دس رمضانَ یوم باب الا سلام

راجاداہر کی شکست اور محمد بن قاسم کی فتح، امت مسلمہ کی تاریخ میں نئے باب کا آغاز تھا

قوموں کی تاریخ میں، اُن کی وراثت اور اُن کی روایات میں بعض ایسے اہم دن اور واقعات ہوتے ہیں جو نشانِ راہ اور سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، جن پر اگر غور کیا جائے تو نہ صرف ماضی کے نقوش بلکہ مستقبل کے اہداف بھی روشن ہوجاتے ہیں۔ یوم باب الاسلام کی اہمیت نہ صرف برصغیر پاکستان کے بسنے والے افراد کے لیے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے غیر معمولی ہے۔ یہ دن اس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ بن قاسم کے قدموں کا اس خطے میں اسلام کی دعوت کو لے کر آنا نہ صرف سندھ بلکہ صدیوں بعد دنیا کے نقشے پر اسلام کے نام پر ایک مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوا، دس رمضان المبارک ۹۳ ہجری کو راول اور روہڑی کے مقام پر راجا داہر کا شکست کھانا اور بن قاسم کا فتح مند ہونا ایک انفرادی عمل نہیں تھا بلکہ امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ بن قاسم نے اس خطے میں اسلام کے جو بیج بوئے ان سے آخرکار شجرِ طیبہ کی شکل میں ایک نئی مملکت کا ظہور ہوا۔ ابن قاسم نے سندھ سے ملتان اور بعض روایات میں کشمیر تک اسلامی دعوت کو پہنچایا۔ اور اس طرح شمال سے آنے والے مسلم فرماں روائوں اور جنوب میں پھیلنے والی دینی دعوت نے مل کر برصغیر ہند میں ایک نئی ثقافت اور تہذیب کی بنیادیں رکھیں، اور اس تہذیب و ثقافت نے شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے اہلِ علم کو عالمی سطح پر دین کا احیاء کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اور ان کے زیر تربیت ان کے صاحبزادگان شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالعزیز اور عبدالحق محدث دہلوی کے ذریعے شاہ صاحب کی قرآنی فکر کو آگے بڑھانے میں امداد دی، نتیجتاً شاہ صاحب کے جانشینوں میں شاہ اسماعیل شہید جیسے افراد کا ظہور ہوا۔
اگر غور کیا جائے تو اس واقعہ کے غیر معمولی گہرے ثقافتی، تاریخی اور علمی اثرات نہ صرف اہالیانِ ہند بلکہ مشرق وسطیٰ، جنوبی مشرقی ایشیا اور یورپ و امریکہ تک پہنچے اور اس خطے سے ایسے اہلِ فکر ابھرے جن کی فکر نے مغرب و مشرق پر گہرے نقوش چھوڑے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں صرف بیسویں صدی میں اس خطے نے عالم اسلام اور دنیا کو علامہ اقبال اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ابوالحسن ندوی جیسی شخصیات دیں۔ یہ واقعہ اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ تھا جس میں پہلا اسلامی معرکہ بدر کے مقام پر ہوا، جس نے مستقبل میں انسانیت کے نقشے اور سمت کا تعین کیا اور نظامِ عالم کو تبدیل کرکے عدل اور توحید کی بنیاد پر ایک نیا عالمی نظام دیا۔ اس نئی تحریک، اس نئی فکر اور نئی پکار نے انسانیت کو ایک نئے روح پرور نظام سے متعارف کرایا۔ بدر کے معرکے نے تاریخ میں اہلِ اسلام کو مقامِ قیادت دیا۔ سب نے جان لیا کہ اب کون تاریخ بنے گا، اب فیصلے کس بنیاد پر ہوں گے، اب انسانیت کے لیے معیارِ اخلاق کیا ہوگا۔ اسی مبارک مہینے میں ۸ رمضان المبارک کو فتح مکہ واقع ہوئی، معرکہ بدر اور فتح مکہ نے پوری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا، بالکل ایسے ہی ۱۰ رمضان المبارک کو راجا داہر کی شکست اور اسلام کی فتح نے برصغیر میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ اسی بناء پر یوم باب الاسلام ہمارے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
