طارق محمود حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

اس کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا آخر… وہ ایک مضطرب روح تھی… دین کا پیغام ایک ایک فرد تک پہنچانے کی دھن ان کے سر پر سوار تھی۔ اسی دھن میں مگن وہ ہمہ تن دعوت بنے، سارا دن بھاگتے دوڑتے نظر آتے۔ 20 اپریل کو گویا ان کی بے سکونی کو سکون مل گیا، اور منوں مٹی اوڑھ کر وہ چین کی نیند سو گئے، مگر وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ ؎

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

لیکن جن لوگوں نے ان کا آخری دیدار کیا ہے وہ گواہ ہیں کہ ان کا چہرہ ایک نفسِ مطمئنہ کا چہرہ تھا۔ کئی دن تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہنے، طرح طرح کی ادویہ استعمال کرائے جانے، اور انجیکشنز وغیرہ آزمائے جانے کے باوجود سفرِ آخرت پر روانگی کے وقت ان کا چہرہ ترو تازہ تھا، اطمینان و سکون کی کیفیت جس پر طاری تھی۔
طارق محمود مرحوم سے میرا پہلا تعارف چند برس قبل اسلامک پبلی کیشنز کے سابق ڈائریکٹر اور البدر پبلی کیشنز کے بانی برادر محترم عبدالحفیظ احمد مرحوم کے ذریعے ہوا… جن کا اچانک ایک دن ٹیلی فون آیا کہ اگر ہم بڑی تعداد میں ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ہر ہفتے خریدیں تو کتنی رعایت ملے گی اور بونس میں کتنے پرچے ملیں گے؟ میں نے کراچی میں مرکزی دفتر سے پوچھ کر عرض کرنے کا وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک ساتھی طارق محمود صاحب آپ سے رابطہ کریں گے، وہ خود ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ منصورہ اور گرد و نواح میں فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم تھے اور طارق صاحب تھے۔ ان کا جوش و جذبہ اس کام میں ہم سے کہیں بڑھ کر تھا۔ کراچی سے بذریعہ جہاز لاہور ترسیل، پھر ہوائی اڈے سے شہر لانا، اور شہر سے منصورہ پرچہ پہنچانا… خاصا مشکل کام تھا۔ اس ضمن میں کئی تجربات کیے گئے، اور پھر مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں… آخری قابلِ عمل حل یہ نکلا کہ پرچہ بذریعہ ریل کراچی سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچتا، جہاں سے طارق محمود صاحب خود بنڈل وصول کرتے، بس میں رکھتے اور واپسی کے سفر میں اس کے اہم مضامین کا مطالعہ مکمل کرتے، اور پھر جب وہ نماز کے بعد منصورہ کی جامع مسجد کے باہر اپنا اسٹال سجاتے تو بلند آواز میں تازہ شمارے میں شائع شدہ مضامین کے اہم نکات بھی بیان کرتے جاتے، تاکہ سامعین پرچہ خریدنے میں کشش محسوس کریں۔ پھر محترم عبدالحفیظ احمد تو اچانک خالقِ حقیقی کے پاس چلے گئے مگر طارق محمود سے ہمارا تعلق ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا، جس میں سے کاروبار کا عنصر غائب اور محبت کا جذبہ رفتہ رفتہ غالب ہوتا چلا گیا… کیونکہ کاروبار تو کبھی طارق صاحب کے پیش نظر تھا ہی نہیں، ان کا مطمح نظر تو ’’میرا پیغام دعوت و محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘ کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے علاوہ ’’جسارت‘‘ خصوصاً ’’سنڈے میگزین‘‘ بھی ان کے چلتے پھرتے اسٹال پر دستیاب ہوتا تھا۔ ان کی دلچسپی اور اصرار ہی کے باعث ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے نظام الاوقات میں تبدیلی کرکے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ ہر جمعۃ المبارک کو کراچی ہی میں نہیں، ملک کے دیگر شہروں میں بھی، خصوصاً منصورہ کی جامع مسجد کے باہر نماز جمعہ کے وقت دستیاب ہو۔
طارق محمود صاحب کو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق لٹریچر پڑھنے اور پڑھانے کا جنون تھا، اس ضمن میں وہ کبھی مادی نفع و نقصان کی پروا نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے مخاطب کو ہر صورت کتاب، رسالہ یا اخبار جو کچھ بھی اُن کے سامنے ہوتا، پڑھانا چاہتے تھے۔ قیمت کی وصولی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ آپ پیسے نہیں دینا چاہتے تو نہ سہی، کتاب یا رسالہ وہ آپ کو ضرور پڑھا کر چھوڑیں گے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میری غیر حاضری میں ’’جسارت‘‘ لاہور بیورو میں آئے تو کلام اقبالؒ کی شرح اور ایک دوسری کتاب کا تحفہ میرے لیے رکھ گئے۔ پھر جب کبھی منصورہ جانا ہوا تو مسجد کے باہر جب بھی ملے، ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ اور ’’جسارت‘‘ کے بارے میں مشوروں، شکووں اور شکایات کے ساتھ کوئی نہ کوئی کتاب بھی ضرور تھما دی۔
