تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر حافظ عاکف سعید سے فرائیڈے اسپیشل کی خصوصی گفتگو
حافظ عاکف سعید تنظیم اسلامی کے امیر اور تنظیم کے بانی ممتاز مذہبی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد کے فرزند ہیں۔ حافظ عاکف سعید 2 جنوری 1958ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ساہیوال اور کراچی سے حاصل کی، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا، جہاں سے بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا، حافظ قرآن بھی ہیں۔ تنظیم اسلامی کے میڈیا اینڈ پبلیکیشن ونگ کے سربراہ رہ چکے ہیں، بعدازاں نائب امیر مقرر ہوئے، پھر ڈاکٹر اسرار کے بعد تنظیم اسلامی کے امیر بنا دیئے گئے۔ ہفت روزہ ندائے خلافت اورماہنامہ میثاق میگزین کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ ملکی اور خطے کی صورتحال، مشرق وسطیٰ اور اسلام دشمن قوتوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں، حالیہ پاک بھارت کشیدگی ، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ ، مودی کی پالیسیوں ، پاکستان میں حافظ سعید کی نظر بندی امریکی پالیسیوں کے اثرات موجودہ حکومت کی کارکردگی اور خود تنظیم اسلامی کے حوالے سے ان کے ساتھ لاہور میں ایک نشست کی گئی، جس کا احوال قارئین’’کے مطالعہ‘‘ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان کی تمام دینی جماعتیں ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی دعوے دار ہیں تنظیم اسلامی کو آپ اِس حوالے سے کیسے منفرد قرار دیں گے؟
حافظ عاکف سعید:آپ نے درست کہا کہ ملک کی تمام دینی جماعتیں یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کی علمبردار ہیں… ہم بھی اس مقصد کے لیے کوشاں ہیں تاہم دیگر دینی جماعتوں سے تنظیم اسلامی کا بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ انتخابی سیاست کو منزل کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہیں جب کہ ہمارے نزدیک اس راستے سے اللہ تعالیٰ کا دین نافذ نہیں ہو سکتا… تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد، خود ایک عرصہ تک جماعت اسلامی کا حصہ رہے مگر جب انہیں یہ احساس ہوا کہ انتخاب کا راستہ نفاذ شریعت کے لیے موزوں نہیں تو انہیں نے جماعت اسلامی سے الگ ہو کر ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی تاسیس کی… پاکستان کی اب تک کی تاریخ نے ہمارے موقف کو درست ثابت کیا ہے کہ انتخابات کی سیاست کے ذریعے دین کو نافذ نہیں کیا جا سکتا…!!!
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے نزدیک اس کا درست راستہ کیا ہے؟
حافظ عاکف سعید: ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ دبائو اور احتجاج کے ذریعے سے ریاست کو اسلامی بنایا جاسکتا ہے… عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور یہاں اسلام کو نافذ نہ کر کے ہم اپنے رب کے مجرم بن چکے ہیں۔ پر امن احتجاجی مظاہروں اور زور دار تحریک کے ذریعے عوام میں جذبہ اور شعور پیدا کیا جائے تو کامیابی عین ممکن ہے جس کی ایک نمایاں مثال دور حاضر میں ایران کا انقلاب ہے… پاکستان میں تو آئین اور جمہوریت قدرے موجود ہیں، لوگوں میں بھی خاصا شعور پایا جاتا ہے جب کہ ایران میں تو خالصتاً شہنشاہیت تھی اور عوام کے حقوق نام کی کسی چیز کا کوئی تصور ہی نایاب تھا…وہاں کے عوام بھی جب اٹھ کھڑے ہوئے اور دینی طبقات نے ان کو قیادت فراہم کی تو کسی انتخاب کے بغیر انقلاب آ گیا اور ان کے اپنے تصور کے مطابق وہاں اسلامی حکومت قائم ہو گئی… پاکستان میں بھی دینی جماعتوں نے جب تحریک چلائی تو کامیابی ان کا مقدر بنی جس کا ایک ثبوت قادیانی مخالف تحریک ہے جس نے علماء کی رہنمائی میں کامیابی حاصل کی… اس طرح آسیہ بی بی کا مشہور کیس بھی اس کا دوسرا ثبوت ہے ۔ اس کیس کا آغاز ہوا تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ سلمان تاثیر پنجاب کے گورنر تھے، جو آسیہ بی بی کی سرپرستی کر رہے تھے، جب کہ پوپ اور یورپی یونین کا شدید دبائو تھا کہ ناموس رسالتؐ کا قانون، آئین کی دفعہ 295 سی ختم کی جائے اور آسیہ بی بی کو رہا کیا جائے… اور حکومت نے اس دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال کر اس جانب پیش قدمی کا وعدہ کر لیا تھا تاہم دینی جماعتوں کو جب صورت حال کا ادراک ہوا تو وہ باہمی اختلافات بھلا کر متحد ہو گئیں اور زور دار احتجاج کے ذریعے حکومت پر واضح کر دیا کہ اگر 295۔ سی کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا… دینی طبقات نے متحد ہو کر لاہور اور کراچی میں دو ہی زور دار مظاہرے کیے تو حکومت نے ہاتھ جھوڑ دیئے اور باقاعدہ تحریری طور پر یہ تسلیم کیا کہ 295 ۔ سی ختم نہیں کی جائے گی… اس کے برعکس 2002ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی مگر نفاذ اسلام کی جانب پیش رفت صفر ہی رہی۔ والد محترم، ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود اس اتحاد کو نیک شگون قرار دیا۔ اس کی حمایت میں اخبارات میں اشتہار بھی شائع کرایا اور خود بھی انہیں ووٹ دیا۔ کہ دینی جماعتیں چونکہ نفاذ شریعت کے ایجنڈے پر متحد ہیں اس لیے انہیں ووٹ دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانا ضروری ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وقت نے ثابت کیا کہ ان کے خدشات اور تحفظات درست تھے…!!!
فرائیڈے اسپیشل: لیکن حافظ صاحب! تنظیم اسلامی کے قیام اور جدوجہد کو بھی نصف صدی ہونے کو ہے مگر کوئی قابل ذکر کامیابی اور نفاذ اسلام کے سلسلے میں نمایاں پیش رفت آپ تو انتخابی نظام سے باہر رہ کر حاصل نہیں کر سکے…؟
حافظ عاکف سعید: حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایک مختصر سی جماعت ہے ہم تو دینی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور قیادت کریں، مولانا سمیع الحق نے قومی اسمبلی میں ’’شریعت بل‘‘ پیش کیا تو تنظیم اسلامی کے اس وقت کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنا پورا وزن اس بل کے حق میں ڈالا۔ دراصل ہمارے یہاں مسالک کی قیادتوں کو بڑی تعداد میں پیروکار دستیاب ہیں، جماعت اسلامی یا تنظیم اسلامی چونکہ مسلکی جماعتیں نہیں اس لیے جماعت بھی تنہا کوئی بڑی تحریک نہیں چلاسکتی۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دنوں میں قوم نفاذ اسلام کے لیے تیار تھی مگر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا اس وقت بھی یہی موقف تھا کہ سیاسی قائدین قوم کو اسلام کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں، یہ صرف بھٹو کو ہٹانا چاہتے ہیں اسلامی نظام کا نفاذ ان کا مقصد نہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا، بھٹو کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی قومی اتحاد کی جماعتیں نظام مصطفی کے نعرہ کو فراموش کر کے باہم منتشر ہو گئیں اور یوں عوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی گئی…!!!
فرائیڈے اسپیشل: آج کے دَور میں انتخاب کی بجائے انقلاب کو تبدیلی کا ذریعہ کہنا کیا غیر معقول بلکہ غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں؟
حافظ عاکف سعید:ہمارا یہ موقف اس اعتبار سے غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں کہ پاکستان ایک جمہوری اسلامی مملکت ہے اور ہمارا یہ آئینی و قانونی حق ہے کہ یہاں نفاذ اسلام کا مطالبہ کریں اور اس کے لیے تحریک چلائیں، یہ تو خود آئین میں لکھا ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی لازم ہے…!!!
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکمران بھی پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے دعویدار ہیں… آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
حافظ عاکف سعید: ہماری رائے میں انہیں معاملہ کا مکمل نہیں بلکہ جزوی شعور ہے، بعض چیزیں ان کے پیش نظر ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ہمیں ’’پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کا حکم دیتا ہے‘‘بہت سے گوشے ان کی نظروں سے اوجھل ہیں… ہم نے ریاست مدینہ کے حوالے سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تین سیمینار کئے جن کے ذریعے یہ واضح کیا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کے نمونے پر تعمیر کرنے کے تقاضے کیا ہیں… مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری کے ہمرہ یہ دعوت دینے ہمارے پاس تشریف لائے تھے کہ اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس میں شریک ہوں، جس پر ہم نے انہیں عرض کیا کہ آپ نے نواز شریف کی حکومت کو سو فیصد تعاون فراہم کیا مگر انہوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا… عمران خاں ابھی آیا ہے، اسے موقع تو دیں… مخالفت برائے مخالفت تو کسی طرح مناسب نہیں… ہمیں چاہئے اس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کریں…!!!
