پاکستان کو آئی ایم ایف کے کسی اور پیکیج کی ضرورت پڑی تو اِس بار امریکہ پاکستان سے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے یا چھوٹے ایٹم بموں یا Tactical nuclear weapons کے خاتمے پر اصرار کرسکتا ہے
اللہ تعالیٰ کے راز اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی موجودگی میں دنیا کو کسی شیطان کی ضرورت نہیں۔ بھارت، اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شیاطین ہیں، مگر ’’سپر ابلیس‘‘ امریکہ ہی ہے۔
انگریزی کا محاورہ ہے:
Speak of the devil and he shall appear.
یعنی شیطان کے بارے میں سوچیے اور شیطان آپ کے سامنے آکھڑا ہوگا۔ فرائیڈے اسپیشل کے گزشتہ شمارے میں ہم نے ’’آئی ایم ایف کی معیشت اور بجٹ تماشا‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں عرض کیا تھا:
’’علاقے سے متعلق امریکہ کی پالیسی عیاں ہے۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے کی طاقت بنانا چاہتا ہے اور خطے میں پاکستان کے سوا بھارت کی مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں۔ اس مزاحمت کی سب سے بڑی بنیاد ہمارا ایٹمی پروگرام ہے۔ امریکی ایک بار نہیں کئی بار ہمارا ایٹمی پروگرام محدود کرانے کی سازش کرچکے۔ وہ پاکستان کے چھوٹے ایٹم بموں یا Tactical nuclear weapons کو ختم کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ بلاشبہ ہم نے اس دبائو کو قبول نہیں کیا، مگر معیشت کی خراب حالت نے ہمیں پہلی بار دفاعی بجٹ پر سمجھوتے کے لیے مجبور کیا ہے۔ چنانچہ معیشت کی حالت مزید خراب ہوئی تو آئی ایم ایف کے مطالبات کی فہرست میں کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے… ایٹمی پروگرام کا خاتمہ ہی نہیں، آئین سے اسلام کا اخراج بھی‘‘۔
(فرائیڈے اسپیشل 14 تا 20 جون 2019ء)
اسی کالم میں ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا:
’’عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے امریکی اور مغربی استعمار کے ہتھیاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا مقصد غریب اور کمزور بالخصوص اسلامی ممالک کی معیشت کو بحران سے ’’نکالنا‘‘ نہیں، بحران میں مبتلا کرنا اور مبتلا رکھنا ہے‘‘۔
اس کالم کے ٹھیک ایک ہفتے بعد امریکہ کی ’’معاشی شیطنت‘‘ اور ’’سیاسی دہشت گردی‘‘ کس طرح سامنے آئی، ملاحظہ فرمایئے:
’’امریکہ کی سفیر اور قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے بنیادی تبدیلیاں کرائے بغیر پاکستان کو قرض نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی تعاون کے بغیر پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا پیکیج نہیں مل سکتا تھا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہاکہ امریکہ بھارت کو خودمختار اور اہم ملک کی حیثیت سے عزت دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ (بیچارے) بھارت کے لیے پاکستان اور چین کے ساتھ ڈیل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ادھر امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمین نے کہا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کا قرضہ واپس نہ کرسکا تو امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 14جون 2019ء)
اس طویل مگر اہم اقتباس سے کئی اہم حقائق عیاں ہوئے۔ پہلی بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ آئی ایم ایف کوئی آزاد معاشی یا مالیاتی ادارہ نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کے استعماری عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ خود امریکہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے تسلیم کرلیا ہے کہ امریکہ کے تعاون کے بغیر پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیکیج نہیں مل سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیا کہ امریکہ اب بھی آئی ایم ایف کے پیکیج کو سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ اس لیے ایلس ویلز نے صاف کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے پہلے بنیادی تبدیلیاں کرائے اور پھر اسے قرض دے۔ سوال یہ ہے کہ ’’مجوزہ بنیادی تبدیلیاں‘‘ پاکستان کے حق میں ہوں گی یا امریکہ کے حق میں؟ حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ ان تبدیلیوں کا فائدہ صرف امریکہ اور آئی ایم ایف کو ہوگا۔ مذکورہ بالا اقتباس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوکر سامنے آگئی کہ امریکہ ایسی چال چل سکتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کا قرض واپس کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکے۔ امریکی کانگریس کے ایک اہم رکن کے بقول ایسا ہوا تو امریکی ٹیکس دہندگان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ تو کیا امریکہ زیادہ بڑے فائدے کے لیے ’’چھوٹے نقصان‘‘ کی تیاری کررہا ہے؟ مذکورہ اقتباس سے یہ راز بھی آشکار ہوگیا کہ امریکہ کے لیے بھارت اتنا اہم ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اور سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے تقریباً آنکھوں میں آنسو بھر کر فرمایا ہے کہ (بیچارہ) بھارت تنہا پاکستان اور چین سے نہیں نمٹ سکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ اس بات کی منصوبہ بندی کرچکا ہے کہ وہ پاکستان کو اس قابل نہ رہنے دے کہ وہ بھارت کا مقابلہ کرسکے۔ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات خود خراب نہیں ہورہے بلکہ انہیں منصوبے کے تحت مرحلہ وار طریقے سے خراب سے خراب تر کیا جارہا ہے اور کیا جاتا رہے گا، تاکہ پاکستان خود کہہ دے کہ اس نے بھارت کی بالادستی قبول کرلی اور اب وہ بھارت کی ایک ’’طفیلی ریاست‘‘ اور بھارت کا ’’باج گزار ملک‘‘ بن کر رہنے کے لیے تیار ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جن سیاسی رہنمائوں مثلاً میاں نوازشریف اور زرداری نے پاکستان پر قرضوں کا بے پناہ بوجھ لادا ہے، کیا انہوں نے امریکی ایجنڈے کے تحت ’’شعوری طور‘‘ پر ایسا کیا ہے؟ اور وہ پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کی مشترکہ سازش میں آلۂ کار کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت خود عمران خان بھی ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کررہے ہیں، تو کیا عمران خان اور ان کی پشت پناہ اسٹیبلشمنٹ بھی امریکی ایجنڈے کے تحت ایسا کررہی ہے؟ کھیل اتنا عیاں ہوتا جارہا ہے کہ یہ باتیں زیادہ دیر تک راز نہیں رہیں گی۔
امریکہ کی اعلیٰ اہلکار ایلس ویلز نے صرف آئی ایم ایف اور اس کے قرض پر بات نہیں کی، انہوں نے ایک اور اہم بات بھی کہی، انہوں نے فرمایا:
’’امریکہ اور پاکستان دونوں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلائو کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کی گفت و شنید اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کے بعض قسم کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول پر سخت تشویش ہے‘‘۔
(دی نیوز کراچی، 14جون 2019ء)
اس اقتباس سے عیاں ہوگیا کہ پاکستان کے معاشی حالات مزید خراب ہوئے اور پاکستان کو آئی ایم ایف کے کسی اور پیکیج کی ضرورت پڑی تو اِس بار امریکہ پاکستان سے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے یا چھوٹے ایٹم بموں یا Tactical nuclear weapons کے خاتمے پر اصرار کرسکتا ہے۔ پاکستان نے یہ ہتھیار بھارت کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین کے جواب میں بنائے ہیں۔ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی سرحد پر چار پانچ لاکھ فوجی جمع کرکے پاکستان پر چڑھ دوڑے اور پاکستان کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلے، اور پھر پاکستان کو ناک رگڑنے پر مجبور کرے۔ بھارت کے اس ناپاک منصوبے کے جواب میں پاکستان نے ایسے چھوٹے ایٹم بم بنالیے ہیں جو دس پندرہ ہزار افراد کو ایک لمحے میں بھاپ بناکر اڑا دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے ان چھوٹے ایٹم بموں کو پھینکنے کے لیے خصوصی میزائل بھی تیار کرلیے ہیں۔ یہ میزائل کم فاصلے تک مار کرنے والے ہیں۔ امریکی اتنے بڑے شیطان ہیں کہ وہ پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ چھوٹے ایٹم بم بنانا ترک کرو اور ان کا ڈیلیوری سسٹم ختم کرو۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی معاشی شیطنت اور سیاسی دہشت گردی میں ایک گہرا تعلق ہے۔
