آزاد کشمیر میں سیاسی حالات بظاہر پُرسکون تھے، اور وفاقی حکومت کی اپنی مجبوریاں اور مشکلات اس سکون کو مزید بڑھانے کا باعث بن رہی تھیں۔ راجا فاروق حیدر کی وزارتِ عظمیٰ کو زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا۔ آزاد کشمیر کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی کی اکثریت بھی حالات کا رخ دیکھ کر خاموشی سے اپنے دائرے میں محوِ رقص تھی، سوائے سینئر وزیر چودھری طارق فاروق کے، جو ٹویٹر پر اپنی شکایتوں کا اظہار کبھی فیض کے اشعار سے کرتے، تو کبھی نثر کا پیرایۂ اختیار کرتے، جس سے اُن کی شکایتوں اور شکر رنجی کا اندازہ ہوتا۔ مگر یہ لب و لہجہ اس قدر سخت بھی نہیں ہوتا تھا کہ جس کی تہ میں کسی بحران کے پلنے کے آثار مل پاتے۔ اس سے ہٹ کر سابق وزیراعظم سردار سکندر حیات خان کبھی کبھار بگڑ اور بِدک جاتے۔ چونکہ سردار سکندر حیات آزادکشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں بھی پرانے وقتوں کی سیاست کی آخری نشانیوں میں سے ایک ہیں، اس لیے وہ ٹویٹر استعمال نہیں کرتے، اور اپنے غصے کے اظہارکے لیے سیاست دانوں کے روایتی ذریعے اخبارات کا سہارا لیتے۔ آزادکشمیر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ سردار سکندر حیات خان کا حکومتوں سے روٹھ کر ماننا اور مان کر روٹھ جانا، پھر روٹھنا اور ماننا کبھی کسی سنجیدہ بحران کا باعث رہا ہے نہ اس عمل میں کسی بحران کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اکثر مواقع پر ان کی تلخیٔ گفتار کے پیچھے بہت چھوٹی سی خواہشات اور بے ضرر سے مطالبات ہی برآمد ہوتے رہے ہیں۔
فاروق حیدر کے ساتھ شخصی اختلاف رکھنے والے واحد سنجیدہ مخالف شاہ غلام قادر اسپیکر قانون ساز اسمبلی ہیں، اور خود فاروق حیدر خان بھی انہیں ایک چیلنج اور مشکل سمجھتے رہے ہیں۔ شاہ غلام قادر حد درجہ محتاط کھیل کھیلنے والے ہیں، یعنی جب تک انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ کھیر تیار ہے وہ اُس وقت تک دستر خوان پر بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں، اور یہ ان کی احتیاط پسندی کا اظہار تو ہوتا ہے مگر اُس وقت تک کھیر کوئی اور کھا چکا ہوتا ہے۔ ان کے دل میں کسی بڑے منصب کی خواہش مدتوں سے موجود تو چلی آرہی ہے مگر ان کی احتیاط پسندی نے خواہش کی اس کلی کو کھِل کر گلاب بننے کا موقع نہیں دیا۔
راجا فاروق حیدر جب مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے صدر تھے تو ان کی شخصیت اور سیاست کا کمزور پہلو رائے ونڈ سے اُن کے کمزور تعلقات اور وہاں اُن کی پسندیدگی کا کم تر معیار سمجھا جاتا تھا۔ انہیں کوہ مری کے موسموں کا شناور بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس عمومی تاثر کے باوجود وہ وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، حالانکہ اُس وقت رائے ونڈ کے پسندیدہ امیدواروں میں ٹی وی اینکر اور صحافی مشتاق منہاس، یا پھر شاہ غلام قادر شامل تھے۔ شاہ غلام قادر کو مسلم لیگ (ن) کی کشمیری لابی کا حمایت یافتہ سمجھا جاتا تھا۔ فاروق حیدر نے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کو اپنے گھر مدعو کرکے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے حق میں سفارشی قرارداد منظور کروالی اور میاں نوازشریف نے اس قرارداد کے احترام میں انہیں وزیراعظم نامزد کردیا۔ یوں اس فیصلے کو بادلِ نخواستہ ہی سمجھا جاتا رہا۔ پھر حالات نے کچھ یوں کروٹ لی کہ میاں نوازشریف کو درپیش بحرانوں اور مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ جی ٹی روڈ کے سفر پر چل پڑے۔ اس سفر میں آزادکشمیر سے جس شخص نے مصلحت اور مجبوری سے بے نیاز ہوکر کود پڑنے کا فیصلہ کیا وہ فاروق حیدر تھے۔ اس طرح شکوک کے دائرے کا شکار اُن کی وفاداری کو رائے ونڈ میں ایک نیا اعتبار اور وقار عطا ہوگیا، اور یہ بات طے ہوگئی کہ بحران اور احتجاج کے دنوں میں فاروق حیدر کی وفا کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کے ساتھ ہی فاروق حیدر رائے ونڈ کے پسندیدہ لوگوں میں سب سے اوپر چلے گئے۔ فاروق حیدر خان نے خلا کو بروقت پُر کرکے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت بلکہ رائے ونڈ گھرانے کا اعتماد ہمیشہ کے لیے جیت لیا، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی داخلی سیاست اور اعلیٰ قیادت میں راوی فاروق حیدر کے لیے چین ہی چین لکھنے لگا۔
