوسکتا تھا، اس کی مالیت اب 100 ارب روپے سے بڑھ گئی ہے۔ اور 100 ارب روپے کی بھی کیا اوقات ہے! 2019-20ء کے لیے محصولات کا ہدف 5555 ارب روپے رکھا گیا ہے، اس میں سے ’’کم از کم‘‘ 3000 ارب روپے ’’صرف کراچی‘‘ سے فراہم ہوں گے۔ مگر ملک پر مسلط بدمعاش حکمران کراچی کی ایک بنیادی ترین ضرورت پوری کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس حوالے سے جرنیلوں، شریفوں، زرداریوں، عمرانیوں اور الطافیوں میں کوئی فرق نہیں۔ بہت سال پہلے ہندوستان کی ایک فلم ’’میں آزاد ہوں‘‘ دیکھی تھی۔ اس فلم میں امیتابھ بچن حاکمِ وقت کے سامنے آلودہ پانی کا گلاس رکھ کر سوال کرتا ہے کہ جو حکمران عوام کو پینے کے صاف پانی کا گلاس بھی مہیا نہ کرسکیں وہ عوام کو اور کیا دے سکتے ہیں؟ فرق یہ ہے کہ امیتابھ جن عوام کی بات کررہا تھا اُن کا تعلق دیہات سے تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید اور ملک کو سب سے زیادہ ’’مال‘‘ فراہم کرنے والا شہر ہے۔ ملک کی سالانہ آمدنی کو اگر سو روپے فرض کرلیا جائے تو کراچی ایک دعوے کے مطابق ملک کو 70 روپے فراہم کرتا ہے۔ اس دعوے پر یاسر پیرزادہ جیسے شخص نے بڑی رعونت سے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کراچی ملک کو محصولات کا 70 فی صد بھی نہیں دیتا۔ نہیں دیتا ہوگا، مگر وہ سو روپے میں کم از کم 55 روپے ضرور فراہم کرتا ہے، تو ایسے شہر کو ایک سال میں سو روپے میں دس روپے تو لوٹائو… اس شہر کو جس میں 20 لاکھ سے زیادہ پنجابی، 20 لاکھ سے زیادہ پٹھان، 10 لاکھ سے زیادہ بنگالی اور برمی، اور کئی لاکھ بلوچ، سرائیکی، ہزارے آباد ہیں۔ ہم نے یہاں سندھیوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے کہ کراچی پر سب سے زیادہ حق سندھیوں کا ہے۔ وہ بیچارے Home Sick ہونے کی وجہ سے کراچی میں کم کم آباد ہیں۔ کاش کراچی میں ان کی آبادی اور زیادہ ہوتی۔
دنیا کے کسی بھی ڈھائی کروڑ کی آبادی کے شہر کا تصور تین چیزوں کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا: سرکلر ریلوے، میٹرو ٹرینیں اور بڑی بسوں کا بیڑا۔ کراچی میں ان چیزوں میں سے کچھ بھی موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کم از کم شہر کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے ٹریفک کا جہنم بن گیا ہے۔ آج سے پندرہ سال پہلے ہم نارتھ ناظم آباد سے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع جسارت کے دفتر جاتے تھے تو دس روپے دے کر گرین بس میں سوار ہوجاتے تھے اور بیس سے پچیس منٹ میں دفتر پہنچ جاتے تھے۔ آج ہمیں نارتھ ناظم آباد سے جسارت کے دفتر تک کوئی بس دستیاب نہیں۔ رکشہ اور کریم میں ایک طرف کا ’’کرایہ‘‘ ڈھائی سو سے تین سو روپے ہے۔ آج سے دس بارہ سال پہلے جب کراچی میں کچھ نہ کچھ بڑی بسیں موجود تھیں اور کوچز کا کچھ نہ کچھ اہتمام تھا تو شام پانچ بجے کے بعد کراچی کی شاہراہوں پر دفاتر سے نکل کر گھر جانے والی لاکھوں لڑکیاں اور خواتین کھڑی ہوتی تھیں اور انہیں کبھی کبھی اپنی بس اور کوچ میں سوار ہونے میں بیس سے تیس منٹ لگ جاتے تھے، اس لیے کہ خواتین کے حصے پر بھی مرد حضرات کا قبضہ ہوجاتا تھا۔ دنیا بھر میں سہولتیں مسلسل بڑھتی ہیں، مگر کراچی میں ٹریفک کی سہولتیں بڑھنے کے بجائے کم ہوتی چلی جارہی ہیں۔ چناں چہ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر جانے والی خواتین کو اب کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہوگا۔ بلاشبہ بہت سے دفاتر میں ’’وین سسٹم‘‘ رائج ہوگیا ہے، مگر کم آمدنی والے افراد بالخصوص خواتین کے لیے وین ایک مہنگی سواری ہے۔
کچرا اٹھانے کی اہلیت کم سے کم اہلیت ہے، یہ اہلیت بھنگی تک میں موجود ہے، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران کراچی میں بھنگی سے بھی کم صلاحیت کے حامل نظر آتے ہیں، اس لیے کہ وہ کراچی کے ساٹھ فیصد کچرے کو ٹھکانے لگانے میں ناکام ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کراچی میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اکیسویں صدی کا مذاق اڑاتے نظر آرہے ہیں۔ کراچی میں سڑکوں کا یہ حال ہے کہ مرکزی شاہراہیں تک دلوں کی طرح ٹوٹی ہوئی ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں اور ملک کے سب سے جدید، بڑے اور مال دار شہر کو اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کررہے ہیں۔
