ڈاکٹر تحسین فراقی کی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہوئے مجھے سوچنا پڑ رہا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ سوچنا اس لیے پڑ رہا ہے کہ ان سے شناسائی کو دوستی میں بدلے ہوئے اب کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اتنی مدت میں حالات و واقعات میں اتنے نشیب و فراز آئے ہیں۔ ہمارے کئی مشترکہ دوست اور کرم فرما جو ہمارے درمیان رشتۂ اخوت و انسیت کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کا سبب تھے، وہ بھی ہمیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے جیسے سراج منیر، مشفق خواجہ، ڈاکٹر وحید قریشی۔ اور اب یوں بھی ادب کی دُنیا میں نظر اُٹھا کے دیکھیں تو خاک سی اُڑتی دکھائی دیتی ہے۔ ادب کیا پوری زندگی ہی کبھی کبھی بے معنی سی لگتی ہے۔ کیوں کہ زندگی بامعنی و بامقصد بنتی ہے اپنی سرگرمیوں سے… اور جب یہ سرگرمیاں ہی لاحاصل و رائیگاں بن جائیں، معاشرے میں ان کی معنویت صفر ہوجائے تو کیا ادب اور کیا زندگی۔ اس کے باوجود سچ پوچھیے تو ڈاکٹر تحسین فراقی ان معدودے چند لکھنے پڑھنے والوں میں ہیں جن کو دیکھ کر لکھنے پڑھنے کا اعتبار و وقار اور اس کا بھرم قائم رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اب ماشاء اللہ سے ڈھیروں کتابوں کے مؤلف، مصنف، مترجم وغیرہ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک منجھے ہوئے نقاد، ایک ادیب، ایک شاعر، اقبالیات کے ماہر وغیرہ کی ہے۔ مجلسِ ترقیِ ادب جیسے معتبر و مؤقر علمی ادارے کے ناظم بھی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے چیئرمین بھی رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نہایت نامور یونیورسٹیوں میں اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتے رہے۔ کئی سال ایران کے دارالحکومت کی جامعہ میں اقبال چیئر پر بھی فائز رہے۔ ان کی کئی کتابوں کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ اپنی فارسی دانی کے سبب اور بہت کچھ مولانا روم، حضرت شمس تبریز اور فارسی ادب کے حوالے سے اپنے علمی تنقیدی مقالات کے واسطے سے وہ ایران کے علمی و ادبی حلقوں میں بہت اچھی طرح شناسا اور ایک باوقار مقام بھی رکھتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دوحہ کی ایک ادبی سوسائٹی نے انھیں گراں قدر ایوارڈ سے نوازا ہے جو ان کی علمی خدمات کا اعتراف ہے۔ لیکن ادب و علم کی دنیا میں یہ مقام جو انھیں ملا ہے اس کے پیچھے ان کی زندگی بھر کی محنت و ریاضت چھپی ہے۔ آدمی اگر ’’شخصیت‘‘ بنتا ہے تو یہ کام چند دنوں اور چند مہینوں میں تو ہوتا نہیں۔ میرؔ نے’’انسان‘‘ بننے کے لیے کہا تھا کہ اسے سہل نہ جاننا چاہیے۔ فلک برسوں پھرنے اور اپنا سراغ لگانے، اپنے آپ کو جاننے کے بعد وجودِ خاکی خاک کے پردے سے انسان بن کر نکلتا ہے۔ فی زمانہ یہی اصول شخصیت بننے پر صادق آتا ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے فراقی صاحب اب ایک شخصیت بن چکے ہیں، یا شخصیت میں ڈھل چکے ہیں۔
میں تحسین فراقی کو تب سے جانتا ہوں جب ابھی وہ شخصیت نہیں بنے تھے۔ وہ تب عالمِ امکان میں تھے۔ اور اس زمانۂ نومشقی میں بھی ان سے ایسوں نے امیدیں لگائی تھیں جو پالنے میں پوت کے پائوں دیکھ کر پہچان لینے کے ماہر تھے۔ اور بہت سے وہ بھی تھے جو منتظر تھے کہ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک۔
