قصہ حاتم طائی کا

حاتم طائی کے وقت میں ایک بادشاہِ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بہ سبب نام آوری کے دشمنی ہوئی۔ بہت سا لشکرِ فوج جمع کرکے لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے اور بڑی خوں ریزی ہوگی، اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن تنہا اپنی جان لے کر پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔
جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو ہوئی، سب اسباب گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی کہ جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کی سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔ ایک روز ایک بوڑھا، اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے، بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے کچھ دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے، اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا، ہم آرام سے کھاتے، اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔ بوڑھے نے کہا کیا ٹرٹر کرتی ہے؟ ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون روٹی میسر آوے، یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آوے گا اور بادشاہ روپے دلاوے گا؟ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہورہی۔
ان دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں، مرومی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور جان کو بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں، اور جس کے جی میں درد نہیں وہ قسائی ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
غرض حاتم کی جواں مردی نے قبول نہ کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہورہے۔ وہ باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہا: اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دیوے گا۔ میر مرد نے کہا: سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے، لیکن وہ کیا جانے تجھ سے سلوک کرے، اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہرگز نہ ہووے گا کہ تجھ سے انسان کو طمع کی خاطر دشمن کے حوالے کروں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کب تک جیوں گا؟ آخر مر جاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا!
حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل، میں اپنی خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ مرا جان مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاتا۔ تو حاتم نے کہا: میں آپ سے آپ بادشاہ کے پاس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کھوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا: بھلائی کے بدلے برائی ملے، تو یا نصیب۔ اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آ پہنچے، بھیڑ لگ گئی۔ افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہولیا۔ جب نوفل کے روبرو لے گئے تو اس نے پوچھا کو اس کو کون پکڑ لایا؟ ایک بدذات سنگ دل بولا کہ ایسا کام سوائے ہمارے اور کون کرسکتا ہے؟ یہ فتح ہمارے نام ہے، ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔ ایک لن ترانی والا ڈینگ مارنے لگا کہ میں نے کئی دن دوڑ دھوپ کرکے جنگل سے پکڑا ہے، میری محنت پر نظر کیجیے اور جو قرار ہے، سو دیجیے۔ اسی طرح اشرفیوں کے لالچ میں ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں لگا ہوا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے، تب حاتم نے بادشاہ سے کہا: اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے، اگر قیافہ پہچان جانتے ہو تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے جو کہے سو کرے۔ نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے۔ پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟ نوفل نے اس لکڑہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ، اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا؟ اس بیچارے نے سر سے پاؤں تک جو گزرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا حاتم میری خاطر آپ سے آپ چلا آیا ہے۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ واہ رے تیری سخاوت، اپنی جان کا بھی خطر نہ کیا۔ جتنے جھوٹے، دعوے حاتم کو پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم ہوا کہ ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں ان کے سر پر لگاؤ کہ ان کی جان نکل پڑے۔ تڑتڑ جوتیاں پڑنے لگیں اور ایک دم سر ان کے گنجے ہوگئے۔ سچ ہے، جھوٹ بولنا ایسا ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس تک نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم جیسے شخص سے کہ ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے، دشمنی رکھنا اور اس کا مدعی ہونا آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ اس نے حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور تواضع و تعظیم کرکے پاس بٹھلایا اور حاتم کا ملک و املاک اور مال و اسباب جو ضبط کیا ووہ چھوڑ دیا، نئے سرے سے سرداری قبیلہ طے کی، اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں خزانے سے دلوا دیں۔ وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔
(باغ و بہار، یعنی قصہ چہار درویش… میر امن دہلوی)

جمعیت اقوام

پہلی جنگ یورپ کے بعد فاتح قوموں نے جو جمعیت اقوام بنائی تھی، وہ آخر کار برطانیہ اور فرانس کے مقاصد کا آلہ کار بن گئی۔ اس کی کمزوری تو پہلے ہی ظاہر ہورہی تھی، لیکن 1935ء میں اٹلی نے ابی سینیا پر حملہ کیا تو جمعیت کے لئے دو ٹوک فیصلے کا نازک وقت آگیا۔ اگر وہ اٹلی کی مذمت نہ کرتی تو اپنی حیثیت کھو بیٹھتی۔ اگر مذمت کرتی تو جرمنی، اٹلی اور بعض دوسری قومیں اس بارے میں ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھیں۔ زبان پر یہی بات تھی کہ جمعیت اقوام ختم ہورہی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے ذیل کے اشعار میں پیش کیا ہے۔

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن
پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

مبرم: اٹل۔
-1 غریب جمعیت اقوام پر کئی دن سے نزع کی حالت طاری ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس کے مر جانے کی منحوس خبر میرے منہ سے نکل جائے۔
-2بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب موت ٹل نہیں سکتی، لیکن مسیحیت کے بڑے بڑے سیات دان اس کے لئے دعائوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے، ان دعائوں سے ٹل جائے۔
-3 ہوسکتا ہے، بوڑھے فرنگی کی یہ داشتہ ابلیس کا تعویذ لے کر کچھ دن تک اور سنبھل جائے اور زندہ رہے۔