رمضان المبارک، انسان کی جسمانی و روحانی صحت کا فطری پروگرام

اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں ایک بار پھر یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنی بخشش اور نجات کا سامان کرسکیں۔ کس قدر عظمت ہے اس مہینے کی جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے بچنے کا ہے۔ کتنی بڑی خوش خبری ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے، اور رمضان کی برکت سے روزہ دار اس طرح پاک اور معصوم ہوگا جیسے اس نے نیا جنم لیا ہے اور وہ معصوم ہے۔ اس فضیلت والے مہینے کی ایک رات ایسی بھی ہے جو خیر کے اعتبار سے ایک ہزار مہینوں پر بھاری ہے۔ اس مہینے میں فرائض کا اجر70 گنا سے بڑھ جاتا ہے اور نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہوجاتا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی ایک ماہ کی ریاضت اور تقویٰ جنت کی بشارت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔روحانی اعتبار سے روزے کی فضیلت اور اہمیت اپنی جگہ، لیکن روزہ طبی اعتبار سے بھی ایک انتہائی مفید ریہرسل ہے جو امتِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے۔ ایسے بہت سے امراض جن کے علاج کے لیے ڈاکٹر اور اطبا حضرات دوائیں دے دے کر عاجز آجاتے ہیں روزے کا فطری نظام ان امراض کے خاتمے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ روزے کے فیوض و برکات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہمارے بہت سے عقل مند اور نام نہاد دانشور حضرات رمضان کے آتے ہی ’’موسمی بیمار‘‘ ہوجاتے ہیں، اور جوں ہی رمضان گزرتا ہے ان کے امراض بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
سال بھر میں کھانے پینے میں جو بے اعتدالی ہم کرتے ہیں، روزہ اس میں فطری طریقے سے توازن پیدا کرتا ہے۔ روزہ دار اس عبادت کے ذریعے کم از کم حسب ذیل امراض سے نجات پاتا ہے:
تبخیر معدہ اور تیزابیت کا خاتمہ:
اکثر مریض بلکہ آبادی کا ایک کثیر طبقہ یہ شکایت کرتا ہے کہ کھانے کے بعد پیٹ بوجھل ہوجاتا ہے، اپھارہ ہوجاتا ہے، ڈکار آتے ہیں، سینہ میں جلن ہوتی ہے۔ عصر حاضرکے اس تکلیف دہ مرض کے لیے قسم قسم کی پھکیاں اور ’ہاضم چورن‘ بازار میں کثرت سے فروخت ہوتے ہیں جو بعض اوقات اپنے تیز اجزا کی وجہ سے منفی اثر بھی رکھتے ہیں۔
اس مرض کے اسباب میں عموماً بسیارخوری، بے وقت کھانا، کھانوں کے اوقات میں مناسب وقفہ نہ کرنا، ہر قسم کی غیر مناسب، ثقیل، مرغن اور دیر ہضم خوراک کا استعمال ہے۔ اس کے برعکس روزہ سحری و افطاری کا فطری ٹائم ٹیبل دیتا ہے، جس کا فائدہ یہ ہے کہ دورانِ رمضان جب بھوک اور پیاس پر قابو پاتے ہوئے بے جا خوراک اور پانی کا بے جا استعمال کم ہوجاتا ہے تو تبخیر کا عارضہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ معدہ کی تیزابیت جس سے معدہ میں جلن، منہ کا ذائقہ کڑوا اور گھبراہٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس فطری ٹائم ٹیبل سے ان امراض میں کمی آجاتی ہے۔ مذکورہ اسباب جب طویل عرصے تک رہتے ہیں تو بالآخر معدہ کا السر (Peptic Ulcer) لاحق ہوجاتا ہے۔ روزے کی وجہ سے غذا میں فطری توازن ہضم کے نظام کو درست کرتا ہے، معدہ میں پیدا ہونے والے Enzyme میں مخصوص توازن اور ترتیب جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں ایسے مریض جو ہر وقت تبخیر، گیس، بدہضمی، بوجھل پن اور تیزابیت کی شکایت کرتے ہیں، روزے کی برکت سے اس تکلیف سے نجات پاتے ہیں۔
موٹاپا اور پیٹ کے بڑھنے سے نجات:
آج کل اکثر مرد و خواتین پیٹ کے بڑھنے اور موٹاپے سے وزن کے بڑھنے کی شکایت کرتے ہیں جس کی وجہ سے سانس کا پھولنا، جسم میں تھکاوٹ کا ہونا، اور چربیلے اجزا (Fats)کے بڑھنے سے اکثر Fatiy Liver کا مرض لاحق ہوتا ہے، جو دیگر کئی تکلیف دہ امراض کا سبب بنتا ہے۔ روزے کی کیفیت سے جب بھوک بڑھتی ہے، پیاس تنگ کرتی ہے تو سائنسی تحقیق کے مطابق غیر ضروری چربی تحلیل ہوتی ہے، جس سے پیٹ کا بڑھنا اور موٹاپا فطری طور پر کم ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں وزن کو کم کرنے کے لیے جتنے سلمنگ سینٹر یا جم کام کررہے ہیں اُن میں بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ خوراک بالخصوص چربیلی اور مرغن غذائیں بند کردی جائیں۔ روزے سے پیٹ اور وزن کا کم ہونا علیحدہ، اور مفت میں ثواب علیحدہ ملتا ہے۔
کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں کمی:
جدید دور میں مرغن غذائوں کا بے جا استعمال عام ہے۔ ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں چٹ پٹے اور مرغن کھانوں کے علاوہ کڑاہی گوشت، لذیذ بریانی، برگر اور Pizza، بیکری کے سامان، کریم کیک اور کریم، بلکہ ناقص تیلوں میں تیار کردہ مٹھائیاں، پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ میں کثرت سے استعمال ہونے والی کریم… ایسے کھانے کھاکر رات گئے تک تقاریب کو Attend کرکے دیر سے سونے اور دیر تک سوتے رہنے کی عادی نئی نسل کولیسٹرول کے بڑھنے اور اس کی وجہ سے بلڈ پریشر کے بڑھنے کا شکار ہورہی ہے۔ آہِ سحر گاہی اور نالہ نیم شب سے بے نیاز ہم قدرت کے اس سنہری اصول کو بھلا چکے ہیں:
Early to bed, Early to rise, Makes a man Healthy wealthy and wise
جس کا نتیجہ ہے کہ ورزش اور سیر نہ ہونے کی وجہ سے خون میں چربیلے اجزا جنہیں طبی اصلاح میں Cholesterol کہا جاتا ہے، پیدا ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون کی شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہوکر بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔ مریض اکثر شکایت کرتا ہے کہ چلتے ہوئے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کا سانس پھول جاتا ہے، کندھوں اور سینے میں کھچائو پیدا ہوتا ہے۔ روزہ بڑھے ہوئے کولیسٹرول میں کمی اور خاتمے کا ذریعہ بنتا ہے۔ بلڈ پریشر کے مریضوں سے جب مرض کے بارے میں تفصیل پوچھی جاتی ہے تو اسباب میں مرغن غذائوں، مسالہ دار غذائوں اور گھی یا کوکنگ آئل کے بے جا استعمال اور ورزش یا پیدل چلنے سے گریز پایا جاتا ہے۔ روزے کے تحت جب معدہ کی ’’بھٹی‘‘ میں زائد المقدار بدنی رطوبات جلتی ہیں تو فطری طور پر کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی زیادتی میں کمی ہوتی ہے اور صحت بغیر دوا کے بحال ہوتی ہے۔
شوگر کا فطری علاج:
آج کے دور میں شوگر کا بین الاقوامی مرض پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ درجنوں دوائیں ایجاد ہوچکی ہیں، تحقیقات کا دائرہ وسیع تر ہے، لیکن یہ مرض جنگل کی آگ کی طرح صحت مند لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور عملاً ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ شوگر کا دیگر کئی اسباب کے علاوہ ایک سبب زیادہ کھانا اور موجودہ دور کے کولڈ ڈرنکس کا بے جا استعمال ہے۔ بہ ظاہر کہا جاتا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر اور شوگر لیول کم ہوتا ہے، لیکن روزے کے بارے میں ایک حقیقت کبھی نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ روزہ درحقیقت قوتِ ارادی سے تکمیل پاتا ہے۔ روزہ دار جب مرض کی پروا کیے بغیر اللہ کی ذات اور اس کی طرف سے عطا کردہ توفیق سے روزے کا عزم کرلیتا ہے تو مرض اس عزم کی راہ میں حائل نہیں ہوتا بلکہ مرض زائل ہوجاتا ہے، کہ روزہ دار ان امراض سے نجات پالیتا ہے اور اجر بھی کماتا ہے۔
سگریٹ نوشی اور نسوار خوری سے نجات کا سنہری مہینہ:
سگریٹ نوشی اور نسوار خوری کے بارے میں دنیا بھر کی میڈیکل سائنس اور تحقیقی ادارے متفق ہیں کہ دونوں عادات انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، نیز یہ جگر، گلے، پھیپھڑے کے کینسر، منہ کے کینسر اور امراض قلب کا سبب ہیں۔ روزہ دار شخص جو شدت کی گرمی میں طویل دورانیہ کے روزے میں بھوک، پیاس اور سگریٹ اور نسوار کی جدائی کو برداشت کرتا ہے وہ افطار کے بعد بھی چند گھنٹوں کے لیے ان کے بغیر گزارہ کرسکتا ہے۔ اگر کوئی انسان ان علتوں سے نجات چاہتا ہو تو رمضان سنہری موقع ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو روزے کی برکت سے سگریٹ نوشی اور نسوار خوری سے نجات پاچکے ہیں۔
ہم بحیثیتِ مجموعی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اور جسمانی امراض کے ازالے کا سالانہ کورس مقرر کردیا ہے، جو لوگ اس سالانہ کورس سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ دین و دنیاکی فلاح پاتے ہیں۔ آج یورپ اور امریکہ میں ایسے مرض جن کا علاج ادویہ سے ممکن ہیں، ان امراض میں مبتلا مریضوں کو Fasting Homes میں داخل کیا جاتا ہے، مقررہ وقت پر کھانے میں ہلکی خوراک اور جوس دیئے جاتے ہیں، باقی اوقات میں مریض کو بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا ہے۔ وہ امراض جو ادویہ سے ختم نہیں ہوتے، وہ اس ’’جبری‘‘ روزے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ ہم قدرت کے اس عطیہ روزہ، پانچ وقت نماز، تراویح اور نوافل ادا کرکے اپنی عاقبت کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ صحت کی دولت سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
موسم کے مطابق سحری و افطاری میں احتیاطی تدابیر:
رمضان المبارک چونکہ شدید موسم گرما میں آیا ہے، لہٰذا موسم کے مطابق سحری و افطاری میں غذائی احتیاط کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ دن بھر کا بھوکا پیاسا روزہ دار ٹھنڈے مشروبات کو زیادہ سے زیادہ مقدار میں پی کر سکونِ قلب چاہتا ہے، تاہم افطار کے وقت بے احتیاطی معدہ کے امراض اور اکثر اوقات پیٹ میں درد اور قے کا سبب بنتی ہے۔احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر بازاروں میں وسیع پیمانے پر تیار کی جانے والی فروٹ چاٹ، دہی بھلے، پکوڑے، سموسے، جلیبی اور دیگر سامانِ خورونوش میں بیکٹریا پیدا ہوتا ہے، وقتی طور پر یہ غذا بھوک کی وجہ سے زیادہ کھائی جاتی ہے جو بعدازاں فوڈ پوائزننگ کا سبب بن جاتی ہے۔ بازار کے اکثر تیار کردہ پکوان عموماً نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ یخ بستہ پانی، رنگین شربت، کولڈڈرنکس، ان کے ساتھ گرم گرم پکوڑے، سموسے جن کے بغیر افطار مکمل نہیں سمجھی جاتی، معدہ میں فتور پیدا کرتے ہیں۔ نازک مزاج لوگ جلد ہی قے، پیٹ درد، بدہضمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
روزہ افطار کرتے وقت ہمیں صحابہ کرامؓ کے عمل کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سادہ پانی اور کھجور کا استعمال توازن کا راستہ ہے۔ اکثر افطار پارٹیاں رنگا رنگ کھانوں سے بھرپور ہوتی ہیں، اور اکثر افطار پارٹیوں میں افطار کے لیے آنے والے الاماشااللہ بے روزہ ہوتے ہیں۔ افطار پارٹیاں نماز کے ضیاع اور دن بھر روزہ رکھ کر شام کے وقت مزدوری وصول کرنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعائوں کے ذریعے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگنے کی بجائے چھینا جھپٹی کی نذر ہوجاتی ہیں۔
سحری میں پراٹھے اور اتنا پیٹ بھر کر کھانا کہ سحری کے مرغن کھانوں کے بعد نیند کا غلبہ اور فجر کی نماز یا دیگر نمازوں کا ضیاع، مناسب رویہ نہیں۔ روزہ نام ہی اس کا ہے کہ آدمی کو شدت کی بھوک اور پیاس کا احساس ہو، تاکہ ہمیں محسوس ہو کہ ہمارا بھوکا یا پیاسا بھائی کیسے گزر اوقات کرتا ہے۔ سحری و افطاری میں کم خوری، بھوک رکھ کر کھانا مفید اور صحت کے لیے مددگار ہے۔
طبی نقطہ نظر سے روزہ انسان کے اندر قوت پیدا کرتا ہے، بے جا ردی اور فضول رطوبات کو جسم سے تحلیل کرتا ہے، وزن میںکمی کرکے جسم میں چستی اور توانائی اور قوتِ عمل کو فروغ دیتا ہے۔ غربت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا ہے جو رمضان میں بڑھ جاتی ہیں۔ سحری و افطاری میں نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جانثار صحابہؓ کے عمل کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو ہمارے جسم و روح کی تقویت کا سامان کرتا ہے۔موجودہ موسم میں سحری و افطاری کے بعد چائے کے بجائے یہ قہوہ بے حد مفید ثابت ہوسکتا ہے:کلونجی10 دانہ، زیرہ سفید10دانہ، الائچی سبز2 عدد،، پودینہ 4 پتے، تازہ ادرک 1 گرام۔ معروف انداز سے قہوہ بناکر استعمال کریں۔