حکومت نے مقدمۂ بغاوت تو قائم کردیا تھا لیکن ابھی تک اس کا عدالتی آغاز نہیں ہوا تھا۔ ریمانڈ کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ پولیس وین میں کچہری جاتا، اور وہ کچہری کے لاک اپ میں بند کردیتے۔ دوست احباب ملنے آتے تھے، یوں حال احوال معلوم ہوجاتا۔ ایک دن ممتاز صحافی اور دانشور مختار حسن (مرحوم) ملنے آئے، عبدالماجد فوز بھی تھے۔ بعد میں وہ گورنر بلوچستان نواب محمد اکبر خان بگٹی سے ملے اور اُن سے انٹرویو لیا جو ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوا۔ ان سے جب جیل میں سیاسی قیدیوں کے بارے میں سوال کیا تو نواب بگٹی نے کہا کہ جیل میںکوئی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ اس پر مختار حسن نے کہا کہ شادیزئی سیاسی قیدی ہے، تو نواب کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
گورنر راج تھا اور نواب کی دہشت تھی۔ میں جب کچہری لایا جاتا تو عام لوگ ہم سے دور رہتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کی تو ایک خوف کی فضا پورے بلوچستان میں چھا گئی تھی۔ ہمیں ہفتے میں ایک یا دو بار لایا جاتا تھا۔ گرفتاریاں زیادہ ہورہی تھیں اس لیے نیپ نے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے وکلا کا ایک پینل قائم کردیا تھا جو سیاسی قیدیوں کے لیے معاونت کا پروگرام تھا، اور ان کے لیے ضمانت کے انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ پولیس نے ہمارے حوالے سے رپورٹ تیار نہیں کی تھی، اس لیے ہم صرف پیشیاں بھگت رہے تھے۔ جیل سے کچہری آنا ہمارے لیے ایک طرح سے پکنک تھی۔ جب ہم جیل میں لوٹتے تو ساتھی ہم سے کوئٹہ کا حال احوال پوچھتے۔ اس طرح وقت گزر رہا تھا۔
مچھ جیل میں گل خان نصیر قید تھے، انہیں بھی حکومت نے ایک مقدمے میں پھنسا دیا تھا۔ ایکسیڈنٹ کا واقعہ تھا جس میں ایک عورت گاڑی الٹنے سے گری تھی اور اس گاڑی میں کچھ لوگ تھے، مگر اُن میں گل خان نصیر نہیں تھے، لیکن حکومت نے اُن پر اس کا مقدمہ بنادیا تھا۔ وہ اس حادثے کے حوالے سے خوب ہنستے تھے اور نواب کو یاد کرتے تھے۔ نواب بگٹی سے ان کا سیاسی یارانہ تھا اور بہت قریب تھے، مگر نیپ پر نزلہ گرا تو گل خان بھی اس کی زد میں آگئے تھے اور پیشییاں بھگت رہے تھے۔ وہ جب کوئٹہ آتے تھے تو بہت خوش ہوتے تھے، اور پھر خوب کہانیاں سناتے۔ محمود عزیز کرد اور زمرد حسین دونوں نیپ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے تھے، اس لیے یہ تینوں گزرے لمحات کی یادیں تازہ کرتے اور میں یہ کہانیاں سنتا رہتا۔ یوں نیپ کے اندر جو سیاسی رجحانات تھے اُن سے آشنا ہوتا رہتا۔ ان لوگوں سے قربت بہت بڑھ گئی تھی۔ نیپ کے اس مقدمے میں میری حیثیت ایک ایسے قیدی کی تھی جس کا تعلق نیپ سے تو بالکل نہیں تھا۔ کہاں اسلامی جمیعت طلبہ اور کہاں نیپ! ایک پارٹی مکمل روس نواز، اور شادیزئی نیپ کے سیاسی رجحانات کے بالکل الٹ۔ یوں دو سیاسی رجحانات کا ملاپ بڑا دلچسپ تھا۔ سینیٹر زمرد حسین اور محمود عزیز کرد سے خوب بحث ہوتی تھی۔ نیپ کے حوالے سے انہیں اُن کی خامیاں اور کمزوریاں بتلاتا، اور بعض دفعہ وہ پریشان ہوتے تھے۔ ہماری اس گفتگو اور بحث میں نیپ کے کارکن اور بی ایس او کے نوجوان شریک ہوتے تو بعض دفعہ زمرد حسین کہتے کہ امان صاحب آپ ہمیں بہت تنگ کرتے ہیں، بھائی ہم اپنی غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، آپ ہمیں بار بار یاد نہ دلائیں۔ یوں ان سے ہماری نوک جھونک چلتی رہتی تھی، اور وہ بھی اس کوشش میں رہتے کہ جماعت اسلامی کی غلطیوں پر گرفت کریں۔ اتفاق سے 1973ء کے وسط کی بات ہے کہ کوئٹہ میں حزبِ اختلاف کا ایک جلسہ لیاقت پارک میں ہوا، جہاں میاں طفیل محمد مرحوم نے اپنی تقریر میں کہا کہ جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا اگر بلوچستان میں ہوا تو ہم فوج کا ساتھ دیں گے۔ اب میرے پاس اس وقت میاں طفیل محمد کی وہ تقریر نہیں ہے، لیکن اس کا مفہوم بالکل ایسے ہی تھا، اور جب یہ تقریر شائع ہوئی اور اخبارات جیل میں لائے گئے تو زمرد حسین نے کہا کہ شادیزئی صاحب اب آپ جواب دیں کہ میاں طفیل محمد نے یہ کیوں کہا کہ اگر بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوا تو ہم فوج کا ساتھ دیں گے؟ اس پر وہ کہتے تھے کہ جماعت اسلامی فوج کی حامی ہے اور مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل میں جماعت اسلامی فوج کی ہم نوا تھی اور اب جماعت اِس فوجی آپریشن میں فوج کا ساتھ دے گی۔ اب ان کا پلڑا بھاری تھا اور میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ میاں طفیل محمد مرحوم کو اس بیان کے حوالے سے ایک طویل خط لکھا۔ جواب میں میاں صاحب نے بھی ایک طویل خط لکھا جو جماعت اسلامی کے احباب نے کوئٹہ جیل میں پہنچایا۔ اب اس خط کو اپنے ریکارڈ میں تلاش کروں گا، مل گیا تو اس کو ان یادداشتوں کا حصہ بنادوں گا۔
اس خط میں سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ انہوں نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امان اللہ صاحب اس خط کو آپ اخبارات کے لیے جاری کردیں۔ میں قید میں تھا، کیسے خط کو جاری کرتا؟ بہتر ہوتا کہ وہ اپنے اس مؤقف کو اپنے بیان کے ذریعے جاری کرتے۔ جب وہ تقریر کرتے تو ان کے اردو لہجے میں پنجابی زبان کی جھلک نظر آتی۔ میاں صاحب انتہائی مخلص شخصیت تھے اور ایک سخت گیر امیر تھے۔ میری رائے اب یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کے بعد ایسی ہی شخصیت کو ہونا چاہیے تھا۔ اپنے جیل کے ساتھیوں کو وہ خط دکھایا اور بتایا کہ میاں صاحب نے وضاحت کردی ہے، تو وہ کچھ کچھ مطمئن ہوگئے۔ میاں صاحب جنرل ضیاء الحق سے بہت زیادہ متاثر تھے، اور میں میاں صاحب کے متاثرین میں سے ایک تھا۔