اُن دنوں تحسین فراقی روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ادبی صفحے پر لاہور سے ادبی ڈائری رقم کیا کرتے تھے۔ یہ صفحہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ادارت میں ادبی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا۔ خامہ بگوش (مشفق خواجہ) کے دلچسپ ادبی کالم، خاکسار کے ادبی انٹرویو، مختلف شہروں کے ادبی احوال نامے پڑھنے والوں کے مراسلات، ادبی خبریں، پاکستان و ہندوستان کی ادبی علمی سرگرمیوں کا تازہ بتازہ احوال۔ یہی وجہ تھی کہ یہ ادبی صفحہ کسی بھی اردو اخبار کے مقابلے میں ادبی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ میں اس صفحے پر تحسین فراقی کی ڈائری بہت دلچسپی سے پڑھتا تھا، اور اس لیے پڑھتا تھا کہ وہ ان دنوں جواں سال ادیب و نقاد سراج منیر کے علم، ادب سے ان کی آشنائی، اور سب سے بڑھ کر ان کی طلاقتِ لسانی کے اس طرح عاشق اور ان پر فریفتہ تھے کہ شاید ہی کوئی ڈائری ایسی ہوگی جس میں تحسین، سراج منیر کا تذکرہ عقیدت سے نہ کرتے ہوں۔ چوں کہ سراج کی ادبی و علمی صلاحیتوں، ان کی شخصیت کی محبوبیت اور ان کے حسنِ اخلاق، نیز مزاج کی شگفتگی اور دوست داری سے ہم سبھی گھائل بھی تھے اور قائل بھی… میرا اپنا معاملہ بھی تحسین فراقی سے مختلف نہ تھا۔ اس لیے میں مذاق میں ان کی ڈائری کو ’’روزنامچۂ سراج منیر‘‘ کہا کرتا تھا۔ وہ جو محاورہ ہے ناں کہ ’’کندہم جنس باہم جنس پرواز… کبوتر با کبوتر باز بہ باز‘‘ تو یہ صادق آتا تھا تحسین فراقی کی سراج منیر کے ساتھ شب و روز کی محبت و رفاقت پر۔ وہ سراج منیر کے ساتھ اپنا زیادہ وقت گزار کر ان سے ایک طرح کی انسپریشن لیتے یا کسبِ فیض کرتے رہے، اور بہت جلد ایسی صورت پیدا ہوئی کہ ایک دن میں نے ہر دو نوجوانوں کو ایک ساتھ ٹیلی وژن کے کسی علمی پروگرام میں نمودار دیکھا۔ اپنی گفتگو اور سوالات سے ان دو نوجوان اسکالروں کی جوڑی مجھے بہت اچھی لگی۔ ملک میں علم و ادب کا مستقبل بھی روشن روشن سا محسوس ہوا۔ اب یہ کسے اور کب معلوم تھا کہ دستِ قضا بہت برسوں بعد سراج منیر کو اچک لے جائے گا اور علم و ادب کا یہ کٹھن سفر تحسین فراقی کو اکیلے ہی طے کرنا پڑے گا۔
تحسین فراقی سے میری ملاقات تو شاید بہت بعد میں ہوئی لیکن ان کی ادبی ڈائریاں متواتر و مسلسل پڑھ پڑھ کر ان کی معنوی تصویر اپنے ذہن میں بناتا رہا۔ یہ جو تصویر تھی اس میں سب سے غالب پہلو اُن کی علم و ادب سے محبت بلکہ عشق کا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اردو اور فارسی، یہاں تک کہ انگریزی ادب پر اُن کا گہرا مطالعہ اور دسترس کا جو معاملہ تھا، اس کی ہلکی سی چھینٹ بھی ان ڈائریوں پر نہ پڑتی تھی۔ یہ راز کم سے کم مجھ پر اُس وقت کھلا جب اُن کے چند ایک ادبی مضامین زیر مطالعہ آئے۔ خصوصاً مشفق خواجہ کے رسالے ’’تخلیقی ادب‘‘ میں انھوں نے اردو تنقید کے دس برسوں کا جو عالمانہ جائزہ لیا تو ادبی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ اس مقالے کی خاص بات یہ تھی کہ موضوع کا شاید ہی کوئی پہلو، کوئی گوشہ ایسا رہ گیا ہو جو تشنہ ہو۔ پھر سچائی اور بے باکی، گرفت ہر کمزور کتاب پر یا تنقید کی کسی بھی کتاب کی کمزوری پر ایسی مسکت، مدلل کہ جس پر گرفت کی اُس کے لیے راہِ فرار نہ رہی۔ ان کا یہ مقالہ اس لیے بھی ادبی حلقوں میں زیر بحث رہا کہ تب ادبی حلقے موجود تھے اور کسی بھی قابلِ ذکر مضمون یا کتاب کا چرچا ہوتا تھا۔ آج والی کیفیت نہ تھی کہ میر و غالب بھی جی اُٹھیں تو اُن کے کلام پر کوئی توجہ کرنے والا ڈھونڈے سے نہ ملے۔ ادبی دنیا میں تحسین فراقی کی یہ ٹیک آف ادبی فلائنگ کی دنیا میں نہایت کامیاب کہی جاسکتی تھی۔ لیکن صحیح معنوں میں ان کا ادبی قد و قامت ان کے مضامین کے مجموعے ’’جستجو‘‘ کی اشاعت سے نکلا۔ اس کتاب کی پذیرائی ایسی شاندار ہوئی کہ تنقید کی کسی کتاب کی کم ہی ہوئی ہوگی۔ اشفاق احمد سے سلیم احمد تک، شاید ہی کوئی ایسا ادیب و نقاد ہوگا جس نے اس کتاب کو تحریری یا زبانی طور پر نہ سراہا ہو۔ یہ کتاب انھوں نے ازراہِ عنایت اِس خاکسار کو بھی بھیجی۔ اسے پڑھ کر میں تحسین فراقی کی وسعتِ مطالعہ، تنقیدی نظر، تجزیے و مطالعے کے انداز، اور پھر ان کے نثری اسلوب کا اسیر ہوگیا۔ یہ کتاب کیا چھپی پھر تو… چل سو چل۔ کتابوں پر کتابیں… اقبالیات، غالبیات… کیا اردو کیا فارسی، یہاں تک کہ انگریزی سے تراجم۔ میں حیران ہوتا تھا کہ یااللہ! یہ ہمارے تحسین صاحب کے وقت میں آپ نے کیسی برکت رکھ دی ہے کہ کوئی برس ایسا نہیں جاتا کہ جب ان کی کوئی کتاب چھپنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور اگر کتاب نہ ہو تو مقالے موجود ہیں۔ مقالے نہیں تو غزلوں پہ غزلیں، کہ خیر سے شاعر بھی ٹھیرے۔
ان سے اوّلین ملاقات کے تذکرے سے پہلے ان کا تبصرہ اس خاکسار کے کالم پہ۔ تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ تبصرے میں اس ناچیز کے لیے تفاخر کا پہلو نکلتا ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ لندن میں شہزادہ چارلس کا لیڈی ڈیانا سے بیاہ ہوا۔ دنیا بھر کے میڈیا کی طرح ہمارے قومی میڈیا نے بھی بیاہ کی تقریبات کی کوریج اس طرح کی کہ بھولا بسرا محاورہ صادق آیا ’’بے گانے کی شادی میں عبداللہ ہے دیوانہ‘‘۔ میں ’’دام خیال‘‘ کے عنوان سے ’جسارت‘ کے ادارتی صفحے پر ہفتے میں چار پانچ دن کالم گھسیٹا کرتا تھا۔ چناں چہ اس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اور شہزادہ چارلس کے حوالے سے اپنے اُن مغل شہزادوں کو جی بھر کے یاد کیا جو شاعری بھی کرتے تھے اور عشق بھی۔ پھر ان ہی شہزادہ چارلس کے پرکھوں نے اپنی عیاری و چالاکی سے ہندوستان کو ہندوستان کی تلوار ہی سے فتح کیا، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ شہزادے تخت و تاج سے محروم ہوکے گداگر ہوئے۔ کچھ کے سر بھی قلم ہوئے وغیرہ۔ ایک جذباتی اور تاثراتی سا کالم تھا جو پسند تو کیا گیا، لیکن جو تبصرہ تحسین فراقی کا موصول ہوا وہ ایسا تھا کہ پھر کسی تحسین و تعریف کا انتظار نہ رہا۔ تبصرہ یہ تھا:
’’طاہر مسعود کو میں نہیں جانتا، لیکن میرا دل اسے مانتا ہے‘‘۔
اس خودستائی کے لیے جو تبصرے کو دہرانے میں مضمر ہے، معذرت کا طلب گار ہوں۔ لیکن نقل اس خیال سے بھی کیا کہ فقط ایک فقرے میں محبت اور قدر افزائی کے جذبے کو تحسین نے کس طرح سمو دیا کہ فقرہ محض توصیفی نہ رہا، تخلیقی ہوگیا۔ یہ ہے وہ تہذیب، زبان کا استعمال کہ اپنے جذبہ و احساس کا کس طرح اظہار کیا جائے کہ قلب و ذہن میں نقش ہوجائے۔ مطالعہ ادب ہی یہ سلیقہ سکھاتا ہے۔ آج لوگ پوچھتے ہیں ہم ادب کا مطالعہ کیوں کریں؟ اس کا بھلا کیا فائدہ ہے؟ ادب کچھ اور سکھاتا ہو یا نہ ہو، لیکن بات کرنے کا سلیقہ تو سکھا ہی دیتا ہے۔ عزیزو! کم سے کم اسی لیے ادب پڑھ لیا کرو۔
