وزیراعظم عمران خان، برادر اسلامی مک ایران کا دو روزہ دورہ کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ وزیراعظم کا دورۂ ایران بہت اہم وقت میں ہوا ہے، ایران کے بعد وزیراعظم کا اہم دورۂ چین بھی ہو گا جہاں ون بیلٹ روڈ منصوبے کے موضوع پر عالمی کانفرنس ہوگی ،اس کانفرنس میں 40 سرہراہان مملکت سمیت 150 ممالک کے مندوبین شریک ہوں گے۔ وزیراعظم کی چینی قائدین سے سی پیک کے منصوبوں پر بات چیت بھی ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے کے بعد سے مسلسل غیر ملکی دوروں پر ہیں اور پاکستان میں بھی غیر ملکی سربراہوں کی آمد جاری ہے۔ ان تمام روابط کا تعلق بدلتی عالمی صورتِ حال سے ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات دونوں ممالک اور امتِ مسلمہ کے لیے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے پاکستان کے پڑوسی ممالک بھی ہیں وزیراعظم عمران خان نے دورۂ ایران میں اپنے وفد میں مشیر تجارت، وزیرآبی وسائل، مشیر پیٹرولیم، وزیرانسانی حقوق کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو بھی ساتھ رکھا تھا، جس سے اس دورے کی حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور ایران کی قیادت کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کے مختلف ادوار ہوئے۔ وزیراعظم نے اپنے دورۂ ایران کا آغاز مشہد میں روضۂ امام رضا میں حاضری سے کیا جہاں ان کا استقبال گورنر خراسان نے کیا۔ وزیراعظم عمران خان کو ایرانی صدر حسن روحانی نے دورۂ ایران کی دعوت دی تھی۔ اس دورے کے درمیان اقتصادی امور کے ساتھ سیکورٹی امور پر بھی مذاکرات ہوئے۔ وزیراعظم نے ایرانی رہبر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی جس میں ایرانی صدر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر کو بھی دورۂ پاکستان کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران سے قبل بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک ہولناک واردات ہوئی تھی۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں پاکستان بحریہ‘ فضائیہ اور کوسٹ گارڈ کے 14 جوانوں کو بس سے اتار کر اور ان کی شناخت کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔ اورماڑہ حملے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں کہ دہشت گردی کے اس انسانیت سوز واقعے میں ملوث دہشت گرد تنظیم بی آر ہے جس کے تربیتی اور لاجسٹکس کیمپ ایران میں موجود ہیں۔ وزیر خارجہ کے مطابق اس سلسلے میں تمام شواہد اور معلومات ایران کی حکومت کو فراہم کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل فروری کے مہینے میں ایرانی صوبہ سیستان میں پاسداران انقلاب کی پریڈ پر حملہ ہوا تھا جس میں 27 افراد شہید ہوگئے تھے۔ اس حملے کے بعد ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور کا تعلق پاکستان سے تھا اور اس حملے کی ذمے داری جس تنظیم جیش العدل نے قبول کی تھی وہ اپنی سرگرمیاں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے منظم کرتی ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دوررۂ ایران کے موقع پر ایرانی قیادت سے بات چیت میں اہم موضوع سرحدوں کے آر پار دہشت گردی کی مستقل وارداتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے وزیر اعظم اپنے وفد میں سیکورٹی ادارے یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل عاصم منیر کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ وزیراعظم نے بھی یہی کہا ہے کہ ایران کے دو روزہ سرکاری دورے کا بنیادی مقصد سرحد کے آر پار ہونے والی دہشت گردی کی مسلسل وارداتوں کے روک تھام کا مستقل حل تلاش کرنا ہے۔وزیراعظم عمران خان ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ سیکورٹی کے سربراہ اپنے ایرانی ہم منصب سے ملیں گے اور اس سلسلے میں تفصیلات طے کریں گے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہاکہ ایران پاکستا ن کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کا عزم کیے ہوئے ہے اور کوئی تیسرا ملک ہمارے برادرانہ تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران ایک اہم وقت میں ہوا ہے اور اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے تعلقات خراب کرنے کی کوششیں جو قوتیں کررہی ہیں وہ ناکام ہوں گی۔ افغانستان پر امریکی قبضے اور عراق پر حملے نے عالمی سیاست کو تبدیل کردیا ہے جس نے مسلم ممالک کے لیے بے چیدگی پیدا کر دی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان، ایران اور ترکی کی ہم آہنگی تمام مسلم ممالک خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی کی ضامن ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی اقوام ہیں جو گلوبلائزیشن کے پردے میں امت مسلمہ کو تقسیم کررہی ہیں۔ ایران اور پاکستان دونوں نے مشکل وقت کو گزار لیا ہے۔ ایران طویل عرصے تک امریکی پابندیوں کا شکار رہا ہے ۔ امریکہ نے ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے لیے جوہری معاہدہ کیااس معاہدے میں تمام عالمی قوتوں کی نمائندگی تھی۔لیکن امریکہ نے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے کو ختم کردیا اسی طرح امریکہ نے پاکستان کے اوپربھی پابندیوں کی تلوار لٹکا رکھی ہے،پاکستان کے داخلی اقتصادی و سیاسی بحران کا اصل سبب امریکی دبائو اور احکامات ہیں۔ لیکن عالمی سیاست تبدیل ہو چکی ہے خاص طور پر چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، دفاعی، تزویراتی اتحاد امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ امریکہ عالم اسلام کو عرب عجم، شیعہ سنی میں تصادم کی آگ کو بھڑکا رہا ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں عالم اسلام میں ایک نئی پراکسی وار شروع کرچکی ہیں جس کے لیے پراسرار دہشت گرد تنظیموں کو پالا جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر عملاً دہشت گردی کو فروغ دیا جارہا ہے۔اس تناظر میں وزیر اعظم کا دورہ ایران بروقت ہے اور دونوں ممالک کا تعاون، اتحاد ، دوستی امت کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ پاکستان، ایران دشمنوں کی سازش ناکام بنائیں گے۔