اگر صدر مرسی مسلم دنیا کے جرنیلوں، بادشاہوں اور نام نہاد سیاسی رہنمائوں کی طرح مغرب کا غلام بننے کا ہنر سیکھ رہے ہوتے تو ان کی حکومت اب تک اقتدار میں ہوتی اور صدر مرسی کو امن کا نوبیل انعام مل چکا ہوتا
جنرل سیسی کی قیادت میں کام کرنے والی مصر کی ریاست نے صدر مرسی کو حراست میں قتل کردیا ہے۔ لیکن یہ صرف ریاستی قتل نہیں ہے۔ یہ علاقائی قتل بھی ہے اور بین الاقوامی سطح کا قتل بھی۔ ان حقائق کے دلائل یہ ہیں۔
صدر مرسی آج بھی آئینی اعتبار سے مصر کے صدر تھے کیونکہ انہیں جنرل سیسی نے ایک فوجی بغاوت کے تحت برطرف کرنے کی سازش کی تھی، اور مصر کے آئین میں اسی طرح فوجی بغاوت کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں جس طرح پاکستان کے آئین میں فوجی بغاوت کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں۔ چنانچہ جنرل سیسی کا اقدام غیر آئینی اور غیر جمہوری تھا، مگر ہماری انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی میں ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کا اصول رائج ہے۔ چنانچہ جنرل سیسی نے ملک کی سیاسی جماعتوں اور مصر کی عدلیہ کو ’’Manage‘‘ کرلیا۔ لیکن یہ ’’Management‘‘ بھی مضحکہ خیز تھی۔ صدر مرسی پر ’’دہشت گردی‘‘ کا مقدمہ قائم کیا گیا` حالانکہ دہشت گرد جنرل سیسی تھا۔ صدر مرسی پر ’’جاسوسی‘‘ کا مقدمہ قائم کیا گیا،حالانکہ جنرل سیسی امریکہ کا جاسوس نہیں بلکہ اُس کا ایجنٹ ہے۔ صدر مرسی کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا
کہ صدر مرسی تین بیماریوں ذیابیطس، جگر اور گردے کے امراض میں مبتلا تھے اور انہیں مناسب طبی سہولتوں کی ضرورت تھی، مگر جنرل سیسی کی قیادت میں کام کرنے والی مصر کی ریاست نے صدر مرسی کو مناسب طبی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا۔ حالانکہ یہ سہولتیں عام اور خطرناک مجرموں کو بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر میاں نوازشریف کا کرپٹ اور غدار ہونا ثابت ہے۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ میاں شہبازشریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر کام کررہے تھے۔ اس کتاب کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا مگر شریفوں نے نہ اس الزام کی تردید کی اور نہ جنرل درانی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل درانی کا دعویٰ سچا ہے۔ میاں صاحب کی کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ان کا پورا خاندان کرپٹ ہے، مگر میاں نوازشریف جیل جاتے ہیں تو اچانک بیمار ہوجاتے ہیں، اور ایک پورا بورڈ اُن کی صحت کے لیے قائم کردیا جاتا ہے۔ مگر صدر مرسی کو مناسب دوائیں بھی دستیاب نہ تھیں، حالانکہ برطانیہ کے تین منتخب اراکین نے بھی مصر کی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی۔ صدر مرسی کی صحت اتنی خراب تھی کہ مشرق وسطیٰ کے لیے ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کی ڈائریکٹر سارہ وائٹسن نے صاف کہا ہے کہ صدر مرسی کی موت ’’Terrible‘‘ مگر مکمل طور پر ’’Predictable‘‘ ہے۔ صدر مرسی کے عزم کو توڑنے کے لیے انہیں 24 گھنٹوں میں سے 23 گھنٹے ’’قیدِ تنہائی‘‘ میں رکھا جاتا تھا۔ اُن کے اہلِ خانہ کو گزشتہ 6 سال میں صرف تین بار اُن سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔ جنرل سیسی اور ان کے علاقائی اور مغربی آقا صدر مرسی اور اخوان المسلمون کے ’’عزم‘‘ کو تو کمزور نہ کرسکے مگر صدر مرسی کے جسم نے مزید تشدد اور جبر برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ صدر مرسی پر تشدد کی بات محض قیاس آرائی نہیں بلکہ فرانس کے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جو رپورٹ روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہوئی ہے، اس کا یہ فقرہ بڑا اہم ہے:
“He arrived at the hospital dead at 4:50 PM exactly end there were no new visible injuries found on the body”
