آج ہم بھی اسلام کے ابتدائی دور کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی اسی طرح جاہلیت پھیلی ہوئی ہے، لہٰذا ہمیں بھی حق کے غالب ہونے کے متعلق بے یقین نہیں ہونا چاہیے۔ حالات بتاتے ہیں کہ موجودہ بظاہر مایوس کن فضا میں حق غالب ہوگا۔
نوعِ انسانی کو اس نظامِ زندگی کی آج جتنی ضرورت ہے وہ کچھ اس سے کم نہیں جتنی کہ آفتابِ نبوتؐ چمکنے سے پہلے تھی۔ یہ آج بھی دوسرے سارے ادیان پر تفوق و برتری رکھتا ہے، اس کی عظمت و اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
ہمیں اس بارے میں کسی قسم کے شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اس قسم کے حالات میں جو کچھ ایک مرتبہ وقوع پذیر ہوچکا ہے لازماً دوبارہ بھی ہوسکتا ہے (یعنی غلبۂ حق اور شکستِ باطل)۔ اور آج کل تحریکِ اسلامی کے علَم برداروں پر جو وحشیانہ ضربیں مختلف باطل قوتوں کی طرف سے لگائی جارہی ہیں اور ہم دیکھتے ہیںکہ مادی تہذیب جن بنیادوں پر استوار ہے، وہ بڑی عظیم ہیں۔ ان باتوں سے ہمیں غلبۂ حق کے بارے میں بالکل شک و شبہ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ معرکۂ خیر و شر میں باطل کا بڑا ہونا، یا اسلام پر لگائی جانے والی وحشیانہ ضربوں کی قوت فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی، بلکہ اصل فیصلہ کن کردار حق کی قوت اور باطل کی طرف سے لگائی جانے والی تباہ کن ضربوں کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کی ہمت ادا کرتی ہے۔
ہم علَم بردارانِ حق اکیلے نہیں ہیں۔ فطرتِ کائنات اور فطرتِ انسانی کی قوتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ قوتیں ہر اُس چیز سے بڑی ہیں جو خلافِ فطرت مادی تہذیب فطرت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرتی ہے، اور جب تہذیب اور فطرت باہم دگر دست و گریباں ہوں تو فطرت کا کامیاب ہونا خداوندِ جہاں کی طرف سے مقدر کردیا جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ فطرت و تہذیب کی یہ سر پھٹول تھوڑے عرصے کے لیے جاری رہتی ہے یا زیادہ عرصے کے لیے۔
موجودہ حالات میں ایک بات ہمارے پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ ہمیں اس وقت ایک زبردست کٹھن اور صبر آزما مقابلہ درپیش ہے۔ ہم فطرتِ انسانی کو موجودہ تہذیب کی ناروا پابندیوں سے آزاد کراکے موجودہ تہذیب پر اس کی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا شدید مقابلہ ہے جس کے لیے ہمیں بڑی طویل تیاری کی ضرورت ہے۔
ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس دین کے معیار پر پورا اتارنے کے لیے تیار ہوں۔ ہمارا ایمان باللہ اور ہماری معرفتِ الٰہی اس دین کے معیار کے مطابق ہو۔ کیونکہ جب تک ہمیں خالقِ کائنات کی پوری معرفت حاصل نہیں ہوگی ہم صحیح طور پر ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکیں گے۔
ہم پر لازم ہے کہ اپنی عبادات میں اس دینی معیار کو ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ جب تک ہم خداوندِ عالم کی عبادت کا حق صحیح طور پر ادا نہیں کریں گے ہم کماحقہٗ اس کی معرفت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول کو سمجھنے اور اپنے دور کے تقاضوں کو جاننے میں بھی اس دینِ حق کے معیار پر پورا اتریں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی بارش کرے اُس شخص پر جس نے اپنے عہد کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھا اور راہِ راست پر قائم رہا۔
ہمیں اپنے دور کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے اور دیکھنے، پرکھنے میں بھی اس دینِ اسلام کے معیار کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، کیونکہ جب تک ہم علم و تجربے کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر اس تہذیب و ثقافت کو اپنے تابع نہیں کریں گے ہم اس بات کے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ اس میں سے کن چیزوں کو اپنایا جائے اور کن کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ علم و تجربہ ہی ہمیں حسن و قبح میں تمیز کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
حیاتِ بشری کے مزاج اور اس کی تازہ بہ تازہ حقیقی ضروریات کو سمجھنے میں بھی اس دین کے معیار کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ہم تہذیبِ حاضر میں سے جو کچھ چھوڑیں وہ زندگی اور تہذیب کو علم و تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر چھوڑیں، اور اس تہذیب میں سے جن اقدار کی بقا چاہیں وہ بھی علم و تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر چاہیں۔
یہ ایک بڑا شدید اور صبر آزما مگر حق و باطل کو الگ الگ کرنے والا معرکہ ہے۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ اپنے امر (یعنی غلبۂ حق اور شکستِ باطل) پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اقتباس از: المستقبل لہٰذا الدین (اسلام کا مستقبل)
سید قطب شہیدؒ
(مرسلہ: پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ، کندھ کوٹ)
دلِ بیدار پیدا کر
دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کراری
مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
دلِ بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری، نہ میری ضرب ہے کاری!
مشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا
ظن و تخمین سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری!
اس اندیشے سے ضبط آہ میں کرتا رہوں کب تک
کہ مغ زادے نہ لے جائیں تری قسمت کی چنگاری
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری!
مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری!
تو اے مولا یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے فرنگی، مرا ایماں ہے زناری!
-1 جس انسان کا دل بیدار ہوجائے، اس میں حضرت فاروق اعظمؓ اور حضرت حیدر کرارؓ کے اوصاف و خصائص کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ آدمی تانبا ہے، دل کی بیداری اس کے لیے کیمیا کی حیثیت رکھتی ہے اور اس تانبے کو سونا بنا دیتی ہے۔
-2اے مسلمان! کہیں سے وہ دل پیدا کر جو بیدار ہو۔ جب تک دل سویا ہوا ہو نہ تیرا کارگر ہوگا اور نہ میرا۔
-3تاتار کے جنگل میں مشک نافہ والے ہرن کا کھوج لگانے کے لیے تیز سونگھنے کی قوت درکار ہے، یہ دولت محض گمان اور اندازے سے نہیں مل سکتی۔
-4میں اس اندیشے کی بنا پر کب تک اپنی آہ کو روکے بیٹھا رہوں کہ آہ کی تو آتش پرستوں کی اولاد تیری قسمت کی چنگاری اڑا کر نہ لے جائے۔
-5اے خدا! تیرے سادہ لوح اور بھولے بھالے بندے کیا کریں اور کدھر جائیں کہ موجودہ زمانے میں درویشی بھی سراسر دھوکا اور فریب ہے اور بادشاہی بھی دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ حالانکہ درویش خدا کا راستہ دکھانے کے دعوے دار ہیں اور حکمران رعیت کی حفاظت اور بہتری کے ذمے دار ہوتے ہیں، لیکن دونوں نے اپنے حقیقی فرائض بھلا دیئے ہیں۔
-6 آج کل کی تہذیب نے جو آزادی بخشی ہے، وہ صرف ظاہر میں آزادی ہے۔ اخلاق و مذہب کی کوئی پابندی باقی نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا کہ باطن بالکل تباہ ہوجائے۔ ایمان و اخلاق کا کوئی جوہر ان میں باقی نہ رہ جائے۔ اور یہی ہوا۔
-7 اے یثرب کے آقا و مولا! اے حضرت رسول اکرمؐ! آپ بہ نفسِ نفیس میرا علاج فرمائیں۔ میں نے جو علم حاصل کیا وہ سراسر یورپی ہے، اور میرا ایمان ایسا ہے جس کے دوش پر زنار بندھا ہوا ہے۔ یعنی وہ کافروں جیسا ہے۔ اگرچہ خطاب اپنے آپ کو کیا ہے لیکن حقیقتاً مسلمان کی تصویر کھینچی ہے۔