بن قاسم کی ۷۱۱ء میلادی میں سندھ کو انسانی حقوق کے تحفظ اور مظلوم افراد کو ریاستی ظلم و تشدد اور پامالیٔ حقوق انسانی سے نجات دلانے کی ایک عظیم خدمت تھی۔ مغرب اور مغرب زدہ دانشور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے حقوقِ انسانی کا ایک اعلانیہ جاری کیا جس میں انسان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی طرف متوجہ کیا گیا، لیکن اگر بلاکسی تعصب کے دیکھا جائے تو یہ منشور دنیا کے ممالک کے لیے ایک اعلیٰ دستاویز تو فراہم کرتا ہے لیکن حقوق کے تحفظ کی قانونی ضمانت نہیں دیتا۔ جب کہ اسلام نے جو انسانی حقوق قرآن و سنت میں دیے ہیں وہ تجاویز اور مشورے نہیں ہیں بلکہ قانونی زبان میں ’’حق‘‘ یا Right کا مقام رکھتے ہیں۔ بات یہ ہورہی تھی کہ بن قاسم کی سندھ میں آمد صرف اور صرف انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک عملی اقدام تھا۔ اس غرض سے عراق کے مسلمان گورنر حجاج بن یوسف نے بن قاسم کو اُن مسلمان بیوائوں اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سندھ بھیجا جنہیں راجا داہر کے حکم سے قیدی بنالیا گیا تھا۔ یہ حقوق انسانی کی بحالی کے لیے انسانیت کے دورِ جدید میں پہلا عسکری اقدام تھا۔ بن قاسم نے جو عالمی روایت ۱۲۳۱ء سال قبل قائم کی اس کو محض نظری (Theoretical) سطح پر ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کے منشور انسانی حقوق میں تسلیم کیا گیا، لیکن اس منشور کی موجودگی میں دنیا کے لاکھوں مظلوم افراد آج بھی سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور ثقافتی غلامی میں مبتلا ہیں اور اقوام متحدہ کا منشور انہیں ان کا پیدائشی حق دلانے میں ناکام رہا ہے۔ بہت واضح مثالیں فلسطین اور کشمیر کے مظلوم انسانوں کی جدوجہد آزادی ہے۔
ابنِ قاسم نے سندھ میں جس روایتِ علم کا آغاز کیا، اس نے سندھ کی مروجہ جاہلی تہذیب کے توہمات، بت پرستی اور فرماں روا کے آمرانہ اختیارات کی جگہ وحی الٰہی اور علم پر مبنی ایک نئی ثقافت کو متعارف کرایا۔ سندھ میں ٹھٹہ علم و فکر اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ صنعت و حرفت نے ایک نئی شکل اختیار کی، سندھ کاشی ٹائلوں اور ہندی شکلوں میں بننے والے رنگ برنگے ظروف کی برآمد کی ایک بڑی منڈی بن گیا۔ وہ سرزمین جہاں پر بت پرستی کا چرچا تھا اور انسان اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اعلان سے گونج اُٹھی اور وہی ہاتھ جو کل تک انسانی مجسمے اور بت بناتے تھے، کاشی کار ٹائل اور گھریلو استعمال اور تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والے ظروف کی تخلیق کے لیے مشہور ہوگئے۔ اب انسانی شکلوں کی جگہ فطرت سے قریب پھول، پتوں اور ہندسی شکلوں نے لے لی اور فنِ ظروف سازی اسلامی دعوت کے پھیلانے کا ایک ذریعہ بن گیا۔