تحسین فراقی سے ملاقات میں اوّلین وسیلہ جناب مشفق خواجہ بنے۔ ان ہی کے دولت کدے پر جو فی الحقیقت دولت کدہ یا گھر نہیں، کتاب گھر تھا۔ دولت تھی تو علم و ادب کی وہ بیش بہا دولت تھی جو انھوں نے برسوں میں جمع کی تھی اور مسلسل اس میں اضافہ ہوتا ہی رہتا تھا۔ (اب سنا ہے خواجہ صاحب کی یہ کتابیں جو ایک امریکی ادارے نے خرید کر افادۂ عام کے لیے لائبریری بنادی تھی، لاہور کے فٹ پاتھوں پر بک رہی ہیں۔ خدا رحم فرمائے (آمین)
ایک دن خواجہ صاحب کا فون آیا کہ لاہور سے تحسین فراقی آئے ہوئے ہیں۔ اتنی اطلاع کافی تھی۔ بھاگم بھاگ ناظم آباد پہنچا۔ جواں سال تحسین فراقی جن کے چہرے پہ چھوٹی سی داڑھی (جماعت کٹ) بہت سج رہی تھی، آسمانی رنگ کے سفاری سوٹ میں ملبوس، مزاج میں شگفتگی، خواجہ صاحب کے کٹیلے دلچسپ فقروں پر قہقہہ لگاتے ہوئے۔ پہلی ملاقات ان سے ایسی تھی جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے سے آشنا ہوں۔ اصل رفاقت تو ذہنی اور جذباتی ہوتی ہے، اور ظاہر ہے وہ تو پہلے ہی سے تھی۔ پھر خواجہ صاحب کی صحبت میں فاصلے مٹتے دیر ہی کب لگتی تھی۔ دیر تک مزے مزے کی دلچسپ باتوں کے بعد خواجہ صاحب ہمیں لے کر نکلے اور اپنی عادت کے مطابق انھوں نے ہمیں فاسٹ فوڈ کی ایک شاپ پہ فٹ پاتھ کے کنارے بچھی کرسیوں پہ بٹھا کے چکن بروسٹ کھلائے۔ اس دوران ان کی دلچسپ مگر طنز آمیز فقرے بازی بھی جاری رہی۔ وہاں سے اُٹھے تو ناظم آباد کی سڑکوں پہ ہم مٹر گشتی کرتے رہے۔ کسی ہار بیچنے والے سے موتیا کے خوشبودار ہار بھی خریدے، اور یوں رات کے کسی پہر یہ یادگار صحبت تمام ہوئی۔ لاہور پہنچ کے تحسین صاحب نے جو خط لکھا اُس میں موتیا کے ہاروں کا تذکرہ بھی تھا۔ ’’ان ہاروں سے کسی حسینہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ دین دار اسکالر کے سینے میں بے شک ایک شاعر کا دل ہے جو دھڑکنا جانتا ہے۔ اب وقت نے ہم دونوں کو سنجیدگی اور رنجیدگی کی اس منزل پہ پہنچادیا ہے کہ یاد کرنے اور گئے وقتوں پر کفِ افسوس مَلنے کے لیے یہی ایک ماضی رہ گیا ہے جو ہمارے درمیان مشترک ہے۔ پھر میرا جب بھی لاہور جانا ہوا، ممکن نہیں تھا کہ تحسین فراقی سے ملے بغیر واپسی ہو… یا وہ کبھی کراچی آئیں اور میں بے تابانہ اُن سے ملنے نہ پہنچوں۔ ایک مرتبہ ان کے گھر جا کے ان کے کتب خانے کو بھی دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ الماریاں، شیلف، میز ہر طرف کتابیں ہی کتابیں، لیکن نہایت منتخب اور لائقِ مطالعہ کتابیں، جس سے صاحبِ مطالعہ کے ذوق کا اندازہ ہوتا تھا، سلیقے اور ترتیب سے رکھی تھیں۔ اب تو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں میں کتابیں جمع کرنے کو بے کار شغل سمجھا جاتا ہے۔ ہر قسم کا سامانِ تعیش موجود سوائے کتابوں کے۔ لکھے پڑھے لوگ بھی لذتِ مطالعہ سے ناآشنا نظر آتے ہیں، اور نہیں جانتے کہ مطالعے سے بڑھ کر کوئی عیش نہیں… اگر عیش لذت طلبی اور لذت کوشی کا نام ہے تو۔ تحسین فراقی کی تنقید ہو یا کسی بھی علمی موضوع پر کوئی تحریر، سب سے پہلے جو احساس ان کے مطالعے سے اُبھرتا ہے وہ تحسین کے علمی تبحر کا ہے۔ ان کا علم و فضل متاثر ہی نہیں مرعوب بھی کرتا ہے۔ بسا اوقات کثرتِ علم یبوست یا خشکی پیدا کرتی ہے۔ پڑھتے ہوئے طبیعت کو مارنا پڑتا ہے۔ تحسین کی تحریر میں نہ ایسی بے رنگی ہے اور نہ ایسی کوئی خشکی۔ ادبی و علمی اصطلاحات اور زبان فارسی کے زیراثر ہونے کے باوجود ان کی واضح اور صاف فکر… خیال کی طاقت اور تاثیر ان کی تحریر اپنے آپ کو بآسانی اور بہت دلچسپی سے پڑھوا دیتی ہے۔ باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنے کئی مضامین میں نہایت جرأت مندی سے عسکری اور سلیم احمد سے نہ صرف اختلاف کیا ہے بلکہ سلیم احمد نے عسکری سے کس درجہ ان کے خیالات مستعار لیے ہیں، اپنی تحقیقی محنت و ریاضت سے دونوں کے فقروں کو آمنے سامنے رکھ کر ان کی یکسانیت کو ثابت بھی کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہیں عسکری و سلیم احمد ہی کے مکتبہ فکر کے۔ انھوں نے ہر دو نقادوں سے کسبِ فیض بھی کیا ہے اور ان کے ادبی وقار اور احترام سے اپنے قلب کو منور بھی رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے علمی و ادبی دنیا میں جو فتوحات اور کامیابیاں کمائی ہیں، ان کی تفصیل تو اس مختصر سی تحریر میں کیا بیان کی جائے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا دل اپنے دو جگر گوشوں کے ناگہانی سانحۂ ارتحال سے فگار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر آزمائشیں ڈالتا ہے تو ساتھ ہی صبر و استقامت کی طاقت بھی عطا کردیتا ہے۔ ہمارے فراقی صاحب اپنا زخمی دل اور فگار سینہ لیے آج بھی اپنے علمی و دفتری معمولات میں مصروف تو رہتے ہیں، لیکن کس طرح رہتے ہیں اس دُکھ اور کرب کا حال تو وہی جانتے ہیں۔ میں ان کے لیے دعاگو رہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ ان سے علم و ادب اور اپنے دین کا وہ کام لے جس کی اس ملک و معاشرے کو ضرورت ہے۔ بے شک ہمارے درمیان وہ ایک قیمتی اور نادر آدمی ہیں، ایک ایسے محقق، نقاد اور دانشور جن کا نعم البدل کوئی اور نہیں… اور اگر کوئی اور ہے تو بھی وہ خود ہی ہیں!
اعتذار
۔21جون کے شمارے میں ڈاکٹر طاہر مسعود کا مضمون بعنوان “انور سجاد کامیابی اورناکامی کا مجسمہ “کا بقیہ سہواشایع نہیں ہوسکاتھا ادارہ اس پر معذرت خواہ ہے اور ذیل میں بقیہ حصہ شایع کیا جارہا ہے-
…………………
ان کی موت کی خبر پڑھ کر مجھے ایک دھچکہ سا لگا اور بے اختیار ایک سوال میرے سامنے آکھڑا ہوا کہ میں جو اہم اور کم اہم ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویو کرتا رہا ہوں، میرے اندر کیوں یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ انور سجاد کا انٹرویو کرلوں؟ میں اس سوال کا کوئی جواب تلاش نہ کرسکا۔ اس لیے کہ یہی سوال قرۃ العین حیدر (جن کا میں بے پناہ مداح ہوں) اور عبداللہ حسین کی بابت بھی میں اپنے آپ سے کرسکتا ہوں کہ ملاقات کے باوجود ان دونوں بلند پایہ ادیبوں کا بھی میں انٹرویو نہ کرسکا کہ خواہش ہی نہ ہوئی، دھیان اس طرف گیا ہی نہیں۔ ظاہر ہے یہ میری کم نصیبی ہے… اور یہ کم نصیبی بھی کچھ کم نہیں کہ انور سجاد اتنا عرصہ کراچی میں رہے اور ان سے ملاقات کی سعادت سے بھی محروم رہا۔ یقینا وہ اُن ادیبوں اور فنکاروں میں سے تھے جن سے مل کر، جن کی صحبت میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا۔ اور کچھ حاصل نہ بھی ہوتا تو اس سوال کا جواب ضرور حاصل کرلیتا کہ مبدائے فیض سے اتنی صلاحیتیں عطا ہوئی تھیں تو کسی ایک صلاحیت کو بھی کمال تک کیوں نہ پہنچایا؟