سری لنکا میں دہشت گردی اور مسلمان

مسلمان آبادیوں پر حملے، کاروباری مراکز کو نشانہ بنائے جانے اور ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد برقع پر پابندی لگا دی گئی ہے

۔21 اپریل کو مسیحیوں کی عیدِ ایسٹر پر سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی کی لرزہ خیز واردات کو ایشیا کا 9/11 کہا جارہا ہے اور سری لنکن مسلمانوں کے لیے اس کی قیمت بھی ویسی ہی بھیانک ہے جیسے امریکی مسلمان 18 سال گزر جانے کے بعد آج تک ادا کررہے ہیں۔
ایسٹر ایام صوم یا Lentکے اختتام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں مبینہ واپسی پر بطورِ عید منایا جاتا ہے۔ ظالموں نے مسرت و شادمانی کی مجلسوں اور دعائیہ تقریبات کو آنسوئوں اور آہوں میں تبدیل کردیا۔ دارالحکومت کولمبو کے تین گرجا گھروں اور Shangri-la سمیت تین پُرتعیش جدید ہوٹلوں میں ایک کے بعد ایک 6 بم دھماکوں سے253 بے گناہ مارے گئے، جبکہ 500 سے زیادہ افراد آج تک اسپتالوں میں ہیں جن کی ایک بڑی تعداد معذور ہوچکی ہے۔ متاثرین میں مقامی لوگوں کے علاوہ امریکی، جاپانی، ولندیزی، برطانوی اور پرتگالی سیاح و مسیحی زائرین شامل ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر حملوں کے ایک گھنٹے بعدکولمبو کے مضافاتی علاقے میں دوگھر خودکش بم دھماکوں سے اڑا دیئے گئے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ گھر بم کی تیاری اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال ہوئے تھے اور انھیں شواہد مٹانے کے لیے زمیں بوس کیا گیا۔
انگریز بہادر کے دور میں سری لنکا کو سیلون کہا جاتا تھا جو اپنی خوش ذائقہ چائے کے لیے مشہور تھا۔ اس ملک کی کُل آبادی 2 کروڑ 10 لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ جس کا 70 فیصد حصہ سنہالی نژاد بودھ اور 24 فیصد سری لنکن تاملوں پر مشتمل ہے، جبکہ 6 فیصد ہندوستانی نژاد تامل بھی کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ سری لنکن تاملوں میں مسلمانوں کا تناسب 41.6 فیصد ہے۔ گویا سری لنکا کی کُل آبادی کا دس فیصد حصہ مسلمان ہے جنھیں مور (Moors) کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے مور کا لفظ سب سے پہلے ہسپانیہ میں استعمال ہوا۔ اب یورپ کے اکثر ممالک خاص طور سے فرانس اور ہالینڈ میں شمالی افریقہ کے مسلمانوں کے لیے مور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فلپائنی مسلمانوں کو مورو فلیپینو (Moro Pilipino)کہا جاتا ہے، اور شاید اسی بنا پر سری لنکا کے تامل مسلمان بھی مور کہلاتے ہیں (لفظ مور کے تاریخی پس منظر کے لیے ملاحظہ ہو ہمارا مضمون جو فرائیڈے اسپیشل میں 2 جون 2017ء کو شایع ہوا)۔ ہندوستانی تامل زیادہ تر عیسائی ہیں۔
سری لنکا کی مور آبادی تجارت پیشہ، تعلیم یافتہ اور خوشحال ہے۔ مسلمانوں کا مدینہ سینٹرل کالج سارے ملک کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے جو 1935ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دراصل ایک اقامتی اسکول ہے جہاں پہلی سے میٹرک اور اس کے بعد پولی ٹیکنک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ذریعہ تعلیم انگریزی اور تامل ہے۔ ابتدائی کلاسوں میں مسلمان بچوں کو ناظرہ قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے۔ زراعت کے حوالے سے یہ چائے پر تحقیق کا علاقائی مرکز ہے۔ مدینہ کالج میں طالبات کا تناسب 55 فیصد ہے۔ یہ درسگاہ جدید ترین سہولیات سے مزین ہے جس میں تیز ترین انٹرنیٹ اور کمپیوٹر شامل ہیں۔ مدینہ اسکول ایک چھوٹے سے گائوں مداوالا (Madawala)میں واقع ہے، اور اس اسکول کی وجہ سے مداوالا سارے سری لنکا کا سب سے ترقی یافتہ گائوں سمجھا جاتا ہے۔ سری لنکا کئی صدیوں سے چائے کی پیداوار کے لیے مشہور ہے جس کی تجارت کا بڑا حصہ مسلمانوں کے پاس ہے۔