اس فقرے کے مطابق صدر مرسی کو اسپتال لایا گیا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا اور ڈاکٹروں کو ان کے جسم پر زخم کا کوئی نیا نشان نہیں ملا۔ یعنی ان کے جسم پر زخموں کے کچھ پرانے نشان موجود تھے۔ اس سے اس اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ جنرل سیسی کی ریاست نے صدر مرسی کو نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی تشدد کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی قسم کے جسمانی تشدد سے بھی گزارا۔ اس اعتبار سے صدر مرسی کا قتل سو فیصد ریاستی قتل ہے۔
صدر مرسی کا قتل اس لیے ’’علاقائی قتل‘‘ ہے کہ جنرل سیسی نے آئین اور جمہوریت کو پامال کرتے ہوئے صدر مرسی کو اقتدار سے ہٹایا تو قطر کے سوا تمام عرب ریاستوں نے اس اقدام کو سراہا۔ نہ صرف یہ بلکہ مصر کی معیشت اُس وقت بحران سے دوچار تھی، چنانچہ تمام عرب ریاستوں نے ’’چندہ‘‘ جمع کیا اور ’’13 ارب ڈالر‘‘ جنرل سیسی کے قدموں میں ڈال دیے اور فرمایا کہ مصر کی معیشت کو ’’ڈوبنے نہیں دیں گے‘‘۔ اس کے بعد جنرل سیسی نے مصر کی شاہراہوں اور گلیوں میں اخوان کے آٹھ سے دس ہزار لوگوں کو شہید کردیا۔ ہم نے اخوان کے شہیدوں کی تصویریں دیکھی ہیں، ان میں سے اکثر کے سروں اور سینوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ پندرہ سے بیس ہزار اخوانیوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، ہزاروں زخمی ہوئے۔ اور اب صدر مرسی کو جیل میں طبی سہولتوں سے محروم اور تشدد سے ہم کنار کرکے مار ڈالا گیا۔ چنانچہ صدر مرسی کے قتل میں مشرق وسطیٰ کے تمام عرب حکمران بلاواسطہ طور پر ملوث ہیں۔ تمام عرب ممالک کے صدر مرسی کے قتل میں ملوث ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ صدر مرسی کے انتقال کے بعد کسی عرب ریاست نے صدر مرسی کے انتقال پر ’’روایتی افسوس‘‘ کا اظہار کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ صرف طیب اردوان نے صدر مرسی کو بجا طور پر ’’شہید‘‘ قرار دیا ہے، اور قطر نے ان کی المناک موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
صدر مرسی کا قتل اس لیے بین الاقوامی ہے کہ اس کی پشت پر پوری مغربی دُنیا کھڑی ہے۔ مغربی دُنیا ’’جمہوریت‘‘ اور ’’قانونی سیاسی عمل‘‘ کی بات کرتی ہے۔ صدر مرسی جمہوری اور قانونی سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اور ان کے خلاف جنرل سیسی کی بغاوت ایک غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر سیاسی ’’فوجی بغاوت‘‘ تھی، مگر امریکہ اور یورپ نے جنرل سیسی کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امریکہ نے جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضے کو ’’فوجی بغاوت‘‘کا نام بھی نہ دیا۔ امریکہ ایسا کرتا تو پھر اسے جنرل سیسی کی فوجی اور معاشی امداد بند کرنی پڑجاتی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ روئے زمین کا سب سے بڑا شیطان بھی ہے اور سب سے بڑی بدمعاش ریاست بھی۔ دیگر مغربی ممالک کا حال بھی امریکہ سے مختلف نہ تھا۔ کسی مغربی ملک نے جنرل سیسی کی مذمت کی، نہ ان سے روابط منقطع کیے۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ کے کسی ملک نے جنرل سیسی کو یہ بھی یاد دلانا ضروری نہ سمجھا کہ بنیادی طبی سہولتیں تو جیلوں میں قاتلوں اور دہشت گردوں کو بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو صدر مرسی کے ریاستی قتل کی پشت پر پوری مغربی دنیا کھڑی ہوئی ہے۔
ہم نے ایک بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے عرض کیا کہ مسلم دنیا میں فوج کے ادارے کی نوعیت ابھی تک نوآبادیاتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ جنرل صاحب کو ہمارے تجزیے سے اتفاق نہ ہوگا، مگر انہوں نے اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ میں تو کہا کرتا تھا کہ ہمارے فوجی افسروں کو بائرن اور شیلے کے بجائے اقبال پڑھائو۔ ہم نے کہا کہ ایسی بات تو ہمارے جیسے معمولی اور بے اختیار لوگ کہتے ہوئے اچھے لگتے ہیں، آپ تو طاقت و اختیار کے مرکز میں بیٹھے تھے، آپ کو تو عملاً کچھ کرنا چاہیے تھا۔ ہماری اس بات کا جنرل صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ چنانچہ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مسلم دنیا کی سیاسی آزادی آج تک حقیقی سیاسی آزادی نہ بن سکی۔ مسلم دنیا کے جرنیل ہی نہیں، بادشاہ، سیاسی رہنما اور ابلاغ عامہ کے ذرائع پر قابض لوگوں کی اکثریت آج بھی مغرب کی غلام ہے اور اس کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو دنیا کے کسی مسلم ملک میں اسلامی تحریکیں اپنوں اور پرایوں کی یلغار کی زد پر نہ ہوتیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکیں مسلم دنیا کے دودھ کا مکھن ہیں۔ وہ اسلام کی اصل فکر کی علَم بردار ہیں۔ وہ مسلم تہذیب اور مسلم تاریخ کا مرکزی دھارا ہیں۔ وہ مسلم دنیا کو حقیقی معنوں میں مسلم دنیا بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان اسلامی تحریکوں کی جڑیں تقویٰ اور علم میں پیوست ہیں۔ مسلم دنیا میں احیاء کا امکان اگر کسی سے وابستہ ہے تو وہ اسلامی تحریکیں ہیں۔ چنانچہ جنرل ہو یا بادشاہ، کوئی فوج ہو یا پارلیمنٹ… جو بھی اسلامی تحریکوں کے خلاف سازش کرتا ہے وہ دراصل خود اسلام اور اسلامی تہذیب و تاریخ کے امکانات کے خلاف سازش کرتا ہے۔ مسلم دنیا کے جرنیل، مسلم دنیا کے بادشاہ، مسلم دنیا کی فوجیں، مسلم دنیا کے مغرب زدگان اگر مسلم دنیا کو انقلاب سے دوچار کرسکتے تو یہ انقلاب کب کا برپا ہوچکا ہوتا۔ اس لیے کہ مسلم دنیا کے جرنیل، بادشاہ اور مغرب کے آلہ کار سیاسی رہنما 70 سال سے اقتدار پر قابض ہیں، مگر مسلم دنیا کے جرنیل اور بادشاہ دشمنوں کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم کے کمزور لوگوں کو ’’فتح‘‘ کرکے اس طرح ’’اتراتے‘‘ ہیں جیسے انہوں نے فلسطین اور کشمیر آزاد کرالیا ہو۔ مصر کی فوج نہیں تمام عرب افواج نے اسرائیل کے خلاف تین جنگیں لڑی ہیں اور تینوں جنگوں میں وہ اسرائیل سے بری طرح پٹی ہیں۔ جنرل سیسی اگر مرد کا بچہ ہوتا تو وہ بیت المقدس کو آزاد کرکے دکھاتا، مگر اس بے حیا جنرل کے لیے مقبولِ عوام اور جمہوری صدر مرسی کو ’’فتح‘‘ کرنا ہی بڑا کارنامہ تھا۔
اسلامی تحریکوں بالخصوص اخوان کے لیے ابتلا کوئی نئی بات نہیں۔ اخوان نے جنرل ناصر کا جبر جھیل کر اور زندہ رہ کر دکھایا ہے۔ اس نے انورالسادات کے ظلم و ستم کو ہضم کرکے دکھایا ہے۔ اخوان نے 30 سال تک حسنی مبارک کا جبر برداشت کیا ہے۔ چنانچہ جنرل سیسی کے جبر کا عہد بھی گزر جائے گا اور اخوان زندہ رہیں گے۔ اس کی وجہ بھی ایک اصول ہے۔ دائمی بقا صرف حق کے لیے ہے۔ چنانچہ جو حق کو سمجھے گا، اسے سفر کرے گا، اس کے تقاضے
(باقی صفحہ 41پر)
پورے کرے گا وہ بھی زندہ رہے گا۔ مسلم دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مغرب سے مفاہمت چاہتے ہیں، مگر یہ بیچارے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ مغرب کو آپ سے مفاہمت درکار ہی نہیں۔ اخوان جمہوری بھی ہیں، سیاسی بھی ہیں، پُرامن بھی ہیں، مگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اعلان کرچکے ہیں کہ امریکہ کسی بھی وقت اخوان کو دہشت گرد قرار دے سکتا ہے۔ جنرل سیسی بھی اس سلسلے میں امریکہ سے درخواست کرچکا ہے۔ عرب بادشاہوں کی تمنا بھی یہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب اور اس کے مقامی ایجنٹوں کے لیے سیاسی، جمہوری اور پُرامن ہونے کے بھی کوئی معنی نہیں۔ اصل چیز مسلم دنیا میں مغرب کا ایجنٹ ہونا ہے، اور اسلامی تحریکیں کبھی مغرب کی ایجنٹ نہیں ہوسکتیں۔ صدر مرسی اپنی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے مغرب کے قریب تھے۔ انہوں نے امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کیا اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کچھ عرصے پڑھایا بھی۔ انہوں نے امریکہ کے رسالے ’ٹائم‘ کو انٹرویو دیا تو کئی امریکی فلموں کی تعریف کی۔ لیکن چونکہ وہ اسلام اور امتِ مسلمہ کے وفادار تھے اور مغرب کے ایجنٹ نہیں تھے اس لیے اُن کی اِن باتوں کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ انہوں نے ٹائم کو جو انٹرویو دیا، ٹائم نے اس سے یہ سرخی نکالی:
“We are learning of how to be free”
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی نظر میں یہی صدر مرسی کا سب سے بڑا جرم تھا کہ وہ آزاد ہونے کا ہنر سیکھ رہے تھے۔ اگر صدر مرسی مسلم دنیا کے جرنیلوں، بادشاہوں اور نام نہاد سیاسی رہنمائوں کی طرح مغرب کا غلام بننے کا ہنر سیکھ رہے ہوتے تو ان کی حکومت اب تک اقتدار میں ہوتی اور صدر مرسی کو امن کا نوبیل انعام مل چکا ہوتا۔