اورماڑہ میں فوجی جوانوں کا بے دردی سے قتل

کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی میں خودکش حملے کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ 18 اپریل کو مکران کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے مقام پر مسلح افراد نے بسوں سے مسافروں کو اتارا، شناختی کارڈ دیکھے، ان میں سے 16 افراد کو شناخت کرکے ہمراہ لے جایا گیا، جہاں ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر سر اور جسم کے مختلف حصوں میں گولیاں مارکر فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دو افراد البتہ کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیویز ناکے پر پہنچ کر ان کی جانیں بچ گئیں۔ قتل ہونے والوں میں 10 کا تعلق پاکستان نیوی، 3 کا پاکستان ایئر فورس، اور ایک کا پاکستان کوسٹ گارڈز سے تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد چالیس سے زائد تھی جو فورسز کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریل گاڑیوں، مسافر بسوں پر بڑے دلخراش حملے ہوچکے ہیں۔ فورسز کا محاصرہ کرنا، بعد ازاں انہیں اذیت ناک طریقے سے قتل کرنا، لاشوں کی بے حرمتی، کراہتے زخمیوں کی ویڈیو بناکر تشہیر ان کا معمول بن گئی ہے۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے و الے افراد اور غیر قانونی طریقے سے ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بھی ان کے ہتھے چڑھتے ہیں تو بڑی بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے ہنرمندوں اور مزدوروں کے قتل کے کئی واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ کوئٹہ جیکب آباد شاہراہ، کوئٹہ کراچی شاہراہ اور مکران کوسٹل ہائی وے پر بسوں کو روک کر شناخت کے بعد پنجابی اور اردو بولنے والوں کو سنگ دلی سے موت کے گھاٹ اتارنے کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ خودکش حملوں اور ہدفی قتل کے واقعات و سانحات الگ تفصیل رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے اغوا کی کئی وارداتوں میں سے ایک یو این ایچ سی آر بلوچستان کے سربراہ جان سولیکی کا اغوا بھی تھا، جسے 2 فروری 2009ء کو اُٹھایا، تاوان لے کر 4 اپریل 2009ء کو چھوڑا گیا۔ بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں پُراسراریت شروع دن سے نہیں رہی ہے۔ ہر تنظیم و گروہ نے ڈنکے کی چوٹ پر ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ لسانی اور قومی بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی اور تخریب کاری کو لمبا عرصہ سیاسی جماعتوں کی خاموش حمایت حاصل رہی ہے۔ چند جماعتوں نے خوف کی وجہ سے مصلحت کوشی اختیار کررکھی تھی۔ گویا معلوم لوگ اور تنظیمیں اس ظلم اور شقاوت میں ملوث رہی ہیں، جو اب بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ہوئے ہیں، قتل ہوئے ہیں، بڑے بڑے کمانڈروں کو فورسز نشانہ بناچکی ہے، بڑی تعداد میں گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو افغانستان، ایران اور دوسرے ملکوں کو فرار ہوچکے ہیں۔ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان گروہوں کے لوگوں نے افغانستان کو جائے پناہ بنا رکھا ہے۔ مذہبی گروہوں سے وابستہ نوجوان مقامی ہیں، جن کا صوبے کے مختلف اضلاع و علاقوں سے تعلق ہے۔ ان تنظیموں کا زور توڑا جا چکا ہے۔ تاہم نیا نیٹ ورک بنتا ہے تو کچھ ہی عرصے میں ختم کردیا جاتا ہے، وہ مارے یا پکڑے جاتے ہیں۔ بہرحال پھر بھی کوئی نہ کوئی واردات کر ہی لیتے ہیں۔ ہزارگنجی کا حالیہ سانحہ اس کی مثال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری اُس تنظیم نے قبول کی ہے جو برسوں سے ہزارہ عوام، اہلِ تشیع، پولیس اور فورسز پر حملے کرتی آرہی ہے اور برابر ذمہ داریاں قبول کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں حکومت، پولیس، ایف سی اور جاسوسی کے اداروں کی غفلت اور کوتاہی ہو اس پر اعتراض اور گرفت ہونی چاہیے۔ یعنی برحق احتجاج اور انگشت نمائی عوام کا حق ہے۔ ان کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرلینا چاہیے۔ مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ کوئی دہشت گرد نامعلوم نہیں، ان کے چہرے نمایاں ہیں، یہ حقیقت سیاسی جماعتوں پر بھی عیاں ہے۔ جان بوجھ کر سیاسی اغراض کے تحت تسلیم نہیں کرتے تو یہ الگ بات ہے۔ چناں چہ ہونا یہ چاہیے کہ دہشت گردوں کے خلاف ایک منظم قوم کے طور پر آواز بلند کی جائے۔ ہزارگنجی سانحہ کے بعد چند لوگوں کا احتجاج افسوسناک ہے، جنہوں نے ریاست مخالف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اصولی طور پر احتجاج افغان حکومت کے خلاف ہونا چاہیے تھا کہ جہاں ان جتھوں سے وابستہ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ جہاں افغان کٹھ پتلی حکومت اور امریکیوں کی عمل داری قائم ہے۔ جہاں بھارت کا بھی طوطی بولتا ہے اور حکومت وخفیہ ادارے بھارت کی چابی پر حرکت کرتے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کے اندر سبوتاژ اور امن کو تہہ و بالا کرنا مقصد بنا رکھا ہے۔ ہزارگنجی سانحہ کے بعد ناپسندیدہ و قابلِ سرزنش نعرے بلند کیے گئے۔ یہ سب کچھ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہوا۔ حالانکہ ہزارہ عوام کو بخوبی علم ہے کہ حکومت و ریاست کی جانب سے ان کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن بندوبست کیا جاچکا ہے۔ اس عمل پر بھاری سرمایہ صرف ہورہا ہے۔ بڑی نفری ان کی آبادیوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ زائرین کو سیکورٹی حصار میں پاک ایران سرحد لایا اور لے جایا جاتا ہے۔ بات اگر دہشت گرد حملوں کی، کی جائے تو اس سے کوئی محفوظ نہیں رہا ہے، حتیٰ کہ سیکورٹی فوسز بھی خاص ہیں۔ اورماڑہ میں فوج کے جوانوں کا بھی بے دردی سے قتل تازہ مثال ہے۔ ہزارہ عوام سے اظہارِ یک جہتی و تعزیت کے لیے وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی، وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی زلفی بخاری آئے۔ شہریار آفریدی اور وزیراعلیٰ خود دھرنے کے شرکاء کے پاس گئے۔ بلاول بھٹو، لیاقت بلوچ، سردار اختر مینگل اور دوسرے رہنماء بھی ان کے پاس گئے۔ البتہ بعض رہنماؤں نے حقائق کے برعکس سیاسی گفتگو کی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یقیناً حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تنقید سے بالاتر نہیں ہیں، تاہم یہاں حقائق کو چھپانا سیاسی جماعتوں اور قائدین کو بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ امر یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کالعدم تنظیموں کو، خواہ وہ کسی بھی نام و حیثیت کی حامل ہوں، سیاسی اور مذہبی سر گرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی و دینی جماعتیں بھی ان جماعتوں سے کسی قسم کا میل ملاپ نہ رکھیں۔
اورماڑہ واقعہ کی ذمہ داری بلوچ کالعدم تنظیموں کے اتحاد ’بلوچ راجی آجوئی سنگر‘ (براس) نے قبول کی ہے۔ اس اتحاد میں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔ اس سے قبل دسمبر 2018ء میں ایرانی سرحد کے قریب کیچ کے علاقے بلیدہ میں ایف سی کے 6 اہلکاروں کے قتل کی ذمہ داری انہی تنظیموں نے قبول کی تھی۔ حملہ آور ایرانی حدود سے آئے اور حملے کے بعد ایران کی حدود میں چلے گئے تھے۔ پاکستان نے ایران کے سفیر کو طلب کرکے اس پر احتجاج کیا تھا۔ چوں کہ بلوچ شدت پسند ایران کی سرزمین میں بھی کیمپ رکھتے ہیں، پاکستان ایرانی حکومت کو سرحد پار لاجسٹک بیسز سے آگاہ بھی کرچکا ہے، چناں چہ اورماڑہ واقعہ کے بعد بھی پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے کو مراسلہ بھیجا جس میں ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان نے ایران سرحد پر بھی باڑ لگانا شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں ایران کی حکومت کو بھی کہا ہے کہ وہ بھی جہاں جہاں ضروری ہو، باڑ لگانے کا کام شروع کرے تاکہ مل کر دہشت گردی جیسے مسائل پر قابو پایا جائے۔