ممتاز دانشور، صحافی شاعر، ادیب اور کالم نگار شاہ نواز فاروقی سے مکالمہ
’’میں کون ہوں اور کیوں ہوں؟ میرے اطراف میں میرا وجود، میرا فطری ماحول اور یہ وسیع و عریض کائنات کیا ہے؟ اس سے میرا کیا تعلق ہے؟ اور میں ان تما م چیزوں کو کس طرح اپنی بہتری کے لیے استعمال کرسکتا ہوں؟‘‘ اپنے الفاظ میں یہ اور ان جیسے سوالات جن کا دائرہ ممتاز صحافی، ادیب، شاعر،کالم نگار اور صاحبِ بصیرت دانشور شاہنواز فاروقی کی زندگی میں بہت وسیع ہے۔
اک لفظِ کُن سے خلق ہوئی ساری کائنات
ہر شے سے ایک لفظ کی حرمت زیادہ ہے
کے خالق شاہنواز فاروقی سے پہلا تعارف ان کے کالموں کے ذریعے ہوا۔ یہ ہمارے اسکول کے زمانے کی بات ہے کہ محلے کی ایک دکان میں اخبار آتا تھا، اور وہ اخبار پہلے بزرگ پڑھتے تھے، اور اُن میں سے ایک صاحب پہلے ایک ترتیب کے ساتھ تمام خبریں لوح سے آخر تک پڑھتے، اور پھر بقیہ کا صفحہ شروع سے آخر تک ترتیب سے پڑھتے تھے۔ اس طرح پھر باری باری ہوتا ہوا نوجوانوں کے ہاتھ میں آتا تھا۔ تو اُس زمانے میں جہاں حسن نثار کے ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ جیسے عنوان کے کالم چھپتے تھے، وہیں شاہنواز فاروقی کا کالم بھی شایع ہوتا تھا، اور اپنی نوعیت کا الگ ہونے کی وجہ سے پڑھا بھی خوب جاتا تھا۔ ہم بھی خوب متاثر ہوئے اور اتنے متاثر ہوئے کہ اسی پڑھنے پڑھانے کے دوران مجھے اور ہمارے محبت کرنے والے دوست نذیرالحسن کو انہیں جمع کرکے کتابی صورت میں شایع کرنے کی سوجھی۔ کالم جمع ہوگئے، لیکن پھر شاید وسائل کی کمی کی وجہ سے چھپ نہیں سکے، اور آج بھی وہ مسودے کی صورت میں موجود ہیں۔ شاہنواز فاروقی گنتی کے اُن چند کالم نگاروں میں ہوں گے، جنہوں نے اپنی ابتدائی عمر ہی میں لکھنے میں وہ پختگی اختیار کرلی تھی جو برسوں کی ’’ریاضت‘‘کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ مشفق خواجہ پر جب تحقیقی مقالہ لکھا اور انہوں نے اُسے جب پڑھا تو کہا کہ ’’مولانا (شاہنواز) آپ کی عمر مجھے بائیس تیئس سال محسوس نہیں ہوتی، ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ چالیس پچاس سال کے کوئی آدمی ہیں‘‘۔
شاہنواز فاروقی ایک ہمہ صفت شخصیت ہیں۔ صحافت، شعروادب، خطابت کے بیک وقت شہسوار ہیں۔ آپ آفاقی وژن رکھنے، ماضی حال اور مستقبل کا ادراک رکھنے، اور چیزوں کو وسیع تناظر میں، پیش منظر، پس منظر اور آغاز و انتہا کے ساتھ دیکھنے والے صائب الرائے لکھاری ہیں۔ آپ کی تحریروں میں صرف بصارت کی جھلک ہی نہیں بلکہ بصیرت بھی موجود ہوتی ہے، جو قاری کو حق اور حقیقت تک پہنچنے اور ان کو دوسروں تک پہنچانے کا رستہ دکھاتی ہے۔ آپ چونکہ اپنے خیالات سے سوچنے پر مجبور کردینے والے شخص ہیں، اس لیے کسی بھی موضوع پر آپ کی تحریر ہی نہیں بلکہ گفتگو بھی علم و معلومات میں اضافے اور فکر و نظر کے نئے زاویے کھولنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے ہر کالم منفرد ہوتا ہے اور سوچ کی نئی جہتیں اور پرتیں کھولتا ہے۔ آپ صرف ایک لکھاری ہی نہیں بلکہ بے حد مخلص اور متوازن شخصیت کے مالک،نہایت متین و فطین، ذکی و فہیم، مہذب و شائستہ اور مشفق و مہربان شخص ہیں۔
شاہنواز فاروقی کا حوالہ نظریاتی، انقلابی اور آفاقی ہے۔ آپ کے فکری اساتذہ میں اکبر، اقبال، مولانا مودودی، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد شامل ہیں۔ نوّے کی دہائی سے کالم نگاری کا آغاز کرنے والے شاہنواز فاروقی کو اب لکھتے ہوئے اٹھائیس برس ہوچکے ہیں۔ آپ نے کالم نگاری کا آغاز جسارت اور فرائیڈے اسپیشل سے کیا، اور بڑے بڑے اداروں سے کئی بار پیش کش کے باوجود جسارت کے قارئین سے ہی اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ آپ نے ، مذہب،تہذیب، تاریخ، سیاست، معیشت، سماج، ادب اور شاعری سمیت ہر موضوع پر قلم اُٹھایا، لیکن اپنے منفرد انداز میں اٹھایا۔ مغرب اور مغربی تہذیب، سیکولرازم و لبرل ازم آپ کے خاص موضوعات میں شامل ہیں۔ ہندوازم اور ہندوستان کی سیاست اور سماج پر ایسا لکھا کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ مصنف کا یہ کوئی جذباتی مسئلہ ہے۔ ہندوستان اور ہندو ذہنیت و تہذیب کا بھی وسیع مطالعہ ہے، قدیم ہندوستان کے تاریخی ویدی مذہب کو بھی جانتے ہیں، رامائن میں رام چندر اور سیتا کی سیرت کے ساتھ مہا بھارت کی جھلک بھی آپ کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ اسی طرح آپ نے عالم اسلام اور عالمی حالات پر بھی اس کے پورے پس منظر کے ساتھ لکھا۔
