حزب اختلاف کے اکرم امام اوغلو کی کامیابی
استنبول میں رئیسِ شہر کا انتخاب حزبِ اختلاف کے اکرم امام اوغلو نے جیت لیا۔ انھوں نے صدر اردوان کی حکمراں جماعت انصاف و ترقی پارٹی یا AKPکے امیدوار بن علی یلدرم کو 8لاکھ ووٹوں سے ہرا دیا۔ استنبول جو پہلے قسطنطنیہ کہلاتا تھا، ترکی کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی و ثقافتی مرکز ہے۔ ابن بطوطہ نے پوری دنیا گھوم کر کہا تھا کہ ’’اگر دنیا ایک ریاست بن جائے تو قسطنطنیہ اس کا دارالحکومت ہوگا۔ آج کا استنبول ترکی کا چہرہ کہلاتا ہے۔ اس شہر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ، اور بلدیہ استنبول کا سالانہ بجٹ 9 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
بلدیات رجب طیب اردوان کی اصل قوت اور ان کی جماعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترک صدر نے بلدیاتی سیاست ہی سے تبدیلی کا آغاز کیا تھا جب وہ 1994ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے استنبول کے میئر کا عہدہ AKPکے پاس رہا ہے۔ گویا ربع صدی تک اعتماد کی بار بار تجدید کے بعد استنبول کے شہریوں نے AKP سے مایوسی کا اظہار کردیا۔
رجب طیب اردوان اور ان سے پہلے پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم نے بلدیات کے ذریعے عوامی خدمت کی نئی روایت قائم کی۔ لگن، اخلاص اور دیانت کے ساتھ گلی محلوں کی سطح پر عوامی مسائل کے حل نے عام لوگوں کو ان جماعتوں کی طرف مائل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کے دیہی علاقوں اور بڑے شہروں میں AKP بہت مقبول ہے اور بلدیاتی انتخابات میں اس جماعت کی کارکردگی ہمیشہ ہی بہت اچھی رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں استنبول سمیت چند بڑے شہروں میں میئر کی نشستوں پر شکست کے باوجود تمام بلدیات میں AKPکے کونسلروں کی اکثریت ہے۔ ترکی کے علاوہ مصر و یمن کی اخوان، تیونس کی النہضہ، الجزائر کے اسلامک فرنٹ نے بھی بلدیات کو اپنی پارلیمانی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان کا خیال ہے کہ خدمتِ عوام دعوت اور اجتماعی خیر کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے، اور بلدیات کے ذریعے گلی محلوں کے حقیقی مسائل پر توجہ دے کر قومی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموارکیا جاسکتا ہے۔
ترکی میں 31 مارچ کو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جس میں AKP نے قوم پرست مادرِ وطن پارٹی یا MHPکے علاوہ 3 چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر عوامی اتحاد تشکیل دیا، جبکہ حزبِ اختلاف قومی اتحاد کے نام سے سامنے آئی جس میں اتاترک کی پیپلز ری پبلکن پارٹی (CHP)، حزبِ خیر یا IYI پارٹی، سعادت پارٹی اور 12 چھوٹی جماعتیں شامل تھیں۔ کرد قوم پرست عوامی جمہوری پارٹی (HDP) اور امن و جمہوریت پارٹی (DBP) کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوئیں۔
ان انتخابات میں AKP نے اپنی برتری تو قائم رکھی لیکن ازمیر، انقرہ، اناطولیہ، ادانہ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں صدر اردوان کو حقیقی دھچکا استنبول میں لگا جہاں غیر سرکاری نتائج کے مطابق ری پبلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے امیدوار اکرم امام اوغلو AKP کے بن علی یلدرم کو 15000 ووٹوں سے ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ فرق مجموعی ووٹوں کے تناسب میں 0.16 سے بھی کم تھا۔ AKPنے الیکشن کمیشن کو دھاندلی و بے ضابطگیوں کی شکایت کی، اورکمیشن نے ایک ہفتے کی سماعت کے بعد نتائج کالعدم کرکے 23 جون کو دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دے دیا۔ اہلِ استنبول کوAKPکا رویہ پسند نہ آیا اور عام لوگوں نے انتخاب کالعدم کرنے کے فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین سمجھا۔
