واشنگٹن یاترا سے واپسی پر بالآخر وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے قرض کے نئے معاہدے کی تصدیق کردی ہے۔ یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی، اس لیے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے معاہدے کا تعلق صرف اقتصادی اور معاشی صورتِ حال سے نہیں ہے بلکہ عالمی سیاست سے بھی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کی وصولی کے لیے وزیرِ خزانہ نے واشنگٹن میں جن لوگوں سے مذاکرات کیے ہیں اُن میں امریکی محکمہ خزانہ اور ایف اے ٹی ایف کے عہدیداران بھی شامل ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے قیام کے اوّل روز سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرے گی۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم عمران خان نے دوست ممالک کی مدد حاصل کرنے کے لیے کئی غیر ملکی دورے کیے، جن میں چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کی سیاست اور اقتصادیات پر نظر رکھنے والے تمام اہل نظر کو یقین تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے اتنی آسانی سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی سطح پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی سے آزادی کا کوئی ارادہ بھی پایا جاتا ہے؟ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدا میں سیاست دانوں اور افسر شاہی میں ایسے نسبتاً آزاد ذہن افراد موجود تھے جو اس بات کا شعور رکھتے تھے کہ اپنی سیاسی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی آزادی بھی لازمی ہے۔ اس وجہ سے ابتدائی سیاسی حکومتوں نے اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے ٹوٹی پھوٹی مزاحمت کی، لیکن بالآخر عالمی مالیاتی اداروں کی ملازمت اور کنسلٹنسی کرنے والے ماہرینِ معیشت پاکستان کی اقتصادی پالیسی سازی کے ذمے دار بن گئے۔ پاکستان میں امریکی اشارے پر قائم ہونے والی فوجی حکومتوں نے پاکستان کو امریکہ اور عالمی سرمایہ داری کے جال میں جکڑ دیا۔ ان فیصلوں نے پاکستان میں ایک ایسے طبقے کو طاقتور کیا جس نے اپنی دولت میں اضافہ کیا۔ عام آدمی کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ چھوٹی اور درمیانی صنعتیں جو پاکستان کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی تھیں، تباہ ہوگئیں۔ ذرائع روزگار محدود سے محدود تر ہوتے گئے۔ البتہ دولت مندوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا جس نے آکاس بیل کی طرح قومی وسائل کو چوس کر غربت اور افلاس میں اضافہ کیا۔ ان مسائل کی شدت میں اُس وقت اضافہ ہوا جب نائن الیون کے پراسرار واقعے کے بعد جنرل (ر) پرویزمشرف نے پاکستان کو امریکی کرائے کی فوج بنادیا۔ اس وجہ سے پاکستان میں حکومت سازی میں امریکہ کی عریاں مداخلت بھی سامنے آئی۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا۔ یہ کام ایک غیر مقبول حکومت کے ذریعے کرایا گیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان اقدامات کے خلاف کسی سیاسی جماعت نے مزاحمت نہیں کی، حالانکہ ہر آزاد ذہن آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کو کبھی بھی ملک کے حق میں نہیں سمجھتا تھا۔ پاکستان میں تبدیلی کی جس ضرورت کا احساس پیدا ہوا اس کا اصل سبب امریکہ اور آئی ایم ایف کی غلامی کے تحت بنائی جانے والی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا فساد ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکی سامراجی آقائوں اور پاکستان میں اُن کے نمائندوں کو ضمیر فروش اور کند ذہن اور بدعنوان عناصر کی ضرورت تھی۔ پاکستان میں بد عنوانی کا کلچر پیدا ہی امریکی، مغربی سبز قدم نے کیا۔ اس وجہ سے پاکستان میں اقتصادی مسائل کا کوئی حقیقی تجزیہ بھی موجود نہیں ہے۔ اب ہر سطح پر ایسے ماہرین ہی دست یاب ہیں جو عالمی اقتصادی نظام سے آزاد ہو کر سوچ ہی نہیں سکتے۔ سیاسی حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں حقیقی ماہرینِ معیشت بھی دست یاب نہیں ہیں۔ کسی نے بینکر کو، کسی نے ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ کو معاشی ماہر سمجھ لیا ہے۔ ان لوگوں کے اندر اتنی بھی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ مفید اور مضر کا فرق جان سکیں۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے موجودہ معاہدے کا تعلق ہے، امریکہ نے اس بات کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ آئی ایم ایف کا قرض امریکی مرضی کے بعد ملے گا۔ امریکہ اس وقت افغانستان کی ناکام جنگ سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ نے وار آن ٹیرر کے نام پر افغان طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا جو دنیا کی سب سے پسماندہ اور جنگ زدہ ملک کی حکومت تھی، لیکن اب اسے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا ہے۔ اس صورتِ حال نے جہاں ایک طرف عالمی سیاست کو یک قطبی دنیا سے کثیر قطبی دنیا میں بدل دیا ہے، وہیں دوسری طرف روس اور چین امریکی بالادستی کو چیلنج کررہے ہیں۔ اس بدلتی صورت حال نے پاکستان کے لیے خطرات بڑھا دیے ہیں۔ اس وجہ سے امریکہ نے پاکستان کے سر پر ’’دہشت گردی‘‘ کا سرپرست اور مالی معاون قرار دینے کی تلوار لٹکا دی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ایف اے ٹی ایف مذاکرات کے ساتھ منسلک ہیں، اس کے لیے اپریل کا مہینہ مقرر کردیا گیا ہے۔ اس لیے امریکہ آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزادی حاصل کرنے کی اجازت پاکستان کے حکمرانوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس دوران میں تمام شرائط منظور کرائی گئی ہیں اور اصلاحات کے نام پر ایسا نظام قائم کرنے کی منصوبہ بندی ہے جس کے تحت پاکستان کی غلامی کسی بھی صورت میں آزادی نہ بن سکے۔ خاص طور پر چین امریکہ کش مکش محکوم اور مظلوم قوموں، بالخصوص عالم اسلام کے لیے عافیت کا سبب بن سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا مقصد یہ بھی ہے کہ چین پاکستان تعلقات اور سی پیک کے فوائد سے پاکستان کو محروم رکھا جائے۔ اس صورتِ حال میں سیاسی و اقتصادی آزادی کے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