’’5۔ اے ذیلدار پارک‘‘ کی دونوں جلدیں۔ چینی مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق ’’سنکیانگ نامہ‘‘ اور نہ جانے کون کون سی چھوٹی بڑی کتب ان کے ذریعے میری ذاتی لائبریری کی زینت بنیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آخری بار انہوں نے مجھے توجہ دلائی کہ محترم شاہ نواز فاروقی صاحب کی کتاب کا مکمل سیٹ طبع ہوکر آگیا ہے جن میں سے ’’دستک‘‘ اور ایک دوسرا مجموعہ وہ پہلے مجھے دے چکے تھے۔ میں نے دیگر کتب میں بھی دلچسپی کا اظہار کیا تو اگلی نماز سے فراغت کے بعد مسجد سے باہر نکلا تو وہ پورا سیٹ لیے موجود تھے۔ میں نے کتب وصول کرکے پرس میں ہاتھ ڈالا تو پہلی قسط کے طور پر پانچ سو کا نوٹ باہر نکلا… انہوں نے وہ پکڑا اور کہنے لگے بس یہی بہت ہے… حالانکہ میرے اندازے میں ان کتب کی قیمت زیادہ نہیں تو اس سے دوگنا ضرور تھی۔ یہی سلوک ان کا اپنے باقی ’’گاہکوں‘‘ سے بھی ہوتا۔ پچیس روپے کا ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ وہ محض دس روپے میں بھی بیچ کر رنجیدہ نہیں بلکہ مطمئن اور خوش ہوتے تھے۔ واقفانِ حال کا بتانا ہے کہ ان کے تابع فرمان بچے معقول رقم بطور جیب خرچ اپنے والد کی نذر کرتے تھے… ابو وہ رقم اپنے کتب و رسائل کی تقسیم کے کاروبار میں لگا کر خوش و خرم رہتے تھے… اور اپنے کھانے پینے اور پہننے وغیرہ سے کہیں زیادہ اہمیت وہ مطالعہ کتب و رسائل کے فروغ کو دیتے تھے۔
طارق محمود مرحوم نے نیو مری کے ایک گائوں سانج میں غلام مرتضیٰ کے گھر میں آنکھیں کھولیں اور 62 برس کی عمر میں 20 اپریل 2019ء کو ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اسلامی تحریک سے ان کے تعلق کا آغاز 1985ء میں منصورہ لاہور میں ایک تربیت گاہ میں شرکت سے ہوا۔ ان کے بڑے بیٹے حسن طارق مرتضیٰ اور دیگر بچے راوی ہیں کہ وہ اپنے گھر میں بتایا کرتے تھے کہ جماعت اسلامی سے منسلک ہونے کا فیصلہ میں نے ایک استخارہ کی مدد سے کیا۔ استخارہ کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولانا مودودیؒ کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ بس اُس دن کے بعد سے اپنی آخری سانس تک وہ جماعت اسلامی کے ایک زبردست اور متحرک کارکن کے طور پر زندہ رہے۔ اپنا پورا خاندان اور آبائی علاقہ چھوڑ کر منصورہ کے قریب ایک بستی وارث کالونی میں اپنا گھر بنایا اور اپنی زندگی کو جماعت اسلامی کے لٹریچر کو پڑھنے ، پڑھانے، سمجھنے اور سمجھانے کے لیے وقف کردیا۔ ان کی ملازمت بیرون ملک تھی جہاں انہوں نے اپنی آمدن کی تقسیم اس طرح کی کہ اس کا ایک بڑا حصہ بیرونِ ملک جماعت اسلامی کے لٹریچر کو پھیلانے اور انفاق فی سبیل اللہ میں لگایا۔ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے اہلِ خانہ سے کیا، اور اپنے گھر میں ایک اسٹڈی سرکل کا کلچر متعارف کروایا۔ روزانہ کئی کئی گھنٹے ان کے بچے مولانا مودودیؒ کا لٹریچر ان کی زیر نگرانی پڑھتے، اور وہ سن کر خود بھی سمجھتے اور بچوں کو بھی سمجھاتے۔ ان کو قرآن پاک اور اسلامی لٹریچر سے دیوانگی کی حد تک محبت تھی، ان کی زندگی کا یہ معمول تھا کہ کسی دن کا کھانا تو چھوڑا جا سکتا تھا مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ گھر میں موجود ہوں اور اس دن اسٹڈی سرکل نہ ہوسکے۔
انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دس سال ملازمت کو خیرباد کہہ کر اپنی بقیہ زندگی اور گرد و نواح میں اسلامی لٹریچر پھیلانے کے لیے وقف رکھی۔ منصورہ کی ہر تربیت گاہ یا سیاسی و سماجی پروگرام کے دوران ان کا بک اسٹال رعایتی قیمت پر کتابوں کی فراہمی کے حوالے سے مشہور تھا۔ اللہ ان کی اس محنت کو قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے (آمین)۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا