عمران خان کی مذاکرات کی خواہش ’’مذاکرات کی بھیک‘‘،اور ان کی ’’امن پسندی‘‘ ان کی ’’خوف زدگی‘‘ کا اشتہار بن گئی ہے
عمران خان نے چند روز میں مودی کو دوسرا خط لکھ ڈالا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے رہنما کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بھارت کے نئے وزیر خارجہ جے شنکر کو خط لکھ مارا ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر بے ساختہ غالب کا شعر یاد آگیا۔ یعنی
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
یادش بخیر، ایک وقت تھا کہ عمران خان نوازشریف کے حوالے سے کہا کرتے تھے ’’جو مودی کا یار ہے وہ قوم کا غدار ہے‘‘۔ بدقسمتی سے اب عمران خان مودی کی یاری کے لیے مرے جارہے ہیں۔ چنانچہ اُن کے حوالے سے کہا جائے گا: جو مودی کا یار ہے وہ زیادہ بڑا غدار ہے۔
پاکستان میں ایک آدمی بھی ڈھونڈے سے ایسا نہیں مل سکتا جو بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا منکر ہو، مگر مذاکرات کی خواہش اور کوشش اور مذاکرات کی بھیک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے قومی عزت و وقار کو خاطر میں نہیں لاتے، اور وہ مذاکرات کی خواہش کو مذاکرات کی بھیک بناکر ’’بھارت دے تو اس کا بھلا، نہ دے تو بھی اس کا بھلا‘‘ کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔
جنرل پرویزمشرف ’’کارگل کے ہیرو‘‘ تھے۔ اس حوالے سے وہ عرصے تک اپنی مونچھوں کو تائو دیتے رہے۔ مگر کارگل کا ہیرو کارگل سے اترا تو بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا۔ وہ ہر دن بھارت سے کہتے تھے: آئو مذاکرات کریں۔ اتفاق سے مذاکرات کی نوبت آئی اور جنرل پرویزمشرف نے آگرہ میں کشمیر کا سودا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، مگر بی جے پی نے عین وقت پر سمجھوتے کو مسترد کردیا اور ’’جنرل جب اٹھا مذاکرات کی میز سے تو دونوں ہاتھ خالی تھے‘‘ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ میاں نوازشریف نے بھارت پرستی کی حد ہی کردی۔ انہوں نے دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات کو ’’باپ کا مال‘‘ بنالیا۔ بلاشبہ عمران خان نوازشریف نہیں ہیں۔ وہ نہ بھارت سے مرعوب ہیں، نہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں ان کا کوئی معاشی مفاد ہے، مگر اس کے باوجود وہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نوازشریف کے راستے پر چلتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ وہ اس دائرے میں نوازشریف سے زیادہ بھیانک اور بدصورت نظر آرہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ انہوں نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران ایک دن میں تین بار مودی کو فون کیا، مگر مودی نے ایک بار بھی ان کا ٹیلی فون سن کر نہ دیا۔ اب وہ مودی کو خط پر خط لکھ رہے ہیں مگر ان کے خط کا بھی کوئی جواب نہیں آرہا۔ چنانچہ عمران خان کی مذاکرات کی خواہش ’’مذاکرات کی بھیک‘‘، اور ان کی ’’امن پسندی‘‘ ان کی ’’خوف زدگی‘‘ کا اشتہار بن گئی ہے۔ بلاشبہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی توسیع ہیں، چنانچہ مذاکرات کی بھیک اور خوف زدگی صرف عمران خان کے کھاتے میں نہیں لکھی جارہی، بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں بھی لکھی جارہی ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان پاک بھارت تعلقات کے بڑے بڑے حقائق کا ادراک کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی ایک حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کی دشمنی فروخت کرکے انتخابی فتح کی دولت کمائی ہے۔ اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی فتح کی دولت گزشتہ انتخابات میں حاصل ہونے والی فتح کی دولت سے زیادہ بھی ہے اور متنوع بھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کی دشمنی صرف بی جے پی کا نہیں پورے بھارت کا ’’سیاسی مذہب‘‘ ہے۔ چنانچہ بی جے پی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں کم از کم ’’بیتاب‘‘ نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ عمران خان مذاکرات کے سلسلے میں یک طرفہ بیتابی کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کی عزت و وقار سے کھیل رہے ہیں۔