نئے انتخابات کے لیے مہم شروع ہوتے ہی CHPکے امیدوار اکرم امام اوغلو کی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور ان کے حامیوں میں خاصا جوش وخروش تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تفریح اور دوسرے کاموں سے باہر جانے والے ہزاروں افراد اپنی مصروفیات کو مؤخر کرکے صرف ووٹ ڈالنے کے لیے استنبول واپس پہنچے۔
انتخابات سے دو دن پہلے کالعدم کرد جماعتPKKکے رہنما عبداللہ اشلان کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انھوں نے کردوں سے استنبول کے انتخابات میں غیر جانب دار رہنے کی درخواست کی تھی۔ جناب اشلان بغاوت، غداری اور دہشت گردی کے الزام میں سزا بھگت رہے ہیں اور اُن کا یہ بیان جیل سے جاری ہوا۔ اردوان کے مخالفین نے اسے حکمران جماعت کی سیاسی چال قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ گرفتار رہنما سے یہ بیان زبردستی جاری کروایا گیا ہے۔ کردوں کی سیاسی جماعت HDP نے انتخابات میں حزبِ اختلاف کے اکرم امام اوغلو کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ محمد اشلان کے متنازع بیان کا منفی اثر ہوا اور HDPکے حامیوں نے مزید جوش و خروش سے اکرم اوغلو کے حق میں ووٹ ڈالا۔
میئر کے لیے امیدوار کے انتخاب پر بھی حکمراں جماعت میں اختلافات تھے۔ صدر اردوان نے بن علی یلدرم کی صورت میں بھاری بھرکم امیدوار میدان میں اتارا تھا۔ موصوف ترک صدر کے انتہائی قابلِ اعتماد بلکہ منہ چڑھے ساتھی ہیں، تاہم پارٹی کے حلقے اُن کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ صدر اردوان کی سرپرستی میں یلدرم صاحب برابر ترقی کرتے رہے۔ وہ 2002ء میںAKPکی حکومت قائم ہوتے ہی وزیر ٹرانسپورٹ بنائے گئے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصہ یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔
ترکی میں متناسب نمائندگی کا نظام ہے، اس لیے پارلیمانی انتخابات میں فرد کی کوئی اہمیت نہیں، اور پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں مختص ہوتی ہیں۔ یعنی انفرادی سطح پر ارکانِ پارلیمان کی صلاحیتوں کا امتحان نہیں ہوپاتا، چنانچہ اپنے قائد کے سائے تلے یلدرم صاحب پھلتے پھولتے رہے۔ ان کی قائدانہ لیاقت و صفات کی پہلی آزمائش اُس وقت ہوئی جب انھیں 2014ء کے بلدیاتی انتخابات میں ترکی کے تیسرے بڑے شہر ازمیر کے میئر کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا۔ جناب اردوان نے اپنے امیدوار کے حق میں زبردست مہم چلائی لیکن یلدرم 35.9 فیصد کے مقابلے میں 49.6 فیصد ووٹوں سے ہارگئے۔