سندھ رینجرز کے سابق سربراہ جنرل محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی میں گزشتہ 35 برس کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ہمیں یہ سن کر خیال آیا کہ خدانخواستہ اگر لاہور میں 35 سال میں 92 ہزار افراد ہلاک ہوتے تو کیا پنجاب، پنجاب اور پاکستان، پاکستان رہتا؟ پشاور میں اگر 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد مارے گئے ہوتے تو کیا کے پی کے، کے پی کے اور پاکستان، پاکستان رہتا؟ کوئٹہ میں اگر 35 سال میں 92 ہزار افراد جاں بحق ہوگئے ہوتے تو کیا بلوچستان، بلوچستان اور پاکستان، پاکستان رہتا؟ لاڑکانہ میں اگر 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد لقمہ اجل بن جاتے تو کیا دیہی سندھ، دیہی سندھ اور پاکستان، پاکستان رہتا؟ مگر بدقسمتی سے کراچی کے شہری اتنے حقیر ہیں کہ 35 سال میں 92 ہزار ہلاک ہوگئے مگر کچھ اور کیا کراچی بھی بدل کر نہ دیا۔ بلاشبہ اہلِ کراچی حکمران طبقے کے نزدیک کتے بلیوں سے بھی کم قدر کے حامل ہیں۔ آخر کراچی میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے سے بڑی سزا اور ذلت اور کیا ہوسکتی ہے؟
بلاشبہ کراچی امیروں کا شہر ہے، مگر اس سے زیادہ یہ غریبوں کا شہر ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے روزنامہ جنگ کراچی میں ’’اتوار کے اتوار‘‘ کے نام سے ایک کالم شائع ہوتا تھا۔ بڑا شاندار کالم تھا۔ کالم نگار کراچی کے کسی نہ کسی غریب علاقے میں پہنچ جاتے تھے اور لوگوں سے پوچھتے کہ بھائی ذرا بتائو تو کیا کماتے ہو اور کیا کھاتے ہو؟ اس کالم سے معلوم ہوتا کہ کراچی میں ایسے گھرانے بھی ہیں جو سال میں صرف ایک بار گوشت کھاتے ہیں عیدالاضحی کے دن، بشرطیکہ کہیں سے آجائے۔ کراچی میں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو شام کو اُس وقت سبزیاں خریدنے نکلتے ہیں جب ٹھیلوں پر سبزیوں کی ’’تلچھٹ‘‘ باقی رہ جاتی ہے۔ ایک بزرگ عورت نے بتایا کہ میرے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ایک سال سے چڑیا گھر جانے کی فرمائش کررہے ہیں مگر ہم انہیں چڑیا گھر نہیں لے جا پاتے، کیوں کہ چڑیا گھر آنے جانے کے لیے ہمارے پاس اضافی سو روپے نہیں ہوتے۔ ہم ایک دن نارتھ ناظم آباد کے ایک کلینک پر پہنچے تو سناٹے کا راج تھا۔ ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا علاقے کے لوگوں نے بیمار ہونا بند کردیا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، آج پاک بھارت کرکٹ میچ ہورہا ہے اس لیے لوگ میچ کے بعد آئیں گے۔ ہم نے موقع مناسب دیکھ کر پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ تو بتائیے کہ کیا لوگ آپ سے 40 روپے فیس میں کبھی رعایت مانگتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کئی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سردیوں میں بچوں میں نزلہ زکام ایک بچے سے دوسرے بچے کو لگ جاتا ہے۔ چناں چہ ایک گھر میں اگر تین چار یا پانچ بچے ہوں تو وہ سب کے سب بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بعض لوگ فیس میں رعایت طلب کرتے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لاکھوں لوگوں پر جب کراچی کے معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کا دبائو بڑھتا ہوگا اور انہیں غذا، پانی اور ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا تو ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اسی لیے کراچی کی زندگی کی المناکی کو بیان کرنا آسان نہیں۔ اسے صرف حکمران طبقے کو دی جانے والی ایک بہت بڑی گالی کے ذریعے ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