قافلۂ سخت جان کے عظیم رَاہی

لیاقت بلوچ
سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قافلۂ سخت جان کی رہنمائی کا فریضہ جس خوبی اور جاں سپاری کے ساتھ ادا کیا، اس کی برکت سے یہ قافلہ اللہ کے فضل سے جانبِ منزل رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی نیک بندوں کی جدوجہد کو قرآن مجید میں ایک ایسی کھیتی کی مانند قرار دیا گیا ہے: ’’جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘ (الفتح48:29)۔ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ اپنے پرہیزگار بندوں کے ساتھ ہے۔
’’عزیمت کے راہی‘‘ کتنا پیارا عنوان ہے۔ اس موضوع پر محترم حافظ محمد ادریس کی چھ جلدیں پہلے ہی چھپ چکی ہیں۔ اب ساتویں جلد تیار ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچنے والی ہے۔ ان عظیم ہستیوں میں قافلۂ حق کے مختلف افراد شامل ہیں۔ ان لوگوں میں سے کئی ایک نے مولانا مودودیؒ کا دور نہیں پایا، مگر مولانا کی فکر سے انھوں نے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی سعادت حاصل کی۔
سیّد مودودیؒ جیسی شخصیات تو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے جانشین جناب میاں طفیل محمدؒ اور قاضی حسین احمدؒ بھی عظیم شخصیات کے حامل تھے۔ انھوں نے مولانا کی طے کردہ راہ پر اپنے قافلے کو پورے عزم وہمت کے ساتھ رواں دواں رکھا۔ مشکل وقت آئے، مگر قائدین کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔ حالات کی سختی اور نہایت مایوس کن صورتِ حال میں بھی ان مجاہدین کے ایمان میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ سیّد مودودیؒ کے رفقا میں ایسے جانثار رفقا کی کمی نہ تھی، جنھوں نے ایثار وقربانی کے میدان میں سلف صالحین کی روایات کو زندہ کردیا۔ انگریز حکومت کی ملازمتوں کو پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہ دی، اور جو ملازمت کے بندھن میں جکڑے ہوئے تھے، سید مودودی کی اسلامی دعوت کی پکار سن کر ایک لمحے کا توقف کیے بغیر انگریز کی اس ملازمت سے نجات حاصل کرکے اس قافلے کا حصہ بن گئے۔ ان کے پیش نظر رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا نصب العین تھا۔ یہ عہد باندھنے کے بعد ساری عمر پلٹ کر کسی اور چیز کی طرف نہیں دیکھا۔ آج کے دور میں بھی قرنِ اوّل کے مجاہدین کی سی استقامت کے حامل افراد دیکھے گئے ہیں، جنھیں سوائے اللہ کے دین کی سربلندی کے اور کسی چیز کی فکر نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہی سرفروشوں اور جانبازوں سے دنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار ہوا کرتا ہے۔
سیّد مودودیؒ نے فریضۂ اقامتِ دین کی دعوت اس انداز اور اسلوب میں پیش کی کہ قدیم علوم کے ماہرین کے ساتھ ساتھ جدید طبقۂ تعلیم بھی ان کا حلقہ بگوش ہوا۔ یوں ان باہمت اہلِ ایمان افراد کی کہکشاں دیکھتے ہی دیکھتے باطل کے مقابلے پر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ جابر حکمرانوں نے اس قافلۂ حق کے خاتمے کی سیکڑوں تدبیریں اختیار کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کے مخلص کارکنوں کو وہ پذیرائی عطا کی کہ اب جماعت بین الاقوامی سطح پر اپنے مثبت اثرات اور فکرِسلیم کے ساتھ موجود ہے۔
زیرنظر کتاب میں مصنف نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کی فکر سے متاثر اُن جانثار رفقا اور کارکنوں (مردو خواتین) کا تذکرہ قلم بند کیا ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل دنیا میں موجود تھے۔ بعض کو مصنف نے اور ہم نے دیکھا، جبکہ بعض وہ شخصیات ہیں جن سے شرفِ ملاقات تو حاصل نہ ہوسکا، مگر ان کے دستیاب حالات حافظ صاحب نے یوں بیان کردیے ہیں کہ پڑھ کر احساس ہوتا ہے ، گویا ہمارا ان سے گہرا تعارف تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔ (الاحزاب33:23) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوںنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
جماعت اسلامی کے صفِ اول کے قائدین وکارکنان اللہ کو پیارے ہوئے اور دوسری صف کے لوگ بھی رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔ یہ اللہ کی سنت ہے۔ 23 احباب (خواتین وحضرات) کی زندگی کے حالات زیر نظر کتاب میں قلم بند کیے گئے ہیں۔ کچھ بزرگ، کچھ جوان، کچھ معروف، کچھ گم نام… مگر سبھی قیمتی ہیرے ہیں۔ ان میں درج ذیل شخصیات کے نام شامل ہیں:
ملک محمد شریف، قاضی محمد سرور، برہان مظفروانی شہید، افتخار فیروز، سعید احمد خاں، پروفیسر میاں محمد سعید، رائے خدا بخش کلیار، رانا نذرالرحمن، احسان اللہ بٹ، میجر طارق جاوید، ڈاکٹر ہارون رشید خاں، الاستاذ محمد مہدی عاکف، ضیاء اللہ، حکیم عبدالوحید سلیمانی، اکبر مجید سہجوی، عبدالعزیز ہاشمی، صفدر علی چودھری، عبدالسلام خاں نیازی، مظفر احمد ہاشمی، مولانا محمدافضل بدر، حسن صہیب مراد، شہیدہ حجاب مروہ الشربینی، اور آپا صفیہ سلطانہ۔
یہ افراد موجودہ دور میں فریضۂ اقامتِ دین کی جدوجہد کے مختلف میدانوں میں اَن تھک مجاہد تھے، ان کی زندگیاں حقیقت میں اس شعر کے مصداق تھیں ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ کتاب کے مصنف حافظ محمد ادریس نے مختلف موضوعات پر کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ ’’عزیمت کے راہی‘‘ کا یہ سلسلہ بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔ اس سلسلے کی چھ کتابیں لکھی جا چکی ہیں، ان سے بے شمار مسافرانِ راہِ حق نے استفادہ کیا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ! مصنف کا اسلوبِ بیان اس قدر سلیس اور رواں دواں ہے کہ قاری کتاب پڑھنا شروع کرے تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔
محترم حافظ محمد ادریس کا اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بہت بڑا احسان اور تحفہ ہے کہ وہ بڑی محنت اور عرق ریزی سے یادِ رفتگاں کے کالم انتہائی مؤثر پیرائے میں لکھتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہوجانے والے تحریکی احباب کے چمنِ حیات سے خوب صورت گوشے اور پھول تلاش کرنے میں انھیں خداداد صلاحیت حاصل ہے۔ ان احباب کے حالات کو تحریری شکل دے کر دعوت وتربیت اور کردارسازی کے لیے عملاً ان روشن مثالوں سے قاری کو بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔ حافظ صاحب تحریکی کارکنان اور دیگر احباب کی رہنمائی کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور نعمت ہے۔ ہم ان کے حق میں دعاگو بھی ہیں اور ان کے شکر گزار بھی۔
ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور نے دینی کتب کی اشاعت کا جو سلسلہ مولانا خلیل احمد حامدیؒ، مولانا نعیم صدیقیؒ، میاں طفیل محمدؒ اور محترم چودھری محمد اسلم سلیمی کی سربراہی میں شروع کیا تھا وہ اللہ کے فضل سے جاری وساری ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین!