مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تاریخ سازی و تاریخ نویسی کی منفرد جہات

کتاب : مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تاریخ سازی و تاریخ نویسی کی منفرد جہات
مصنف : ڈاکٹر معین الدین عقیل
صفحات : 142 قیمت 200 روپے
ناشر : اسلامک پبلی کیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ
منصورہ۔ ملتان روڈ۔ لاہور
فون نمبر : 042-35252501-2
فیکس : 042-35252503
موبائل : 0322-4673731
ویب سائٹ : www.islamicpak.com.pk
ای میل : islamicpak@gmail.com

استاذ الاساتذہ ڈاکٹر معین الدین عقیل بے نظیر محقق، دانش ور، مؤرخ اور ادیب، ہمہ وقت کسی نہ کسی علمی پروجیکٹ میں مصروف رہتے ہیں اور اردو انگریزی میں وقیع و ثمین علمی خزینوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، اسی سلسلے میں ان کی یہ تازہ کتاب ایک عمدہ اضافہ ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903ء۔ 1979ء) اپنے عہد میں عالم اسلام کے ممتاز اور نمائندہ عالم اور مفکر تھے، جن کی فکر نے جنوبی ایشیا میں نوآبادیاتی عہد کے ایک ہنگامہ خیز مرحلے پر کہ جب برطانوی اقتدار سے نجات اور اس کے خاتمے کے لیے جنوبی ایشیائی باشندوں میں آزادی کی تحریک، بلکہ تحریکات نے شدت اختیار کرنی شروع کردی تھی اور یہاں کے سوچنے سمجھنے والے ذہنوں میں ایسے سوالات پیدا ہورہے تھے کہ حکومتِ برطانیہ سے آزادی کے حصول کے بعد ملک کا مستقبل کیا ہو؟ اور یہاں کے رہنے والے باشندے جو اپنے عقائد و نظریات اور نصب العین کے لحاظ سے باہم اتحاد و اتفاق نہیں رکھتے، وہ آئندہ یہاں کس طور پر زندگی گزار سکیں گے؟ اور ملک کا نظام سیاست کیا ہو؟ ایسے مرحلے پر مولانا مودودی کی فکر نے اپنے طور پر مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے لیے ایک ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی جس پر چل کر مسلمان اسلامی اصولوں اور نظریات و تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس مقصدکے لیے وہ اپنی سیرت و کردار میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو اسلام ان میں دیکھنا چاہتا ہے، اور ان ہی تبدیلیوں کے تحت ایک ایسی آزاد اسلامی مملکت کے قیام کے لیے بھی کوشاں ہوں جس کا قیام اس خطے میں اب ضروری ہوگیا تھا۔ اپنے اس خیال و فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے اول و آخر ایک جانب قلم کو اپنا وسیلہ بنایا اور دوسری جانب تحریک و عمل کے ذیل میں ’’جماعت اسلامی‘‘ قائم کرکے ایک اجتماعی جدوجہد کا راستہ کھول دیا، جس پر چل کر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے دینی، معاشرتی اور سیاسی شعور کے فروغ کے لیے اپنی حد تک مخلصانہ کوششیں کیں، جو اب بھی جاری ہیں۔
راقم الحروف نے اپنے بنیادی موضوعاتِ دلچسپی کے ذیل میں جب مسلمانانِ جنوبی ایشیا کی تاریخ و تہذیب، علم و ادب اور مذہبی و سیاسی تحریکات پر اپنے مطالعات کا آغاز کیا تو دیگر متعدد اکابر علم و ادب اور مذہب و سیاست کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی علمی و سیاسی خدمات کے بارے میں بھی مطالعے کا موقع ملا اور آغاز ہی میں ان کی قومی و سیاسی فکر پر ایک سرسری و مختصر مقالے کی تحریر کا موقع ملا جو ’’تحریکِ پاکستان اور مولانا مودودی‘‘ کے عنوان سے 1970ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا، اور اب زیر نظر صفحات میں بھی شامل ہے۔ دیگر مقالات و مضامین، جو زیرنظر کتاب میں شامل ہیں، ان میں وہ تحریریں بھی شامل ہیں جو میں نے مختلف مواقع پر ملک و بیرونِ ملک کے سیمیناروں و کانفرنسوں میں پیش کیں، یا یہ ایسے مقالات ہیں جو نایاب و کمیاب رسائل وجرائد میں مولانا مودودی کے غیر مدون اور گم شدہ مضامین کے تعارف پر مشتمل ہیں جن سے اہلِ علم کو متعارف کرانا میں نے ضروری سمجھا ہے۔ مولانا مودودی کی جن تصانیف یا مضامین کا یہاں تعارف شامل ہے، ان میں سے چند، ایک لحاظ سے، مولانا مودودی کے مآخذِ مطالعہ کے ضمن میں دریافت یا انکشاف کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنی مذہبی و فکری کاوشوں سے قبل، اپنے ذوق اور اپنی دل چسپیوں کا اظہار ادب اور تاریخ میںکرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بچپن ہی میں عربی زبان میں اتنی استعداد پیدا کرلی تھی کہ تیرہ ہی سال کی عمر میں شیخ عبدالعزیز شاویش (1876ء۔ 1929ء) کی تصنیف ’’الاسلام و الاصلاح‘‘ کا، اور ساتھ ہی قاسم امین بے (1863ء۔ 1908ء) کی کتاب ’’المراۃ الجدیدہ‘‘ کا ترجمہ اردو میں کر سکیں۔ یہ تراجم اُس وقت ان کے علمی ذوق کے اوّلین مظاہر تھے۔ اس ذوق کے ذیل میں کہ جب مطالعے کی ابھی ابتدا ہے، کسی ایک موضوع کا تعین نظر نہیں آتا، بلکہ دل چسپیوں کی طرح موضوعات بھی تنوع کے حامل رہے ہیں۔ کہیں وہ ’’برق یا کہربا‘‘ کی تصریح و وضاحت کررہے ہیں، یا ’’انگریزی لغت میں دوستی کے معنی‘‘ تلاش کررہے ہیں۔ ایک جانب وہ ’’حالاتِ زندگی آنریبل پنڈت مدن موہن مالویہ آف الٰہ آباد‘‘ لکھ رہے ہیں تو دوسری جانب ’’مسٹر آصف علی بیرسٹر کی بے دردیاں، ٹیگور کے ساتھ‘‘ پر اظہار خیال کررہے ہیں۔ قمار خانۂ مونٹی کارلو‘‘ بھی ان کے قلم کی توجہ سے دور نہ رہا۔ خالص ادب اور اس کے قریبی موضوعات بھی ان کی توجہ میں رہے۔ قربان علی بیگ سالک (1824ء۔ 1880ء) سے خاندانی قرابت نے ان کی شاعری پر تین چار مضامین ان سے اُسی زمانے میں لکھوا لیے اور ’’حسن ادا اور ادب‘‘ کے تعلق سے اسلوبیات بھی ان کے پیش نظر رہے۔
اس طرح کے موضوعات کو اپنی دلچسپی میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ رسائل ’’تاج‘‘ اور ’’مسلم‘‘ اور پھر ’’الجمعیت‘‘ کے توسط سے صحافت سے وابستگی نے ان کے قلب و ذہن کو عصری مسائل اور حالات و حوادثِ زمانہ سے بھی قریب کردیا تھا۔ نوجوانی کے زمانے میں ان کے مضامین ’’سمرنا میں یونانی مظالم‘‘، ’’ٹرکی میں عیسائیوں کی حالت‘‘ اور ’’مصطفی کمال پاشا‘‘ عالم اسلام کے حوادث اور قومی ادبار سے ان کی دل گرفتگی کی مثالیں ہیں۔ غالباً ترکی کی اس ابتلا و افتاد کی صورتِ حال نے انہیں طویل مضمون ’’ہندوستان کا صنعتی زوال اور اس کے اسباب پر تاریخی تبصرہ‘‘ لکھنے پر مجبور کیا۔ اسی ضمن میں ان میں تاریخ اور تاریخ نویسی سے دل چپسی کا پیدا ہونا غیر متوقع نہ تھا۔ ان کی یہ دلچسپی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ ان کی زیرادارت شائع ہونے والے رسالوں ’’تاج‘‘، ’’مسلم‘‘ اور الجمعیۃ‘‘ میں جو کچھ انہوں نے بحیثیت مدیر لکھا اس کی تفصیلات معلوم اور مرتب نہیں، لیکن خیال ہے کہ حالاتِ حاضرہ کے پس منظر میں ملکی و عالمی، خصوصاً عالم اسلام کے حالات نے انہیں ضرور تاریخی تناظر کو اپنے پیش نظر رکھنے پر مجبور رکھا ہوگا۔ تاریخ نویسی کے زمرے میں ان کی تصانیف شمار کی جائیں تو ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ سے قطع نظر، کہ جس میں قبل اسلام کے واقعات کی تحقیق و جستجو میں اور ماضی کی اقوام کی تاریخ و تہذیب کے حوالوں میں اپنے مطالعۂ تاریخ سے انہوں نے بالعموم مدد لی ہے، اور اپنی معروف تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں تاریخ کے حوالے ان کا سہارا بنتے رہے ہیں۔ تاریخ نویسی میں ان کی مستقل تصانیف دولت ِ آصفیہ اور حکومت ِ برطانیہ: سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (1928ء)، سلاجقہ حصہ اول (1929ء)، تجدید و احیائے دین (1940ء)، دکن کی سیاسی تاریخ (1944ء)، اور خلافت و ملوکیت (1965ء) معروف ہیں۔‘‘
اس کتاب میں جو مضامین و مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
مولانا مودودی کی تاریخ نویسیِ دکن: ایک نادر و منظوم تاریخ ’’فتوحاتِ آصفی‘‘ کا مطالعہ و تجزیہ۔ ’’تاریخ دکن‘‘: مولانا مودودی کی ایک نادر تصنیف۔ سید مودودی پر تازہ مطالعات: صورتِ حال، نوعیت اور تقاضے۔ مولانا مودودی جاپان میں۔ خطباتِ مودودی: خطبات نویسی کی روایت کا ایک منفرد نمونہ۔ تحریک و قیام پاکستان: مولانا مودودی کا زاویہ نظر معروضہ، ابتدائیہ، پس منظر، نظریۂ پاکستان، نظریۂ تقسیم ہند، تجاویز تقسیم ہند، پہلا خاکہ، دوسرا خاکہ، تیسرا خاکہ، ماحصل۔
کتاب سفید کاغذ پر نہایت خوبصورت طبع ہوئی ہے۔ حسین و جمیل سرورق سے آراستہ ہے۔ ’’مودودیات‘‘ میں وقیع اور ٹھوس اضافہ ہے۔

قرآنی عربی، 15سبق

کتاب : قرآنی عربی، 15سبق
مصنف : خرم مراد
صفحات : 152 قیمت 300 روپے
ناشر : منشورات، منصورہ، ملتان روڈلاہور 54790
فون
نمبر : 042-35252210-11
0320-5434909
ای میل : manshurat@gmail.com

یہ انتہائی مفید کتاب محترم خرم مراد مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 2003ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا 2019ء میں یعنی سولہ سال بعد بازار میں دستیاب ہے۔ ہمارے بھائی مسلم سجاد صاحب نے پہلے ایڈیشن میں تحریر کیا تھا:
’’محترم خرم مراد کے فکر و عمل کا مرکز و محور قرآن پاک تھا۔ وہ ہر فرد کے اور امت کے تمام مسائل اور پریشانیوںکا حل قرآن پر عمل میں دیکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی، جہاں بھی وہ رہے، لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں میں قرآن سے زندہ تعلق پیدا کرنے اور اس کی حقیقی روح کے مطابق دین کی خدمت کے لیے زندگیاں صرف کرنے کی تعلیم دینے میں گزاری۔
بلاشبہ قرآن کے الفاظ کی اپنی تاثیر ہے کہ یہ کلامِ رب العالمین ہے، ایک عام اردو دان مسلمان کے لیے قرآن فہمی میں سب سے بڑا حجاب زبان کی اجنبیت ہے۔ ہم قرآن پڑھتے ہیں، لیکن اس کے معانی نہیں جانتے اور نہ انہیں سمجھتے ہیں۔ معنی خود براہِ راست سمجھیں تو تاثیر ہی جدا ہوتی ہے اور اس نعمت کے حصول سے نمازوں میں بھی جان پڑجاتی ہے۔
جناب خرم مراد کی یہ سوچی سمجھی کوشش تھی کہ عربی زبان کی ایسی آسان، عام فہم تدریس کا طریقہ اختیار کیا جائے، جس میں زبان کی بنیادیں اس طرح سکھائی جائیں کہ طالب علم ساتھ ہی ساتھ قرآن کو براہِ راست سمجھنے کی اہلیت بھی حاصل کرلے۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی محنت اور سائنٹفک طریقے سے خود بھی تحقیق کی اور دوسروں کی تحقیق سے فائدہ بھی اٹھایا اور 15 اسباق کا ایک کورس تیار کیا۔ یہ کورس انہوں نے طلبہ و طالبات کے کچھ گروپوں کو پڑھایا بھی، تاکہ عملی سطح پر پرکھنے کے بعد اسے بہتر، مؤثر اور آسان تر بنایا جاسکے۔
کورسوں کے شرکا کے پاس ان کے نوٹس محفوظ رہے، ان کی نقول ایک دوسرے کو دی جاتی، ان کی افادیت کی بنا پر اکثر یہ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ اسے طبع کرا دیا جائے۔ منشورات نے یہ کام اپنے ذمے لیا، اب یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اس کورس کی تدریس میں ڈاکٹر حافظ عبداللہ صاحب [جامعہ پنجاب] ان کے شریکِ تدریس رہے۔ متن کی صحت کے لیے محترم حافظ صاحب نے ازراہِ نوازش ہاتھ بٹایا۔ آخری پروف خوانی محترم مولانا فتح محمد صاحب نے فرمائی اور عزیر صالح نے ہاتھ بٹایا۔
