بھارت کی داخلی جمہوریت، سرمایہ اور مجرمانہ سیاست

کارپوریٹ جمہوریت، حقیقی جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ بن گئی ہے

یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام اپنی افادیت کے باوجود دنیا بھر میں ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان ایک خلیج اور بداعتمادی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ جمہوریت کے مقابلے میں کوئی اور نظام چاہتے ہیں، بلکہ لوگ حقیقی، منصفانہ اور شفاف جمہوریت کے نظام کو سیاسی نظام میں بالادست دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ حقیقی جمہوری نظام آہستہ آہستہ محروم اورکمزور طبقات کے مفادات سے دور چلا گیا ہے جو جمہوری ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ جمہوریت کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اول داخلی جمہوریت، اور دوئم خارجی جمہوریت۔ اس سے جڑے مسائل کو بنیاد بنا کر ہم جمہوری نظاموں کا بہتر طور پر تجزیہ کرسکتے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے جڑے مسائل کا تجزیہ کرتے وقت خارجی مسائل پر زیاد ہ ماتم کرتے ہیں جبکہ جمہوریت سے جڑے داخلی مسائل کو نظرانداز کرکے مسئلے کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔
حال ہی میں بھارت میں عام انتخابات ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور اس خطے کے یہ سب سے بڑے انتخابات ہوتے ہیں اور ان کے نتائج اور طرزعمل کا براہِ راست اثر ہمارے جیسے کمزور جمہوری نظاموں پر بھی پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں اہلِ دانش کی سطح پر رائج جمہوری نظاموں پر تفصیل کے ساتھ تحقیق اور مباحثہ ہورہا ہے اور ایسے پہلوئوں کو سامنے لایا جارہا ہے جو جمہوری نظاموں کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اگر اس کا ادراک جمہوری نظاموں کو چلانے والوں میں ہیں تو وہ ایسے کیا اقدامات کررہے ہیں جو حقیقی جمہوریت کے عمل کو یقینی اور مضبوط بناسکیں۔
دو اہم نکات حالیہ بھارتی انتخابات کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ یہ نکات محض بھارت کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی جمہوری نظاموں میں یہ مسائل بدستور مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ ان مسائل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، انتخابات میں اٹھنے

والے اخراجات جو اربو ں ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ دہلی میں موجود سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے مطابق حالیہ 2019ء کے انتخابات میں تقریباً 7ارب ڈالر کا خرچہ ہوا ہے، جبکہ 2014ء میں یہ خرچہ 5 ارب ڈالر اور2009ء میں 2 ارب ڈالر تھا۔اس پر آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے رکن نرنجن ساہو کے مطابق ہماری سیاست، جمہوریت اور انتخابات میں پلوٹو کریسی (یعنی دولت کی طاقت) کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور سیاست سمیت انتخابات میں ہونے والی بے قابو سرمایہ کاری نے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونا شروع کردیا ہے۔ حالیہ بھارتی انتخابات میں 543میں سے 475 منتخب ارکان اسمبلی ایسے ہیں جو کروڑپتی اورارب پتی ہیں جو کہ اس پارلیمنٹ کا85 فیصدبنتے ہیں۔جبکہ 2014ء میں ان ارکان کی تعداد 443تھی جو کہ 82فیصد تھے، اور 2009ء میں 315افراد یا ارکان اس فہرست میں شامل تھے جو کہ 58فیصد بنتے تھے۔
دوسرا مسئلہ جرائم پیشہ افراد کی بھارتی پارلیمنٹ میں موجودگی ہے۔ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے مطابق حالیہ انتخابات میں 40فیصد افراد ایسے ہیں جو مختلف جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، مگر پارلیمنٹ کے رکن بھی بنے ہیں۔ یہ 40فیصد وہ لوگ ہیں جو جیت کر آئے ہیں، اور جو ہار گئے ہیں ان کی تعداد الگ ہے۔ان جرائم میں قتل، ڈکیتی،لوٹ مار،زیادتی سمیت دیگر جرائم سرفہرست ہیں۔اسی طرح موجودہ 543کی پارلیمنٹ میں 233ارکان ایسے ہیں جن پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں۔ بھارت کے انتخابی قوانین اس سنگین مسئلے پر بے بس یا لاچار نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول یہ کام محض الیکشن کمیشن نہیں کرسکتا جب تک کہ خود سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کو ٹکٹ دینے سے گریز نہیں کریں گی۔بی جے پی کے 303ارکان جو جیتے ہیں ان میں سے116پر مقدمات ہیں،جبکہ کانگریس کے 52ارکان میں سے 29پر مقدمات ہیں۔صرف کیرالہ سے جیتنے والے ایک رکن پر204مقدمات ہیں۔جبکہ 26ارکان ایسے ہیں جو بھارت کی نئی کابینہ کا حصہ ہیں جن پر سنگین مقدمات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت ایک مخصوص طبقے کا نام ہے؟ اور اس میں عام افراد کی شرکت محض ووٹ ڈالنے، انتخابی مہم چلانے یا سیاسی کارکن بننے تک محدود ہے؟کیونکہ جب جمہوریت طبقاتی نظام کا حصہ بنے گی تو یہ طاقتور طبقات کے مفادات کے گرد ہی گھومے گی اور عام آدمی کا استحصال ہوگا۔ سیاست کو منافع بخش سمجھنے اور جرائم پیشہ افراد کے سیاست پر کنٹرول نے جمہوری نظام کی شکل ہی بگاڑ دی ہے۔ پڑھے لکھے، قابل اور باصلاحیت افراد اس جمہوری نظام سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ان کے لیے سیاست کے راستے مسدود ہوگئے ہیں۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے عملاً سیاست کو اپنے کنٹرول میں
لے لیا ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کی بڑی وجہ دولت کا بے تحاشا استعمال اور بڑے کاروباری طبقات کی حمایت کا ہونا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس کانگریس کو کاروباری طبقات کی وہ حمایت اور دولت حاصل نہ تھی جو بی جے پی کو ملی۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں نامعلوم کاروباری افراد کی مالی امداد پر انحصار کرتی ہیں اورکوئی جواب دہی نہیں ہوتی کہ یہ پیسہ کون دے رہا ہے اور کیا مفاد ہے؟
جب سیاست اور جمہوریت بغیر کسی اصلاحات کے آگے بڑھیں گی اور سیاست میں پہلے سے موجود اخلاقی و سیاسی معاملات کو پسِ پشت ڈالا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہی کچھ ہوگا جو ہمیں اس وقت نظر آرہا ہے۔ ان میں ایک مسئلہ میڈیاکا بھی ہے جو لوگوں کو اصل حقائق بتانے کے بجائے اپنے کاروباری مفادات کے تحت وہی کچھ دکھاتا ہے جو ان طاقتور طبقات کے مفاد کے قریب ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں تک اصل حقائق نہیں پہنچتے، اور ایک منفی مہم کی بنیاد پر کسی کی حمایت اورمخالفت کرکے عملاً سیاست اور جمہوریت کو کمزور کیا جاتا ہے۔ اگر جنوبی ایشیا سمیت اس خطے کی جمہوریت میں یہ دو بڑے بگاڑ مضبوط ہوگئے ہیں تو ہمار ے جیسے کمزور ملکوں میں جمہوری نظام اور زیادہ بگاڑ کا شکار نظر آئے گا۔ منافع کی بنیاد پر چلنے والی جمہوریت جسے آج کل دنیا میں کارپوریٹ جمہوریت کا نام دیا جارہا ہے، حقیقی جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نزدیک کارکن کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل طاقت دولت مند طبقہ ہے جو پارٹی کے لیے اثاثہ اور طاقت بنتا ہے۔
اب جب ہم یہ دلیل دیتے ہیں کہ سیاست میں اصلاحات لانی ہیں اور داخلی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟کیونکہ جن لوگوں کے پاس اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت ہے وہ خود ان بڑے بڑے کاروباری طبقات کے ہاتھوں سیاسی طور پر یرغمال بن گئے ہیں۔ اس لیے بھارت سمیت دنیا بھر کے جمہوری نظاموں کو اپنے داخلی معاملات میں ایک بڑی مزاحمت اور مؤثر تبدیلی درکار ہے۔ یہ کام ایک بڑی سیاسی، انتظامی اور قانونی تحریک، سیاسی جدوجہد اور عملی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں۔ کیونکہ موجودہ جمہوریت میں سب سے زیادہ استحصال عوام اور محروم اورکمزور طبقات کا ہورہا ہے جو سیاسی نظام میں یرغمال ہیں اور ان کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کی ترقی اور خوشحالی محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اس پر سنجیدہ غور وفکر اور عملی جدوجہد کی ضرورت ہے۔