عالم اسلام اور امتِ مسلمہ کے عظیم رہنما، اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے مصر کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی(وہ آخری وقت تک اپنے آپ کو قانونی صدر کہتے تھے) کو شہید کردیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ دکھ، درد اور غم پوری امتِ مسلمہ کے عوام کا یکساں ہے۔ محمد مرسی پیر کو قاہرہ کی ایک عدالت میں پیشی کے لیے آئے تھے۔ وہ قاہرہ میں فلسطینی جماعت حماس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے جاسوسی کے ایک مقدمے کی کارروائی کے دوران میں عدالت سے خطاب کرنے کے فوراً بعد گرگئے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ محمد مرسی کو قید کے دوران صرف تین بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی، جبکہ انھیں ان کے وکیل اور ڈاکٹر سے ملنے نہیں دیا گیا۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے محمد مرسی کی موت کو ’قتل‘ قرار دیا ہے۔ ماضی میں برطانوی رکن پارلیمنٹ کریسن بلنٹ کی سربراہی میں قانون دانوں کے ایک پینل کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ ’’ڈاکٹر مرسی کو 23 گھنٹے روزانہ قیدِ تنہائی میں رکھا جارہا ہے۔ سابق صدر کو سیمنٹ کے سلیب پر سونا پڑتا ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران صرف ایک بار اپنے اہلِ خانہ سے اُن کی ملاقات کرائی گئی ہے‘‘۔ بین الاقوامی قانون دانوں کے پینل نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’’مسلسل اذیت، کمزوری اور ناکافی طبی سہولیات کے باعث ڈاکٹر مرسی کسی بھی وقت موت کے منہ میں جا سکتے ہیں‘‘۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہیں ایک منصوبے کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے اور قیدِ تنہائی میں کھانے اور دوائوں سے محروم تھے، اس لیے ان کی شہادت غیرمتوقع نہیں تھی۔ انہیں مسلسل اذیتوں میں مبتلا کرکے موت کی جانب دھکیلا گیا ہے۔ جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان کو زہر دے کر مارا گیا ہے۔ مصر کے فوجی آمر نے بین الاقوامی اور علاقائی مسلمان دشمنوں کی حمایت اور پشت پناہی کے ساتھ جمہوری صدر محمد مرسی کو جھکانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ جھکےنہ دبے اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ محمد مرسی کے یہ الفاظ رہتی دنیا تک آمروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف اعلانِ حق کے طور پر یاد رکھے جائیں گے: ’’ہمارا مقصد حیات اللہ ہے۔ ہمارے لیڈر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمارا آئین قرآن ہے۔ جہاد ہمارا راستہ ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر جان دینا ہماری سب سے عزیز خواہش ہے‘‘۔ مرسی کی شہادت اخوان المسلمون کے سربراہ حضرت حسن البناؒ کی شہادت کا تسلسل ہے۔ اُنہیں فوج کی نگرانی میں والد نے ایسے دفن کیا تھا کہ گھر میں کاندھادینے والا کوئی مرد نہیں تھا اور دوسرا کوئی خوف کی وجہ سے ہاتھ لگانے کو تیار نہیں تھا ۔مرسی کو بھی فوج کی نگرانی میںمنگل کے روز علی الصبح دارالحکومت قاہرہ میں سپرد خاک کر دیا گیا ان کی اہلیہ کو چہرہ نہیں دکھایا گیا۔ صرف دو بیٹوں کو اجازت دی گئی۔ اس طرزعمل پر ان کی اہلیہ بیگم نجلا مرسی کا کہنا تھا کہ ’’میں میت کے لیے ظالموں کی منت کرکے اپنے شوہر کو شرمندہ نہیں کروں گی‘‘۔ بیٹے احمد مرسی کا کہنا تھا کہ ’’باپ کی تدفین کے لیے السیسی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ اللہ کے حضور ملاقات تک صبر کرسکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر عالمِ اسلام میں سوگ کی فضا ہے، پورے پاکستان میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی اپیل پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ محمد مرسی کیونکہ فلسطین اور فلسطینیوں کے لیے بڑے پُرجوش تھے اور یہی ان کا اصل جرم بھی ٹھیرا، اور یہی وجہ ہے کہ غزہ میں سوگ کا سماں رہا، بتیاں بجھا دی گئیں، گھروں سے سسکیوں کی آوازیں آتی رہیں۔ فلسطینیوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ یتیم ہوگئے ۔ لیکن دوسری طرف مغرب اور امریکہ پہلے سے زیادہ سفاکی اور چالاکی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں، جبکہ مسلم ممالک کے موروثی، سیاسی اور فوجی حکمران اپنے اقتدار کو بچانے اور وقتی مفادات کے لیے مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ وہ غلام بنے ہوئے ہیں اور ان ہی کے اشاروں پرناچ رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم بھی ظالم السیسی کو پاکستان آنے کی دعوت دے چکے ہیں، لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پہلے بھی غاصب السیسی سے ملنے سے انکار کیا تھا اور اب پھر محمد مرسی کی موت کا الزام مصر کے ’غاصبوں‘ پر عائد کیا ہےاور مرسی کو اپنا شہید بھائی قرار دیا ہے۔ مصری انقلاب کا آغاز تحریر اسکوائر پر 2011ء میں ہوا تھا، جب مصری عوام حسنی مبارک کے 30 سالہ جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ محمد مرسی باقاعدہ انتخابات کے بعد جمہوری طریقے سے حکومت میں آئے تھے، اور30 جون 2012ء میں انہیں اقتدار ملا تھا۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر مغرب اور اسرائیل کے اشارے اور عرب ممالک کی آشیرباد سے فوج نے جولائی 2013ء میں ان کا تختہ الٹ دیا اور جنرل السیسی مسلط ہوگئے۔ صدر اور وزراء کو گرفتار کیا گیا، اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو شہید کیا گیا اور لاکھوں کو جیل میں ڈال کر اذیتیں دی گئیں، اور یہ تمام جرائم اب بھی جاری ہیں۔ مغرب نے ہمیشہ یہ کہا کہ اسلامی تحریکیں انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن مغرب نے اپنی جمہوریت کا جنازہ صرف مصر میں نہیں نکالا بلکہ اس سے قبل الجزائر کے اسلامک فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تو الجزائر کی فوج نے انتخابات کے دوسرے مرحلے سے پہلے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا، اسلامک فرنٹ کی قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا، پھر 20 سال میں دس لاکھ سے زیادہ الجزائری باشندوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سوڈان میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی، یعنی اسلامی تحریکوں نے کئی ممالک میں جمہوری طریقے سے کامیابی حاصل کی، لیکن ان کی کامیابی کو قبول نہیں کیا گیا۔ مغرب، امریکہ مسلمانوں سے اتنے خوف زدہ ہیں کہ کسی صورت میں انہیں اسلامی تحریکں قبول نہیں ہیں۔ جمہوریت اور امن کو اگر سرِعام رسوا کیا ہے تو وہ خود مغرب اور اُس کی چنگیزیت نے کیا ہے، اس کے تاریخی ظلم نے کیا ہے۔ یعنی مسلمان یا اسلامی تحریکیں تو چاہتی ہیں کہ جو معیار مغربی دنیا کا ہے تبدیلی لانے کا، اُسی کے مطابق تبدیلی لائیں۔آخر مغرب اور امریکہ چاہتے کیا ہیں؟ شاید اقبال نے مغرب کی جمہوریت کو پہچان کر اس کی صحیح تشخیص کی تھی اور جمہوریت کی حقیقت ان الفاظ میںبیان کرتے ہوئے کہا تھا:
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
مرسی کی مظلومانہ شہادت عالم اسلام کے لیے یقینا بہت بڑا صدمہ اور ناقابلِ فراموش اور کربناک حادثہ ہے۔ وہ تو شہید ہوکر بامراد ہوئے اور حیاتِ جاویداں سے سرفراز ہوگئے ہیں۔ قرآن نے ایسے لوگوں سے متعلق ہی کہا ہے کہ ’’بل احیاء عند ربھم یرزقون‘‘ترجمہ: ”وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق پا رہے ہیں“۔ امتحان تو درحقیقت اب ہمارا ہے، اسلامی تحریکوں کی قیادت کا ہے کہ ہم کس طرح اُن کے پیغام اور مقصد کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مغرب کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر کس طرح مربوط حکمت عملی بناتے ہیں۔ دوسری طرف ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مغرب نے اپنا طرزعمل نہیں بدلا تو مسلم دنیا کے نوجوانوں میں مایوسی بڑھے گی اور کہیں ایسا نہ ہوکہ دنیا کسی بڑی اور ہولناک جنگ کی طرف بڑھ جائے، اور اگر ایسا ہوا تو اس کی وجہ صرف خوف کے شکار مغرب کی دہشت گردانہ مسلمان دشمن پالیسی اور اقدامات ہوں گے۔
(اے اے سید)