فرائیڈے اسپیشل: امریکہ نے پاسداران انقلاب کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا ہے ، کیا امریکہ کا یہ موقف درست ہے ؟
حافظ عاکف سعید :میرے خیال میں امریکہ نے عمان سے دو بندرگاہیں حاصل کی ہیں جہاں وہ اپنے فوجی اڈے قائم کرے گا اور وہاں اپنی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کے لیے اس نے ایسا ایک ڈھونگ رچایا ہے کیونکہ عرب وایران کی کشمکش تو بہرحال موجود ہے اور اس سے قبل بھی وہ عربوں کو ایران کا ہوا کھڑا کرکے لوٹتا کھسوٹتا رہاہے ، اسی بہانے وہ عربوں کو اسلحہ بھی بیچتا ہے ، اب بھی اس کا یہی مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ بحیرہ عرب میں موجود رہنے کے لیے بظاہر ایک جواز پیش کر رہا ہو لیکن اس کی اصل نظر چین اور پاکستان پر ہے کیونکہ امریکہ کو اصل خطرہ اس وقت چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے بھی ہے جس کے لیے وہ چین کو محدود رکھنے کی پالیسی پر کافی عرصہ سے عمل پیرا ہے ۔اب چین نے چونکہ سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ جیسے بڑے معاشی منصوبے شروع کیے ہیں اور وہ اسی علاقے سے ہو کر گزرتے ہیں لہٰذا امریکہ نے بھی یہاں اپنا ٹھکانہ بنانے کے لیے ایک جواز پیدا کر لیا ہے ۔ واللہ علم ۔ جہاں تک پاسداران انقلاب کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ عراق پر جھوٹا عذر تراش کر حملہ کر دیا گیا جبکہ ایران کے ساتھ اس کی صرف الفاظ کی جنگ ہو رہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یورپ میں گورے بھی دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں ، ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھی بھارت میں دہشت گردی کر رہی ہیں ، برما میں بدھ اور فلسطین میں یہودی بھی دہشت گردی ہی کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باجود دہشت گردی کا لیبل صرف مسلمانوں کے لیے کیوں مخصوص کیا جارہاہے ؟
حافظ عاکف سعید :نیوزی لینڈ کی مسجد میں جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس کی نظیر شاید دنیا میں نہ ملے ۔ برما میں جس طرح مسلمانوں کو زندہ جلایا اور کاٹا گیا ایسی درندگی کی بھی انسانی تاریخ شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ اسی طرح بھارت کشمیر میں اور اسرائیل فلسطین میں جو کچھ کر رہاہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے ۔ اسی طرح جب ہم امریکہ کی بات کریں تو عراق میں لاکھوں مسلمانوں کو اس جھوٹ کی بنیاد پر تہہ تیغ کر دیا گیا کہ عراق میں کیمیائی ہتھیار ہیں لیکن بعد میں یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ عراق کے پاس ایسے کوئی ہتھیار نہیں تھے ۔ اس سے بڑی انسانیت دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیں ، ان کے پورے ملک کو تباہ و برباد کر دیں ، اُن کے گھروں اور شہروں کو ملیا میٹ کر دیں اور بعد میں تسلیم بھی کرلیں کہ ان کا کوئی قصور نہیں تھا ۔ گویا انہوں نے یہ سب بربریت کا مظاہرہ جان بوجھ کر کیا ، انہیں معلوم تھا کہ عراق کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن چونکہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا اس لیے جھوٹ بولا گیا اور سب سے بڑا جھوٹ نائن الیون تھا جس کے بعد کروڑوں مسلمانوں کو تہ تیغ کر ڈالا گیا لیکن اس سب کے باوجود وہ دہشت گردی کے لیبل اپنے اوپر نہیں لگنے دیتے ، تمام معاشی شکنجے اور تمام بناوٹی اصول مسلمانوں پر لاگو کر رکھے ہیں ۔ اس سے ہم مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ چاہے یہو د ہو ں یا ہنود ، عیسائی ہوں یا بدھ وہ ہمارے خیرخواہ نہیں ہیں وہ سب مل کر ہمیں دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہیں اور اسی لیے وہ ہمیں دہشت گرد کہہ رہے ہیں ۔
فرائیڈے اسپیشل: امریکہ نے گولان ہائیٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کر لیا ہے ؟جبکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی بھی ملک کسی مقبوضہ علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔ کیا امریکہ کے اس فیصلے کے بعد عالمی اداروں کی کوئی حیثیت اور کردار باقی رہنے کا امکان ہے؟