شاہنواز فاروقی کراچی میں1964میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین کا تعلق ہندوستان میں یوپی کے ضلع مظفر نگر سے ہے۔ والدہ قصبہ بگھرہ اور والد کا قصبہ برھانہ تھا۔ والد صاحب دلی میں کاروباری سلسلے میں طویل عرصے رہے۔ پھر تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ آپ نے میٹرک اشاعت القرآن گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول، ناظم آباد اور انٹر گورنمنٹ پریمیئر کالج سے کیا۔ کامرس کے طالب علم تھے لیکن حساب کتاب کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ ہوگیا، جہاں بی اے اونرز فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن میں، اور پھر ایم اے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں کیا۔ آپ جامعہ کراچی کے گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ اُس زمانے کا سردار علی صابری ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ پڑھانا آپ کا خواب تھا لیکن تعبیر سے دور رہا۔ آپ جامعہ کراچی میں پڑھانا چاہتے تھے اور میرٹ پر بھی پورے اترتے تھے، لیکن انہیں پڑھانے نہیں دیا گیا۔ آپ کے مقابلے میں اُس وقت کے ’’نااہلوں‘‘کو سفارش پر بھرتی کیا گیا جس کا خمیازہ آج بھی شعبہ ابلاغ عامہ بھگت رہا ہے۔
طالب علمی کے دوران ہی ڈاکٹر طاہر مسعود کی خواہش پر اپنے وقت کے، بچوں کے مشہور رسالے ’’آنکھ مچولی‘‘ میں چلے گئے جہاں تین ساڑھے تین سال کام کیا اور بچوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں، کہانیاں بھی لکھیں اور مضامین بھی لکھے۔ آپ کی شادی سلیم احمد کی صاحبزادی سے ہوئی۔ وہ خود بھی لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے سے شغف رکھتی ہیں اور شاہنواز بھائی کے اکثر کالم شایع ہونے سے پہلے اُن کی نظر سے گزرتے ہیں۔
شاہنواز فاروقی نے سنجیدہ کالموں کے ساتھ فکاہیہ اور تحقیقی کالم بھی لکھے۔ ابتدا میں آپ نے ’’ڈھول کا پول‘‘کے عنوان سے فکاہیہ کالم لکھے۔آپ کا پہلا کالم ’’ایک اور کالم کی ابتدا‘‘کے عنوان سے 1990ء میں شایع ہوا۔ لیکن آپ نے کالموں میں ہمیشہ مزاح برائے مزاح کے بجائے مزاح برائے اصلاح کو اہمیت دی ہے۔ آپ کی ظرافت ہمیشہ مقصدی ہوا کرتی ہے۔سنجیدہ کالم ’’گفتگو‘‘ اور ’’روبرو‘‘ کے عنوان سے بالترتیب فرائیڈے اسپیشل اور جسارت میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل اردو نیوز میں ’’تناظر‘‘کے عنوان سے بھی لکھتے رہے ہیں، لیکن پھر اردو نیوز میں پالیسی کی وجہ سے کالم بند کرنا پڑا۔ زمانہ طالب علمی میں دو تحقیقی مقالے لکھے جن میں ’’شخصیت اور خدمات سلیم احمد‘‘ اور ’’شخصیت اور خدمات مشفق خواجہ‘‘ جو صیغہ مطبوعاتی ابلاغ، شعبہ ابلاغ عامہ،جامعہ کراچی نے اکابر صحافت،۲، کے سلسلے کے تحت شایع بھی کیا، جس کے عرض مرتب میں پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ نے لکھا ہے کہ ’’شاہنواز ذہین بھی ہیں اور صائب الرائے بھی‘‘۔آپ کے کالم ظریفانہ ہوں یا سنجیدہ، ان میں علم و فراست، دانش و آگہی کے دریا بہہ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے کالموں کے مجموعے کی پہلی کتاب ’’کاغذکے سپاہی‘‘ تھی، اس کے بعد سے اب تک پچیس سے زائد کتابیںشایع ہوچکی ہیں، اور اس سے زیادہ پبلشر کی دستیابی پر چھپ سکتی ہیں۔ آپ کی دیگر کتابوں میں ’’اسلام اور مغرب‘‘، ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ جس کا انگریزی ترجمہ(Clash of Civilization ) بھی شایع ہوچکا ہے، کے علاوہ مصرف، گفتگو، روبرو، بارامانت،کاغذ کی کشتی،دستک،صحرا میں ازان، گویائی،چراغ دل اورطواف شامل ہیں
