منصفانہ معاشرے کا قیام کیسے ممکن ہوگا؟۔

پاکستان میں بہت سے لوگ منصفانہ معاشرے کے قیام کی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ معاشرہ کیسے قائم ہوگا اور اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ اس پر مختلف طبقات میں بحث ومباحثہ موجود رہتا ہے۔ البتہ یہ بات حتمی ہے کہ لوگ موجودہ نظام سے خوش نہیں، اور سب ہی ملک میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو بھی لوگوں نے ایک بڑی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا تھا، مگر عمران خان کی حکومت بھی توقعات پر پوری نہیں اتری۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ مسئلہ حکومت کی تبدیلی کا نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں نظام کی تبدیلی کا ہے۔ جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا، چہروں کی تبدیلی کا عمل کوئی بڑی تبدیلی پیدا نہیں کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ملک میں حقیقی تبدیلی کی بحث میں شدت آئی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بدترین جمہوریت اور کمزور حکمرانی کا علاج بھی صرف اور صرف جمہوریت ہی ہے۔ لیکن جب جمہوریت پر زور دیا جاتا ہے تو اس سے مراد بہتر اور حقیقی جمہوریت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ بات بجا کہ جمہوری تجربے کا تسلسل ہی جمہوری اقدار اور طرزِعمل کو تقویت دیتا ہے۔ لیکن جمہوری سفر میں اندھا اعتماد کرنے کے بجائے جمہوریت سے وابستہ افراد اوراداروں کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں، کیونکہ جمہوریت کا جو عمل چل رہا ہے یا چلایا جارہا ہے وہ جمہوریت کی حقیقی تصویر نہیں، اور ہمارے جیسے معاشرے میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی طاقت ور طبقات کے لیے ایک مضبوط سیاسی ہتھیار ہے۔ وہ اسی جمہوریت کو ہتھیار بناکر اپنی ذاتی اور مفاد پر مبنی سیاست کو تقویت دیتے ہیں۔
ایک مضبوط اور مربوط معاشرہ سیاسی تنہائی میں پروان نہیں چڑھتا۔ اس میں ریاست اور حکمرانی سمیت معاشرے کے تمام فریقین کو باہمی اتفاقِ رائے کی مدد سے شفافیت پر مبنی نظام قائم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ایسا سماج جو بکھرتا ہوا ہو اور جسے جوڑنے کے بجائے تقسیم کرنے کا کھیل جاری ہو، وہاں مربوط معاشرے کی بحث کمزور ہوجاتی ہے۔کیا معاشرے کسی سیاسی تماشے کی بنیاد پر پروان چڑھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ ریاستی، حکومتی، انتظامی، قانونی اور معاشی اداروں کا جو سیاسی چال چلن ہے وہ ایک بڑے سیاسی تماشے کے گرد گھومتا ہے۔ اس تماشے کا بنیادی مقصد لوگوں کو سیاسی اور سماجی طور پر گمراہ کرنا اور اداروں کے بجائے افراد کو طاقت ور بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ مضبوط معاشرے کی بنیاد کمزور طبقات کے مفاد میں سماج کے تمام ریاستی اور غیر ریاستی اداروں اور افراد کا ان کی حمایت اور مدد میں کھڑا ہونا ہوتا ہے، یہی منصفانہ معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔
کیا ریاست کو کمزور کرکے ہم ایک مربوط معاشرے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم اپنے طرزعمل سے خود ریاستی اداروں کو کمزورکریں یا ریاستی اداروں سے وابستہ افراد خود ریاستی عمل کو کمزورکرنے کے کھیل کا حصہ بن جائیں تو ریاست کا کمزور ہونا ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ مسئلہ کسی ایک فریق پر الزام تراشی کا نہیں، بلکہ یہاں تمام فریقین ریاست کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ریاست کی مضبوطی کا تعلق افراد کی مضبوطی سے ہوتا ہے۔ یعنی ریاست اور عوام کے مثبت باہمی تعلق سے ہی ہم ایک مضبوط معاشرے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔لیکن یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ہمارا ریاستی اورحکمرانی کا نظام غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہے جو عملاً ریاست اور عوام کے درمیان خلیج یا بداعتمادی قائم کرتا ہے۔