سری لنکا کے مسلمان سیاست اور حکومتی امور میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر امورِ مملکت میں ان کا اثر رسوخ بھی ہے۔5 مسلمان وفاقی کابینہ کے رکن ہیں۔ بلدیات، شہری منصوبہ بندی، صنعت، اعلیٰ تعلیم، ڈاک اور اوقاف کے قلمدان مسلمانوں کے پاس ہیں۔ تجارت کے میدان میں بھی مور آبادی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
یہاں موروں کے خلاف بودھ انتہاپسندوں نے سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے نفرت کی ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ برما کے نسل پرست بودھ رہنما سیتاگو سیاگو (Sitagu Sayadaw) کے نفرت انگیز اقتباسات سارے سری لنکا میں تقسیم کیے جارہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’’غیر بودھ کا قتل برا کرما (کام) نہیں۔‘‘
جیسے برما میں مسلمانوں کو بنگالی کہہ کر ان کے آبائی گھروں سے نکال دیا گیا، ویسے ہی سری لنکا میں موروں کو ہندوستانی تامل قرار دیا جارہا ہے، جن کے آبا و اجداد نے یہاں آکر سنہالیوں کی زمینوں اور جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور اب یہ ’’گھس بیٹھیے‘‘ دعوت و تبلیغ اور ’’جہاد‘‘ کے زور سے بودھوں کو اقلیت میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ اسی نفرت انگیز مہم کے نتیجے میں گزشتہ سال 4 مارچ کو وسطی کولمبو کے شہر کینڈی میں مسلمانوں کی اربوں روپے کی جائداد کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ مسیحی آبادی کو بھی انتہا پسند بودھوں کی طرف سے برابر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ National Christian Evangelical Alliance of Sri Lanka کے مطابق صرف اس سال یہاں مسیحیوں کو ہراساں کرنے، قتل کی دھمکیوں، تشدد اور بدسلوکی کے 45 واقعات ریکارڈ کیے گئے، اور ان تمام وارداتوں میں انتہا پسند سنہالی بودھ ملوث ہیں۔
ایسٹر کی مذہبی تقریبات پر وحشیانہ بم حملوں کی تکلیف سب سے پہلے خود سری لنکن مسلمانوں نے محسوس کی۔ اس سانحے نے نیوزی لینڈ کے زخموں کو تازہ کردیا جب عبادت میں مصروف درجنوں مسلمان گولیوں سے بھون دیئے گئے۔ تاہم واشنگٹن پوسٹ کے مطابق دھماکوں کے صرف 30 منٹ بعد ہندوستان کی خفیہ ایجنسی نے 30 مسلمانوں کی فہرست جاری کردی جو ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے کئی سال پہلے اپنے ایک مضمون میں سری لنکا کے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بھارتی ہندوئوں اور سنہالی بودھ دہشت گردوں کے مسلم مخالف اتحاد کا ذکر کیا تھا۔
بم دھماکوں کے دوسرے دن ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے سری لنکا کے وزیرصحت رجیتا سینارتنے (Rajitha Senaratne) نے ایک غیر معروف مقامی تنظیم اسلامی توحید جماعت پر ان دھماکوں کا الزام لگایا۔ وزیر صحت کے سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا (Maithripala Sirisen) سے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سری لنکا کے صدر بودھ انتہا پسندی کے بارے میں سخت جذبات رکھتے ہیں اور گزشتہ سال وسطی سری لنکا کے شہر کینڈی میں مسلمانوں پر سنہالی دہشت گردوں کے حملے کے خلاف انھوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا، جبکہ وزیرصحت کا تعلق بودھ انتہاپسندوں سے ہے، چنانچہ انھوں نے اس المناک سانحے کو اپنی ذاتی سیاست کے لیے جارحانہ انداز میں خوب استعمال کیا۔کولمبو میں پُرہجوم اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرصحت نے کہا کہ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے باوجود صدر سینارتنے نے اسلامی توحید جماعت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
اسی کے ساتھ واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے صدر ٹرمپ کے انداز میں زبان پیستے ہوئے ’’ازلامک ٹیررسٹ‘‘ (Islamic Terrorist)حملے کی شدید مذمت کی۔ اُن کا خطاب تو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر تھا لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اسلامی دہشت گردی اور اسلامی خلافت کی شدید مذمت کی۔ صدر ٹرمپ اب داعش یا ISIS کی شکست کو اسلامی خلافت کا انہدام کہتے ہیں۔
سری لنکا کے حکام نے ابتدائی تحقیقات کے بعد نیشنل توحید جماعت کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس سے پہلے توحید جماعت کا نام بھی نہ سنا گیا تھا۔ اسلامک کونسل سری لنکا کے نائب صدر حلیم احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے 3 سال پہلے سری لنکا کی عسکری انٹیلی جنس کو توحید جماعت کے بارے میں متنبہ کیا تھا لیکن فوجی قیادت کے خیال میں توحید جماعت انتہا پسند خیالات کے حامل چند منتشر نوجوانوں پر مشتمل ہے جن سے کوئی خطرہ نہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابتدائی تحقیقات پر سری لنکا کی حکومت کو اعتماد نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ محدود و معمولی افرادی قوت، مالی وسائل اور عسکری استعداد کی بنا پر توحید جماعت کے لیے اتنی مہلک، منظم اور مربوط کارروائی ممکن نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ ان کے کچھ لوگ اس کارروائی میں استعمال ہوئے ہوں، لیکن توحید جماعت یہ کام تنِ تنہا نہیں کرسکتی۔ عجیب اتفاق کہ یہ تبصرہ سامنے آتے ہی داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ یہی نہیں بلکہ برسوں سے گوشۂ گمنامی میں چھپے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا اپنی آواز میں ایک پیغام بھی سامنے آگیا جس میں موصوف نے نہ صرف سری لنکن ’’مجاہدین‘‘ پر تحسین کے ڈونگرے برسائے بلکہ ساتھ ہی ’’جہاد‘‘ کو جنوبی ایشیا منتقل کرنے کی نوید بھی سنادی۔
اسی دوران خودکش بمبار کی ایک ویڈیو بھی منظرعام پر آگئی جو مبینہ طور پر اس چرچ کے باہر لگے کیمرے سے ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس لڑکے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا کہ یہ کون ہے۔ جس طرح اسے فلمایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ جیسے کسی سنسنی خیز فلم کی شوٹنگ ہو۔ سوائے اس کے کہ یہ لڑکا باریش ہے، اور کوئی مشتبہ بات نہیں۔ یہ دہشت گرد اتنا رحم دل ہے کہ اپنے Backpack میں تباہی کا سامان لے کر چلنے والا یہ خونی راستے میں نظر پڑنے والے ایک ننھے بچے کے پاس جاکر اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا ہے۔ ویڈیو نے اس کے لیے نوجوان کو بہت دور سے اور دیر تک فوکس کیا ہوا ہے۔ حالانکہ سیکورٹی کیمرے Scan کرتے ہیں، کسی ایک object کی فلم نہیں بناتے۔آپ کو یاد ہوگا نائن الیون کے واقعے میں نیویارک کے ٹاور ایسے جلے کہ اس کے تہہ خانے میں ایک بینک کی جانب سے رکھی ہوئی سونے کی سلاخیں تک پگھل کر بہہ گئیں لیکن ان دہشت گردوں کے مبینہ سرغنہ محمد عطا کا پاسپورٹ صحیح سلامت مل گیا جو اُس کی پینٹ کی جیب میں تھا۔
