حضرت فضیلؒ کے تجربات کا نچوڑ

ابوسعدی
حضرت فضیلؒ کے بعض اقوال ایسے ہیں، جن سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیں، آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرے والد حیات ہیں یا وصال کرگئے ہیں؟ اس نے کہاکہ انتقال کرگئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جو شخص والد کی وفات کے بعد بھی وعظ کا خواہشمند ہو، اسے کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوسکتی (یعنی اس سے بڑھ کر عبرت و موعظت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو شخص جسمانی تخلیق کا ذریعہ بنا، وہی باقی نہ رہا، یہ بات تو ایسی ہے کہ دل کی کایا پلٹ ہوجانی چاہیے اور موت کی تیاری کی فکر غالب ہونی چاہیے)۔
عیسیٰ بن یونسؓ مکہ میں آئے تو لوگوں نے انہیں مسجد حرام میں گھیر لیا اور مشتاقوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ حضرت فضیل ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: اے بھائی، اپنے دل کا جائزہ لے، شاید لوگوں کے اس استقبال کی وجہ سے دل میں اخلاص کی حالت متاثر ہوئی ہو۔ انہوں نے دل کو ٹٹولا تو اس میں لوگوں کے استقبال کی وجہ سے خوشی و مسرت محسوس کی، چنانچہ آپ کسی طرح سے ہجوم سے بھاگ نکلے، اس کے بعد آپ ایسے گمنام ہوئے کہ کبھی اس طرح کی صورت پیدا نہ ہونے دی۔
حضرت فضیلؒ کا قول ہے: جب شیطان انسان سے چار چیزوں میں سے کوئی ایک بات بھی حاصل کرلیتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت لاحق نہیں۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں: بڑے پن کا مظاہرہ، اپنے اعمال کو زیادہ اور کافی سمجھنا، اپنے گناہوں کو فراموش کرنا، پیٹ بھر کر کھانا۔
میرے دل میں بعض لوگوں کی قدر ہوتی ہے، لیکن جب میں انہیں کھانے میں اسراف کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو قلتِ تقویٰ کی وجہ سے وہ میری نظر میں حقیر ہوجاتے ہیں۔
جس شخص کو تنہائی عزیز نہ ہو، بلکہ اس سے وحشت ہو اور لوگوں سے تعلقات میں دلبستگی ہو، ایسا شخص سلامتی سے بعید ہے۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دوست بناتا ہے تو اُسے تکالیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ جب اپنے در سے دور کردیتا ہے تو دنیا کو اس کے لیے فراخ کردیتا ہے۔
(”اصلاح نفس کا لائحہ عمل“۔محمد موسیٰ بھٹو)

اوحد الدین کرمانی

اوحد الدین حامد ابوالفخر کرمانی اندازاً 552ھ میں کرمان میں پیدا ہوئے۔ ایک تاریخی روایت کے مطابق سلاطینِ آلِ سلجوق میں توران شاہ کے بیٹے اور باپ کی طرف سے ولی عہد تھے۔ باغین کے مقام پر توران شاہ کی شکست کے بعد بغداد چلے آئے اور مدرسۂ حکاکیہ بغداد میں حدیث و فقہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ یہاں تک علمی رسوخ حاصل کیا کہ اپنے استاد کی رحلت پر ان کی جگہ تدریس شروع کردی۔ کچھ دیر بعد تدریس ختم کرکے روحانی ریاضتوں میں مصروف ہوگئے۔ جب اس میں بھی کچھ کشف و فتوحی نہ دیکھ سکے تو جو کچھ پاس تھا خرچ کردیا اور اس انفاق کے بعد حجاز کی طرف روانہ ہوگٔئے، مگر ابھی بغداد میں احرام ہی باندھا تھا کہ ہر طرف ان پر جنون کی تہمت لگنے لگی۔ اسی عالم میں شیخ رکن الدین سجاسی کی خدمت میں پہنچے اور بالآخر ان کی معیت میں سفرِ حج پر نکلے۔ دورانِ سفر محی الدین ابن عربی سے ملاقات ہوئی۔ شیخ نے اپنا خرقہ عطا کیا اور رشد و ہدایت کی اجازت دی۔ شیخ نے اپنی بیٹی بھی آپ کے حبالہ ٔ عقد میں دے دی۔ بہت سے اسلامی ملکوں کا سفر کیا، ہر جگہ بزرگوں اور سلاطین سے ملاقات کی۔ سلطان جلال الدین ملک شاہ اور بادشاہ شروان سے بھی ملاقات ہوئی۔ عباسی خلیفہ مستنصر نے انہیں ہدیے میں ایک اونٹ بھجوایا۔ وہ خوارزم میں شیخ نجم الدین کبریٰ کی زیارت کے لیے گئے۔ بغداد میں شمس تبریزی اور حلب میں سعد الدین حموی سے ملاقات کی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے 635ھ میں بغداد میں وفات پائی۔ ان کی رباعیات کے موضوع عرفانی ہیں۔ ایک مثنوی کا نام مصباح الارواح و اسرار الاشباح ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

زبان زد اشعار

اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا
(شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ)

وہ کون سا عقدہ ہے کہ وا ہو نہیں سکتا
کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
(ناظم انصاریؔ)

کمالِ بزدلی ہے پست ہونا اپنی نظروں میں
اگر تھوڑی سی ہمت ہو تو پھر کیا ہو نہیں سکتا
(پنڈت برج نارائن چکبستؔ)

مقدر جب برا ہو کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
مثل سچ ہے کہ کچھ بھی آدمی سے ہو نہیں سکتا
(حسرت موہانیؔ)
(مرتبہ: ڈاکٹر حسن الدین احمد)