بلوچستان میں بھٹو اور نیپ میں کشمکش تیز ہوتی جارہی تھی، گرفتاریاں بھی اسی حساب سے ہورہی تھیں اور پہاڑوں پر مسلح تصادم بھی شروع ہوگیا تھا۔ نیپ کے ورکر افغانستان جانا شروع ہوگئے تھے، جبکہ کچھ نے سندھ کی طرف رخ کرلیا تھا۔ خوف و ہراس کی فضا قائم کردی گئی تھی۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ بھٹو کو شاہ ایران کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بھٹو نے انتخاب سوشلزم کے نام پر جیتا تھا جبکہ شاہ ایران مکمل طور پر امریکن نواز شخصیت تھے۔ ایک لحاظ سے بلوچستان میں یہ تیسرا فوجی آپریشن تھا جو بھٹو نے شروع کیا تھا۔ اس مختصر تجزیے کے بعد اپنے موضوع کی طرف لوٹنا چاہتا ہوں کہ جیل میں کیا ہورہا تھا۔ کوئٹہ جیل تنگ ہوگئی تھی، اس لیے بلوچستان کی دوسری جیلوں میں قیدکیا جارہا تھا۔ اب گرفتاری کو چند مہینے ہوگئے تھے اور ’’وائٹ ہائوس‘‘ کی رونقیں بڑھ گئی تھیں۔ میرے احاطے میں نیپ کے سینیٹر زمرد حسین اور محمود عزیز کرد بھی پہنچا دیئے گئے تھے، یوں وائٹ ہائوس میں میرے علاوہ دو سینیٹر اور علی احمد کرد اور عطا اللہ بزنجو بھی آگئے تھے۔ اس طرح جیل میں دل لگ گیا تھا۔ اب تو راتیں بھی جگمگا رہی تھیں۔ دوستوں کی یاد آتی تھی، والدہ مرحومہ بہت زیادہ یاد آتی تھیں۔ دل میں ایک عجیب سا خیال والدہ کے حوالے سے آتا رہتا تھا کہ وہ اگر حیات ہوتیں تو انہیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی۔ پھر یہ خیال بھی ساتھ آگیا کہ اچھا ہوا وہ دنیا سے چلی گئیں ورنہ انہیں زیادہ تکلیف ہوتی۔ پھر خیال آتا کہ انہیں زندہ رہنا چاہیے تھا، وہ میرے لیے دعائیں کرتیں اور مجھ سے جیل میں ملنے آتیں تو مجھے ان سے مل کر زیادہ خوشی ہوتی۔ اس طرح کے خیالات یکے بعد دیگرے آتے چلے جاتے۔ پھر یہ خیال آتا کہ میرا دل کسی پر نثار ہوتا تو وہ مجھ سے ملنے جیل آتی یا خط لکھتی تو میں بھی اُسے خطوط بھیجتا۔ جمعیت نے زندگی میں اس باب کو ہی بند کردیا تھا۔ یا جیل جانے سے پہلے کسی یونیورسٹی میں داخل ہوتا تو شاید دل کسی پر آہی جاتا، اور میں حفیظ جالندھری کے خوبصورت اشعار گنگناتا ’’ابھی تو میں جوان ہوں…‘‘
جیل سے چھُوٹا تو یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ اُس وقت بلوچستان یونیورسٹی میں کُل 15 لڑکیاں تھیں، ان میں صرف 3 طالبات پشتون، بلوچ تھیں، باقی پنجابی زبان بولنے والی تھیں، اور یہ ہمارا پہلا بیج تھا۔ پروفیسر کرار حسین مرحوم ہمارے وائس چانسلر تھے۔ بلوچستان یونیورسٹی کا یہ سنہرا اور تاریخی دور تھا۔ ایک دو دلچسپ واقعات بیان کرتے ہوئے پھر جیل کی داستان کی طرف آجائوں گا۔ یونیورسٹی میں تین لڑکیاں بڑی خوبصورت تھیں، انہیں دیکھنے کے لیے کالج کے اساتذہ صبح کے وقت یونیورسٹی کی گیلری میں کھڑے ہوجاتے۔ میں نے سوشل ورک میں داخلہ لیا تھا اور ہمارا کمرہ گیلری کے شروع میں تھا، تو ان جاں نثاروں کو اکثر دیکھتا اور لطف اندوز ہوتا۔ پشتون لڑکیاں سوشل ورک میں تھیں۔ بلوچستان کے چیف سیکریٹری کی لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ میرے ایک کلاس فیلو نے مجھ سے کہا کہ یار شادیزئی اس پر دل آگیا ہے، کوئی فارمولا بتلائو۔ میں عمر میں ان سب سے سینئر تھا، اس لیے وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے۔ اس دوست کو فارمولا بتلا دیا کہ جب وہ لڑکی گیلری میں آجائے توتم جاکر اسے روک کر کہو کہ I Love you، بس تمہارا کام ہوجائے گا۔ ایک دن ہم سب کلاس فیلو گیلری میں کھڑے تھے تو دیکھا کہ وہ چلی آرہی ہے۔ دوست سے کہا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائو۔ ہم سب دوست اس نظارے کے انجام پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُس نے لڑکی کو روکا اور کہا “I Love You”۔ اس کے جواب میں لڑکی کے ایک زوردار تھپڑ نے اس کا سارا نشہ ہرن کردیا، اور وہ تیزی سے بھاگا اور اس حصے سے نکل گیا۔ دوسرے دن ملا تو بڑا شرمندہ تھا، اس نے مجھ سے کہا کہ آپ کا فارمولا ناکام ہوگیا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اب ذرا صبر کرو۔ ایک دن ایک دوست نے کلاس میں لیکچر کے دوران کھڑے ہوکر کہا کہ شادیزئی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اس پر سب لڑکیوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ کلاس ختم ہوئی تو اس دوست سے کہا کہ تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم نے اعلان کیا۔ حالانکہ اُس وقت میرا جمعیت کا دور ختم ہوگیا تھا اور جماعت اسلامی میں بھی نہیں تھا۔ اس اعلان نے مجھے بہت محتاط کردیا کہ اب اگر میں نے کوئی حرکت کی تو جماعت اسلامی پر حرف آئے گا۔ اس کے بعد الحمدللہ وقت گزر گیا اور لڑکیاں میرا بہت زیادہ احترام کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کے واقعات کا ذکر اس لیے کردیا کہ جیل کی یادیں بوجھل نہ بن جائیں۔ اب جیل میں تنہائی کا دور ختم ہوگیا تھا۔ صبح زمرد حسین یوگا کرتے تھے اور میری واک احاطے کے اندر دیوار کے ساتھ جاری تھی۔ صبح ناشتے کے بعد اخبارات کا مطالعہ ہوتا، اس کے بعد شطرنج کا دور ہوتا۔ علی احمد کرد، زمرد حسین اور محمود عزیز کرد کھیلتے تھے اور میں انہیں دیکھتا تھا۔ کچھ دن کے بعد میں بھی شطرنج کے کھیل میں شریک ہوگیا اور آہستہ آہستہ شطرنج سیکھ گیا۔ جیل سے نکلنے کے بعد بھی پریس کلب میں کھیلتا تھا اور وقت بہت زیادہ ضائع ہوتا تھا۔ چونکہ شادی نہیں ہوئی تھی، اس لیے میرا انتظار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ والد مرحوم کو علم تھا کہ گھر دیر سے آتا ہوں اس لیے کچھ نہیں کہتے تھے۔ جیل میں بھی مطالعہ جاری تھا۔ جب جیل سے رہا ہوگیا تو تنہائی تھی، اس لیے پلنگ کے سرہانے کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ انگریزی ناول بھی پڑھے، ڈاکٹر ژواگو بھی پڑھا۔ اس کا اختتام بڑا دردناک تھا۔ اس کو پڑھنے کے بعد رات آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹی۔ پھر اس کو سینما ہائوس میں بھی دیکھا۔ ناول پڑھ چکا تھا، اس لیے فلم دلچسپ لگی۔ انگریزی کی کلاسک فلمیں بھی دیکھیں اور ناول بھی پڑھے۔