ابن قاسم نے یہاں آکر حقوقِ انسانی کی بحالی کا ایک نیا باب تصنیف کیا اور اس کے عادلانہ طرزِ حکومت کے نتیجے میں رضا کارانہ طور پر سندھ کے عوام نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا، اور دین کے علَم بردار بن کر علمی روایات قائم کیں جو آج تک اس خطے کے اندر موجود ہیں۔ سندھ میں قدیم کتب خانوں کا کثرت سے پایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی ثقافت کے اس مرکز میں عوام الناس میں تعلیم اور علمی ذوق کا معیار بہت بلند تھا، اور یہ روایت اُس وقت تک قائم رہی جب تک انگریز سامراج نے برصغیر کو اپنا غلام نہیں بنایا۔ یہاں کے قدیم کتب خانوں میں چاہے وہ ٹھٹہ کے کتب خانے ہوں، میرپور خاص کے کتب خانے ہوں یا دیگر مقامات کے کتب خانے… اُن میں جو علمی سرمایہ پایا جاتا تھا اس سے پتا چلتا ہے کہ سندھ کے علماء نے نہ صرف علمی اثاثہ محفوظ کرنے میں بلکہ اسے آگے بڑھانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور یہاں سے مولانا عبیداللہ سندھی جیسے علماء پیدا ہوئے۔
ابنِ قاسم نے سندھ کی مذہبی طبقہ واریت کو جس نے انسانوں کو اعلیٰ ذات (برہمن)، جنگ جو (کشاتریا)، تاجر (ویشا) اور کم ذات یا غلاموں سے بدتر (شودرا) میں تقسیم کیا ہوا تھا اس نظام کو، اسلام کے نظام عدل اور حقوق انسانی پر مبنی نظام سے تبدیل کیا جس کی بنیاد انسانوں کی پیدائشی طور پر مساوات پر تھی کہ سب انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ رنگ و نسل اور خون کی بنیاد پر کوئی تفریق جائز قرار نہیں دی جاسکتی۔ انسانوں کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی چیز ان کا اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دوسروں سے بڑھ جانا ہے۔ تقویٰ ہی کسی انسان کو دوسرے سے افضل بناسکتا ہے۔ اس کا سفید یا سیاہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس انقلابی فکر نے انسانوں کو تعصبات سے نجات دلائی اور ایک نئی تہذیبی روایت کو قائم کیا۔
اس نئے نظام کو قائم کرنے والا ابن قاسم بیسویں صدی کے معیارات کے لحاظ سے ابھی ووٹ ڈالنے یا کار چلانے کا لائسنس حاصل کرنے کا اہل بھی نہیں تھا، لیکن کم عمری کے باوجود اس نے ۱۷ سال کی عمر میں عراق سے سفر کرکے سندھ آکر ان مظلوم یتیموں اور بیوائوں کو رہا کرایا جنہیں سندھ کے ہندو راجا داہر نے ان کے سمندری جہازوں کو لوٹ کر اپنا قیدی بنایا تھا۔ ابن قاسم وہ نوجوان تھا جس نے کچھ عرصہ قبل جب وہ ۱۵ سال کا تھا کرد قبائل کی بغاوت کو دور کیا تھا اور جس نے شیراز جیسے شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ اس کی قوتِ ایمانی اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسا تھا جس نے اسے ہر قدم پر کامیابی دی۔ ابن قاسم نے کم عمری میں نہ صرف اس خطے میں اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی بلکہ ایک ایسا نظام قائم کیا جس میں اُس وقت کی آبادیوں کو حقوقِ انسانی دیے گئے، اُن کے ساتھ مذہبی رواداری کا اظہار کیا گیا اور انہیں پوری مذہبی اور ثقافتی آزادی دی گئی کہ وہ اپنے رسوم و رواج پر بغیر کسی دبائو کے عمل پیرا رہ سکیں۔ ابن قاسم کی اس رواداری اور انسانیت دوستی سے متاثر ہوکر سندھ کے ہندوئوں نے ابن قاسم کو اپنے خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے پرستش کرنی چاہی۔ لیکن ابنِ قاسم نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور انہیں سمجھایا کہ عبادت، بندگی اور پرستش صرف اللہ کے لیے ہے۔ انسان پر انسان کی حاکمیت ظلم ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ابن قاسم نے اپنی عملی مثال سے یہ پیغام دیا کہ اسلام انسانوں کے درمیان تفریق ختم کرتا ہے، طبقات کو مٹاتا ہے اور تمام انسانوں کو ایک برادری قرار دیتا ہے۔
یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ وادی سندھ تاریخی طور پر ہندو مذہب کی جائے پیدائش اور اس کے وجود اور نشوونما کا مرکز تھی، اور جب شمال سے سفید نسل کے وہ آریائی افراد جنہیں بعد میں برہمن کہا گیا یعنی ہلکے رنگ والے افراد، یہاں پر آباد ہوئے تو اس وادی کی مناسبت سے پہلے ان کے لیے سِندھس اور پھر ہندوس کی اصطلاحات کا استعمال عام ہوگیا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ اصطلاح ہندو بن گئی۔ ان آریائی نسل کے افراد نے مقامی سِندھس یا ہندئوس آبادی کو جو گندمی اور سیاہ رنگ رکھتی تھی، سیاسی اور معاشی دبائو کے ذریعے جنوب کی طرف دھکیلنا شروع کردیا۔ جنوب میں انہیں دراوڑ کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اس طرح دراوڑ اور دیگر افراد جو یہاں کے اصل باشندے تھے اور جنہوں نے یہاں پر قدیم سے زندگی گزاری تھی یہاں سے جنوب میں ہجرت کر گئے۔ اس علاقے کو فتح کرنے والے، شمال سے آنے والے مقابلتاً کھلتے ہوئے رنگ والے آریائوں نے یہاں جو نظام قائم کیا اس نظام کے اندر نہ فرد کی آزادی تھی، نہ فرد کی عزت تھی، نہ فرد کو بحیثیت انسان کے مانا گیا تھا، بلکہ وہ چارطبقات کو قانونی تحفظ فراہم کرتا تھا۔ برہمن اعلیٰ ترین نسل تھی، کشاتریا، ویشا اور شودرا کم تر ذاتیں قرار پائیں۔ سندھ میں اسلام کی آمد نے اس طبقاتی نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہا اور یہ پیغام دیا کہ تمام انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں، اس لیے ان میں کوئی تفریق نہیں ہوسکتی، وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق میں مساوی ہیں۔ فرق کی بنیاد صرف اور صرف اس کا اخلاقی طرزعمل ہے، جس کا اخلاقی طرزعمل بلند ہوگا وہی معزز اور محترم ہوگا۔ ایک غلام زادہ بھی بادشاہ کے تخت پر بیٹھ سکتا ہے اگر اس کا کردار و اخلاق دوسروں سے افضل ہو۔ ایک شودر کی اولاد جنہیں Untouchable کہا جاتا ہے، ایک تاجر کی اولاد، ایک شہزادہ، ایک جنگجو کی اولاد، یا ایک برہمن کی اولاد کو اس بناپر الگ نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کا باپ برہمن تھا، اس کا باپ کشاتریا تھا، اس کا باپ فلاں قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ذات اور نسل کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرنا اسلام کے انسانی حقوق کے منافی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے۔
یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم نے بہت سے بیرونی اور جاہلی ثقافتی اثرات کو قبول کرتے ہوئے خود اُمتِ مسلمہ کے اندر وہ تقسیم پیدا کرلی ہے جن کی بنیاد اسلام میں نہیں ہے اور جو ابن قاسم کے یہاں لائے ہوئے پیغام کے بالکل منافی ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مختلف ذاتوں کے لحاظ سے، زبانوں کے لحاظ سے، نسلوں کے لحاظ سے، برادریوں کے لحاظ سے، علاقوں کے لحاظ سے تقسیم کرتے ہیں اور بڑے فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں شادی صرف ہماری ذات والوں میں ہوتی ہے۔ ابن قاسم نے یوم باب الاسلام کے ذریعے جس روایت کو یہاں پر قائم کیا وہ روایت وہی تھی جس کو مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہمیں سمجھایا تھا۔ دین اسلام نے انقلابی طور پر ذات، خون اور معاشی اجارہ داری کو ختم کرنے کے بعد مساواتِ انسانی کا درس دیا تھا۔ ابن قاسم کے دور میں کوئی تفریق نہ ذات کی بنیاد پر کی گئی، نہ زبان کی بنیاد پر کی گئی، نہ نسل کی بنیاد پر کی گئی، نہ دولت کی بنیاد پر کی گئی۔ اور اُن تمام تفریقات کو دور کرتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ دی گئی جو اسلام کے عالمگیر عادلانہ اصولوں کا نمائندہ ہو۔
