بلوچستان: مالی سال 2019-20ء کا بجٹ پیش

۔19 جون کو بلوچستان کے اگلے مالی سال 2019-20ء کا 419 ارب روپے سے زائد مالیت کا بجٹ پیش کردیا گیا۔بجٹ کے خاص اعداد و شمارپیش خدمت ہیں۔ بجٹ میں گریڈ ایک تا 16کے سرکاری ملازمین کے لیے 10فیصد،گریڈ 17 تا 20 کے افسران کے لیے5 فیصد ایڈہاک ریلیف، جبکہ کم سے کم تنخواہ کی حد17500روپے مقرر کی گئی ہے۔ بجٹ میں مجموعی طور پر48.208 بلین روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے ایک کھرب سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے سب سے زیادہ رقم تجویز کی گئی ہے۔ صحت، امن وامان، توانائی، آب پاشی کے لیے بھی خاطرخواہ رقومات رکھی گئی ہیں۔ محکمہ تعلیم، صحت، لیویز، پولیس اور محکمہ حیوانات میں مجموعی طور پر 3376 نئی اسامیاں تخلیق کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت نے صرف محکمہ تعلیم میں 15,998خالی اسامیوں کو میرٹ پر پُر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اگلے مالی سال کے لیے 5445 نئی اسامیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ صوبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بھی فروغ دیا جائے گا۔ صوبے میں پہلی دفعہ ہنرمند پروگرام کا اجراء کیا جارہا ہے جس کے لیے 250 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام سے صوبے میں 6 ہزار نوجوانوں کو جدید تکنیک اور مہارتوں سے ہنرمند کیا جاسکے گا۔ صوبے میں نوجوانوں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے مائیکرو فنانس کا ایک جامع منصوبہ شروع کیا جارہا ہے جس سے بے روزگار نوجوانوں کو بہترین روزگار کے مواقع میسر آسکیں گے۔ اس کے لیے 600 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبے میں پروفیشنلز کے لیے نئی اسامیاں پیدا کی جارہی ہیں۔
مالی سال 2019-20ء میں محکمہ ثانوی تعلیم کے لیے 1057 نئی اسامیاں تخلیق کی جارہی ہیں۔ موجودہ مالی سال میں 786 اسکولوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور واش رومز کی تعمیر کے لیے 500 ملین روپے خرچ کیے گئے۔ نئے مالی سال میں مزید 700 سے زائد اسکولوں کے لیے اس مقصد سے 700 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، اس کے علاوہ 123نئے پرائمری اسکول قائم کرنے،125اسکولوں کو پرائمری سے مڈل کا درجہ دینے، 94 مڈل اسکولوں کو ہائی، اور جہاں کالج کی تعلیم میسر نہیں وہاں 26 ہائیر سیکنڈری اسکول قائم کیے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت کتابوں کی چھپائی اور مفت فراہمی کے لیے 520 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ 500 ملین روپے کی لاگت سے وائوچر اسکیم کا اجراء کیا جارہا ہے۔ صوبے میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت سرگودین اسپرٹ ٹرسٹ اسکولز کے تحت جدید اسکولوں کے قیام کا منصوبہ بھی زیرغور ہے۔ حکومت ِبلوچستان آئندہ 3سال تک اس مد میں 450 ملین روپے کی امداد دے گی، اور مالی سال2019-20ء میں اس مقصد کے لیے 150ملین روپے مختص کیے جارہے ہیں، جس سے صوبے کے ہونہار طالب علموں کو بہتر تعلیم کے مواقع میسر آسکیںگے۔
لیویز اور پولیس فورسز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے 11 سو 50 نئی اسامیاں تخلیق کی جارہی ہیں، جس کے لیے 2.5 بلین روپے کا تخمینہ ہے۔
آنے والے مالی سال میں کمانڈ ایریا ڈویلپمنٹ کچھی کینال کے لیے 250 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ میرانی ڈیم کے متاثرین کے تمام واجبات جو کہ پچھلے 12 سال سے واجب الادا تھے، مالی سال 2019-20ء میں ادا کیے جائیں گے۔
حکومتِ بلوچستان ریکوڈک کیس International Arbitration) Tribunal)میں بھرپور انداز میں لڑ رہی ہے۔ 9.50 ملین روپے کی لاگت سے جیو ڈیٹا سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان منرل پالیسی 2019ء کے جامع ڈرافٹ کو حتمی شکل دی گئی ہے، جو بہت جلد نافذالعمل ہوگی۔
مالی سال 2019-20ء کے دوران شمسی توانائی کے ذریعے روشن بلوچستان پروگرام کے پہلے مرحلے کا آغاز کیا جارہا ہے جس کی لاگت کا تخمینہ ایک بلین روپے ہے۔ اس شعبے میں آنے والے مالی سال کے لیے غیر ترقیاتی بجٹ میں 14.704بلین روپے، جبکہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 86 نئی اسکیموں کے تحت 7.142بلین مختص کیے گئے ہیں جس میں سے 2019-20ء میں 2.610 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ گندم کی قیمت کو اعتدال پر رکھنے اور عام لوگوں کو سستے داموں گندم کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے اس سال گندم پر 1.675بلین روپے کی سبسڈی کی منظوری دی ہے جو پچھلی حکومتوں کے ذمے واجب الادا تھی، جبکہ مال سال 2019-20ء میں 1.310ملین روپے فوڈ سبسڈی کی مد میں رکھے گئے ہیں۔ آب پاشی کے شعبے میں صوبائی ڈیموں کی تعمیر کے لیے 5 سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ گوادر میں شنزانی کے مقام پر نئے ڈیم کی تعمیر کے لیے 5 سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ دریائے بولان کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بولان ڈیم کی تعمیر کے لیے 1.5 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس شعبے میں آنے والے مالی سال 2019-20کے لیے غیر ترقیاتی بجٹ میں 2.676بلین روپے مختص کیے ہیں جبکہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 9.098 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ہیڈ کوارٹر کوئٹہ کے قیام کے لیے 2 سو ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ شعبان ویلی میں سیاحتی مقام کی ترقی کے لیے 100ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 500ملین روپے کی لاگت سے نئی ماڈل ٹاونز نجی شراکت داری کے پائلٹ پروجیکٹ کا اغآز کیا جائے گا آنے والے مالی سال 2019-20ء کے دوران زیارت ٹاؤن کی ترقی کے لیے 500ملین روپے رکھے گئے ہیں اس شعبے میں آنے والے مالی سال 2019-20ء کے لیے غیرترقیاتی بجٹ میں 246ملین روپے مختص کیے ہیں جبکہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں3.663بلین روپے رکھے گئے ہیں۔
بلوچستان لائیو سٹاک پالیسی 2019ء کا اجراء کرنے جارہی ہے۔ بلوچستان عوامی ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا جائے گا جس کی لاگت کا تخمینہ 5300ملین روپے ہے ایک بلین کی لاگت سے سماجی بہبود اور غربت مٹاؤاتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا، کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکج کے تحت جوائنٹ روڈ، سبزل روڈتوسیعی پروگرام کے لیے 3بلین روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔ اور بروری روڈ،پٹیل روڈ،سریاب روڈ، پرنس روڈ،سرکی روڈ،نواں کلی بائی پاس، اہم لنگ روڈ،ایسٹرن بائی پاس جبکہ ہنہ اوڑک کے توسیع پروگرام پیکج کے تحت 8بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ ضلعی ڈویلپمنٹ پلان کے لیے 500ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔۔قومی مالیاتی کمیشن(NFC)میں بلوچستان کی کیس کو مربوط بنانے کے لیے این ایف سی سیکرٹریت کا قیام عمل میں لایا گیاہے۔
مالی سال2019-20ء کے اخراجات کے بجٹ کا کل حجم 419.922بلین روپے ہے اس طرح 2019-20ء کے لیے بجٹ خسارہ 48.208بلین روپے ہوگا۔آمدن وفاقی ٹرانسفر و صوبے کے اپنے محصولات 339.167،کیپٹل محصولات 10.080،فارن پراجیکٹ اسٹیٹنس 8.060،وفاقی ترقیاتی گرانٹس 14.906،ٹوٹل آمدن 372.213ہوگی جبکہ اخراجات کے ضمن میں اخراجات جاریہ257.435،کیپٹل اخراجات36.144،وفاقی ترقیاتی پراجیکٹس 18.210،وفاقی پراجیکٹس اسٹیٹنس 7.561کے ساتھ ٹوٹل اخراجات کا تخمینہ 419.922ارب روپے ہوگا۔ بجٹ تقریر کے دوران حزب اختلاف مسلسل احتجاج کرتی رہی۔بجٹ کاپیاں پھاڑ کر اچھالتی رہی۔بہر حال صوبائی وزیر خزانی ظہور بلیدی بجٹ تقریر کرتے رہیں۔حزب اختلاف اجلاس چھوڑ کر ایوان سے چلی گئی۔وہی اعتراض کے بجٹ عوام دوست نہیں ہے۔اور حزب اختلاف کے حلقہ ہائے انتخاب کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہر حال دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت کا یہ بجٹ کس طرح صوبے کے مفاد میں استعمال ہوگا۔