داعش کا دعویٰ سامنے آتے ہی سری لنکا کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی۔ مسلمان آبادیوں پر حملے شروع ہوگئے۔ اس موقع سے انتہا پسند سنہالی بھرپور فائد اٹھا رہے ہیں اور کینڈی میں مسلمانوں کی تجارتی عمارات اور کارخانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیاں بھی جاری ہیں اور ہزاروں نوجوان جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے برقعے پر پابندی لگادی گئی۔ کہا تو یہ جارہا تھا کہ پابندی صرف چہرہ چھپانے پر ہے لیکن اب اسکارف، حتیٰ کہ دوپٹے لینے والی بچیاں بھی عتاب کا شکار ہیں۔ پولیس ناکوں پر بدسلوکی کے علاوہ سنہالی اوباشوں کی جانب سے اسکارف نوچنے کی وارداتیں عام ہیں۔ سارے ملک میں مساجد کی نگرانی ہورہی ہے اور نوجوان نمازیوں کو تحقیقاتی خوردبین کے نیچے رکھ لیا گیا ہے۔ ان حملوں میں قادیانی بھی محفوظ نہیں۔ پاکستان سے سینکڑوں قادیانیوں نے پاکستان میں امتیازی سلوک اور قیدو بند کی شکایت لگاکر سری لنکا میں پناہ لی ہوئی ہے۔ پاکستان سے آنے والے قادیانی پناہ گزینوں کے لیے حکومت نے رہائش کا خصوصی انتظام کیا ہے جس کے اخراجات ہندوستان کی احمدیہ جماعت ادا کررہی ہے۔ مظاہروں کے دوران انتہا پسندوں نے قادیانیوں کی رہائش گاہوں کو بھی نشانہ بنایا، اور اب یہ لوگ پولیس کی زیرنگرانی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان پولیس مراکز کے باہر سنہالی انتہا پسند مظاہرے کررہے ہیں جن میں پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ قادیانی خود کو مسلمان کہہ کر فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب انھیں مسلمان کہلانا مہنگا پڑرہا ہے۔
ملک میں مسلمانوں کی آمد روکنے کے لیے مسلم ممالک سے ویزے کے اجرا کی شرائط کو سخت اور ہندوستان سے آنے والے تامل مسلمانوں کو ویزے کا اجرا بندکردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے چائے کی تجارت متاثر ہورہی ہے۔ ہندوستان کے تامل تاجر سری لنکن چائے کے بڑے خریدار ہیں جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں سری لنکا کے ساتھ ہندوستان کے تامل علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔
مساجد و مدارس کے ساتھ اصل نشانہ مسلمانوں کی اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے تبلیغی جماعت کے سینکڑوں کارکن سری لنکا آتے ہیں جن کے لیے کینڈی کی مساجد میں قیام کے انتظامات ہیں۔ ان مبلغین کا ہدف مقامی مسلمان ہیں۔ روایتی گشت کی صورت میں مسلمانوں سے ملاقات کرکے انھیں نماز کے لیے مسجد آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ سنہالیوں اور غیر مسلموں سے یہ لوگ ملاقات نہیں کرتے کہ ان کا سارا وقت مسلم علاقوں کے گشت اور تعلیم میں گزرتا ہے۔ لیکن 4 مئی کو مقامی لوگوں سے ملاقات اور تبلیغ کے الزام میں 6 سو غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کردیا گیا جن میں 200 اساتذہ بھی شامل تھے جنھیں تبلیغی جماعت کی اصطلاح میں ’متکلم‘ کہا جاتا ہے۔ ملک بدر ہونے والے زیادہ تر مبلغین کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور مالدیپ سے ہے۔ واپس جانے والے ہندوستانی اور بنگلہ دیشی مبلغین پر اُن کے ملکوں میں انتہا پسندی کے عنوان سے پرچے کاٹ دیئے گئے ہیں۔