یوم باب الاسلام کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ اس تاریخی واقعہ نے سندھ کے مظلوم انسانوں کو اندھی جاہلی روایات سے آزاد کرایا۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سندھ میں ہماری تہذیبی اور ثقافتی جڑیں کس سرزمین میں پیوستہ ہیں۔ سندھ میں باب الاسلام کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مصر میں عمرو بن عاصؓ کے فتح مصر کے بعد وہاں پر تاریخ کا ایک روشن دور شروع ہوا اور ماضی کی تاریکیاں جن میں فراعنہ مصر کی مشرکانہ تہذیب ڈوبی ہوئی تھی وہ قیامت تک کے لیے ماضی کی دبیز تہوں میں دفن ہوگئی تھیں، اور وہ لوگ جو فراعنہ مصر سے اپنا رشتہ جوڑتے اور فخر سے اپنے آپ کو فرعونوں کی اولاد کہا کرتے تھے اس رشتے کو توڑ کر اللہ کی بندگی اور انسانی مساوات کے رشتے میں منسلک ہوگئے۔ مصر کی مسلمان آبادی نے اس تاریخی واقعہ کے بعد فراعنہ کی تہذیب سے اپنے آپ کو منقطع کیا اور اپنی تاریخ کا آغاز فتح مصر کے بعد وجود میں آنے والی اسلامی تہذیب سے کیا۔ اہرام مصر آج بھی قبل اسلام کی جاہلی تہذیب کی علامت ہیں جبکہ مسلمانانِ مصر اپنا رشتہ فراعنہ سے نہیں بلکہ عمروبن عاصؓ کی لائی ہوئی اسلامی تہذیب و ثقافت سے جوڑتے ہیں۔ جن ثقافتی نشانیوں کی طرف اہلِ مصر متوجہ ہوتے ہیں وہ نہ ابوالہول کا مجسمہ ہے اور نہ طوطا خانوں کی حنوط شدہ لاش، بلکہ وہ مساجد ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں تعمیر ہوئیں، وہ کتب خانے جو مخطوطات سے بھرے پڑے ہیں، اور وہ تعمیرات جو اسلامی طرزِ تعمیر کی نمائندہ ہیں، انہی کا نام مصری تہذیب ہے، یہی مصریوں کی پہچان ہے۔ اہلِ فن آج بھی روایتی پپائرس کاغذ کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کاغذوں پر بننے والے نقوش قدیم مصری فراعنہ کی جگہ اسلامی ثقافت سے وابستہ روایت کی نمائندگی کرتے ہیں، قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبویؐ کو کوفی، ریحانی، دیوانی اور خط مسلسل میں تحریر کرکے دیکھنے والوں سے تعریف و تحسین وصول کرتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یوم باب الاسلام دراصل ایک نئی ثقافت، ایک نئی تہذیب، ایک نئے رجحان کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ محض باہر سے آئے ہوئے ایک فرد کی فتح کی داستان نہیں ہے کیونکہ یہ فتح جس بناء پر ہوئی وہ کوئی استحصالی حملہ نہ تھا بلکہ یہاں پر حقوقِ انسانی جن کو صدیوں سے پامال کیا گیا تھا، یہ ان کی بحالی کے لیے ایک جرأت مندانہ حریت پسند انسانی اقدام تھا، یہ ایک آزادی کا اقدام تھا جس کے ذریعے اُن افراد کو جو نہ صرف جبراً قید کرلیے گئے تھے بلکہ اُن افراد کو جن کے دل و دماغ کو غلام بنادیا گیا تھا اور جن پر انسانوں اور پتھر کے بتوں کو بطور حاکم مسلط کردیا گیا تھا، ان انسانوں کو غلامی سے نکال کر عظمتِ انسانی سے روشناس کرایا گیا۔ ذات پات اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑ کر خالقِ کائنات کی حاکمیت کو اس کی زمین پر قائم کیا گیا۔
باب الاسلام کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ برصغیر کی امتِ مسلمہ کو دنیا کے باقی تمام مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کا ایک بنیادی عمل تھا۔ ابنِ قاسم کی سرزمین سے ایسے صاحبِ علم افراد ابھرے جنہوں نے علومِ اسلامی کے مراکز میں اشاعتِ علم میں اہم کردار ادا کیا۔ معروف فقیہ اور مفکر امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے جب مدینہ منورہ جاکر تحصیلِ علم کرنی چاہی تو ان کے اساتذہ میں سندھ کے ایک استاد بھی تھے جنہوں نے نہ صرف شاہ صاحب کو بلکہ معروف مجدد محمد ابن عبدالوہاب کو بھی دروس دیے۔
۱۰ رمضان المبارک کو ابن قاسم کی سندھ میں کامیابی کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچے، اس کی تفصیلات میں جائے بغیر ہم اختصار سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ یوم باب الاسلام نہ صرف برصغیر بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی ایک اہم تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں جس نظام کی بنیاد رکھی گئی اس کی پہچان عدل، رواداری، تحمل، حاکمیتِ الٰہی اور معاشرتی فلاح تھی۔ اس نظام میں انسان کے بلند ہونے کی بنیاد نہ دولت تھی نہ اس کی نسل، بلکہ اس کا علم و تقویٰ اور صلاحیت۔
سندھ میں اشاعتِ اسلام کا بڑا سبب وہ عادلانہ نظام تھا جس کے ذریعے ایک اعلیٰ ذات کے فرد اور ایک کم معاشرتی مقام کے حامل شخص کو یکساں عدل کے حصول کے مواقع ملے۔ اسلام نے جس رواداری کا مظاہرہ کیا وہ دلوں کو جیتنے کا ذریعہ بنی اور اہلِ سندھ نے بغیر کسی مزاحمت کے اس نئے نظام کا استقبال کیا، ابن قاسم کو اپنا نجات دہندہ قرار دیا اور اس کی اعلیٰ انتظامی صلاحیت اور عادلانہ رویّے کے نتیجے میں سندھ کے طول و عرض میں اسلامی ثقافت نے جڑیں پکڑیں۔ یوم باب الاسلام کے حوالے سے ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ ابن قاسم نے مظلوم اور مصیبت زدہ بیوائوں اور بچوں کی پکار پر حالات سے بے پروا ہوکر ایک انجانے ملک اور خطے کی طرف کوچ کیا اور جس طرح طارق بن زیاد نے اللہ کی امداد پر توکل کرتے ہوئے اسپین کے مظلوم افراد کی پکار پر لبیک کہا تھا، بالکل اسی جذبے کے ساتھ ابن قاسم نے اسلامی فریضے اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر قید کیے گئے یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کو رہا کرانے کے لیے سندھ کی مہم کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ آج دنیا کے ہر خطے میں بے شمار انسان ظلم و ستم کا نشانہ ہیں۔ مسلم ممالک میں بھی جو لوگ دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں مسلم حکومتیں انہیں سخت ناپسند کرتی ہیں اور جیل اور تعذیب کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہی شکل اُن تحریکاتِ آزادی کی ہے جو ایشیا، وسط ایشیا اور افریقہ میں اپنے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جہاد میں مصروف ہیں۔ حالات اس مقام پر آگئے ہیں جب ایک نئے ابن قاسم کی ضرورت ہے جو عصبیت، لسانی قومیت، قبائلی بتوں اور اسلام دشمن تصورات کی جگہ اس روایت کو تازہ کرے جو تقریباً ہزار سال قبل اس خطے کی پہچان بن گئی تھی۔ یہ نیا ابن قاسم آسمان سے نہیں اسی خطے سے ابھرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب ایک قوم اپنے آپ کو بدلنا چاہتی ہو تو وہ اسے ہدایت و رہنمائی دیتا ہے تاکہ حق غالب آجائے اور باطل فنا ہوجائے، بلاشبہ باطل فنا ہونے ہی کے لیے ہے۔