ریاستی امور کی کامیابی کی کلید عوام کی طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت بنیادی طور پر 1973ء کے دستور میں دیے گئے پہلے بنیادی حقوق سے جڑے باب میں موجود ہے۔ ریاست عام آدمی کے بنیادی حقوق جو زندہ رہنے کے لیے اس کا حق سمجھے جاتے ہیں، کی فراہمی کی ذمہ دار ہے جن میں تعلیم، صحت، علاج، روزگار، تحفظ، انصاف، آزادیٔ اظہار رائے، نقل و حمل جیسے امور شامل ہیں۔ لیکن یہ کہنا بجا ہے کہ یہاں جو سیاسی، سماجی، معاشی، انتظامی اور قانونی تفریق ہے وہ خاصی نمایاں اورگہری ہے۔ طبقاتی بنیاد پر چلنے والا معاشرہ عملی طور پر خاص طبقے یعنی طاقت ور طبقات کی حکمرانی کے گرد گھومتا ہے۔ ایسے معاشرے میں عام آدمی کا مختلف حوالوں سے استحصال زیادہ ہوتا ہے، اور یہ ہمیں اپنے ہی سماجی اعداد وشمار میں موجود تفریق کے تناظر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایک مضبوط اور مربوط معاشرے کی تشکیل کے بنیادی جزو سیاسی و سماجی نظام، سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں، ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا، اہلِ دانش، استاد، علمائے کرام ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں خارجی قوتوں نے ان اداروں کو اوّل تو طاقت ور نہیں بننے دیا، اور جو موقع جمہوری قوتوںکو ملا اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اس معاشرے میں عملی طور پر تبدیلی سے جڑے یہ ادارے ابتدا ہی سے مضبوط نہیں ہوسکے۔ اس کی وجہ خود ان اداروں کے اپنے مفادات اور ترجیحات بھی ہیں۔ تبدیلی کے یہ ادارے کسی قانون کے تابع ہونے کے بجائے خاندان اور ذاتی دوستوں کا قبیلہ بن کر حکمرانی کا نظام عملاً سیاسی خانوادوںکی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ یہ بات بجاکہ اسٹیبلشمنٹ نے بہت سے امور کو کمزور کیا، لیکن جو کمزوری، نالائقی اور نااہلی جمہوری قوتوں نے دکھائی ہے اس کو بھی ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے تو اس سے مراد جمہوری اصول، قواعد و ضوابط، طرزِعمل، داخلی جمہوریت کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کا تصور ہوتا ہے۔ جمہوریت کوبنیادی طور پر کمزور افراد کی طاقت سمجھا جاتا ہے جس میں کمزور طبقات کا مفاد سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس کو جانچے کا نکتہ وسائل کی منصفانہ اور شفاف تقسیم اورشفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہوتا ہے جہاں سب ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔سیاسی اداروں سمیت پارلیمنٹ ریاستی، عوامی مفادات کے تابع ہوتی ہے، اوران کا پورا نظام عوام کی حکمرانی سے جڑا ہوتا ہے۔لیکن جو طرزِ عمل ہم نے جمہوریت کو چلانے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ جمہوری نظام مضبوطی کی طرف بڑھ سکے گا، ممکن نہیں ہوگا۔
منطق پیش کی جاتی ہے کہ ہم جوابدہی یا احتساب کے نظام کو پس پشت ڈال کر جمہوری عمل کو آگے بڑھائیں، یہ خود ایک بڑا فکری مغالطہ ہے۔ کیونکہ جمہوریت اور جوابدہی یا احتساب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اوران پر سختی سے عمل درآمد کیے بغیر جمہوری عمل کا خواب بے معنی ہوگا۔ ایک مضبوط مزاحمت کرنی ہوگی اُس بدعنوان اور کرپٹ طبقے کے خلاف جو سیاسی، قانونی اور انتظامی نظام کو بنیاد بناکر کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کو مضبوط بناتا ہے۔ لوگوں کو شخصیات کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کو فوقیت دینی ہوگی، اور اداروں کی بالادستی ہی سیاسی نظام کا حسن ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ، سیاست دان، حکمران طبقہ، پارلیمان، میڈیا، کاروباری طبقہ… سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست کو چلانے کے موجودہ طریقہ کار سے اس معاشرے کی کوئی خدمت نہیں ہوسکے گی۔ ہمیں اپنے موجودہ طرزِعمل اور حکمت عملی کو خود سے چیلنج کرنا ہوگا، اور ایک ایسی حکمت عملی کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی جو ہمیں نئے حالات اورنئے تقاضوں میں ایک جدید ریاست کی تشکیل میں مدد فراہم کرسکے۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے سے موجود روایتی اور فرسودہ حکمرانی کے نظام اور ریاستی طور طریقوں کو قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے چیلنج کریں، اور رائے عامہ کو بیدار کریں کہ ہمیں ایسے سماج کی تشکیل کرنی ہے جو سب کو معاشرے میں یکجا کرسکے۔ اور اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی کہ یہ سماج سب کا نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے اور اُن سے جڑے مفادات کا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ جب ریاست اور حکمرانی کا نظام عام لوگوں سمیت سب کے ساتھ کھڑا ہوگا تو پھر سماج بھی ریاست کے مفاد کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑا نظر آئے گا، وگرنہ پہلے سے موجود خلیج میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔
یہ سماج اعتدال پسندی، جدیدیت کے نئے تقاضوں اور دنیا میں حکمرانی کے نظام کو مربوط بنانے والے تجربات سے سیکھ کر اور اس پر چل کر ہی آگے بڑھ سکتاہے۔ مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت پر مبنی نظام ہی ہماری اوّلین ضرورت ہے۔ انتہا پسند رجحانات کو کمزورکرنا ہوگا اور ان کے مقابلے میں ترقی کے نئے متبادل بیانیہ کو طاقت دینی ہوگی۔ اس بیانیہ میں تعلیم کو فوقیت دینی ہوگی اور پورے تعلیمی نظام کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کی اصلاح کرنی ہوگی۔کیونکہ تعلیمی اداروں سے اٹھنے والی متبادل بیانیہ کی جنگ ہی ہمیں آگے لے کر جاسکتی ہے۔ ہمارے دانشور طبقات کو فکری محاذ پر ایک بڑی جنگ لڑنی ہے اور اس تاثر کی نفی کرنی ہے کہ متبادل نظام کے حوالے سے ہمارے اہلِ دانش کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں، یا یہ بھی طاقت ور طبقات کا حصہ بن کر تبدیلی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ بالخصوص یہاں شاعر، ادیب، لکھاری اوراستاد کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ہے اور سماج میں اس بیانیہ کو نئی طاقت دینی ہے کہ ہمیں ایک نیا نظام درکار ہے۔ پرانی قیادت ہمارے مسائل کا حل نہیں، ہمیں نئی قیادت بھی تلاش کرنی ہے اورنئے نظام کی جدوجہد کو بھی آگے بڑھانا ہے۔
ریاست کو بھی سمجھنا ہوگا کہ آزادیٔ اظہار رائے، اور فکری بنیادوں پر کام کرنے والے افراد اور اداروں کو آزاد کرکے ہی کسی نئے علم و فکر کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ تاثر کہ ریاست متبادل آوازوں کو دبانا چاہتی ہے، درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔ مربوط معاشرہ زندہ معاشروں کی مدد سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے سماج میں موجود تبدیلی کے حقیقی کارندوں کو تبدیلی کے لیے خود کو بھی منظم کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی ترغیب دینی ہوگی کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے آگے بڑھیں، کیونکہ منصفانہ سماج کی تشکیل میں سماج کو ان کی مدد اور حمایت درکار ہے۔ اس مدد اور حمایت کے بغیرمنصفانہ معاشرے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