قرآن کا فہم عام کرنے والے اداروں اور اساتذہ کے لیے یقینا یہ کتاب ایک معاون اور رہنما ثابت ہوگی۔ مناسب ہوگا کہ طلبہ و طالبات گروپ بناکر ہفتے کے دن مقرر کرکے ایک سبق ایک دن میں پڑھیں اور پھر مشق کریں۔ کوئی ایک شریک عربی جاننے والا ہو تو بہتر ہے۔ کتاب سے استفادہ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ مصنف کے حق میں دعائے خیر ضرور کریں‘‘۔
اگر کوئی اپنی اولاد کا مستقبل اسلامی بنانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے اس کو عربی ضرور سکھائے۔ ڈاکٹر حافظ محمد عبداللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’قرآن کریم کے معانی و تفہیم، اس کی تعلیمات کی توضیح اور اس کے احکامات و ہدایات کی تعلیم و ترویج کے لیے اردو زبان میں قرآن کریم کے لفظی و بامحاورہ تراجم اور مختصر و مفصل تفاسیر کی صورت میں علمائے کرام نے بہت خدمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی قرآنی عربی کی تعلیم و تدریس اور الفاظِ قرآن کی تحقیق و ترویج کے لیے اہلِ علم کی گراں قدر تصنیفات کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔
محترم خرم مرادؒ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے۔ لیکن قرآن کریم کے نہ صرف مستقل طالب علم بلکہ داعی تھے۔ اوائل میں آپ کی دعوت و تعلیمِ قرآن کے مخاطب یونیورسٹی اور کالج کے نوجوان طلبہ تھے، لیکن رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی زندگی کا مقصد عامۃالناس کو قرآن کے حقیقی پیغام سے روشناس کراکے اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیارکرنا تھا۔ ڈھاکہ، مشرقی پاکستان کے قیام [1960ء۔ 1971ء] کے دوران بنگالی مسلمانوں کو آپ نے قرآن کا درس دیا، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھارت میں ایام اسیری [1972ء۔ 1974ء] کے دوران انڈین کیمپوں میں جنگی قیدیوں کو قرآن سکھایا اور ان کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی۔ پھرقیام یورپ کے زمانے میں یورپ میں مقیم مسلمان اور یورپی نژاد نومسلم آپ کی دعوت و تبلیغ سے قرآن سے مستفید ہوئے اور قرآن سے اپنا تعلق جوڑنے کے لیے آپ کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا۔
جب1986ء میں مستقل طور پر پاکستان میں قیام کے لیے برطانیہ سے واپس آئے تو 1990ء میں آپ نے لاہور میں ’’دائرہ تعلیم و تربیت‘‘ قائم کیا اور اس کے زیر انتظام فہم و تدریسِ قرآن کے مستقل مختصر تربیتی کورسوں کا اجرا کیا۔ جن میں ملک بھر سے طالبینِ قرآن شرکت کرتے اور آپ کی زیر نگرانی قرآن کے فہم و تدریس کی عملی تربیت حاصل کرتے۔ ان تربیت گاہوں میں منتخب قرآنی نصابات پر مشتمل آپ کے مختصر اور جامع دروس، قرآن کریم کی تفہیم اور ابلاغ میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئے۔ اس دور میں آپ کی یہ خواہش شدت اختیار کرگئی کہ قرآنی عربی سمجھنے کے لیے ایک ایسا نصاب مرتب کرنا چاہیے جس سے عام تعلیم یافتہ مسلمان قرآن کریم کو کم سے کم وقت میں، کسی ترجمے کی مدد کے بغیر، براہ راست سمجھنے کے قابل ہوسکے۔ قرآن فہمی کے لیے عربی زبان سکھانے کے لیے متعدد کتب تالیف کی گئی ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اس نئے قرآنی عربی کورس کی اپنی خصوصیات ہیں جو اسے ان سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کا تفصیلی ذکر خود محترم خرم مراد نے ’’تعارف کورس‘‘ کے عنوان سے کردیا ہے۔