گل خان نصیر مچھ جیل کی داستان سناتے تھے، وہ کہتے تھے کہ مجھے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے، اور کوئی کتاب بھی پڑھنے کو نہیں دی جاتی، اور جو مشقتی دیا گیا ہے نہ وہ پنجابی زبان جانتا ہے، نہ بلوچی۔ میں اُس سے کچھ کہتا ہوں تو گم سم سنتا ہے اور کچھ بولتا نہیں، اور جب وہ کچھ بولتا ہے تو اس کی زبان برمی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ دن رات میرے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہیں، جب کوئٹہ لایا جاتا ہے اور آپ کے احاطے میں جگہ دی جاتی ہے تو میرے لیے آپ لوگوں سے ملنا اور ساتھ رہنا عید جیسا سماں لگتا ہے۔ پھر وہ اپنی اور نواب بگٹی کی مجلسوں کی یادیں تازہ کرتے اور کفِ افسوس مَلتے، اور کہتے: ’’یار بگٹی آپ نے مجھے مار دیا ہے‘‘۔ وہ جب بھی آتے تو یہ جملہ ضرور کہتے تھے، اور ماضی کی خوشگوار یادیں انہیں بے قرار کردیتیں۔ جیل میں گل خان نصیر سے دوستی ہوگئی، اور جب وہ جیل سے رہا ہوگئے تو ان سے ملاقاتیں ضرور ہوتیں۔ ایک دن عبدالماجد فوز نے کہا کہ میں گل خان نصیر سے روزنامہ مشرق کے لیے انٹرویو لینا چاہتا ہوں، آپ میرے ساتھ چلیں۔ ان کے داماد آغا ظاہر سے ملا اور وقت لیا۔ آغا ظاہر کوئٹہ اور مچھ جیل میں میرے ساتھ تھے، اس لیے ان سے دوستانہ بن گیا تھا۔ عبدالماجد فوز کے ساتھ گل خان نصیر کی رہائش گاہ پہنچا۔ ہمیں بیٹھک میں بٹھا دیا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تشریف لائے، مجھے دیکھتے ہی ہنس کر کہا ’’جیل کے ساتھی، کیا حال ہے‘‘۔ اس کے بعد ہم بیٹھ گئے اور ماجد فوز مرحوم نے ان سے سوالات کیے اور وہ جوابات دیتے رہے۔ جس دور کی بات کررہا ہوں یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور گورنر بلوچستان جنرل رحیم الدین تھے، اور گل خان نصیر مرحوم اُن کے بہت قریب چلے گئے تھے جبکہ نیپ سے دور ہوگئے تھے۔ نیپ کے حلقے الزام لگاتے تھے کہ گل خان فوجی جنتا کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ان کا انٹرویو مشرق اخبار میں شائع ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ کتنے سادہ تھے اور ہم نے بلوچ نوجوانوں کو کس سیاست کے رخ پر ڈال دیا۔ ہم بلوچ بھی عجیب لوگ ہیں، ایک طرف ہماری لڑائی شہنشاہ ایران سے، دوسری طرف فوج سے اور تیسری طرف امریکہ سے ہے۔ ہم نے بہت غلط راستہ اختیار کیا جس کے نتائج پوری قوم اور بلوچستان نے بھگتے، اور ہمیں اس سیاست سے نقصان پہنچا ہے۔ اتنی بڑی قوتوں سے محاذ آرائی کسی لحاظ سے بھی درست نہ تھی، ہمیں اس سیاست کو خیرباد کہنا چاہیے۔ اس بیان پرقوم پرستوں کا ردعمل شدید تھا۔ بہرحال گل خان نے عمر کے آخری حصے میں اپنی غلط سیاسی روش کا اعتراف کیا، بالکل اسی طرح کا اعتراف نواب بگٹی نے اُس وقت کیا جب سوویت یونین کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ مختصر سا حوالہ دے کر اپنی کہانی کی طرف لوٹ آئوں گا۔
جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو 29 دسمبر کی رات نواب بگٹی سے ملنے گیا اور ان کے مہمان خانے میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ داخل ہوئے تو مجھے دیکھتے ہی کہا ’’ملا آپ کے دوست آگئے ہیں، تیاری کرو‘‘۔ وہ کھڑے کھڑے یہ جملہ بازی کررہے تھے۔ جب وہ بیٹھ گئے تو اُن سے کہا کہ نواب صاحب میں تو فٹ پاتھ کا آدمی ہوں، روس کو مجھے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگے گا، اور پھر جس حد تک ہوا، سرخ سامراج کا مقابلہ کروں گا۔ وہ جب اپنے اونچے تکیہ پر بیٹھ گئے تو ان سے جو کچھ کہا اس پر وہ غصے میں آپے سے باہر ہوگئے۔ میرا جملہ تھا کہ ’’یہ افغانستان ہے، چیکوسلواکیہ یا پولینڈ نہیں ہے، سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوگی‘‘۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں کہا ’’تم پاگل ہو، جنونی ہو، جماعت اسلامی کے ہو، دیوانے ہو، مذہبی آدمی ہو‘‘۔ جو اُن کے منہ میں آرہا تھا وہ کہہ رہے تھے اور چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’روس کو کون شکست دے سکتا ہے؟‘‘ ان سے کہا ’’افغانستان‘‘۔ انہوں نے کہا “Rubbish”۔ کچھ دیر بعد وہ پُرسکون ہوگئے۔ یہ 29 دسمبر 1979ء رات 8 بجے کی بات ہے۔ دسمبر 1988ء میں پھر بگٹی ہائوس پہنچا۔ وہی کمرہ تھا، وقت بھی وہی تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے، میری طرف دیکھا، کچھ کچھ مسکرائے اور آنکھوں میں وہ 1979ء والی شوخی نہ تھی۔ وہ آرام سے بیٹھ گئے، انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ میں کیوں اُن سے ملنے آیا ہوں۔ وہ جب بیٹھ گئے تو اُن سے کہا ’’نواب صاحب یہ خبر پڑھ لی؟‘‘ انہوں نے فوراً کہا: ’’روس بھاڑی ہوگیا ہے، بے غیرت ہوگیا ہے، شکست کھالی ہے‘‘۔ اور کہا ’’میں مانتا ہوں۔‘‘
ایک پریس کانفرنس میں اعتراف کیا اور پھر کہا کہ ہمارے تمام سیاسی تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ ہمیں اب بلوچ نوجوانوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے، وہ خود فیصلہ کریں۔
یہ خیال گل خان نصیر کے حوالے سے لکھا۔ انہوں نے 1974ء میں اپنی غلط پالیسیوں اور تجزیوں کا اعتراف کرلیا تھا۔ بہرحال دیرآید درست آید۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیپ اور بھٹو کشمکش اور تصادم نے نہ صرف بلوچوں بلکہ پورے بلوچستان کو نقصان پہنچایا اور پاکستان پر بھی اس کے منفی اثرات پڑے، اور بھٹو نے فوج کو استعمال کیا۔ اس سے فوج کے کردار کو بھی نقصان پہنچا۔ نیپ اور بھٹو کی کشمکش میں امریکہ نے بالواسطہ شہنشاہ ایران کے ذریعے مداخلت کا طریقہ کار استعمال کیا۔ اس پہلو سے تجزیہ کیا جائے تو بلوچستان امریکہ اور سوویت یونین کی کشمکش کی آماجگاہ بن گیا۔ سوویت یونین نے افغانستان کو استعمال کیا اور امریکہ نے پاکستان کو بھٹو کے ذریعے اس میدانِ جنگ میں داخل کیا۔ پاک افغان سرحد عالمی سامراجی قوتوں کی محاذ آرائی اور کشمکش کا ذریعہ بن گئی۔ ان کی کشمکش میں قوم پرست قوتیں استعمال ہوئیں اور ان کے بکھرنے کا سبب بھی یہ دونوں قوتیں بنیں۔
(جاری ہے)