عدالت عظمیٰ کا کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم جاری

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم بینچ نے کنٹونمنٹ کی حدود سمیت کراچی میں قائم تمام تجاوزات کے خاتمے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ سرکاری زمینوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام سول اور ملٹری لینڈ پر قائم شادی ہالوں کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قائم ہر طرح کی تجاوزات کا 15 دن میں خاتمہ کراکے ایک ماہ میں سرکلر ریلوے کی بحالی کو یقینی بنائیں۔
کراچی سے ہر قسم کی تجاوزات کے خاتمے اور سرکلر ریلوے کی بحالی کے فیصلے سے کراچی کا ہر شہری خوش ہے، مگر سوال تو یہ ہے کہ اس کی بحالی ہوگی کیسے؟ کیوں کہ وزیراعظم کے حالیہ دورۂ چین میں تو اس پر کسی مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی نہیں ہوئے، حالانکہ سابقہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سندھ حکومت کی درخواست پر ’’کے سی آر‘‘ کو سی پیک میں شامل کرنے پر چین کو رضامند کرلیا تھا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ چین گئے تھے جہاں اس کا باقاعدہ اعلان ہوا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومتِ سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ نے سپریم کورٹ کا تحریری حکم ملنے کے فوری بعد اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس حکم پر عمل درآمد کے احکامات جاری کردیے ہیں اور تجاوزات ہٹانے کا کام پہلے ہی شروع ہوچکا ہے۔ سرکلر ریلوے کی زمینوں سے تجاوزات کے خاتمے کی پیش رفت کے بارے میں ریلوے انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس نے پہلے روز کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 13 ہزار 3 سو 19 مربع گز زمین واگزار کرالی ہے۔ واضح رہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر تجاوزات کا رقبہ 67 ایکڑ ہے۔ جس رفتار سے ریلوے انتظامیہ تجاوزات ہٹا رہی ہے اُس سے تو 15 دن کیا 15 ماہ میں بھی تجاوزات کا ہٹایا جانا آسان نظر نہیں آتا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سرکلر ریلوے کا منصوبہ وفاقی حکومت نے 50ء کے عشرے میں بنایا تھا، جس پر ابتدائی کام 50ء کے عشرے میں مکمل ہوا اور عملی کام 60ء کے عشرے میں ہوا۔ 1964ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا افتتاح اُس وقت کے مغربی پاکستان کے وزیر ریلوے محمد خان جونیجو مرحوم (بعدازاں وزیراعظم پاکستان) نے کیا تھا۔ اُس وقت اِس منصوبے پر چار کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی۔ 1964ء سے 1984ء تک سرکلر ریلوے دن میں لانڈھی سے وزیر منشن تک 104 مسافر ٹرینیں چلاتا تھا۔ یہ کراچی کے شہریوں کو سب سے سستی سفری سہولت میسر تھی۔ جن مسافروں کا روز کا آنا جانا رہتا وہ ریلوے سے پانچ روپے ماہانہ کا پاس بنوا لیتے تھے۔
1984ء کے بعد اس کی تعداد میں بتدریج کمی آنا شروع ہوگئی اور معیار بھی خراب ہونا شروع ہوگیا تھا۔ 1984ء سے قبل یہ ایک معیاری، آرام دہ سفری سہولت تھی جس سے روزانہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد مستفید ہوتے تھے۔ اس سروس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سستی ہونے کے باوجود 1984ء تک خسارے میں نہیں تھی۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جس وزیر ریلوے نے کراچی کے شہریوں کو یہ بے مثال تحفہ دیا تھا، وہی شخص جب 1985ء میں وزیراعظم بنا تو اس کے دور میں کراچی میں لوکل ٹرین سروس روبہ زوال ہونا شروع ہوئی۔ اس شعبے میں نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث نہ تو نئی بوگیاں آئیں، اور نہ ہی مینٹی نینس کا معیار برقرار رکھا جا سکا۔ اگر اس کا بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ پورے ریلوے نظام کے زوال کا آغاز تو ستّر کے عشرے میں ہی ہوگیا تھا۔ 1973ء تک پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ دنیا بھر میں کارگو سروس کی وجہ سے ریلوے نفع میں چلتا ہے۔ پاکستان ریلوے کے پاس جب تک سرکاری کارگو رہا اُس وقت تک یہ مسافروںکو سستی، آرام دہ، پابندی وقت کے ساتھ سہولت فراہم کرنے کے باوجود ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ 1973ء کے بعد اُس وقت کے سیکرٹری خزانہ غلام اسحاق خان (مرحوم) نے ایک انتظامی حکم کے ذریعے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو فیور کرنے کے لیے یہ پابندی ختم کردی کہ وہ کراچی پورٹ سے اندرون ملک مین لائن روٹ پر سرکاری کارگو نہیں لے جاسکتے۔ اس پابندی کے ختم ہوتے ہی 1974ء سے یہ ادارہ خسارے کا شکار ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تاہم اس کی تباہی کا آغاز جنرل ضیا الحق کے وزیر ریلوے جنرل سعید قادر (مرحوم) اور وزیر ریلوے عبدالغفور خان ہوتی (مرحوم) کے ادوار میں ہوا، جنہوں نے ریلوے کو رہے سہے کارگو سے محروم کیا، جس کے بعد 1999ء تک ہر آنے والے وزیر ریلوے نے اس میں خرابی ہی پیدا کی۔ رہی سہی کسر جنرل (ر) پرویزمشرف کے وزیر ریلوے جنرل (ر) اشرف قاضی نے پوری کردی، جنہوں نے اپنے انتظامی حکم کے ذریعے دسمبر 1999ء میں کراچی لوکل ٹرین کو غیر ضروری قرار دے کر مکمل طور پر بند ہی کردیا، اور چین سے مہنگی شرح سود میں ناقص انجن اور دیگر سازوسامان منگوا کر ریلوے کو زبردست نقصان پہنچایا۔درمیان میں 2005ء میں جنرل (ر) پرویزمشرف کے امپورٹ شدہ وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات سے قبل کراچی کے شہریوں کو دھوکا دینے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا نمائشی ڈراما رچایا تھا جو بلدیاتی انتخابات کے بعد اپنی موت آپ مرگیا۔ ایسا ہی ایک ڈراما وزیراعظم عمران خان کی وفاقی حکومت نے بھی نمائشی طور پر ایک آدھ لوکل ٹرین چلا کر کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جس سرکلر ریلوے کی بحالی کا حکم دیا ہے وہ تو تب ہی ممکن ہے جب ’’کے سی آر‘‘ کے منصوبے پر عمل درآمد ہو، جو ایک ماہ میں نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی سی پیک یا ’’جائیکا‘‘ کے تعاون کے بغیر شروع ہوسکتا ہے۔ ڈالر کی اونچی پرواز کے بعد تو اس کی راہ میں مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ کراچی کے عام شہری سفری سہولت کی عدم دستیابی کے جس عذاب سے دوچار ہیں اس سے نجات کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے بغیر ناممکن ہے۔
سرکلر ریلوے کا حقیقی منصوبہ 90ء کے عشرے میں جاپان کے سرمایہ کاری کے سرکاری ادارے ’’جائیکا‘‘ کے تعاون سے بنا تھا۔ جاپان نے کراچی اور لاہور میں سرکلر ریلوے کی تعمیر کے لیے صفر اعشاریہ ایک فیصد پر سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی۔ یہ قرضہ چالیس سال میں واپس کرنا تھا۔ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد پہلے دس سال میں پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں کرنی تھی۔ اُس وقت اس کی لاگت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر کے قریب تھا، جو اب دو ارب ڈالر عبور کرچکا ہے۔
90ء کے عشرے میں میاں نوازشریف نے اس منصوبے میں بڑی دلچسپی دکھائی تھی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے لاہور سے پہلے کراچی کے سرکلر ریلوے کو ترجیح دی تھی، مگر بدقسمتی سے 2013ء میں وزیراعظم بننے کے بعد وہ کراچی آئے تو اعلان ضرور کیا کہ وہ کراچی سرکلر ریلوے کا کام جلد شروع کریں گے اور اپنے اِس دورِ حکومت میں مکمل کریں گے۔ مگر عملاً اس پر پیش رفت کے بجائے وفاقی حکومت نے اس منصوبے سے ہاتھ ہی اٹھا لیا اور یہ منصوبہ سندھ حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، حالانکہ 2008ء میں سرمایہ کاری کے ادارے ’’جائیکا‘‘ کی شرائط پوری کرتے ہوئے کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے سی آر) کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا جس میں وفاقی حکومت کا شیئر60 فیصد، سندھ حکومت کا 25 فیصد اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کا شیئر 15 فیصد ہے۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے قائم کے سی آر نے کام شروع کردیا تھا، جس کے بعد ’’جائیکا‘‘ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے باقاعدہ سرمایہ کاری کی منظوری دے دی تھی اور حکومتِ پاکستان اور متعلقہ اداروں کو اس بارے میں خط بھی لکھ دیا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے بھی جاپان حکومت کو شکریہ کا خط لکھ دیا تھا اور کام شروع ہوگیا تھا۔ ’’جائیکا‘‘ نے اپنے طور پر کراچی میں ماہرین کے ذریعے سرکلر ریلوے روٹ کا سروے کرایا جس کے مطابق سرکلر ریلوے 43 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہوگی جو وزیر منشن سے شروع ہوکر پورٹ قاسم سے آگے بن قاسم اسٹیشن تک چلنا ہے۔ اس منصوبے میں مین لائن 13 کلومیٹر طویل ہے، اور اندرون شہر جسے ریلوے کی زبان میں ’’لوپ‘‘ لائن کہتے ہیں، 29 کلومیٹر ہے۔ ’’کے سی آر‘‘ کے منصوبے کے مطابق اس میں سٹی اسٹیشن سے لیاقت آباد، ناظم آباد، گلشن اقبال، کراچی یونیورسٹی، سہراب گوٹھ، کراچی ائر پورٹ، ملیر، لانڈھی، کینٹ اسٹیشن تک کے سارے ہی علاقے شامل ہیں۔ اس کے کُل 24 اسٹیشن ہیں۔ اس کا پورا سفر 65 منٹ میں مکمل ہوگا۔ اس کی رفتار چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ’’جائیکا‘‘ کے منصوبے کے مطابق ہر چھ منٹ بعد ہر اسٹیشن پر ٹرین موجود ہوگی، یہ ٹرین مکمل ائرکنڈیشنڈ ہوگی، اس کا کرایہ کم سے کم 7 روپے اور زیادہ سے زیادہ 24 روپے طے کیا گیا تھا، یہ صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک کسی وقفے کے بغیر روزانہ 18 گھنٹے شہریوں کو سفر کی سہولت فراہم کرے گی۔ اس کے ذریعے پندرہ لاکھ مسافر روز سفر کرسکیں گے۔ البتہ ابتدا میں اس کا تخمینہ پانچ سے سات لاکھ مسافر روز کا رکھا گیا۔ سپریم کورٹ کو ’’کے سی آر‘‘ کے سابقہ اور موجودہ ایم ڈی کو بلا کر ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی کارکردگی بتائیں۔ اس وقت کے ایم ڈی کا اضافی چارج کراچی میں ریلوے کے ’’ڈی ایس‘‘ کے پاس ہے۔ اس منصوبے کو سندھ حکومت کی درخواست پر وفاقی حکومت کی رضامندی سے چین کی حکومت نے سی پیک کا حصہ بنا لیا ہے۔ اللہ کرے چین کے ذریعے ہی یہ منصوبہ مکمل ہوجائے، جس کا امکان اب کم ہوتا جارہا ہے۔
اب کچھ حقائق تجاوزات کے بارے میں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی 67 ایکڑ زمین پر 4653 تجاوزات ہیں۔ سب بڑا تجاوز وزیر منشن اسٹیشن پر (مچھر کالونی میں) ہے جہاں تجاوزات کی تعداد ایک ہزار گیارہ ہے، اور یہیں پر سرکلر ریلوے کا مین اسٹیشن ہوگا۔ تمام ٹرینیں یہیں آکر کھڑی ہوں گی۔ مینٹی نینس ورکشاپ بھی یہیں ہوگی۔
25 سو تجاوزات وزیر منشن اور چینسر ہالٹ اسٹیشن سے کارساز تک ہیں۔ سندھ حکومت نے سرکلر ریلوے لائن سے تجاوزات ہٹائے جانے والوں کی آبادکاری کے لیے تین سو ایکڑ سے زائد زمین مختص کررکھی ہے، اگر سپریم کورٹ کی نگرانی جاری رہی تو شاید وفاقی حکومت اس منصوبے کو سی پیک یا جاپان کے سرکاری ادارے ’’جائیکا‘‘ کے ذریعے شروع کرنے پر آمادہ ہوجائے، اور سندھ حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرنا شروع کردے تو ایک ماہ میں سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں اس حد تک کامیابی ممکن ہے کہ سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قائم تجاوزات کو ہٹانے کا کام کسی حد تک برق رفتاری سے آگے بڑھتا رہے۔
سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہو تب ہی کچھ پیش رفت نظر آئے گی، تاہم کراچی کے شہریوں کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسری سستی، محفوظ اور آرام دہ سفر کی سہولت ہے ہی نہیں۔ اس کی بحالی میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی حکومت اور سندھ حکومت اس کو بحال کرنا بھی چاہتی ہیں یا نہیں؟