انتخابات میں ناکامی کے باوجود اُن کے اقبال کا سفر جاری رہا اور وزارتِ ٹرانسپورٹ کے ساتھ جہازرانی و مواصلات کا قلمدان بھی انھیں سونپ دیاگیا۔ موصوف اس منصب پر 2016ء تک فائز رہے، جس کے بعد عبداللہ گل سمیت پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی مخالفت کے باوجود جناب اردوان نے انھیں وزیراعظم احمد دائود اوغلو کی جگہ AKPکا پارلیمانی قائد مقرر کرکے وزیراعظم بنادیا۔ 2018ء میں صدارتی نظام کے نفاذ پر جب وزیراعظم کا منصب تحلیل ہوا تو یلدرم صاحب قومی اسمبلی کے اسپیکر قرار پائے۔ ترک صدر کے اس فیصلے نے پارٹی کے سینئر رہنمائوں کو خاصا مایوس کیا۔ مالی بدعنوانیوں اور اقربا پروری کے حوالے سے بھی بن علی یلدرم پر کئی الزامات ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ بیرونی قرض بڑھنے اور ترک لیرا کے زوال کی بنا پر ملک کو افراطِ زر اور مہنگائی کا سامنا ہے۔ روزگار کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔ نوجوان ترک اردوان کا دست وبازو ہیں اور یہی طبقہ بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ حکمراں جماعت کا خیال تھا کہ 31 مارچ کے انتخابات میں خراب معاشی حالات، مہنگائی و بے روزگاری سے ناراض بہت سے حامی ووٹ ڈالنے نہیں آئے تھے، لیکن بڑے شہروں میں پارٹی کی شکست سے AKPکے حامیوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے اور وہ اس بار شکوہ شکایت بھلاکرووٹ ڈالنے ضرور آئیں گے۔ پارٹی کے ایک اندرونی جائزے کے مطابق تقریباً 4 لاکھ ووٹر ایسے تھے جو انتخابات کے دن گھر بیٹھ رہے تھے اور اِس بار انھوں نے ووٹ ڈالنے کا وعدہ کیا تھا۔
لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ووٹ ڈالنے کے تناسب میں اضافے کے باوجود بن علی یلدرم کو 31 مارچ کے مقابلے میں 2 لاکھ 36 ہزار ووٹ کم ملے، جبکہ CHPکے ووٹوں میں 5 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہوا، اور گنتی مکمل ہونے پر AKPکے 44.99 فیصد کے مقابلے میں 54.21 فیصد ووٹروں نے CHPکے اکرم امام اوغلو پر اعتماد کیا۔ استنبول کے 39 اضلاع میں سے صرف 11 اضلاع میں AKPکو برتری حاصل ہوسکی، اور بہت سے ایسے اضلاع میں بھی پارٹی اِس بار شکست کھاگئی جہاں سے منتخب ہونے والے کونسلروں میں AKPکو برتری حاصل ہے۔ ان انتخابات میں سعادت پارٹی کے امیدوار نجات گوجنار 0.55 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
AKPکو ہرانے والے اکرم اوغلو نے انتخاب تو CHPکے سیکولر ایجنڈے پر لڑا تھا، لیکن وہ کامیابی کی صورت میں استنبول کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے انتہائی پُرعزم ہیں۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند اوغلو صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام پر اردوان کا ٹھیکہ نہیں۔ استنبول عثمانی ثقافت کا قابلِ فخرسرمایہ ہے اور اس کے اسلامی تشخص کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ انھوں نے مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس ظلمِ عظیم پر جنرل السیسی کی کھل کر مذمت کی۔ خود CHP کے طرزِفکر میں بھی تبدیلی نوٹ کی گئی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات اس اعتبار سے بڑے منفرد تھے کہ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار CHP کے جلسوں میں ’حمدِ اتاترک‘ اور سیکولرازم کے فیوض و برکات کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا، اور نہ ہی اردوان کی ملاّئیت ہدفِ تنقید بنی، بلکہ حزبِ اختلاف کا سارا زور معیشت پر تھا جو آج کل شدید دبائو میں ہے۔ اسلامی شناخت کے بارے میں جناب اوغلو کے نظریات اور عزم سے اسلام پسندوں کا یہ خوف کچھ کم ہوا کہ استنبول سے اسلام پسندوں کے انتظامی کنٹرول کا خاتمہ شہر کے نظریاتی تشخص کو گہنا سکتا ہے۔