حافظ عاکف سعید :بین الاقوامی اداروں کی نہ تو پہلے کوئی حیثیت تھی اور نہ اب ہے ۔ عراق پر حملے سے قبل اقوام متحدہ نے امریکہ کو منع بھی کیا تھا لیکن کسی نے اس کی نہیں سنی ۔ اسی طرح مشرقی تیمور کا معاملہ ہو یا جنوبی سوڈان کا معاملہ ہو جہاں عالمی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں وہاں وہ بین الاقوامی اداروں سے کھڑے کھڑے کام لے لیتے ہیں لیکن جہاں ان کے مفادات نہ ہوں تو وہاں اقوام متحدہ بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا جیسا کہ ہم کشمیر کے معاملے میں دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا اور شاید سب سے پرانا مسئلہ ہے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسائل اس کے بعد پیدا ہوئے اور انہیں فوراً حل بھی کر دیا لیکن فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے ان کی آنکھ بند ہیں ۔ چنانچہ ان عالمی اداروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کی کوئی حقیقت ہے، انہیں صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے خود انہیں کوئی عالمی طاقت نہیں مانتی ۔
فرائیڈے اسپیشل: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا اعلان کرنا کیا بھارت باقاعدہ ہندو ریاست بننے جا رہا ہے ؟
حافظ عاکف سعید :یہ ہمارے لیے خصوصاً پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا اور وعدہ یہ تھا کہ ہم اس کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ، اسی مقصد کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی اور قربانیاں دیں لیکن 72سال ہو گئے ہم نے اس طرف ایک قدم نہیں بڑھایا بلکہ اُلٹا ہمارا سیکولر طبقہ اسلامی نظام کی مخالفت کر رہا ہے ۔ جب 1949ء میں قرارداد مقاصد منظور ہوئی تو اس طبقے نے یہاں تک کہا کہ ہم اب دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے ۔اسی طرح ہر موقع پر سیکولر طبقہ پاکستان کے ایک مذہبی ریاست بننے کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوا ہے ۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو وہی بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ملک ہونے کا دعوی ٰ کر رہا تھا آج ایک کٹر مذہبی ریاست بن کر اُبھر رہا ہے ۔اسی طرح اسرائیل بھی مذہبی ریاست بن چکا ہے ، یورپ اور امریکہ میں بھی تمام مذہبی لوگ حکومت میں آرہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم نے مذہب سے روگردانی کرکے کیا حاصل کیا ؟ ملک دو ٹکڑے ہو گیا اس لیے کہ جس بنیاد پر ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا وہ نظریہ ہی ہم نے چھوڑ دیا لیکن اس کے بعد بھی ہم باز نہیں آئے اور مسلسل دین سے غداری کا رویہ ہم نے اپنائے رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرح کا خوف اور ذلت ہمارا مقدر بن چکی ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ سے رجوع کریں اور دین سے جو غداری ہم نے کی اس کی مانگی مانگے اور پاکستان کو حسب وعدہ اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش میں لگ جائیں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تونہ پاکستان مضبوط و مستحکم ہو گا بلکہ کشمیر بھی آزاد ہو جائے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپکی نظر میں پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کا مستقل حل کیا ہے۔؟
حافظ عاکف سعید:پاکستان کے تمام مسائل، داخلی ہوں یا خارجی، ان کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اپنے رب اور اس کے دین سے بے وفائی اور غداری کی، جس کی سزا ہمیں بھگتنا پڑی… آج بھی ہم اگر اپنے رب کی طرف رجوع کر لیں۔ اس کے دین سے وفاداری کا عہد کریں تو اللہ آج بھی ہماری مدد کو تیار ہے اور اللہ کی مدد حاصل ہو تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی… پاکستان کو حقیقی اسلامی، فلاحی ریاست بنانا ہی ہمارے تمام مسائل کا مستقل اور پائیدار حل ہے…!!!