شاہنواز فاروقی ایک عمدہ شاعر بھی ہیں۔ ایک شعری مجموعہ’’کتاب دل‘‘ آچکا ہے۔ اس مجموعے کی تقریب رونمائی میں احمد جاوید نے آپ کے اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے سلیم احمدکی روایت اور سلیم احمد کے تصورِ شعر کو گویا کچھ عملی نمونے فراہم ہونے کا جیسے کوئی بندوبست سا ہورہا ہے۔ شاہنوازفاروقی اپنی اس کتاب میںکم از کم میرے لیے ایک بہت مدت سے بند دروازہ سا کھول دیتے ہیں۔‘‘
بچوں کے ادب پر 10کتابیں ’’وہ رات اور کالاباغ، ’’سچا پاکستانی‘‘، ’’گھر نہیں بنا سکے‘‘، ’’غیر مطمئن گائوں‘‘، ’’رائی کا پہاڑ‘‘، ’’بیچارے بچے‘‘، ’’شیر کو زندہ کرنے والے‘‘، ’’احسان فراموش آدمی‘‘، ان کتابوں میں چار اوریجنل اور پانچ بچوں کے عالمی ادب کا ترجمہ ہیں۔ ایک کتاب بچوں کی نظموں کا مجموعہ’’آبشار‘‘ شایع ہوچکی ہے۔ بچوں کے رسالے میں ناول ’’عکس‘‘ سائنس فکشن پر قسط وار چھپا، جو فی الحال کتابی صورت میں شایع نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جنگ لندن کے ناول ’’کال آف دی وائلڈ‘‘کا ترجمہ بھی قسط وار چھپ چکا ہے۔ آپ کی دو کتابیں’’سرسید تاریخ کی میزان میں‘‘ اور’’ اسلام کی انقلابیت،مولانا مودودی اور جماعت اسلامی‘‘اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ہندوستان کیا ہے پر بھی کام ہورہا ہے۔
آپ سے امتِ مسلمہ سے متعلق سلگتے ہوئے سوالات سمیت تاریخ، اسلام میں فلسفہ، عقل اور وحی کے تصورات، اقبال، سلیم احمد، سید مودودی، مولانا ابوالکلام آزاد، غامدی بیانیہ، اسلامی تحریکیں،کامیابی و ناکامی، جماعت اسلامی اور اس کا مستقبل، ادب، دین، سماج اور معاشرے سے جڑے ہوئے دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا دورانیہ چار گھنٹے سے زیادہ ہے اور کتابی صورت میں شائع ہوا ہے، لیکن صفحات کی کمی اور طوالت کی وجہ سے ہم چیدہ چیدہ اقتباسات کو شایع کررہے ہیں۔
اس انٹرویو میں ہر سطح کے قارئین کے لیے غور و فکر کے بے شمار پہلو ہیں جو نذرِ قارئین ہے۔
سوال : اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
شاہنواز فاروقی: میری پرورش میرے ننھیال میں ہوئی، اور جس طرح کا میرا ننھیال تھا میں بھی ویسا ہی ہوگیا۔ اپنی پوری زندگی کے چالیس سال کا تجربہ اور مشاہدہ میرے ساتھ ہے۔ ایسا خاندان نہ میں نے کبھی دیکھا اور نہ سنا۔ اس خاندان کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اسلام سے بہت گہری محبت پائی جاتی تھی اور امتِ مسلمہ کا ایک ایسا تصور موجود تھا جو شاید ہی کہیں موجود ہو۔ اس خاندان کو اسلام اور پاکستان سے ایسی شدید محبت تھی کہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مقدس مقامات تین ہیں: ایک مکہ ہے، ایک مدینہ ہے اور ایک پاکستان۔ ان کو پاکستان سے ایسی محبت تھی کہ ناقابلِ بیان ہے۔ چنانچہ جب میں پاکستان کے حکمرانوں کو دیکھتا ہوں، تو یہ خیال آتا ہے کہ یہ پاکستان کے حکمران نہیں بلکہ پاکستان کے غدار ہیں۔ میں نے کوئی سات آٹھ سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور چھ سال کی عمر کے بعد میں نے اسکول میں داخلہ لیا سات سال کی عمر میں ایک بہت عجیب واقعہ ہوا۔ بچپن میں ہمارے گھر میں خدا کا اور مذہب کا اتنا ذکر ہوتا تھا کہ یہ تصور میرے ذہن میں قائم ہوگیا کہ خدا کوئی بہت بڑی ہیئت رکھنے والی شخصیت ہے، جیسے ذکر ہوتا ہے کہ اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت ہی بڑا ہے، تو مجھے لگتا تھا کہ خدا جو ہے کوئی بہت بڑا، لمبا تڑنگا وجود ہے۔ ایک دن میں اپنی خالہ کے ساتھ ڈاکٹر کے ہاں سے لوٹ رہا تھا تو سامنے سے ایک صاحب کو آتے ہوئے دیکھا، مجھے گمان ہوا کہ کہیں یہی تو اللہ میاں نہیں ہیں! وہ صاحب کوئی بہت لمبے چوڑے انسان تھے، میاں محبوب ان کا نام تھا اور وہ پولیس کے ریٹائرڈ آدمی تھے، تو میں اپنی خالہ کے پیچھے چھپ کر چلنے لگا، میری خالہ نے کہا کہ ’’یہ تم کیا کررہے ہو!‘‘ تو میں نے کہا کہ اللہ میاں آرہے ہیں سامنے سے۔ تو انہوں نے کہا کہ کہاں آرہے ہیں اللہ میاں! میں نے کہاں وہ سامنے۔ کہنے لگیں چلو! یہ تو میاں محبوب ہیں۔