سری لنکا کے وزیر داخلہ وجیرہ ابے وردینا نے بہت ہی ڈھٹائی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ سب لوگ قانونی طور پر سری لنکا آئے تھے، ایسٹر حملوں کے بعد ان کے ویزے منسوخ کردیئے گئے لیکن یہ لوگ اب تک یہاں موجود ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انھیں تنسیخ تاشیرات کا کوئی نوٹس نہیں ملا لیکن ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جہاز پر بٹھانے سے پہلے ان سے بھاری جرمانے بھی وصول کیے گئے۔ ابے وردینا نے بہت فخر سے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تبلیغی جماعت کے لیے ویزے کی پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فاضل وزیر داخلہ نے یہ کہہ کر مزید سنسنی پیدا کردی کہ مسلم انتہا پسندوں کی جانب سے مستقبل میں مزید حملوں کا خطرہ ہے۔
سری لنکا کا واقعہ اُس وقت پیش آیا ہے جب مسلمانوں کے حوالے سے دو اہم انتخابات ہورہے ہیں۔ یہ حادثہ جس دن پیش آیا اس کے دو دن بعد ہندوستانی انتخابات کا دوسرا اور اہم ترین مرحلہ تھا جب مودی جی کی اپنی نشست پر ووٹ ڈالے گئے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، سری لنکا حملوں کو سب سے پہلے ہندوستان نے منظم اسلامی دہشت گردی قرار دیا تھا۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے حملے میں ملوث تامل مسلمانوں کے نام سری لنکا کی حکومت کو فراہم کیے۔ اس فہرست کے ساتھ ثبوت تو دور کی بات، ان دہشت گردوں کی تصویر تک نہ تھی۔
ہندوستان کے ساتھ امریکہ میں بھی 2020ء کے صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع ہوچکی ہے۔ وسط مدتی انتخابات میں امریکی مسلمانوں نے سیاہ فام امریکیوں اور ہسپانویوں کے ساتھ مل کر صدر ٹرمپ کے نسل پرست ایجنڈے کو شکست سے دوچار کیا تھا اور ایوانِ زیریں سے ان کی پارٹی کی بالادستی ختم ہوگئی۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی سب سے بڑی کامیابی اسلام و پاکستان دشمن ڈانا رہراباکر کی شکست تھی جو اس نشست پر کئی دہائیوں سے مسلسل منتخب ہوتے چلے آرہے تھے۔ الحان عمر، رشیدہ طالب، آندرے کارسن اور منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کی جرأت مندانہ و باوقار مہم کے نتیجے میں امریکی صدر سماجی نکات پر دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے واقعے سے عام امریکی بے حد پریشان ہے اور وہ ڈر محسوس کررہا ہے کہ اگر اسلام فوبیا کو کنٹرول نہ کیا گیا تو رمضان میں یہاں بھی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے امریکہ میں یہودیوں اور مسیحیوں نے نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے حق میں مظاہرے کیے۔ CNNکے زیراہتمام ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے خواہش مندوں نے غیر مبہم انداز میں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی شدید مذمت کی۔ رائے عامہ کی اس کروٹ سے صدر ٹرمپ اور اُن کے نسل پرست ساتھی خاصے پریشان ہیں اور وہ انتخاب جیتنے کے لیے اسلام فوبیا اور ’’ازلامک ٹیررازم‘‘ کے نعرے کو مقبول بنانا چاہتے ہیں۔ معاملہ ٹرمپ، مودی، ہالینڈ کے گیرٹ وائلڈرز، فرانس کی میرین لاپن، ہنگری کے وکٹر اوربن جیسے دائیں بازو کے انتہا پسندوں تک محدود نہیں، اسلامی دنیا خاص طور سے پاکستان میں مرکزی (Main stream) میڈیا بھی اسی اسلام دشمن بیانیے کو فروغ دے رہا ہے۔

اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