احاطے میں نیپ کے قائدین تھے اس لیے اُن سے خوب دلچسپ بحث ہوتی، اور مجھے روس نواز قائدین سے بہت کچھ حاصل ہوا۔ بلوچ قوم پرست سوویت یونین سے متاثر تھے اور انہیں یقین تھا کہ بلوچستان جلد ہی ایک آزاد ریاست بن جائے گا اور پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ جیل میں ان سے بحث ہوئی تو اندازہ ہوا کہ نیپ میں ہر طرح کے ذہن کام کررہے تھے۔ ایک لابی روس نواز تھی اور دوسری بھارت نواز تھی۔ پنجابی لابی تقسیم کے بعد بھارت کے ساتھ الحاق چاہتی تھی، اور روس نواز لابی سوویت یونین کے ساتھ الحاق کی حامی تھی۔ اور مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کرنے کے لیے انتہائی بھونڈا راستہ نکالا، انہوں نے الزام لگایا کہ عراق سے اسلحہ ٹرین کے ذریعے کوئٹہ لایا جارہا تھا، اور اس کے ذریعہ مسلح جدوجہد کرکے بلوچستان کو علیحدہ کرایا جائے گا۔ حالانکہ اسلحہ افغانستان کے ذریعے آسانی سے لایا جاسکتا تھا۔ صحافی اور نیپ کے قائدین نواب بگٹی سے پریس کانفرنس میں سوال کرتے تھے کہ وہ اسلحہ کہاں ہے؟ تو نواب بگٹی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ نواب بگٹی یہ بھی کہتے تھے کہ اسلحہ غاروں میں چھپایا گیا ہے، لیکن وہ آخر تک برآمد نہ ہوسکا اور نواب بگٹی دسمبر 1973ء کی رات بھٹو سے ڈنر میں مل کر گورنری سے دست بردار ہوگئے۔ نصرت بھٹو اور دیگر قائدین نے بہت روکا، لیکن نواب نے گورنری چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ یوں گورنری نے نواب بگٹی اور نیپ میں نہ ختم ہونے والی دراڑیں ڈال دیں جو آخر تک ختم نہ ہوسکیں۔ یہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک اور افسوس ناک پہلو ہے جس نے بلوچستان کی سیاست پر بڑے گہرے زخم لگائے جو مندمل نہ ہوسکے۔ نواب بگٹی کو اس کا شدت سے احساس تھا، وہ کسی بھی طرح اس داغ کو دھونا چاہتے تھے، اور جنرل پرویزمشرف نے یہ موقع انہیں فراہم کردیا، انہوں نے پہاڑوں میں تصادم مول لیا اور اس داغ کو دھودیا، اور وہ بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی نگاہوں میں ایک ہیرو بن گئے۔ لیکن جو نقصان بلوچستان کو پہنچا اس کا ازالہ نہ ہوسکا۔
جیل میں مجھے بلوچستان کی شخصیات اور اُن کے تضادات کے مشاہدے کا بھرپور موقع ملا اور بہت سے پہلوئوں سے آگہی حاصل ہوئی۔ بلوچ قوم پرست قائدین اور بی ایس او کے تضادات بھی سامنے آگئے۔ بعد میں جیل کے اندر سردار عطا اللہ مینگل، خیر بخش خان مری، غوث بخش بزنجو کے مابین کشمکش اور تضادات بھی بڑھتے گئے، اور آپس کی خوداعتمادی ختم ہوگئی اور بداعتمادی نے بڑی قوت سے ان کے درمیان دراڑیں ڈال دیں، اور پھر ان کے راستے جدا ہوگئے۔ ان کے درمیان ریل کی پٹری کی طرح دوری پیدا ہوگئی، وہ نزدیک ہونے کے باوجود آپس میں نہ مل سکے، اور سیاست کا خلا پُر نہ ہوسکا۔
(جاری ہے)