یہ تو موافق داخلی حالات کی تصویر تھی۔ اپوزیشن کے معاملے میں بھی فاروق حیدر خاصے خوش قسمت رہے ہیں۔ ان کی اپوزیشن ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ‘‘ کی عملی تصویر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس اور پی ٹی آئی اول تو عددی اعتبار سے کوئی بڑا طوفان اُٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہیں، اور اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ انہیں طوفان اُٹھانے کی جلدی رہی ہے نہ اس میں دلچسپی۔ اس منظر کے باوجود فضا میں کسی انجانے خطرے کی بو محسوس کی جاتی رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فاروق حیدر آزادکشمیر کے آئین میں تیرہویں ترمیم کرکے کشمیر کونسل کے سارے اختیارات آزاد کشمیر حکومت کی طرف منتقل کرچکے تھے۔ اس ترمیمی مسودے کی منظوری شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نے آخری لمحوں میں دی تھی، اور اس ترمیم نے اسلام آباد اور مظفر آباد کے تعلقات میں کئی اُلجھنیں اور جہتیں پیدا کردی ہیں۔ فاروق حیدر خان نے احتساب گاڑی کے ٹائر پنکچر کرکے اس لفظ کو ہی لغت سے کھرچ ڈالنے کی روش اپنائی تھی، گویا کہ اُن کے نزدیک آزادکشمیر ’’نیک و پارسا‘‘ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی ایسی سرزمین تھی جہاں احتساب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ یوں احتساب کے معاملے پر وفاقی حکومت کے ساتھ ان کی کیمسٹری ملنے کے دور دور تک آثار نہیں تھے۔ اس دوران کوہالہ ہائیڈل پروجیکٹ کی تعمیر اور مظفرآباد کے دریائوں نیلم اور جہلم کے پانیوں کو سرنگوں کی نذر کرنے کے خلاف ’’دریا بچائو‘‘ تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک نے فاروق حیدر کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ تاثر یہی رہا کہ فاروق حیدر مہارت سے وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ اس بظاہر پُرسکون ماحول میں اپوزیشن میں فاروق حیدر کے قریب ترین اور واحد حریف سردار عتیق احمد اچانک سرگرم ہوگئے۔ انہوں نے مسلم کانفرنس کا ایک کنونشن منعقد کیا اور سرپرائز دیتے ہوئے مسلم کانفرنس کی صدارت پارٹی کے ایک راہنما مرزا شفیق جرال کے حوالے کردی۔ یہ مسلم لیگ (ن) میں متوقع ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں الگ ہونے والوں کے لیے مسلم کانفرنس کی طرف مراجعت کا محفوظ اور باوقار راستہ تھا۔ اس کے ساتھ فاروق حیدر خان کی پرائیویٹ گفتگو کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔ سردار عتیق احمد کی سرگرمیاں تیز ہورہی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کے اندر اسپیکر شاہ غلام قادر کی قیادت میں بغاوت جنم لینے کی باتیں سامنے آرہی تھیں۔ اس مشکل مرحلے پر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت فاروق حیدر خان کی مدد کو آن پہنچی۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال نے اسلام آباد میں ایک افطار ڈنر میں راجا فاروق حیدر کے دائیں بائیں بیٹھ کر بغاوت کی چنگاریوں کو شعلہ بننے سے روک دیا۔ یہ فاروق حیدر کی جی ٹی روڈ کے سفر میں رائے ونڈ کے لیے وفائوں کا صلہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے اس مرحلے پر اپنا وزن فاروق حیدر کے پلڑے میں ڈال کر طوفان کو اُمنڈنے سے پہلے ہی روک دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حدود کے اندر بغاوت کی یہ کوشش تو ناکام ہوئی، مگر یہ امکان موجود ہے کہ اگلے مرحلے میں مگر یہ کوشش بھی کس انجام سے دوچار ہوتی ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال تبدیلی پسندوں کے لیے وقت کا یہی پیغام معلوم ہوتا ہے: