اتوار 28 اپریل کی شام اس اعتبار سے ہمیشہ یادگار رہے گی کہ اس ڈھلتی شام میں ہمیں رئیس الجامعہ پنجاب کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایک استاد اور سائنس دان ہی نہیں، وائس چانسلر کی اقتدا میں پہلی بار نماز ادا کی تھی، اس نماز کا لطف ہی اور تھا۔ وائس چانسلر ہائوس کے وسیع اور سادہ سبزہ زار میں ڈاکٹر نیاز پُرسکون لہجے میں قرآن اس طرح پڑھ رہے تھے کہ دلوں پر اترتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ مقتدیوں میں صرف کالم نگار اور برادرِ بزرگ رئوف طاہر، اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے نومنتخب جائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر امان اللہ ملک، شعبہ فارسی کے سربراہ ڈاکٹر سلیم کے علاوہ وائس چانسلر ہائوس کے مالی، چوکیدار، ڈرائیور اور درجہ چہارم کے ملازمین شامل تھے۔ پنجاب یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل اجلاس کے بعد ہم ڈاکٹر امان اللہ کی دعوت پر وائس چانسلر ہائوس پہنچے تھے۔ چائے کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو حکومتی حلقوں میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کی مراعات میں کمی، پنشن کے خاتمے اور ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے 55یا 58 سال کردینے جیسی تجاویز پر شرکاء کی تشویش فطری تھی۔ اس موقع پر ڈاکٹر نیاز کی رائے تھی کہ اگر ملک کے تمام کے تمام سرکاری افسران و ملازمین ریٹائر کردیے جائیں تب بھی ہمارا بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوگا نہ معاشی دبائو میں کوئی قابلِ ذکر کمی آئے گی۔ بے روزگاری قوم کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمیں کم وسائل میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوگا جس میں انڈسٹری لگ سکے۔ دوست ممالک ہمارے ہاں میگا پراجیکٹس لگائیں اور غیر ممالک میں آباد پاکستانی اور دوسرے سرمایہ کار یہاں آکر انڈسٹری لگاسکیں۔ خود حکومتی سطح پر انڈسٹری لگا کر ہی ہم بے روزگاری اور معاشی دبائو سے نجات پا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو ان کی ڈگری مکمل ہونے سے دو ایک ماہ قبل ہی جاب آفر کردی جاتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں اعلیٰ سند یافتہ بھی بے روزگار ہیں، اس کے لیے حکومت ہی نہیں، دوسرے حلقوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اختتامِ مجلس سے قبل اس متنازع خط پر بھی بات ہوئی جو پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر راج کمار نے مبینہ طور پر اپنے ہم منصب ڈاکٹر نیاز کو لکھا تھا اور جو کئی دن تک سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا رہا۔ ڈاکٹر نیاز نے بتایا کہ انہیں اپنی ذاتی یا وائس چانسلر کی آفیشل ای میل پر تو یہ خط موصول نہیں ہوا، تاہم انہوں نے یہ دیکھا ضرور ہے، جس کے بعد ہمارے یونیورسٹی حکام نے چندی گڑھ یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو وہاں سے اس طرح کے کسی خط کے لکھے جانے یا ای میل کیے جانے کی واضح تردید کی گئی۔ اس سلسلے میں لاہور سے شائع ہونے والے جریدے دی ایجوکیشنسٹ نے اپنی خبر میں بتایا کہ چندی گڑھ یونیورسٹی حکام نے اس خط کو جعلی اور بے بنیاد قرار دیا ہے، ہم نے تفصیلات جاننے کے لیے اس جریدے کے ایڈیٹر جناب شبیر سرور سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے چندی گڑھ میں وائس چانسلر آفس سے رابطہ کیا تھا، اس آفس کے حکام نے اس خبر کو دھوکہ اور فراڈ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر شبیر سرور نے اس سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر راج کمار کو ایک ای میل بھی بھیجی ہے جس میں ان سے بذریعہ ای میل ایک انٹرویو کی درخواست کی گئی ہے۔ اس ای میل میں ڈاکٹر شبیر سرور نے بتایا کہ 2016ء میں پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کے اُس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارون کمار کی دعوت پر جریدے کے دو رپورٹرز نے چندی گڑھ کا دورہ کیا تھا اور ڈاکٹر گروور کی معاونت سے اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر رام پرکاش بمبا کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر بمبا نوبیل انعام حاصل کرنے والے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ نوبیل انعام کے لیے شریک سائنس دان تھے۔ دی ایجوکیشنسٹ کو ڈاکٹر راج کمار کے مثبت جواب کا انتظار ہے، اگر وہ انٹرویو کے لیے تیار ہوگئے تو اس جعلی خط اور اس کے محرکات اور مقاصد کا زیادہ واضح جواب آجائے گا۔ تاہم سرِدست اس خط کا جائزہ لیتے ہیں جسے افسانہ طرازوں نے پروفیسر ڈاکٹر راج کمار سے منسوب کیا ہے، یہ جانے بغیر کہ اس طرح کے خط کی فوری تردید بھی آجائے گی اور آئی ٹی کے ماہرین یہ پتا بھی لگا لیں گے کہ یہ خط کہاں تیار ہوا، کس کی آئی ڈی سے بھیجا گیا اور کون لوگ اس بے بنیاد خط کو وائرل کرنے والے ہیںاور ان کے کیا مقاصد ہیں۔
اس جعلی خط کی زبان، لب ولہجے اور اٹھائے گئے نکات ہی سے اس کی صحت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر راج کمار مینجمنٹ سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں‘ کئی یورپی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں، اور ہندو یونیورسٹی بنارس میں کئی سال تک تدریسی و تحقیقی فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ وہ شاید اردو جانتے بھی نہ ہوں چہ جائیکہ ایسی رواں اور شستہ اردو…! وہ خط لکھتے تو انگریزی یا ہندی میں لکھتے۔ خط کا آغاز دنیا کے تین ارب مسلمانوں کی دل آزاری اور توہین سے ہورہا ہے۔ آغاز اس طرح ہے ’’اگر علم مومن کی گم شدہ میراث ہوتا‘‘۔ یہ آغاز کسی استاد اور وائس چانسلر کا نہیں، کسی اذیت پسند اور دل آزار شخص کا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 72 سال پہلے قائم ہونے والی ان کی یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری میں 64لاکھ کتب، جبکہ 1882میں قائم ہونے والی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی مرکزی لائبریری میں صرف 5 لاکھ کتب ہیں۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو ڈاکٹر نیاز کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔اگر وہ اس یونیورسٹی کے ہر سابق طالب علم سے صرف دو کتابیں عطیہ کرنے کی درخواست کریں تو صرف ایک ماہ میں یہ کتب 70 سے 80 لاکھ ہوسکتی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ اس عظیم درس گاہ کے سابق طلبہ اپنے وائس چانسلر کی اپیل کا بھرم رکھیں گے۔ یہاں سے خط اپنے اصل ہدف کی جانب آگیا ہے۔ ضیائی پابندی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کا طعنہ… جس کی نہ جانے انہیں کیوں ضرورت پیش آئی! یہ طعنے دینے کے لیے تو ہمارے ملک میں بھی کافی لوگ موجود ہیں۔ آگے لکھا ہے ’’آپ کے ہاں لڑکے داڑھیوں میں برکت اور لڑکیاں عبایوں میں حرکت تلاش کرتی ہیں‘‘۔ شاید ان کے ہاں لڑکے پگڑیوں اور تلکوں میں برکت اور لڑکیاں اسکرٹوں میں حرکت تلاش کرتی ہوں۔ یہاں انہوں نے کسی ٹھوس اطلاع کے بغیر جامعہ پنجاب اور جامعہ اشرفیہ کے تعاون کا طعنہ بھی دیا ہے۔ اگرچہ اس طرح کا کوئی تعاون راقم کے علم میں نہیں، لیکن اگر ایسا ہے تو اس میں کیا خرابی ہے! اگر ہندوئوں کی بالادستی اور ملک کی باقی اقوام سے نفرت کی بنیاد پر بننے والی بنارس ہندو یونیورسٹی اور 1984ء میں سکھوں کے سب سے مقدس مقام دربار صاحب امرتسر پر فوج کشی کے ذریعے فتح ہونے والے پنجاب کی چندی گڑھ یونیورسٹی کے باہمی تعاون میں کوئی خرابی یا اعتراض نہیں تو پاکستان کی ایک دینی جامعہ اور ایک جدید جامعہ میں باہمی تعاون پر اعتراض کیوں ہے؟ پورے یورپ میں جدید یونیورسٹیوں اور چرچ کے درمیان تعاون کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ خط میں میوزک کلاسز کے حوالے سے حافظ ادریس اور لیاقت بلوچ کے ساتھ قیصر شریف کے تذکرے نے اس خط کے ماسٹر مائنڈ کو ننگا کردیا ہے۔ خط لکھنے والا یقینی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ کا سیاسی و نظریاتی مخالف ہی نہیں، قیصر شریف کے دور کا کوئی طالب علم ہے جو شاید اب یونیورسٹی کے کسی شعبے میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے۔
خط لکھنے والے نے چندی گڑھ یونیورسٹی کی کلپنا چاولہ، ارمیلا تھاپڑ اور ترن تچپال جیسے لوگوں کا ذکر تو کیا تھا لیکن پنجاب یونیورسٹی کے ان سینکڑوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں شرم محسوس ہوئی ہے جو پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں مختلف شعبہ جات میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں مشعال خان کی موت پر جشن منانے کی بات بھی لغو اور بے بنیاد ہے۔ نازک مزاج اور معاملات سے بے خبر خط نگار کا کہنا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے 500 سے زائد طلبہ کو ہرگوبند کھورانہ کا نام تک نہیں پتا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کی تعارفی دستاویزی فلم میں کھورانہ صاحب کا تفصیلی تذکرہ ہے اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ ان کے کام کے ممدوح ہیں۔ خط میں اسلامیات لازمی کے لیے انٹر کورس اور ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل کے لیے دلال کے الفاظ سے خط نگارکی ذہنی سطح کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات تو اب دونوں طرف سے واضح ہوگئی ہے کہ یہ خط وائس چانسلر چندی گڑھ یونیورسٹی کا نہیں، بلکہ یونیورسٹی کے معاملات سے واقف کسی دل جلے اور ذہنی افتراق کے شکار شخص کا ہے۔ خط نگاری میں اسلامی جمعیت طلبہ سے بغض اور عناد ہر سطر سے جھلک رہا ہے، لیکن شاید انہیں اصل دکھ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے حالیہ انتخابات میں نام نہاد لبرل اور ترقی پسند ٹولے کی شکست کا ہے۔ ان انتخابات میں نہ صرف معتدل اور مثبت سوچ کے حامل اساتذہ نے مکمل کامیابی حاصل کی ہے بلکہ کئی سال سے اس یونین پر قابض گروپ کو شکستِ فاش بھی دی ہے۔ ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز نے ان انتخابات میں اپنی مکمل غیر جانب داری کو ایمان کی حد تک نبھایا ہے، جبکہ سابق وائس چانسلر جن پر نیب مقدمات اب تک موجود ہیں، ان انتخابات میں پوری طرح متحرک رہے اور ووٹرز پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی اہلیہ جو یونیورسٹی لا کالج کی پرنسپل ہیں، انہوں نے بھی مخالف گروپ کی حمایت میں اپنا اثر رسوخ استعمال کیا، لیکن ان کی کوششوں کے باوجود لا کالج سے ہارنے والے گروپ کو صرف تین ووٹ مل سکے۔ لگتا یہی ہے کہ راج کمار کے نام سے لکھے جانے والے اس جعلی خط کی تازہ وجہ اے ایس اے کے انتخابات میں سابق حکمران گروپ کی بدترین شکست ہے۔ اے ایس اے کے ان انتخابات میں ڈاکٹر ممتاز طاہر کی قیادت میں مثبت اور معتدل سوچ کے حامل پینل نے 213 ووٹوں سے دوسرے گروپ کو شکست دی۔ منتخب پینل میں اسپیس سائنس کے سربراہ ڈاکٹر جاوید سمیع جنرل سیکرٹری اور لا کالج کے ڈاکٹر امان اللہ ملک جائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے ہیں۔ چند دن قبل نومنتخب صدر ڈاکٹر ممتاز طاہر سے ایک مختصر ملاقات ہوئی جس میں ان کے خیالات اور مثبت عزائم سننے کا موقع ملا۔ دھیمے مزاج کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ممتاز طاہر نے اپنے کسی مخالف کے بارے میں ایک بھی منفی لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس ملاقات میں جس کا اہتمام ہمارے دوست اور مہربان اور تدریسی صحافت میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے نام ڈاکٹر مغیث نے کیا تھا جس میں ڈاکٹر امان اللہ ملک اور نامور صحافی سلمان عابد بھی موجود تھے، ڈاکٹر ممتاز کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کی خالی نشستوں کو جلداز جلد پُر کروانے کی کوشش کریں گے تاکہ طلبہ کی تعلیم متاثر نہ ہو، تعلیم کا معیار بہتر ہوسکے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک عہدے کے لیے ایک استاد کی پالیسی کو آگے بڑھانا چاہیں گے تاکہ ہر استاد کی صلاحیت سے استفادہ کیا جاسکے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ یونیورسٹی میں ریسرچ کے کام کو آگے بڑھائیںاور اساتذہ کی تحقیقی کاوشیں عوام کے سامنے لائیں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس باوقار فورم کو ایک علمی و تحقیقی فورم بنانا چاہتے ہیں اور بہت جلد تعلیم کے لیے اعلیٰ ماہر اساتذہ کی نگرانی میں ایک تھنک ٹینک بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ عزائم قابلِ قدر ہیں، لیکن ان کے مخالفین بھی نچلے بیٹھنے والے نہیں، وہ اس بار اُن کے نام کسی اسرائیلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا جعلی خط لا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان انتقال کر گئے
ترجمان جامعہ کراچی کے مطابق ڈاکٹر اجمل کو دل میں تکلیف کے باعث رات گئے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں 3اور4مئی کی شب ساڑھے 3 بجے ان کا انتقال ہوگیا۔
جامعہ کراچی کے مرحوم شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اجمل خان خود بھی جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے 1973ء میں نباتیات میں بی ایسآنرز اور اگلے برس پلانٹ فزیالوجی میں ایم ایس سی کیا۔1985 ء میں امریکہ کی اوہایو یونیورسٹی سے فزیالوجیکل ایکولاجی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
ڈاکٹر اجمل خان کو 4 جنوری 2017ء کو جامعہ کراچی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا، وہ جامعہ کراچی کے 17 ویں وائس چانسلر تھے۔ ڈاکٹر اجمل 40 سال تک سلسلہ تدریس سے وابستہ رہے انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