سوال: آپ وسیع المطالعہ ہیں، کیابچپن سے ہی مطالعے کا شوق و ذوق تھا؟
شاہنواز فاروقی :اُس زمانے میں مذہبی کتابیں بیچنے والے گلیوں میں پھیرے لگا کر کتابیں بیچا کرتے تھے۔ میں سات سال کا تھا کہ میری خالہ نے مجھے قصص الانبیاء خرید کر دی تھی۔ کیونکہ ہمیں اپنے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، اسکول جاتے اور گھر واپس آجاتے تھے اور پورا دن گھر پر ہی گزرتا تھا، تو میں نے قصص الانبیاء ساری پڑھ ڈالی۔ قصص الانبیاکے تین چار قصے ایسے تھے کہ جنہوں نے میری شخصیت پر بہت زیادہ گہرا اثر ڈالا۔ اس میں سے ایک قصہ صبر ایوب کا تھا، یعنی آپ کو معلوم ہے کہ صبر ایوب، حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کی داستان ہے، اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر ایسا ہے کہ ان کا نام صبر کے ساتھ منسوب ہوگیا اور ان کے صبر کو صبر ایوب کہا جاتا ہے، اور اس کو ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ میں اس قصے کو پڑھتا تھا اور میرے اوپر ایک گریہ کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور میں روتا چلا جاتا تھا۔ وہ جو حضرت ایوب علیہ السلام کا دُکھ تھا، جو تکلیف تھی میں اس کو اپنی روح کے اندر بھی محسوس کرتا تھا۔ اسی طرح ایک قصہ اصحاب ِکہف کا ہے، اس میں ہے کہ اصحابِ کہف کی آنکھ جب 309 سال کے بعد کھلتی ہے تو اُن میں سے ایک شخص یملیخاکی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ پیسے لے کر جائے اور بازار سے کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر آئے۔ تو وہ چونکہ 309سال کے بعد اس شہر میں گیا ہوتا ہے تو وہ نان بائی جس کے ہاں سے وہ کھانے پینے کا سامان خریدنے جاتا ہے وہ اس کے سکے دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کہیں سے خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ وہ اس کو پکڑ لیتا ہے اور اس طرح بات بادشاہ کے دربار تک پہنچتی ہے، تو وہ بالآخر کہتا ہے کہ ہم تو اسی شہر کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں تمہارا گھر کہاں ہے؟ اب ظاہر ہے 309 سال میں شہر اتنا تبدیل ہوچکا ہے کہ وہ ایک گلی میں جاتے ہیں سمجھتے ہیں یہاں گھر ہے، پھر سمجھتے ہیں کہ دوسری گلی میں ان کا گھر تھا، اس طرح وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ میں جھوٹا سمجھا جائوں گا اور اس کی سزا بھی مجھے ملے گی، تو ان کی حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا ان کی مدد کے لیے، اور فرشتے نے کہا کہ آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کا گھر کہاں ہے۔ اور وہ ان کو ان کے گھر تک لے کر چلاگیا۔ تو یملیخا کی جو تنہائی اور اکیلا پن تھا اس کا میرے دل پر اتنا گہرا اثر ہوتا تھاکہ وہ بھی قصہ مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا تھا، اور پھر ایک قصہ جسے ہم سب معراجِ رسول کے نام سے جانتے ہیں اس کا اثر مجھ پر بہت زیادہ حیرت اور استعجاب کا ہوتا تھا، اس اعتبار سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ایک بشر ہوکر معراج پر گئے اور کس طرح سے وہ وہاں سے لوٹ آئے کہ ان کا بستر تک گرم تھا، تو یہ بات مجھے بہت زیادہ حیرت زدہ کرتی تھی۔ تو وہ جو قصے تھے انہوں نے میری شخصیت کی تشکیل میں بہت زیادہ بنیادی کردار ادا کیا۔
سوال: گھر میں لکھنے پڑھنے کا ماحول کیا تھا اور کن موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی؟
شاہنواز فاروقی:ہمارے جو ایک بڑے ماموں تھے ان کا نام سید نفیس حسن تھا، ان کی اسکولنگ کوئی نہیں ہوئی تھی لیکن وہ حافظِ قرآن تھے اور ان کی جو بہت ہی خاص بات تھی وہ یہ کہ ان کو پاکستان اور امتِ مسلمہ سے، اور امتِ مسلمہ کی سیاست اور پاکستان کی سیاست سے ایسا شغف تھا کہ جو اور کسی کے اندر میں نے نہیں دیکھا۔ وہ ہمارے گھر میں امتِ مسلمہ کا تذکرہ اس طرح کرتے تھے کہ ہمیں لگتا کرنل قذافی اور یاسر عرفات ہمارے عزیز رشتہ دار ہیں یا ہمارے محلے پڑوس میں کہیں رہتے ہیں۔ ان سے کوئی بہت دور پرے کا نہیں بلکہ بہت قریب کا واسطہ ہے۔ بھٹو صاحب، جنرل ضیاء الحق اور پاکستان، پوری سیاست صبح سے شام تک گھر میں ڈسکس ہوتی تھی اور ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر تین ریڈیو اسٹیشن سنتے تھے۔ پہلے بی بی سی سنتے تھے، پھر ریڈیو پاکستان سنتے تھے، اور پھر کہتے کہ اب آکاش وانی لگائو، دیکھیں ہندوستان کیا کہہ رہا ہے؟ یعنی صبح سے لے کر شام تک ہمارے گھر میں اس طرح کا ماحول اور اس طرح کی فضا رہتی تھی۔
