استقبالِ رمضان

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ رکھو، جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا موقوف کردو، اگر بادل ہوں (اور چاند نظر نہ آئے) تو تیس
روزے پورے کرلو‘‘۔ (عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما)

سیداسعد گیلانی
ماہِ صیام کی آمد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہایت درجہ مسرت کا باعث ہوا کرتی تھی۔ آپؐ اپنے صحابہ اور اہلِ خانہ کو متوجہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو تیار ہوجائو، ایک نہایت درجہ اہم مہینہ تم پر سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس کے استقبال کے لیے تیار ہوجائو۔
15 شعبان سے ہی آپؐ اس کے استقبال کی تیاری شروع کردیا کرتے تھے۔ نوافل میں اضافہ کردیتے۔ عبادت میں مزید اضافہ اور اہتمام ہوجاتا۔ صدقات میں کثرت ہوجاتی۔ راہِ خدا میں اس کثرت سے انفاق کرتے کہ جیسے تیز ہوا چل رہی ہو۔ دونوں ہاتھوں سے دونوں طرف مساکین میں صدقات تقسیم فرماتے اور بہتے ہوئے چشمے کی مانند ہر ضرورت مند اور حاجت مند اس سے مستفید ہوتا۔ قیام اللیل کے لیے کمر کس لیتے اور ماہ رمضان کی آمد کے لیے اپنے آپ کو، اپنے اہلِ خانہ کو اور اپنے اصحاب کو تیار فرماتے۔
قرآن نے روزے کی فرضیت کو یوں بیان کیا ہے:
ترجمہ: ’’اے اہلِ ایمان تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، شاید کہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
گویا قرآن نے روزے کو تقویٰ پیدا کرنے کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر عبادت اپنی ایک خاص تاثیر رکھتی ہے۔ کلمہ طیبہ مومن کو کافر سے ممیز کرنے کی تاثیر رکھتا ہے۔ نماز مومن سے برائیوں کو دور رکھنے کی تاثیر رکھتی ہے۔ زکوٰۃ مومن کے مال اور اخلاق دونوں کو پاکیزہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور اس طرح روزہ بھی مومن کو خدا ترسی، خدا خوفی اور تقویٰ کی خوبی پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اسی لیے روزے کو ارکانِ دین میں سے ایک اہم رکن قرار دیا گیا ہے، اور جو کوئی شخص روزے کا منکر ہو اسے پورے اسلام کا منکر شمار کیا جائے گا اور اس کا اسلام قبول نہیں کیا جائے گا۔
رسول اکرمؐ نے 9 رمضانوں کے روزے رکھے اور اس کے جملہ احکامات دیئے۔ بیماری اور سفر دونوں حالتوں میں روزے سے رخصت دی گئی، لیکن یہ رخصت اس طرح ہے کہ دونوں حالتوں کے گزر جانے کے بعد روزہ قضا کرلیا جائے۔
رسول اکرمؐ نے رمضان کا ذکر فرمایا کہ جب تک رمضان کا چاند نہ دیکھ لو روزے رکھنے شروع نہ کرو، اور جب تک شوال کا چاند نہ دیکھ لو روزے رکھنے نہ چھوڑو، اور اگر تیسویں تاریخ کو بھی ابر کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو گنتی پوری کرکے روزہ رکھو۔
رمضان المبارک کی تعریف کرتے ہوئے حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ علمائے کرام اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ چونکہ نیکیوں اور عبادات کا مہینہ ہے اور لوگ کثرت سے نیکی اور عبادت کرتے ہیں اس لیے خدا پرستی کی ایسی فضا میں جنت کے دروازے نیکیوں کے لیے کھل جاتے ہیں، اور چونکہ برائیاں کم ہوجاتی ہیں اس لیے گویا شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور وہ دین دار لوگوں کو گمراہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
روزے کے بارے میں رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی تو اسے اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ روزہ کھول لیتا ہے، اور دوسری اُس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا اور اپنے روزوں کا اجر پائے گا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ گویا یہ روزہ ایسی ڈھال ہے جو شیطان کے بہکاوے اور خدا کے غضب دونوں سے بچاتی ہے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیںٍ ان میں سے ایک دروازے کا نام ریان ہےٍ یعنی سیرابی کا دروازہ۔ اس دروازے میں سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے رسول اکرمؐ کا ارشاد بیان فرمایا کہ جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے روزے رکھے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ بھی رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو دوزخ کی آگ سے ستر برس کی مسافت کے برابر دور فرمادے گا۔
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ رسول اکرمؐ کے رمضان المبارک کے معمولات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کی بخشش، خیرات اور مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانے کی عادت رمضان المبارک میں کئی گنا بڑھ جایا کرتی تھی۔ آپؐ رمضان المبارک میں ہر رات کو جبریل کو قرآن سنایا کرتے تھے، اسی لیے ہمیں بھی رسول اکرمؐ کی پیروی میں رمضان المبارک میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنی چاہیے اور لوگوں کو نفع پہنچانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: سحری کھائو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ اسی طرح سہلؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک کہ افطار جلدی کرتے رہیں گے۔ چنانچہ حضورؐ روزہ جلدی افطار کرنے کو پسند فرماتے تھے، آپؐ چاہتے تھے کہ جیسے ہی سورج غروب ہو روزہ کھول لیا جائے اور خوامخواہ دیر نہ کی جائے کیونکہ روزے کی نیت طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک ہے۔
حضرت سلمانؓ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے اور وہ نہ ملے تو پانی سے افطار کرے۔
حضرت زیدؓ بن خالد بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جس کسی نے روزہ دار کا روزہ افطار کروایا اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا روزہ دار کو ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کم ہو۔
حضورؐ بالعموم افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
ترجمہ: ’’اے خدا میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر افطار کیا‘‘۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو حاجت نہیں ہے کہ وہ بھوکا رہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ فحش بات نہ کرے، شور نہ مچائے، گالی نہ دے، اگر کوئی اس سے ایسا کرے تو کہہ دے کہ بھائی میں تو روزہ دار ہوں۔
غرض ماہِ رمضان نیکیوں کی بہار کا موسم ہے، جو نیکی بھی اس کے دوران کی جائے گی وہ اپنے اجر کے لحاظ سے عام دنوں میں کی جانے والی نیکی سے بہت زیادہ فضیلت اور اجر کا باعث ہوگی۔ اسی ماہ رمضان میں قرآن پاک نازل ہوا۔ اسی میں لیلتہ القدر کی وہ عظیم الشان رات ہے جس میں ہزار مہینے کی عبادت کے برابر اجرو ثواب ہوتا ہے۔ اس مہینے میں اعتکاف کا عشرہ ہے اور اس مہینے کو رحمت، مغفرت اور دوزخ سے نجات کا مہینہ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس کے فضائل سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