سندھ ایڈز کے خطرناک اور موذی مرض کی قہرسامانیاں

اصل حقائق کیا ہیں؟۔

صوبہ سندھ میں گزشتہ دو عشروں سے زائد پر محیط پیپلز پارٹی حکومت کی بیڈگورننس اور بدعنوانی نے اپنا بدنما رنگ اب پوری شدت سے دکھانا شروع کردیا ہے۔
اگرچہ ایڈز کے خطرناک اور موذی مرض کی پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ رتو ڈیرو ضلع لاڑکانہ سمیت شکارپور، خیرپور، حیدرآباد، پیر جو گوٹھ، سانگھڑ، ٹنڈو محمد خان اور کراچی میں پھیلنے کی اطلاعات بہت عرصے سے سامنے آرہی تھیں، لیکن حکومتِ سندھ، محکمۂ صحت سندھ، ایڈز کنٹرول پروگرام سندھ اور ہیلتھ کیئر کمیشن سندھ کے ذمہ داران کی آنکھیں صحیح معنوں میں اُس وقت وا ہوسکیں جب ہفتۂ رفتہ رتو ڈیرو ضلع لاڑکانہ سے بڑے تواتر کے ساتھ اور بہت بڑی تعداد میں معصوم بچوں اور مرد و خواتین کے اس خطرناک مرض میں مبتلا ہونے کے واقعات کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ اس کی وجہ سے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا سمیت عوامی سطح پر بھی حکومتِ سندھ اور متعلقہ ذمہ دار اداروں کی نااہلی اور عدم کارکردگی کے خلاف سخت تنقید اور اظہارِ مذمت کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا۔ ظاہر ہے چاروناچار حکومت کو اب ایکشن لینا ہی تھا۔ اس کے نتیجے میں جو ہولناک اور لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے انہوں نے سبھی کو چکرا کر رکھ دیا۔ صوبائی حکومت کے حکم پر محکمۂ صحت سندھ نے اس امر کی تحقیقات کے لیے کہ آخر یہ خطرناک مرض اچانک کیوں اتنی تیزی اور شدت سے پھیلنے لگا ہے، کئی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دیں۔ ایڈز کے پھیلنے کا ایک اثر ضلع لاڑکانہ کی انتظامیہ پر بھی ہوا اور اس نے بھی اتائی و غیر رجسٹرڈ ڈاکٹروں، کلینکس اور لیبارٹریز کے خلاف سخت کارروائی شروع کردی۔ دوسری جانب ہیلتھ کیئر کمیشن سندھ نے بھی ضلع کے مختلف مقامات پر ایڈ میں مبتلا افراد کا سراغ لگانے کے لیے بلڈ اسکریننگ کے کیمپ قائم کرنا شروع کردیئے۔
دورانِ تحقیق ایک تحقیقاتی ٹیم کو یہ روح فرسا معلومات ہاتھ آئیں کہ رتوڈیرو ضلع لاڑکانہ میں ایڈز کا وائرس پھیلانے میں سب سے بھیانک کردار مبینہ طور پر دراصل معروف ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر مظفر گھانگرو نے ادا کیا ہے، جس نے اپنے پیشۂ مسیحائی سے دغا کرتے ہوئے اور ایک قاتل و جلاد کا روپ دھار کر دیدہ دانستہ بڑی تعداد میں معصوم بچوں کو جو اُس کے ہاں بغرضِ علاج آیا کرتے تھے، ایڈز کی مہلک بیماری میں مبتلا کردیا تھا۔ محکمہ صحت سندھ کی اس رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر مظفر گھانگرو کیوں کہ خود بھی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہے اس لیے اُس نے اپنے ذہنی خلجان کے باعث بہ طور انتقام اپنا موذی مرض جان بوجھ کر نہ صرف معصوم بچوں میں بلکہ بڑی عمر کے مرد و خواتین میں بھی منتقل کرنا شروع کردیا تھا تاکہ اس طرح سے وہ معاشرے اور لوگوں سے اپنی بیماری کا بدلہ لے سکے۔ رپورٹ کے مطابق اس ڈاکٹر کی بیوی بھی دو برس قبل اسی وجہ سے اُسے چھوڑ کر جاچکی ہے۔ محکمۂ صحت سندھ کی جانب سے ڈاکٹر عبدالسمیع راجپر نے ملزم ڈاکٹر کے خلاف رتو ڈیرو تھانے میں اس واقعے کے حوالے سے ایف آئی آر بھی درج کرادی ہے اور پولیس نے مقامی عدالت سے بعداز گرفتاری اس کا تین روزہ ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے، لیکن ملزم ڈاکٹر نے خود پر عائد کردہ مذکورہ الزامات کو جھٹلاتے ہوئے یہ سوال پیش کردیا ہے کہ ایڈز کے مریض تو پیرجو گوٹھ، شکارپور اور سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی سامنے آئے ہیں، تو کیا ان سب کو میں نے بیماری میں مبتلا کیا ہے؟ اصل حقائق تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آسکیں گے۔
دریں اثنا گزشتہ روز سندھ اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو (ہمشیرہ آصف علی زرداری) نے بھی اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ رتوڈیرو میں ایڈز کے مرض کے پھیلائو کا اصل ذمہ دار ڈاکٹر مظفر گھانگرو ہی ہے جو جان بوجھ کر ایک ہی ڈرپ کٹ اور سرنج سے تمام مریضوں کا علاج کیا کرتا تھا اور جس کی اپنی ایڈز رپورٹ بھی مثبت آئی ہے۔ ڈاکٹر عذرا کے مطابق ایڈز میں مبتلا 67 بچوں سمیت 90 افراد کی رپورٹ مثبت آئی ہے، لیکن واقفانِ حال کے مطابق اگر اسکریننگ کروائی جائے تو پتا چلے گا کہ وزیر صحت کی بیان کردہ تعداد سے کئی گنا زیادہ ایڈز کے مریض رتوڈیرو اور لاڑکانہ میں پھیلے ہوئے ہیں، اور یہی صورتِ حال سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی سامنے آئے گی۔ وزیر صحت کے مطابق حیدرآباد اس وقت ایڈز کے حوالے سے ہائی رسک پر ہے، ہمیں لاڑکانہ میں ایڈز پھیلنے کی اطلاع 15 بچوں کی مسلسل بیماری اور ان کا ٹیسٹ کروانے کے بعد ملی، جس کے بعد ہم نے عالمی ادارے کی ایک تحقیقاتی ٹیم لاڑکانہ بھیجی، مقامی ڈاکٹروں سے بھی اس بارے میں تحقیقات کی گئیں تب کہیں جاکر ہمیں یہ علم ہوسکا ہے کہ تمام متاثرہ بچے اور بڑے ایک ہی ڈاکٹر مظفر گھانگرو کے ہاں بغرضِ علاج آیا کرتے تھے۔ ’’ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ کے مصداق انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ہم نے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی واضح حکم دے دیا ہے کہ ’’وہ اتائی ڈاکٹروںاور غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کے خلاف سخت ایکشن لے‘‘۔
دریں اثنا ایک اطلاع کے مطابق لاڑکانہ اور اس کے تعلقوں رتو ڈیرو، بنگل ڈیرو، نئوں ڈیرو سمیت سندھ بھر میں ایڈ کا مہلک مرض بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دیہی سندھ میں خصوصاً اتائی ڈاکٹر اور حجام اس مرض کے پھیلائو کا بڑا سبب بنے ہوئے ہیں جو ایک ہی سرنج اور ریزر کو متعدد افراد پر استعمال کیا کرتے ہیں۔ نیز نامناسب حفاظتی اقدامات اور بلڈ اسکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے غیر معیاری بلڈ لیبارٹریز اور امراضِ گردہ میں مبتلا افراد کو ڈائیلاسز کروانے سے بھی اس مرض کو پھیلنے میں مدد مل رہی ہے۔ ایڈز میں مبتلا ایک فرد دوسرے فرد کو بھی اس طرح سے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے۔ گزشتہ برس بھی لاڑکانہ میں اس موذی مرض میں مبتلا ہونے کے متعدد افراد کے کیس سامنے آئے تھے لیکن حکومتِ سندھ نے وقتی ہنگامی حالات کے تحت فوری اقدامات کرکے بعدازاں چپ سادھ لی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ایک سال کے بعد یہ المیہ رونما ہوا ہے تو اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ڈائیلاسز مشینوں، لیبارٹریز میں بلڈ اسکریننگ اور خون کی تشخیص سمیت دیگر استعمال کردہ آلات کی صفائی اور معائنے کے لیے سخت اقدامات کرنے سے حکومتِ سندھ اور متعلقہ سرکاری اداروں کو کس نے روکا تھا؟ اس کا سبب محض غفلت شعاری، بے حسی، سنگ دلی اور ظالمانہ اغماض ہے یا کچھ اور؟ اس وقت دبائو کی وجہ سے حکومت نے ایڈز کی روک تھام کے لیے وقتی ہنگامی اقدامات کا سلسلہ تو شروع کردیا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد ہی عملاً اس پر پھر سے سکوتِ مرگ طاری ہوجائے گا۔ اس وقت سندھ بھر کے مختلف اضلاع کے شہروں اور گوٹھوں سے بکثرت ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد (خصوصاً بچوں) کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ سانگھڑ میں ایڈز کے 1516 رجسٹرڈ مریض ہیں جن میں سے گزشتہ 7 برس کے دوران 121 افراد اس بیماری کے ہاتھوں دم توڑ چکے ہیں۔ بلامبالغہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام اور حکومتِ سندھ و محکمہ صحت کے ذمہ داران کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے سندھ بھر میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، لیکن حکومتِ سندھ کے بڑ بولے ذمہ داران کو لایعنی دعوے اور غلط بیانیاں کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے، گزشتہ برس اگست میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بڑے طمطراق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومتِ سندھ نے ایڈز کے موذی مرض پر پورے طور سے قابو پالیا ہے۔ اس سے پیشتر گزشتہ برس ماہ اپریل میں وزیراعلیٰ موصوف نے ایشیا بینک ریجنل سپورٹ کے ڈائریکٹر مسٹر مرفی کے ساتھ اپنے ہاں آنے والے اقوام متحدہ کے ایک وفد سے دورانِ ملاقات بھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے صوبہ سندھ سے ایڈز کا خاتمہ کردیا ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ موصوف کے دوسرے دعووں کی طرح یہ دعویٰ بھی نقش برآب ثابت ہوا ہے کہ محض ایک برس کے اندر اتنی بڑی تعداد میں صوبے بھر میں ایڈز کے مریض سامنے آگئے ہیں کہ حکومتِ سندھ نے ایڈز پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا ہے۔ اس جھوٹ اور لفاظی کی وجہ سے ہمارے حکومتی ذمہ داران کی عالمی اداروں کے سامنے کیا عزت رہ گئی ہوگی! کاش ہمارے اربابِ اختیار کبھی اس کا بھی سوچ لیں۔ گزشتہ برس ماہِ اگست ہی میں نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزارت نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے رپورٹ جمع کرواتے وقت یہ اعتراف کیا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 60 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں سے رجسٹرڈ کیسز محض 20 ہزار ہی ہیں۔ دوسری جانب سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں ایڈز کے موذی مرض نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ صوبے بھر میں ایڈز میں مبتلا مریضوں کی تعداد 14115 ہے، جبکہ کراچی میں سب سے زیادہ تعداد میں یعنی 1182 افراد ایڈز کی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ ’’من چہ سرائیم و مرا طنبورہ چہ سرائیم‘‘ کی سی صورت حال ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ تو ایڈز پر قابو پانے کے بے بنیاد دعوے کررہے تھے جبکہ عملاً صورت حال اور حقائق اس کے یکسر برعکس ہیں، اور خود حکومت کے اپنے ہی ادارے وزیراعلیٰ سندھ کے دعووں کو جھٹلا رہے ہیں۔ سندھ بھر سے ایڈز کا خاتمہ ٹھیرا ایک طرف، حکومتِ سندھ تو اس وقت اپنے سیاسی گڑھ اور سیاسی قبلے لاڑکانہ ضلع کے محض ایک تعلقے رتوڈیرو ہی میں ایڈز کی بیماری کو پھیلنے سے روکنے میں یکسر ناکام اور نااہل ثابت ہوچکی ہے۔ حکومت سندھ کا محکمۂ صحت، ہیلتھ کیئر کمیشن اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام سب کے سب ادارے اہلِ سندھ کے لیے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں، اور ان اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے ان کے قائم کرنے کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے فوری ہنگامی اقدامات ازبس ضروری ہیں تاکہ عوام اس مہلک اور خطرناک بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔ بصورتِ دیگر تاریخ اور عوام موجودہ حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