پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد
شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقے اپنے مخصوص رسم و رواج، زبان، رہن سہن، آبادی، سنگلاخ پہاڑی سلسلوں، برف پوش چوٹیوں، گلیشیرز، سرسبز وادیوں، دریائوں، جھرنوں اور تاریخ کے اعتبار سے منفرد مقام رکھتے ہیں اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ قطبین کے بعد برف کے وسیع ذخائر اور گلیشیر ان علاقوں میں واقع ہیں، اور ان کی برف پوش چوٹیوں کا شمار دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ آج ہم ایسے پہاڑی سلسلے اور اس کی وادیوں کی بات کرتے ہیں جن کے بارے میں معلومات کم ہیں، لہٰذا بہت کم ملکی اور غیر ملکی سیاح ان کی طرف کا رخ کرتے ہیں۔
گلگت سے تقریباً 40 کلومیٹر جگلوٹ کی طرف شاہراہ قراقرم پر آئیں تو راستے میں الٹے ہاتھ کی جانب دریائے سندھ کے ساتھ ایک انتہائی منفرد مقام آتا ہے جہاں ایک پلیٹ فارم بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان کے تین عظیم پہاڑی سلسلے یعنی ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش مل رہے ہیں۔ ایک عام انسان کے لیے تو ان میں تفریق کرنا ناممکن ہے، کیونکہ یہ ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں، مگر ماہر ارضیات اس جگہ سے ضرور لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ اس سے آگے عالم پل آتا ہے جو کسی زمانے میں دریا پار کرنے اور پہاڑی سلسلے میں داخل ہونے کے لیے استعمال ہوتا تھا، مگر آج اس سے مزید آگے ایک نیا پل بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے وقت کی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔
دریا کے دوسری طرف کے پہاڑی سلسلے اور اس کی وادیاں بارش کی قلیل مقدار کے باعث خشک علاقوں (Dry Temperate) میں شمار کی جاتی ہیں، جن کی ابتدا ریت کے بڑے بڑے تودوں سے ہوتی ہے جو صدیوں سے ریت کے اڑنے اور جمع ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں، ان کے ساتھ برفانی دور کے گلیشیرز نے بھی مختلف جگہوں پر اپنے اثرات چھوڑ دیئے ہیں۔ ان ٹیلوں پر قدرت نے جڑی بوٹیوں کی بے شمار اقسام پیدا کی ہیں جن میں Artemisia بہت اہم ہے اور مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے، مگر جڑ سے اکھاڑنے اور واضح پروگرام نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ یہ نوع اس علاقے سے ناپید ہی نہ ہوجائے۔ یہ ہندوستان میں ایک باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کرگئی ہے جس سے زرِمبادلہ کمایا جاتا ہے، اور اس کی افزائش کے لیے واضح پروگرام موجود ہے، لہٰذا اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ہم اگر کوئی اچھا کام شروع نہیں کرسکتے تو کم از کم اچھے کاموں کی تقلید ہی کرلیں، یہ بھی غنیمت ہوگا۔ سانپ کی طرح بل کھاتی اور مسلسل اونچائی کی طرف رواں دواں یہ سڑک ان وادیوں کے سب سے بڑے قصبے استور کی طرف جاتی ہے۔ یہ سڑک اتنی پتلی ہے کہ جیپ کے ٹائر بالکل کنارے پر محسوس ہوتے ہیں۔ ایک طرف بلند پہاڑ، دوسری طرف انتہائی گہرائی میں بہتا ہوا دریا اور اس کا شور۔ کلیجہ منہ کو کیسے آتا ہے اس کا تجربہ کرنا ہو تو اس علاقے کا سفر ضرور کیا جائے، اس کہاوت کی سچائی پر یقین آجائے گا۔ جیسے جیسے سڑک بلندی کی طرف بڑھتی ہے، پہاڑی علاقے میں نباتات کا اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ گو کہ اس علاقے کے پہاڑوں کی اونچائی اتنی نہیں ہے کہ ان پر برف زیادہ دیر رک سکے، مگر پھر بھی ان خشک پہاڑوں پر جگہ جگہ فاصلے پر صنوبر (Juniper) کے درخت نظر آتے ہیں۔