کامیابی کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے استنبول کے نومنتخب میئر نے تمام گلے شکوے بھلاکر وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اعلان کیا۔ اکرم امام اوغلو نے کہا کہ اختلاف اپنی جگہ، لیکن اردوان ترکی کے صدر ہیں اور استنبول اپنے صدر کے لیے اس کے شایانِ شان پروٹوکول کو یقینی بنائے گا۔ یلدرم صاحب نے AKP کی انتخابی مہم کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ بن علی کی مہم سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنے مخالف کے حوصلے سے وہ بے حد متاثر ہیں۔ انھوں نے وفاقی حکومت سمیت اپنے مخالفین کو یقین دلایا کہ انتخابات کے ساتھ ہی انتخابی مہم ختم اور سیاسی اختلافات قصہ پارینہ ہوچکے۔
قومی انتخابات 2023ء میں ہونے ہیں، لیکن استنبول میں شاندار کامیابی کے تناظر میں سیاسی پنڈتوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ چار سال بعد جناب اکرم امام اوغلو ہی CHPکے صدارتی امیدوار ہوں گے۔
استنبول کی شکست AKP اور جناب اردوان کے لیے ایک چشم کشا تجربہ ہے۔ بادی النظر میں ان انتخابات میں شکست کو قومی پالیسی پر عدم اعتماد کا مظہر نہیں قرار دیا جاسکتا، کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی ترجیح قومی انتخابات سے ذرا مختلف ہوتی ہے اور لوگ بلدیاتی پرچہِ انتخاب (بیلٹ پیپر) پر ٹھپہ لگاتے وقت نظریات، قانون سازی اور پالیسی کی تشکیل سے زیادہ گلی محلوں کے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ لیکن اتوار کو ہونے والے انتخابات میں ووٹروں نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ استنبول کے شہریوں نے 31 مارچ کا نتیجہ تسلیم نہ کرنے پر اردوان اور ان کی جماعت کو سزا دی ہے۔ جناب اردوان کو امید ہے کہ AKPکو شرمناک شکست کا مزا چکھاکر عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا۔
دوسری طرف اردوان کو خود اپنی جماعت کے رہنمائوں کی جانب سے سردمہری کا سامنا ہے۔ عبداللہ گل سمیت سینئر رہنمائوں کو شکوہ ہے کہ اہم تعیناتی سے قبل اعتماد میں لینا تو دور کی بات، اردوان اپنے رفقا سے مشورہ بھی نہیں کرتے۔ انھوں نے کسی سے مشورہ کیے بغیر اپنے داماد براک البیرات کو پہلے وزیر توانائی، اور اس کے بعد وزیر خزانہ کا قلمدان سونپ دیا۔ ان کے مخالف دامادِ اول ہی کو ترکی کے اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے یہ افواہ گشت کررہی ہے کہ جناب عبداللہ گل اور سابق وزیراعظم احمد دائود اوغلو AKP سے الگ ہوکر ایک نئی جماعت تشکیل دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں AKPکی شکست کے بعد سے ان کی جماعت کے کچھ اکابرین جناب طیب اردوان کو عملی سیاست سے علیحدگی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اتوار کی شکست کے بعد اس بازگشت میں شدت محسوس ہورہی ہے۔ جناب اردوان استنبول کے میئر، وزیراعظم اور صدر کی حیثیت سے گزشتہ 26 سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس عرصے میں انھوں نے ملک کی تعمیرنو اور نظریاتی تشخص کے لیے بلاشبہ بہت عمدہ کام کیا ہے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب CHP نے بھی سیکولرازم کے نعرے کو عملاً ترک کردیا ہے۔ ان کے بعض مخلص دوستوں کے خیال میں وقت آچکا ہے کہ جناب اردوان قیادت سے باوقار انداز میں سبک دوش ہوکر نوجوان سیاست دانوں کی تربیت پر توجہ دیں۔
……………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