پاکستان سے متعلق امریکہ کی ’’معاشی شیطنت‘‘ کے تین پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کی معیشت کو بنیادی طور پر قرضوں کی معیشت بنایا جائے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے فرمایا تھا کہ جدید معیشت کا تصور قرضوں کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس ملک نے بیرونی قرضوں پر انحصار کیا وہ کبھی قرضوں کے جال سے نکل ہی نہیں سکا۔ اس وقت دنیا کے 70 سے زیادہ ممالک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان تمام ممالک کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ امریکہ کی معاشی شیطنت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرضے صحیح استعمال نہ ہوسکیں۔ اس کی صورت آئی ایم ایف اور عالمی بینک نے یہ نکالی ہوئی ہے کہ ان کے ماہرین کمزور ممالک یا قرض خواہوں کی ترجیحات کا تعین کریں گے اور وہ بتائیں گے کہ کتنی رقم کہاں خرچ کرنی ہے۔ اصول ہے کہ گھر کے لوگ گھر کی خرابیوں کو جس طرح جانتے ہیں باہر کے لوگ خرابیوں کو اس طرح جان سکتے ہیں نہ ان خرابیوں کا کوئی معقول علاج تجویز کرسکتے ہیں۔ مگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک اپنے ’’تجزیے‘‘ اور ’’اپنے حل‘‘ کے ذریعے قرض خواہوں کے قرض ضائع کرا دیتے ہیں۔ پاکستان سے متعلق امریکہ کی معاشی شیطنت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ قرض اتنا بڑھا دو کہ قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں کُل بجٹ کا 44 فیصد خرچ کیا گیا ہے۔ آئندہ سال تک قرضے اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہمیں بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر بجٹ کا 60 فیصد خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب اگر ہم فرض کریں کہ ہمارا بجٹ 100 روپے پر مشتمل ہے تو ان سو روپوں میں سے 60 روپے تو قرض کی ادائیگی پر صرف ہوجائیں گے، 20 روپے دفاع کے لیے وقف ہوں گے۔ چنانچہ باقی ماندہ 20 روپے میں ہمیں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا کرنا ہوں گی اور ’’ترقیاتی کام‘‘ بھی کرانے ہوں گے۔ اتفاق سے یہ کوئی ’’خیالی پلائو‘‘ نہیں بلکہ یہ ایک دو سال میں عملاً ہونے جارہا ہے۔
دنیا کے بہت کم انسان اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ امریکہ کی بنیاد میں ایک خون آشامی اور انسانیت سوزی ہے۔ مائیکل مان نے اپنی تصنیف Dark Side of the Democracy میں بتایا ہے کہ امریکہ 8 سے 10کروڑ ریڈ انڈینز اور دیگر مقامی لوگوں کو قتل کرکے وجود میں آیا۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے جاپان کے خلاف ایک بار نہیں، دوبار ایٹم بم استعمال کیا، حالانکہ جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور ہاورڈزن نے اپنی معرکہ آرا تصنیف A Peoples History of the United State میں صاف لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکیوں نے جاپانیوں کے خفیہ پیغامات کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرلیا تھا اور امریکی جان گئے تھے کہ جاپانی فوج چند دن میں امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والی ہے، مگر امریکیوں نے اس کے باوجود صرف اپنی خون آشامی اور انسانیت سوزی کو ظاہر کرنے کے لیے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 1948ء سے پہلے امریکہ کے Department of Defence کا نام Department of war تھا۔ اس وقت ساری دنیا جنگی بجٹ پر جتنی رقم خرچ کررہی ہے، تنہا امریکہ اس بجٹ کا 45 فیصد استعمال کررہا ہے۔ جنگی بجٹ پر دنیا کے 15 بڑے ممالک جتنی رقم خرچ کرتے ہیں تنہا امریکہ کی رقم اس سے زیادہ ہے۔ امریکہ دنیا کے اکثر ملکوں کی سیاسی آزادی کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت دنیا کے 70 ممالک میں امریکہ کے 737 فوجی اڈے موجود ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کے سابق ملازم ڈینیل ایلس برگ نے جو امریکہ کے میرینز کا کپتان بھی رہا ہے، Pentagon papers کے نام سے 7000 کلاسیفائیڈ صفحات جاری کیے۔ ان صفحات سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے تمام صدور اور حکومتوں نے ویت نام کی جنگ کے سلسلے میں امریکیوں سے جھوٹ بولے۔ اس سے ایلس برگ نے یہ نتیجہ نکالا کہ امریکی صدور کبھی کبھی نہیں، ہمیشہ ہی جھوٹ بولتے ہیں۔ ویت نام کی جنگ میں امریکیوں نے خون آشامی کی حد کردی۔ انہوں نے دس سال میں 35 لاکھ ویت نامیوں کو مار ڈالا۔ امریکی مؤرخین کرسٹوفرکیلی اور اسٹیورٹ لی کوک نے اپنی تصنیف America Invades میں لکھا ہے کہ امریکہ نے دنیا کے 193 ممالک میں سے 84 ممالک میں فوجی مداخلت کی ہے یا جنگ لڑی ہے، جبکہ 191 ممالک میں وہ فوجی اعتبار سے ملوث رہا ہے۔ امریکہ نے عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تھا تو عراق کی آبادی 2 کروڑ 20لاکھ تھی، اس میں سے امریکہ نے 5 لاکھ 70 ہزار لوگ مار ڈالے اور ایک کروڑ 35 لاکھ کو معاشی اعتبار سے قلاش بنادیا۔ عراق اور افغانستان کی ننگی جارحیتوں پر امریکہ 5 ہزار 600 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ سکندراعظم نے ایک بحری قزاق کو پکڑا تو اس سے تحکمانہ انداز میں کہا: تم سمندروں کو پامال کرتے ہو۔ بحری قزاق نے سکندر کے انداز میں جواب دیا: تم پوری دنیا کو پامال کرتے ہو، مگر چونکہ میں ایک کشتی کے ذریعے سمندروں کو پامال کرتا ہوں اس لیے قزاق کہلاتا ہوں اور تم بحریہ کے ساتھ پوری دنیا کو پامال کرتے ہو اس لیے شہنشاہ کہلاتے ہو۔ امریکہ کا قصہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد کہتا ہے، حالانکہ وہ پوری دنیا کی آزادی و سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ مگر امریکہ مہذب ہے، روشن خیال ہے، سپر پاور ہے، عالمی رہنما ہے۔
(دی نیوز کراچی، 15جون 2019ء)
امریکہ کی سیاسی دہشت گردی نے پاکستان کی قومی زندگی کو تباہ و برباد کردیا۔ مسلمانوں کا کلمہ ہے: لاالٰہ الااللہ۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کا کلمہ ہے لاالٰہ الا امریکہ۔ یعنی نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے امریکہ کے۔ دنیا میں کتنے ہی ملک ہیں جن کی جمہوریت حقیقی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ملک ہیں جن کی آمریت حقیقی ہے۔ چنانچہ ان ممالک کو جمہوریت سے بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ہوا ہے اور آمریت سے بھی کچھ نہ کچھ فیض پہنچا ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نہ جمہوریت حقیقی ہے نہ آمریت حقیقی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت بھی امریکی ساختہ ہوتی ہے اور آمریت بھی امریکی ساختہ ہوتی ہے۔ چنانچہ نہ ہمیں جمہوریت سے فائدہ ہوا، نہ ہمیں آمریت راس آئی۔ اس صورتِ حال نے ہماری سیاسی زندگی کو 1954ء سے بے معنی بنا رکھا ہے۔ یہاں ہم نے 1954ء کا ذکر اس لیے کیا کہ بے حیا جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے رابطے میں تھا۔ جنرل ایوب کی امریکہ پرستی کی وجہ سے ہماری سیاست اور ہمارا دفاع ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centric ہوا۔ ہماری معیشت امریکہ مرکز ہوگئی، ہماری خارجہ پالیسی امریکہ مرکز ہوگئی، ہمارا عالمی تناظر امریکہ مرکز ہوگیا، ہمارا ظاہر اور ہمارا باطن امریکہ مرکز ہوگیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے فوجی اور سول حکمران 60 سال سے ’’ایک پیج‘‘ پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے فوجی اور سول حکمران 60 سال سے ’’ایک پیج‘‘ پر نہیں ’’ایک سیج‘‘ پر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ ہمارے لیے ’’بین الاقوامی امریکہ‘‘ ہے اور ہمارے حکمران ہمارے لیے ’’مقامی امریکہ‘‘ ہیں۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کے لیے امریکہ کی اس سے بڑی سیاسی دہشت گردی اور کیا ہوسکتی ہے!