عمران خان اس حقیقت پر بھی غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ مودی نے اجیت دوول کو دوبارہ قومی سلامتی کا مشیر بنالیا ہے۔ اگرچہ قومی سلامتی کے مشیر کا تعلق ملک کی مجموعی قومی سلامتی سے ہوتا ہے، مگر عمران خان کے سوا سبھی جانتے ہیں کہ اجیت دوول صرف پاکستان کے لیے تیار کیا گیا ’’میزائل‘‘ ہیں۔ اجیت دوول کا واحد ایجنڈا پاکستان کو کمزور کرنا، پاکستان میں انتشار برپا کرنا، اور ممکن ہو تو پاکستان کو توڑنا ہے۔ بدقسمتی سے اُن کا یہ ایجنڈا راز بھی نہیں ہے۔ وہ ایک سے زیادہ مواقع پر اپنے اس ایجنڈے کو سامنے لاچکے ہیں۔
نریندر مودی نے جے شنکر کو وزیر خارجہ بنایا ہے۔ جے شنکر کے سبرامنیم کے بیٹے ہیں۔ کے سبرامنیم سابق مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی مداخلت کے زبردست حامی تھے۔ وہ کئی دہائیوں تک بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل پر اثرانداز رہنے والی شخصیت تھے۔ چنانچہ جے شنکر کا تقرر بھی بڑی حد تک Pakistan Specific ہے۔ بلاشبہ وہ امریکہ اور چین کے امور کے بھی ماہر سمجھتے جاتے ہیں، مگر بھارت پہلے ہی امریکہ کی گود میں بیٹھا ہے اور وہ چین کے مقابلے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ چنانچہ جے شنکر کا میزائل بھی پاکستان ہی کے خلاف استعمال ہوگا۔ مودی نے اپنا وزیر داخلہ بھی تبدیل کیا ہے، انہوں نے بی جے پی کے صدر امت شاہ کو بھارت کا وزیر داخلہ بنایا ہے۔ امت شاہ بھارت کے مسلمانوں کو ’’دیمک‘‘ قرار دے چکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی کے سخت خلاف ہیں۔ چنانچہ مودی کا یہ ہتھیار بھی بلاواسطہ طور پر سہی، پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوگا۔
پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت جب بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا، امریکہ کے دبائو پر ہوا، مگر اب امریکہ بھارت کا تزویراتی دوست یا Strategic Partner ہے، چنانچہ وہ بھارت پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہرگز دبائو نہیں ڈالے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خطے سے متعلق امریکہ کا تناظر تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے خطے میں چین کے اثرات کے پھیلائو کو روکنے کے لیے جو حکمت عملی ترتیب دی ہے اس حکمت عملی میں پاکستان کہیں موجود نہیں۔ اس حکمت عملی میں بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال کو مرکزیت حاصل ہے۔ (دی نیوز کراچی۔ 5جون 2019ء) اس رپورٹ کے معنی یہ ہیں کہ ہم مکمل طور پر چین کے کیمپ میں گئے ہوں یا نہ گئے ہوں مگر امریکہ نے ہمیں چینی کیمپ میں شامل سمجھ لیا ہے۔ اسے سردست افغانستان سے باعزت انخلا کے لیے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ کام امریکہ کی مرضی اور مفادات کے مطابق ہوگیا تو وہ ہمارے خلاف کوئی بھی حکمت عملی وضع کرنے میں پوری طرح آزاد ہوگا۔
ان تمام حقائق سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ’’خوف‘‘ کوئی ’’پالیسی‘‘ ہے، نہ ’’بھیک‘‘ کوئی ’’پالیسی‘‘ ہے۔ خوف اور بھیک سے خطرات کم نہیں ہوتے، مزید بڑھ جاتے ہیں۔ عمران خان نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستان کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔ ٹیپو سلطان کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ مگر عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھارت کے سلسلے میں گیدڑ کی طرح ’’Act‘‘ کررہے ہیں اور ’’شیر‘‘ کی زندگی اور شیر کی عزت کی تمنا کررہے ہیں۔ ایسا ہونا محال ہے۔ ٹیپو سطان شیر تھا، وہ شیر کی طرح جیا اور شیر کی طرح مرا۔ چنانچہ وہ انگریزوں سے شکست کھانے کے باوجود آج بھی زندہ ہے اور ہمارا ہیرو ہے۔ اس کے برعکس میر جعفر اور میر صادق گیدڑ کی طرح جیے اور گیدڑ کی طرح مرے۔ بلاشبہ انہوں نے انفرادی مفادات حاصل کرلیے، مگر ہماری تاریخ میں وہ ہمیشہ غدار سمجھے جائیں گے۔ ٹیپو سلطان اس حوالے سے واحد مثال نہیں ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ کی حیثیت چنگیز خان کے مقابلے پر کچھ بھی نہ تھی، مگر اس نے کئی بار چنگیز کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔ خلیفۂ بغداد اس کی مدد کرتا تو تاتاریوں کو مکمل شکست سے دوچار کرکے مسلمانوں کے سیاسی، مذہبی اور علمی مراکز کو بچایا جاسکتا تھا۔ مگر خلیفۂ بغداد نے ’’خوف‘‘ اور ’’امن کی بھیک‘‘ کو ’’پالیسی‘‘ بنالیا۔ چنانچہ جنگ زیادہ تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھی اور تاتاریوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ عمران خان اقبال اور قائداعظم کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
بعض لوگ ایسی باتوں کو ’’شاعری‘‘ کہہ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ مگر یہ شاعری نہیں ہے، مسلمانوں کی زندگی ہے۔ غزوۂ بدر میں یہی ہوا۔ ٹیپو سلطان نے یہی ثابت کیا۔ جلال الدین نے اسی بات کی گواہی دی۔ یہاں تک کہ مجاہدین نے 35 سال کی قلیل مدت میں افغانستان کے اندر ’’بے تیغ‘‘ ہونے کے باوجود وقت کی دو سپر پاورز کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔ خود قائداعظم کی زندگی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ انگریز وقت کی واحد سپر پاور تھے، ہندوستان ہندو اکثریت کا ملک تھا اور قائداعظم ایک بکھری ہوئی اقلیت یا ’’بھیڑ‘‘ کے رہنما۔ مگر قائداعظم نے خوف اور امن کی بھیک کو پالیسی بنانے سے انکارکردیا۔ انہوں نے ’’عزم‘‘ کو پالیسی بنایا، ’’حوصلے‘‘ کو پالیسی بنایا، ’’جرأت‘‘ کو پالیسی بنایا، اور برصغیر کی ملت کے اس بے تیغ سپاہی نے انگریزوں کو بھی شکست دی اور ہندوئوں کو بھی ہرا کر دکھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے عزم، اپنے حوصلے اور اپنی آرزوئوں کے برابر بڑا ہوتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ قائداعظم ’’غلام ہندوستان‘‘ کے شہری ہوکر بھی ’’آزادی‘‘ کے ساتھ سوچتے تھے، اور عمران خان ’’آزاد پاکستان‘‘ کے وزیراعظم ہوکر ’’غلاموں‘‘ کی طرح سوچ بھی رہے ہیں اور عمل بھی کررہے ہیں۔ عمران خان خود کو ’’فائٹر‘‘ کہتے ہیں، مگر ہندوستان کے سامنے ان کے ’’فائٹر‘‘ میں ’’فائی‘‘ بہت کم ہے اور ’’ٹر‘‘ بہت زیادہ ہے۔ چلیے ہم عمران خان کو ہندوستان کے ساتھ لڑنے کا آسان طریقہ بتادیتے ہیں۔ آج سے وہ ’’ہندوستان‘‘ کو ’’نوازشریف‘‘ سمجھیں۔ ایسا ہوا تو وہ ہندوستان کا نام سن کر بھڑک اٹھیں گے اور اس سے کبھی ’’سمجھوتا‘‘ نہیں کریں گے اور نہ کبھی اس کے آگے ہتھیار ڈالیں گے۔ آخر عمران کی ساری نفرت نوازشریف کے لیے کیوں وقف ہے؟ اس کا آدھا حصہ بھارت کے خلاف بھی بروئے کار آنا چاہیے۔ آخر بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ آدھا پاکستان کھا چکا ہے اور بچے کھچے پاکستان کو ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر عالمی طاقتوں کے عالمی اور علاقائی مفادات بھی اثرانداز ہوں گے۔ مغربی دنیا نے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے اور کمیونزم کے ختم ہونے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ اب مغربی دنیا کا کوئی حریف نہ ہوگا، چنانچہ امریکی انتظامیہ کے ڈارلنگ فوکویاما نے اعلان کردیا تھا کہ تاریخ کا حالیہ سفر سرمایہ داری اور کمیونزم کی کشمکش کے سوا کچھ نہیں تھا، مگر اس کشمکش میں سرمایہ دارانہ نظام نے کمیونزم کو ہرا دیا ہے۔ چنانچہ اس طرح تاریخ کا سفر بھی اختتام کو پہنچ چکا ہے اور اب پوری انسانیت کے پاس کرنے کے لیے ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ مغربی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرے۔ امریکہ نے خود چین کو تجارت کی عالمی تنظیم یعنی WTO کا رکن بنوایا تھا، اس کا خیال تھا کہ چین کو سرمایہ دار بناکر مغرب اسے اندر سے بدل بھی دے گا اور توڑ بھی دے گا، مگر مغرب کی ساری دانش وری دھری کی دھری رہ گئی، چین معاشی اعتبار سے تو سرمایہ دار بن گیا مگر اس کا سیاسی نظام آج بھی پوری طرح صرف کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ چین کے معاشی ابھار نے پوری مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کی عالمی معاشی بالادستی کو چیلنج کردیا ہے۔ دوسری جانب روس بھی صدر پیوٹن کی قیادت میں دوبارہ بڑی طاقت بن گیا ہے اور اس نے کریمیا اور شام میں امریکہ کی طاقت کو کھل کر چیلنج کیا ہے۔ امریکہ نے تھک ہارکر چین کے خلاف تجارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ مگر چین کی معیشت کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس جنگ سے چین کے لیے ابھی تک کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس امریکہ کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ چین اور روس تیزی کے ساتھ تزویراتی تعلقات یا Strategic Relations کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ روس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ عالمی تجارت میں ڈالر کے کردار پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ انہوں نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ چین کی کمپنی ہواوے کو عالمی مارکیٹ سے باہر کرنے کی سازش کررہا ہے۔ انہوں نے عالمی تجارتی نظام میں موجود ’’عدم مساوات‘‘ کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر چین کے صدر شی جن پنگ نے روس کا تین روزہ دورہ کیا اور کہا کہ روس کے صدر کے ساتھ ان کی دوستی بہت گہری ہے۔ یہ صورتِ حال بتارہی ہے کہ امریکہ کی عالمی بالادستی کے مقابلے پر چین اور روس تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ یہ قربت عالمی سیاست ہی نہیں، علاقائی سیاست کو بھی تبدیل کرسکتی ہے۔ بھارت بلاشبہ اس وقت امریکی کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے، مگر چین اور روس کا اتحاد بھارت کو یہ سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے۔ اس لیے کہ امریکہ صرف عالمی حقیقت ہے، اس کے برعکس چین اور روس کا اتحاد عالمی حقیقت بھی ہوگا اور علاقائی، یہاں تک کہ جغرافیائی حقیقت بھی۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران طبقے کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بھیانک جرم سے گریز کرنا چاہیے۔ افراد اور قوموں کے سلسلے میں اللہ کی سنت ایک ہی ہے۔ خدا انہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکمران طبقے کے پاس 70 سال سے اتنا بڑا ہتھیار موجود ہے جسے استعمال کیا جائے تو پاکستان کے لیے کوئی خطرہ بھی خطرہ نہیں رہے گا۔ یہ ہتھیار ہے اللہ کا دین۔ یہ دین قوم کا کردار بدل سکتا ہے، اس کی مزاحمتی قوت کو زمین سے آسمان پر پہنچا سکتا ہے۔ یہ ہتھیار ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناسکتا ہے، یہ ہتھیارہمیں بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار کرسکتا ہے۔ اس ہتھیار کے آگے ایٹم بم کی دفاعی قوت بھی معمولی چیز ہے۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بھی کافروں اور مشرکوں کی طرح معیشت، پیسے اور ظاہری طاقت کے پیمانوں کو دیکھتا ہے۔ چنانچہ وہ خواہ کچھ کہے، بھارت سے خوف محسوس کرتا ہے۔ اصول ہے: جو اللہ سے ڈرتا ہے اُسے روس، چین اور امریکہ بھی مل کر نہیں ڈرا سکتے، اور جو خدا سے نہیں ڈرتا اُسے نیپال بھی ڈرا سکتا ہے۔ مسلمانوں میں دنیا کا خوف ہمیشہ ایمان اور عمل کی کمزوری سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
پاکستان کی روح یہی ہے، اس کے سوا کچھ ہے تو وہ پاکستان کے حکمرانوں کی بدروح ہے۔ بدروحوں کو ہم نے تاریخ کے صفحات پر اکثر مذاکرات اور امن کی بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ وہ صدائیں لگاتی ہیں: اللہ کے نام پر مذاکرات دے دو۔ اللہ کے نام پر امن دے دو۔