کسی زمانے میں یہاں گھنا جنگل ہوا کرتا تھا مگر آج کوئی بڑا درخت نظر نہیں آتا، صرف کم عمر کے چھوٹے درخت جو اکثر جھاڑیوں کی شکل میں ہیں، باقی رہ گئے ہیں، اور ان پر بھی حضرتِ انسان کی کلہاڑی مسلسل چل رہی ہے، نتیجے کے طور پر بے شمار قدرتی جھرنے اور چشمے اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ کمزور، بے سہارا، بے جان مٹی بارشوں کے دنوں میں جب اپنا وزن اور چٹانوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی تو جگہ جگہ سے پھسل کر ایک طرف سڑک کو تباہ کردیتی ہے تو دوسری طرف بہنے والے دریا میں مٹی کا اضافہ کردیتی ہے، جو آہستہ آہستہ ہمارے بنائے ہوئے آبی ذخائر کی عمر کم کرنے کا باعث ہوتی ہے، مگر ہم اب بھی کچھ سوچنے اور کر گزرنے کو تیار نہیں ہیں۔
جیسے جیسے ہم پانچ ہزار فٹ بلندی پر پہنچتے ہیں ان درختوں کے ساتھ ایک معاشی اور ماحولیاتی اہمیت کا درخت شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کو ہم چلغوزہ پائن کہتے ہیں۔ یہ درخت دریا کے کنارے وادیوں، ڈھلوانوں، اور حد تو یہ کہ چٹانوں کے کریکس تک میں اُگا ہوا نظر آتا ہے جس کا سلسلہ میلوں تک چلا گیا ہے، مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے ان کے علاقوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو صنوبر کے ساتھ کیا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسا درخت آج موجود ہو جس کی موٹائی 30 سینٹی میٹر سے زیادہ ہو۔ ماضی کے یہ گنجان جنگل اب تقریباً ڈھلوانوں سے اور وادیوں سے ختم ہوچکے ہیں، ہاں انتہائی چوٹیوں پر اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ چلغوزے کی قیمت پاکستان میں آسمان پر ہے، لہٰذا ہماری پوری کوشش ہے کہ یہ درخت بھی آسمان پر پہنچ جائے۔ قدرت کے عطا کردہ کم بارشوں کے علاقے میں یہ وہ نایاب باغات تھے جن کو ہم نے صرف اس لیے برباد کردیا کہ شاید یہ ہماری کسی محنت اور کوشش کے بغیر عطا کردیئے گئے تھے۔ جن لوگوں نے کیلی فورنیا کا چلغوزہ کھایا ہے صرف وہی لوگ ان علاقوں کے چلغوزے کی لذت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ آج بھی ان علاقوں کے جنگلات کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان علاقوں سے بیج جمع کرکے بارش کے موسم سے پہلے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پھینکا جائے تو چند برسوں کے مسلسل عمل سے ان کی افزائش دوبارہ شروع ہوسکتی ہے اور ہم آئندہ آنے والی نسلوں سے شرمندہ ہونے سے بچ سکتے ہیں، اور ان درختوں کی افزائش کو بڑھاکر قدرتی طور پر پانی کے ان ذخائر کو دوبارہ بحال کرسکتے ہیں جو تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ زمین کے کٹائو، بہائو، لینڈ سلائیڈنگ اور ڈیم میں جمع ہونے والی مٹی کو کم سے کم تر کرسکتے ہیں۔ ہر سال سیلابوں کی شدت اور سڑکوں کو ہونے والے نقصان کو محدود کرسکتے ہیں، ساتھ ساتھ چلغوزے کی برآمد سے لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس کام کو کرے گا کون اور کیوں کرے گا؟ اس میں اس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ بات سوچنے کی ہے۔ گلگت سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی چوٹیاں خاصی بلند ہیں اور ان پر جگہ جگہ گھنے سرسبز جنگلات کی باقیات نظر آتی ہیں، اکثر جگہوں سے ان وادیوں کے درمیان نانگا پربت کی برف پوش چوٹی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ 20 کلومیٹر مزید آگے تقریباً 7500 فٹ کی بلندی پر اس پہاڑی سلسلے کا سب سے بڑا قصبہ استور ہے۔ مری کے برابر اونچائی ہونے کے باوجود اردگرد کے پہاڑ اور وادیاں انتہائی خشک ہیں، جن پر جڑی بوٹیاں، جھاڑیاں اور کہیں کہیں پینسل دیودار (Juniper) کے ہی درخت اپنی داستانِ عبرت سناتے نظر آتے ہیں۔ اس علاقے کی زبان شینا ہے مگر اردو، پنجابی، پشتو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ وادیوں میں سیب، خوبانی، چیری، اخروٹ اور چلغوزے کی بہتات ہے، جب کہ آلو کی کاشت سب سے زیادہ کی جاتی ہے اور مختلف اطراف سے آنے والے گلیشیرز کے پانی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ پاکستان کے دوسرے شہروں اور علاقوںکی طرح اس قصبے کے تنگ بازاروں اور گلیوں میں بھی جابہ جا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور غلاظت نظر آتی ہے جس کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ جمع ہونے والا ڈھیر یا تو کشش ثقل کے اصول کے تحت، یا پھر بارش کے پانی کے زور سے قریب بہنے والے نالوں، ندیوں میں گرتا رہتا ہے۔ چونکہ بہتا ہوا پانی پاک ہوتا ہے لہٰذا اس سلسلے میں ہم کو زیادہ پریشانی یا غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا ہم نہیں کرتے ہیں۔ ان تنگ بازاروں میں چائے اور کھانے پینے کے بے شمار ہوٹل ہیں جہاں ’صفائی نصف ایمان‘ کا مظاہرہ شدت سے نظر آتا ہے، جو کہ سیاحوں کو ہماری انتظامیہ اور لوگوں کے حسنِ ذوق کا قائل ضرور کرتا ہوگا۔
استور میں 9کلومیٹر کے فاصلے پر اگر ہم مزید اوپر کی طرف جائیں تو نانگا پربت کے برف پوش پہاڑ کے سامنے شاید دنیا کی حسین ترین وادیوں میں ایک وادی راما (Rama) ہے جس کا نام ہندو مذہب کے ماننے والوں کے دیوتا رام کے نام پر صدیوں پہلے رکھا گیا ہوگا۔ اس مقام پر محکمہ جنگلات کا ایک خوب صورت ریسٹ ہائوس ہے۔پی ٹی ڈی سی نے بھی اپنا ریسٹ ہائوس جنگل کے ایک حصے کو صاف کرکے بنایا ہے۔ راما تک جانے کے لیے سڑک آج بھی انتہائی پتلی اور کچی ہے جو بارش کے دوران خطرناک ہوجاتی ہے، اور فوروہیل کی جیپ تک کے لیے وہاں پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ راقم کو پہلی مرتبہ 1973ء میں پاکستان کے پہلے اور آخری سائنسی Expedition کے دوران اپنی ٹیم کے لیڈر کی حیثیت سے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تھا، ریسٹ ہائوس سے پہلے تقریباً دو میل تک گھنے جنگل سے جوکہ بلیو پائن اور Spruce کے درختوں پر مشتمل تھا، گزرنا پڑتا تھا۔ تقریباً 8ہزار 5 سو فٹ کی بلندی پر واقع ریسٹ ہائوس کے سامنے فٹ بال کے گرائونڈ سے خاصا بڑا ایک کھلا میدان تھا جس پر سبزہ قالین کی طرح بچھا ہوا تھا، چاروں طرف ڈھلوانوں اور میدان میں گھنا جنگل، نانگا پربت کی برف پوش چوٹی، میدان میں بہتا ہوا صاف و شفاف پانی، سورج غروب ہونے پر وادی میں اندھیرا، مگر ڈھلتے سورج کی کرنوں کی وجہ سے آگ کی طرح چمکتی ہوئی برف پوش چوٹی جنت کے ایک ٹکڑے کا سا نظارہ پیش کررہی تھی۔ اس وادی میں ہماری ٹیم تقریباً 11بجے صبح پہنچی۔ ساتھی ریسٹ ہائوس میں چلے گئے اور میں اس میدان میں ایک پتھر پر بیٹھا اس وادی کے مناظر اور حسن کو اپنی آنکھوں اور روح میں سمانے کی کوشش کرتا رہا، اور اتنا محو ہوا کہ شام پانچ بجے ساتھیوں نے کھانے کے لیے مجھے آواز دے کر بلایا۔ ریسٹ ہائوس سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے برف پوش چوٹی کی طرف چلیں تو تین اطراف سے گھری ہوئی بلند برفانی چوٹیوں کے درمیان ایک جھیل ہے جو کسی طرح بھی جھیل سیف الملوک سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس کا پانی مکمل طور پر یا کم از کم اس کی اوپری سطح تک جم جاتا ہے، اردگرد کی ڈھلوانوں پر سلورفر، پائن اور Betula کے درخت پائے جاتے ہیں۔ Betula کے درخت ہمیں بتاتے ہیںکہ اس بلندی سے اوپر درختوں کی افزائش ممکن نہیں ہے۔
1986ء سے 1989ء تک راقم کو پھر اس علاقے میں جانے کا موقع ملا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب ریسٹ ہائوس سے پہلے جنگل کے بجائے آلو کے کھیت سے گزرنا پڑا۔ میدان میں پھیلا ہوا سرسبز اور دبیز قالین جیسا سبزہ جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا، قدرت کی عطا کردہ حسین وادی کا حسن بے دردی سے لوٹا گیا تھا۔ ریسٹ ہائوس کے سامنے بہنے والا پانی اب نالے کی شکل اختیار کرچکا تھا، میدان میں جابہ جا چٹانیں ابھر آئی تھیں، اکثر ڈھلوانوں کے درخت مکمل طور پر غائب ہوچکے تھے، برف پوش پہاڑ پر برف نہ ہونے کے برابر تھی۔ وادی کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، ایسا لگتا تھا کہ ایک پُرشباب حسین دوشیزہ اپنے بڑھاپے کے آخری دور میں داخل ہوگئی ہے۔ 2007ء میں استور جانے کا اتفاق ہوا، مگر اس وادی میں جانے کا دل نہ چاہا، شاید مجھ میں اس وادی کی تباہی اور بربادی کا منظر دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ زندہ قومیں اپنے ماحول کی حفاظت کس طرح کرتی ہیں اس سے متعلق ایک سچا قصہ بیان کرتا ہوں۔ نیوزی لینڈ میں اپنی تعلیم کے ابتدائی دور میں بی ایس سی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ایک دور دراز جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا، یہ مسافت ہم نے تین گھنٹے ویگن اور دو گھنٹے پیدل چل کر طے کی تھی۔ ہمارے پروفیسر نے ایک جنگلی پودا جڑ سے اکھاڑ لیا، طلبہ و طالبات نے اتنا شدید احتجاج اور سوالات کیے کہ ان کو آدھے گھنٹے کا لیکچر دینا پڑگیا۔ دوسری طرف کھانے کے دوران میں نے کیلے کا چھلکا ایک طرف اچھال دیا، ایک لڑکی خاموشی سے اٹھی اور مجھ سے بغیر کچھ کہے اُس نے وہ چھلکا اٹھا کر اپنے بیگ میں ڈال لیا، تاکہ واپس شہرآکر اس کو مناسب طریقے سے کوڑے دان میں ڈال سکے۔ میری شرمندگی بیان سے باہر تھی۔ مگر یہ پہلا اور شاید آخری سبق تھا جو میں نے سیکھا اور زندگی بھر یاد رکھا۔
استور شہر سے مزید آگے بڑھیں تو گوری کوٹ، گدائی اور داس کھرن کے قصبے آتے ہیں۔ دریا کے دونوں طرف ڈھلوانوں پر جگہ جگہ جنگلات کی باقیات اور سبزہ زار نظر آتا ہے۔ جہاں وادیاں ذرا چوڑی ہیں، مقامی لوگ کاشت کاری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ آلو کے علاوہ گندم، جو، مٹر اور مکئی کی کاشت کرتے ہیں۔ جنگلی اسٹرابری، رس بھری اور جنگلی گلاب عام ہیں۔ سوات کی طرح جابہ جا چشمے، جھرنے اور چھوٹی چھوٹی آبی گزرگاہیں نظر آتی ہیں۔ یہ وادیاں دراصل موسمیاتی اعتبار سے پاکستان کے خشک اور نم علاقوں کے درمیانی موسم کو ظاہر کرتی ہیں۔ زیادہ بلندی پر ہونے اور برف باری کے نتیجے میں پانی کی بہتات ہے، لہٰذا سبزہ بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ داس کھرن سے آگے ایک وسیع اور اہم آبادی چلم چوکی آتی ہے، یہاں غیر متعلقہ لوگوں کے آنے جانے پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس مقام سے ایک راستہ دنیا کے مشہور دیوسائی میدانوں کو جاتا ہے، جو سطح سمندر سے تقریباً 14ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر پائے جانے والے سرسبز میدان ہیں، جہاں درخت تو نہیں البتہ سیکڑوں اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ اس علاقے میں قدرتی جھیل بھی ہے۔ دنیا میں یہ اپنے بلند ترین میدانی علاقے اور برفانی ریچھ کی وجہ سے ایک انفرادی اور اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور سیاحوں کا مرکز بھی ہے، اس کو اب نیشنل پارک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ چلم چوکی کی ایک مشہور شخصیت غلام حیدر لون ولد محمد امیر لون سے ملاقات ہوئی جوکہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی تنظیم کے صدر اور اس علاقے میں کشمیر کے معاملات کے ترجمان بھی ہیں، شمالی علاقہ جات کے اس حصے میں 1947ء میں ان کے خاندان نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے میں بڑی خدمات انجام دیں، جس میں ان کے دادا دلدار عبدالرحیم لون اور نانا نمبردار محمد نبیر لون اس علاقے کے غیور اور بہادر نوجوانوں میں پیش پیش تھے، ان کے خاندان نے تین جنگوں میں دفاعِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا، یہ علاقے کی ترقی میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس علاقے میں اسکائی لینڈ اور ڈزنی لینڈ کی طرز پر سیاحت کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کے اس دور میں یہ 200 کینال زمین دینے کو تیار ہیں اگر اس کو ماحولیات، جنگلی حیات، جنگلات، تفریح اور عوام کے لیے استعمال کیا جائے۔ کاش ہمارے ملک کے دوسرے افراد بھی اس کی تقلید کرسکیں۔
اس علاقے میں پہاڑوں کے چاروں طرف گھنے جنگلات نظر آتے ہیں۔
کٹائی کا عمل دوسرے علاقوں کی نسبت کم مگر منسلک وادی میں جنگلات کی تباہی کا عمل اپنے عروج پر ہے۔ مقامی آبادیوں کے علاوہ ان جنگلات کی تباہی کے ذمے دار خانہ بدوش خاندان ہیں جو گرمیوں کے موسم میں اپنے سیکڑوں مویشیوں اور کلہاڑیوں کے ساتھ ان علاقوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، یہ ان بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں جو اپنی مٹی میں ہزاروں مکعب میٹر پانی کا نہ صرف ذخیرہ کیے ہوئے ہیں بلکہ اس کو چھان کر آہستہ آہستہ زیر زمین پانی کے ذخائر، چشموں، جھرنوں میں خارج کرتی رہتی ہیں اور سیلابوں کو روکنے کا باعث ہوتی ہیں، مگر ان خانہ بدوشوں کی بدولت یہ ذخائر انتہائی تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ ان کو سوکھی لکڑی چننے کا اختیار ہے، لہٰذا یہ سرسبز جھاڑیوں کو کاٹ کر اسی مقام پر چھوڑ دیتے ہیں اور سوکھنے پر جمع کرلیتے ہیں۔ ان کے جانوروں کے سخت کھروں کی وجہ سے ایک طرف زمین سخت ہورہی ہے تو دوسری طرف نوخیز پودوں کے کچلے جانے کی وجہ سے ان کی افزائش متاثر ہورہی ہے۔ پودوں کی تباہی سے مٹی اور پتھر ابھر آتے ہیں اور مٹی کا کٹائو شروع ہوجاتا ہے۔ ان علاقوں کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے عوامی، مقامی اور حکومتی سطح پر انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ مستقبل کے پانی کے وسائل کا انحصار ان ہی علاقوں کی سلامتی پر ہے۔ ان وادیوں میں پائن کے خوب صورت ترین اور گھنے جنگلات ہیں۔
منی مرگ سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر کامری کا ایک خوب صورت قصبہ ہے، جہاں دریا کے دونوں طرف ڈھلوانوں پر صنوبر کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ یہاں سے چند میل آگے شمالی علاقہ جات کی حدود ختم ہوجاتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کی حدود شروع ہوتی ہے۔ سامنے بلند پہاڑ کی چوٹی پر ہندوستانی فوج کی چوکی بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ سلام ہے ان مقامی لوگوں اور جوانوں پر، جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس سے کچھ آگے سرحدی حدود کے ساتھ ساتھ کیل کا مقام ہے جہاں سے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے اس حسین خطے سے گزر کر احساس ہوا کہ کاش غلام حیدر لون کی کوششیں اور خواب پورا ہو اور یہ علاقہ بھی ترقی کرے، یہاں آنے جانے کی سہولت ہو، یہاں بھی سیاحوں کی آمد ہو۔ میں سوچتا رہا، میں نے دیکھا کہ میں اس علاقے کے حسن اور نظاروں سے لطف اندوز ہونے دوبارہ یہاں آیا ہوں، میں پتلی پتلی کچی پکی سڑک سے گزر رہا ہوں، جس کے دونوں طرف گندی، غلیظ، پتھر کے دور کی سی دکانیں ہیں، سبزیوں، پھلوں، مرغی اور گوشت کی باقیات کا ڈھیر ہے، جس سے تعفن اٹھ رہا ہے، ہزاروں مکھیاں ان دکانوں کے شیلف سے چپکی ہوئی ہیں۔ چائے، کباب، پکوڑے اور کھانے کے ہوٹل ان ہی دکانوں کے درمیان ہیں، جہاں سڑک سے دھول اور دھواں اٹھ کر ان چیزوں پر تہ بہ تہ بیٹھا ہوا ہے۔ ہوٹل کے ملازم کے کندھوں پر ایک میلا کچیلا تولیہ ہے، جس سے وہ پلیٹ اور میز صاف کررہا ہے۔ صاف شفاف پانی کے جھرنوں کے عین کنارے دکان اور ہوٹل ہیں جن سے پینے کا پانی جگ میں آرہا ہے تو دوسری طرف کچرا اور غسل خانوں کی نکاس بھی اس بہتے ہوئے پانی میں ہے۔ لوگ اپنی گاڑیاں اسی پانی میں دھو رہے ہیں۔ یہ علاقہ کافی ترقی کرچکا ہے، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا مرکز بن چکا ہے، اچانک ایک دکاندار نے اپنے برتن صاف کرکے اس کا گندا پانی سڑک پر اچھال دیا، میں نے اس سے بچنے کی ناکام کوشش کی اور میری آنکھ کھل گئی، اور اس علاقے کو ترقی یافتہ دیکھنے کی حسرت دل سے نکال دی۔ اب میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے پروردگار جب تک ہمارا جمالیاتی ذوق اور عادات بدل نہ جائیں اس حسین خطے کو جتنا ممکن ہوسکے، ہماری پہنچ سے دور رکھ۔ آمین