مجھے اس کورس کی تیاری اور مختلف گروپوں کی تدریس کے دوران محترم خرم مراد کی رفاقت کی سعادت حاصل رہی ہے، اس لیے چند امور کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ کے پیش نظر اس کورس کا ہدف یہ تھا کہ:
٭عام تعلیم یافتہ مسلمان کم سے کم وقت میں بغیر ترجمہ کی مدد کے قرآن کریم کو سمجھ سکے۔
٭ اس مقصد کے لیے غیر ضروری اصطلاحات، گرامر کے پیچیدہ قواعد اور غیر قرآنی الفاظ کو مثالوں اور تمرین میں استعمال کرنے سے اجتناب کیا گیا۔
٭عربی مصادر و افعال کی لمبی گردانوں کے بجائے صرف ان اوزان کو اس اصول کے تحت مرتب کیا گیا ہے کہ جو اوزان کثرت سے قرآن میں استعمال ہوئے ہیں ان کو پہلے بیان کیا ہے اور جو کم آئے ہیں ان کو بعد میں بیان کیا ہے، اور جو بہت کم استعمال ہوئے ہیں ان کو نظرانداز کردیا ہے۔
٭ان اوزان کے لیے آپ نے جن قرآنی الفاظ کو بطور مثال بیان کیا ہے، وہ ہیں جو بڑی تعداد میں قرآن میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح صرف ان مثالوں کو یاد کرنے سے طالب علم قرآنی الفاظ کی ایک بڑی تعداد سے واقف ہوجاتا ہے۔ مثلاً ان اسباق میں اگر کُفر اور اس مادے کے دیگر صیغے بطور مثال بیان کیے ہیں تو اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک طالب علم ان صیغوں کو سمجھنے کے بعد 500 سے زائد قرآنی الفاظ سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ قرآن میں کفر اور اس کے مشتقات 500 سے زائد استعمال ہوئے ہیں۔
٭ اسی طرح ان اسباق کے لیے قرآنی ذخیرۂ الفاظ کا انتخاب ہے۔ ابتدا میں ان 500 الفاظ کا مجموعہ ہے، جو اردو زبان میں بھی مستعمل ہیں اور ایک عام اردو خواں فرد ان کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ یہ پانچ سو الفاظ قرآن کریم میں تکرار کے ساتھ تقریباً 20 ہزار کی تعداد میں استعمال ہوئے ہیں، جو کُل قرآنی عربی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس کورس کو مرتب کرنے کے بعد خرم مراد صاحب نے پہلے اسکول کے طالب علموں کو اور پھر یونیورسٹی کے طلبہ کو، اور اس کے بعد بڑی عمر کے افراد کو جو عمر میں 30 سے 70 سال کے درمیان تھے، یہ اسباق خود پڑھائے۔
یہ کورس ہر اُس فرد کے لیے مفید ہے جو قرآنی عربی سیکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور قرآن کریم کو براہِ راست بغیر کسی ترجمہ کی مدد سے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان اسباق کو سبقاً سبقاً، دل جمعی سے مسلسل اور مستقل کسی عربی جاننے والے استاد کی رہنمائی میں پڑھے اور پھر قرآن کریم کا متن ان ہدایات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرے، جو ان اسباق میں دی گئی ہیں، تو وہ ان شا اللہ انتہائی مختصر مدت میں مطلوبہ مقصد حاصل کرلے گا۔ خصوصاً اگر اساتذہ و مدرسین اس کورس کی مدد سے قرآن کریم کا باقاعدہ ترجمہ پڑھانے کا اہتمام کریں تو یہ بات یقینی ہے کہ قرآنی تدریس زیادہ مؤثر و مفید اور آسان تر ہوجائے گی اور طلبہ مختصر مدت میں ترجمہ سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کہ وہ ان اسباق کو مؤثر و مفید بنانے اور ان کے مرتب و مدون اور طباعت و اشاعت کا اہتمام کرنے والوں کو اجر جزیل عطا فرمائے‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر نہایت خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ حسین جمیل سرورق سے مزین ہے۔