سوال: صحافت کی دنیا میں کس طرح آئے؟
شاہنواز فاروقی : انٹر میں، میں کامرس کا اسٹوڈنٹ تھا لیکن میں کامرس پڑھنا نہیں چاہتا تھا، میرے گھر میں میری دو بہنیں ڈاکٹر تھیں اور میرے دو بھائی فارما سیوٹیکل کمپنی سے وابستہ تھے۔ ایک بھائی نے ایم بی اے بھی کرلیا تھا اور میں ان سے سب سے زیادہ قریب تھا، اور وہ چاہتے تھے کہ میں زندگی میں آگے جاکرکوئی پروفیشنل کام کروں، وہ بالکل نہیں چاہتے تھے کہ میں جرنلزم میں جائوں، البتہ میری بہنوں کو یہ معلوم تھا کہ اس کو بچپن سے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے، اخبار اور سیاست میں بھی بہت دلچسپی لیتا ہے، تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ جائو تم داخلہ لے لو، ہم تمہارا دفاع کریں گے، تو ابا بھی بہت ناراض ہوئے اور بھائی بھی، اور بھائی نے مجھ سے کہاکہ یہ تم کیا کررہے ہو۔ تم تو بھوکے مر جائو گے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں جرنلزم جو ہے وہ جھوٹ کے سہارے چلتا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے سہارے، اور یہ دونوں کام تم کروگے نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم بھوکے مروگے۔ میں نے کہا: نہیں ان شاء اللہ بھوکا تو خیر میں نہیں مروں گا۔
سوال: آپ نے طالب علمی کے دور میں ہی بچوں کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا؟
شاہنواز فاروقی:مجھے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کا کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔ اس کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ میں کراچی یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھا چائے پی رہا تھا، طاہر مسعود صاحب وہاں آئے اور کہنے لگے کہ ہم آنکھ مچولی کا ایک کرکٹ نمبر نکال رہے ہیں، آپ اگر اس کے لیے کوئی نظم لکھ دیں تو بہت اچھی بات ہوگی۔ میں نے کہا کہ میں نے بچوں کے لیے تو کبھی نظم نہیں لکھی ہے، انہوں نے کہا کہ کوشش کرلیجیے گا، اگر ہوجائے تو اچھا ہے۔ اتفاق سے میں نے کوشش کی اور ایک بہت اچھی سی نظم ہوگئی جو بہت پڑھی بھی گئی۔ اس سے مجھے پتا چلا کہ یہ کام بھی میں کرسکتا ہوں۔ پھر طاہر مسعود صاحب نے کہا کہ بھئی ! آپ یہاں سے گھر جاکر کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ کچھ بھی نہیں کرتا۔ کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ پھر وہ مجھے آنکھ مچولی میں لے گئے، وہاں اس کی مجلس ادارت سے ساڑھے تین سالہ وابستہ رہا۔
سوال: بہت کم لوگ بچوں کے حوالے سے اپنی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہیں،اکثر بچوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کیا بچوں کے لیے لکھنا زیادہ مشکل کام ہے کہ آپ نے بھی لکھنا چھوڑ دیا؟
شاہنواز فاروقی: نہیں! بعد میں بھی ایک زمانے میں یہ کام کیا ہے۔ ایک وقت تھا جب جسارت میں بچوں کا صفحہ میرے پاس تھا۔ جسارت کے بچوں کے صفحہ کے لیے کہانیاں تو نہیں البتہ کچھ مضامین ترجمہ کیے ہیں اور کچھ نظمیں اس میں موجود ہیں۔ تو یہ کام میں نے وہاں پر بھی کیا ہے، لیکن بعد میں لکھنے کی مصروفیات بڑھ گئیں، پھرکالم آگیا، پھر جسارت کا اداریہ لکھنے لگا، تو اس کی وجہ سے کام اس طرح سے جاری نہیں رکھا جاسکا، اور پھر شاید کسی نے تقاضا بھی نہیںکیا اس لیے مزید نہیں لکھا گیا۔
سوال: مغرب میں بچوں کا ادب باقاعدہ تصنیف ہوتا ہے، اس کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچوں کا ادب روزافزوں ترقی کررہا ہے۔ ہمارے یہاں بچوں کے ادب میں نئے تجربات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی جیسی مغرب میں دی جاتی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
شاہنواز فاروقی: مغرب خود کو دنیا کا مالک اور اس کا محور سمجھتا ہے، چنانچہ ان کے یہاں ہر چیز کے سلسلے میں ’’ذمے داری‘‘ موجود ہے۔ ہمارے یہاں بچوں کے لیے کیا، بڑوں کے لیے بھی ’’ذمے داری‘‘ کے ساتھ نہیں لکھا جاتا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں بچوں کے لیے لکھنے سے شہرت نہیں ملتی اور نہ بچوں کے لیے لکھنے کا کوئی معاوضہ ملتا ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کے لیے لکھنے کے یہی دو محرکات ہوتے ہیں۔
سوال:کہا جاتا ہے کہ صحبت، شخصیت کی تشکیل کرتی ہے اور آپ کی شخصیت کی تشکیل اور فکر کی ترویج میں جہاں ننھیال کا اہم کردار رہا، وہاں اور کون سی ایسی شخصیات ہیں جن سے آپ نے استفادہ کیا؟
شاہنواز فاروقی: جی ایسے بہت لوگ ہیں، آپ یہ سمجھیے میٹرک کے زمانے میں ہمارے جو بڑے ماموں تھے وہ یہ کرتے تھے کہ گھر میں دو، دو، تین، تین اخبارات منگوا لیا کرتے تھے اور جب کوئی دوسرا انہیں اخبار پڑھ کر نہیں سناتا تھا تو وہ مجھ سے کہتے کہ میاں اخبار پڑھ کر سنائو۔ خود تو میں نہیں پڑھتا تھا، ماموں کہتے تھے تو میں پڑھ کر سنادیتا تھا۔ اور جب یہ بات محلے میں مشہور ہوگئی تو محلے کے کچھ بوڑھوں کو بھی پتا چل گیا کہ یہ شاہنواز صاحب اخبار پڑھ کر سناتے ہیں ماموں کو۔ ان کی ایک مجلس تھی ہمارے محلے کے اندر، آٹھ دس بوڑھے جمع ہوجاتے تھے، وہ اخبار پڑھ کر سنانے کے لیے مجھے بلالیتے تھے۔ چنانچہ اس طرح اخبار پڑھنے کی عادت مجھے بچپن سے پڑ گئی۔ خبروں کے تین بلیٹن ہمارے ہاں سنے جاتے تھے، پھر وہ ڈسکس بھی ہوتے تھے کہ کسی نے یہ کیوں کہا ہے؟ اور اس میں کیا اینگلنگ کی گئی ہے۔ اینگلنگ کی اصطلاح سے میں اُس زمانے سے واقف ہوں کہ کس نے، کس طرح اس میں اینگل نکالا ہے، آکاش وانی والوں نے فلاں جگہ جھوٹ بولا ہے۔ تو یہ سب کچھ میرے لیے بالکل میرے ماحول کا فطری حصہ تھا۔
سوال: اب تو نہ سننے والے رہے اور نہ سنانے والے رہے؟
شاہنواز فاروقی: جی ہاں ایسا ہی ہے! اس میں یہ ضرور ہوا کہ جب میں میٹرک میں آیا تو ہمارے گھر میں جسارت اور ڈان اخبار آتا تھا۔ جسارت جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو مجھے اس میں سب سے زیادہ اپیل کرنے والا جو کالم لگا وہ سلیم احمد صاحب کا لگا۔ اور میں نویں جماعت سے سلیم احمد کو پڑھنے لگا تھا، اور پھر ایک وقت ایسا آیا، جب میری دلچسپی اور بڑھی۔ نارتھ ناظم آباد میں تیموریہ لائبریری ہے ہمارے گھر کے قریب، جو عبدالستار افغانی صاحب نے قائم کی تھی۔ میں نے سوچا کہ اور بھی کچھ پڑھنا چاہیے، چنانچہ میں تیموریہ لائبریری چلا جاتا تھا اور وہاں دو تین گھنٹے جم کر چار پانچ اخبارات پڑھتا تھا اور رسالے بھی، انٹرٹینمنٹ سے متعلق رسالے بھی وہاں ہوتے تھے جو میں پڑھتا تھا۔ اور اس طرح سے میری فکر کی تشکیل ہوتی چلی گئی اور سلیم احمد صاحب سے میری دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔
سوال:کیا آپ سلیم احمد کے گھر پر ہونے والی نشستوں کے شریک رہے ہیں؟
شاہنواز فاروقی: سلیم احمد صاحب سے میں کبھی نہیں ملا ، اس لیے کہ جب یکم ستمبر 1983ء میں ان کا انتقال ہوا تو میں انٹر فرسٹ ایئر میں تھا، تو ظاہر ہے اتنی چھوٹی عمر میں ان سے ملاقات کی کوئی سبیل ہی نہیں ہوسکتی تھی، البتہ ایک مرتبہ میرے بڑے بھائی شکیل فاروقی جو ریڈیو پاکستان سے وابستہ تھے…… اُس وقت وہ ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے انچارج تھے، بعد میں اسٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا بھی کہ تم سلیم احمد صاحب کا اتنا ذکر کرتے ہو ، کہو تو میں تمہیں ملانے کے لیے لے جائوں؟ میں نے ان سے کہا کہ میں ان سے مل کر کیا بات کروں گا! میرے پاس بات کرنے کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، لیکن مجھے یہ لگا کہ یہ جو سلیم احمد صاحب ہیں، پاکستان ان کی دلچسپی کا محور ہے، اسلام ان کی دلچسپی کا محور ہے، مغرب ان کی دلچسپی کا محور ہے۔
سوال: سلیم احمد میں اتنی دلچسپی کی وجہ کیاتھی، وہ کیا احساس تھا کہ آپ سلیم احمد کے ہوکر رہ گئے؟
شاہنواز فاروقی:مجھے ان کی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ وہ باتیں جو میں نے اپنے بچپن میں سنی تھیں، اور جن باتوں کو میں نے اپنے اندر جذباتی اور احساساتی سطح پر لیا تھا، سلیم احمد صاحب کے ہاں ان تمام باتوں کا ایک فکری پس منظر کے ساتھ ذکر ہوتا ہے۔ اور وہ چیزیں جو جذبے کی سطح پر میں نے سنی ہیں وہ تو پورا ایک علم ہے، اس کے کچھ دلائل اور براہین ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ محض کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اُس مسئلے کا ایک پورا علمی اور تہذیبی تناظر ہے۔ پھر میں بہت زیادہ ان کی کتابوں میں دلچسپی لینے لگا، اور میں نے ان کی شاعری تلاش کرکرکے پڑھنی شروع کی، تنقید کی کتابیں پڑھیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ کتابیں ایک آدھ دفعہ چھپی ہیں پھر دوبارہ نہیں چھپیں تو دستیاب نہیں تھیں، پھر ایک صاحب تھے علی حیدرملک، جو اردو کالج کے شعبۂ اردو کے صدر بھی رہے، اور وہ افسانہ نگار اور نقاد بھی تھے اور جسارت میں ادبی کالم لکھا کرتے تھے، ان سے ایک دفعہ ملاقات ہوئی۔ ان سے ملاقات ایسے ہوئی کہ آپ کو یاد ہوگا جب 1985ء کے الیکشن ہوئے اُس وقت میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ محموداعظم فاروقی صاحب اس علاقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے پاس لوگ کم ہیں تو کیا تم شام میں کام کرنا چاہو گے ان کے لیے؟ میں اپنے دوست کے ساتھ محمود اعظم فاروقی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے لگا۔ ہم نے ایک دروازے پر دستک دی تو علی حیدر ملک نکلے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ وہی علی حیدر ملک صاحب ہیں جو جسارت میں لکھتے ہیں؟ کہنے لگے جی میں وہی علی حیدر ملک ہوں۔ میں نے کہا میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں شعر کہتا ہوں اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ واقعی میں شاعر ہوں بھی یا نہیں، تو میں آپ کو اپنی بیاض دکھانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا بلاتکلف آپ آئیے! ہمارے ہاں جمعرات کو ایک ادبی نشست ہوتی ہے جس میں شاعر و ادیب آتے ہیں اور وہاں ہم بیٹھ کر گفتگو کرتے ہیں مختلف موضوعات پر، اور کچھ نہ ہو تو گپ شپ تو ضرور ہوجاتی ہے۔ تو آپ وہاں آیا کریں۔ پھر میں وہاں جانے لگا، اور میں نے علی حیدر ملک صاحب کو اپنی بیاض دی تو مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھے کچھ زبانی، کلامی بتائیں گے کہ میری شاعری اچھی ہے، بری ہے۔ لیکن انہوں نے غضب کیا کہ اس پر ایک کالم لکھ ڈالا جس میں میری شاعری کی تعریف کی اورکہا کہ یہ واقعی شاعر ہیں اور ان کو شعر کہتے رہنا چاہیے۔ ان سے جب رابطہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی سلیم احمد صاحب کے ملنے والوں میں سے ایک ہیں اور ان کے پاس سلیم احمد صاحب کی کتابیں بھی تھیں۔ میں نے ان سے کتابیں لے کر پڑھنا شروع کیں تو مجھے بالکل جیسا کہ میرا ان کے بارے میں تاثر تھا کالموں کی بنیاد پر، کہ وہ ہماری مذہبی فکر کو اور لٹریچر کو بہت گہرائی سے سمجھنے والے لوگوں میں سے ایک ہیں۔ میں آپ کو یہ بتائوں کہ میرا جو ننھیال تھا وہ اس اعتبار سے بھی غیر معمولی تھا کہ وہاں مذہب کا بہت ذکر تھا اور امتِ مسلمہ اور پاکستان کی محبت کا دریا بہہ رہا تھا، لیکن میرے والد جماعت اسلامی ہند سے وابستہ رہے تھے، رُکن تھے، لیکن جو ہمارا ننھیال تھا وہ علماء دیوبند کے زیراثر تھا، تو ہمارے ننھیال میں ابا کا بہت تذکرہ ہوتا تھا اور بہت محبت کے ساتھ تذکرہ ہوتا تھا، لیکن ان کی ساری خوبیوں کے ذکر کے ساتھ کہ وہ ایسے ہیں، و یسے ہیں، کوئی نہ کوئی ماموں یا خالہ یہ ضرور کہتے تھے کہ لیکن وہ ہیں مودودی کے پیروکار۔ تو میرے ذہن میں مولانا مودودی کا بہت ہی منفی تاثر تھا، اور مجھے لگتا تھا کہ میرے ماموں یا میری خالہ جنہوں نے مجھے پالا ہے وہ کسی شخصیت کی تعریف نہیں کررہے تو ان میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوگا۔
سوال: اس کا مطلب ہے مولانا مودودیؒ سے آپ کا پہلا تعارف منفی تھا؟
شاہنواز فاروقی: جی ہاں! بہت زیادہ منفی تھا۔
سوال: پھر یہ تاثر تبدیل کیسے ہوا؟
شاہنواز فاروقی: پھرجب میں کچھ بڑا ہوا اور نویں جماعت میں آیا تو ایک دن یہ ہوا کہ کوئی بات نکلی اور میری بڑی بہن جو ڈائو میڈیکل کالج کی طالبہ تھیں اور اسلامی جمعیت طالبات میں کچھ نہ کچھ کام کرتی تھیں اُن سے میری کسی بات پر بحث شروع ہوگئی، اور پتا نہیں کہاں سے مولانا مودودی کا ذکر آگیا، تو میں نے جو بچپن میں سنا ہوا تھا ان کے بارے میں، وہ سب بہن کے سامنے اگل دیا کہ اُن میں تویہ نقص ہے، وہ تو صحابہ کی برائی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ میری باتیں سنتی رہیں، پھر انہوں نے مجھ سے کہا: اچھا یہ تو بتائو تم نے مولانا مودودی کی کبھی کوئی کتاب پڑھی ہے؟ اُس وقت تک میں نے مولانا مودودی کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی۔ میں نے کہا: نہیں کتاب تو میں نے کوئی نہیں پڑھی۔ انہوں نے کہا: اچھا تم ٹھہرو۔ وہ اٹھیں اور ’خلافت و ملوکیت‘ جو ہمارے گھر میں رکھی ہوئی تھی، اٹھا کر لائیں اور کہنے لگیں: یہ کتاب تم پڑھ لو، کتنے دن میں پڑھ لو گے؟ چار پانچ دن میں تو پڑھ لو گے ناں! جب تم یہ کتاب پڑھ لو تو پھر مجھ سے مولانا مودودی کے بارے میں بات کرنا۔ اچھا، مجھے پتا بھی نہیں تھا کہ ’خلافت و ملوکیت‘ مولانا مودودی کی آخری کتاب ہے اور یہ سب سے متنازع کتاب ہے، جس پر سب سے زیادہ منفی گفتگو ہوئی ہے، نہ ہی میری بہن کو علم تھا، لیکن جب وہ کتاب میں نے پانچ چھ دن میں پڑھ ڈالی تو مجھے اس کے بعد مولانا کے بارے میں یہ بات معلوم ہوئی کہ مولانا جو بھی بات کرتے ہیں اس کا ایک مقدمہ بناتے ہیں اور اپنے مقدمے کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے ان کے پاس دلائل اور براہین ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بیان لے کر وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور کوئی دلیل نہیں دیتے، بلکہ اپنے بیان کی دلیل بھی ان کے پاس ہے اور اس کا وسیع پس منظر بھی ان کے پاس ہے۔ تو میں نے اپنی بہن سے کہا کہ بھئی یہ تو بہت اچھی کتاب ہے اور یہ تو بہت Convincingکتاب ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ یہی تو مسئلہ ہے کہ تم پڑھے بغیر مولانا کے بارے میں بات کررہے تھے۔ ان کے پاس کچھ اور پمفلٹ جو غالباً جمعیت کے لوگوں نے ہی ان کو دیئے ہوں گے، اور ابا کی کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھیں، وہ میں نے پڑھنی شروع کیں تو میرا مولانا کے بارے میں جو تاثر تھا وہ بدلا، اور اپنے ننھیال کی تعلیم و تربیت کے دائرے کو میں نے توڑا۔ اورمولانا مودودی کے متعلق میری نئی رائے بنی۔ میں نے محسوس کیا کہ علماء دیوبند نے مولانا کے بارے میں جو تاثر عام کیا ہوا ہے، وہ ٹھیک نہیں۔ پھر میں نے مولانا مودودی کو پڑھنا شروع کیا اور مذہب کا وہ تصور جس کو آپ مذہب کا انقلابی تصور کہتے ہیں، وہ مولانا مودودی سے میں نے سیکھا۔
سوال: ا قبال آپ کی زندگی میں کب آئے؟
شاہنواز فاروقی: اقبال کا سلیم احمدکے ہاں بھی بہت تذکرہ تھا، ان کی کتاب بھی اقبال پر آگئی، پھر میں نے اقبال کو پڑھنا شروع کیا۔ اُس زمانے میں تو خیر یہ معاملہ تھا کہ جو کچھ میرے ہاتھ آجاتا تھا میں پڑھ ڈالتا تھا، فلسفے کی کتاب آئی وہ میں نے پڑھ لی، کوئی رسالہ ہے وہ میں نے پڑھ ڈالا، ابن صفی کو میں نے بہت پڑھا ، نسیم حجازی کو پڑھا۔
سوال: یعنی آپ کو جو پڑھنے کو ملا وہ پڑھ ڈالا؟
شاہنواز فاروقی:جو ملتا تھا وہ میں پڑھ ڈالتا تھا اور مجھے بالکل نہیں معلوم تھا کہ مجھے اپنے مطالعے کو کس طرح سے آرگنائز کرنا چاہیے، نہ کوئی یہ بتانے والا تھا۔ یہ بدقسمتی یونیورسٹی تک میرا تعاقب کرتی رہی۔ پھر بالآخر اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو کچھ کرنا ہے آپ کو خود ہی کرنا ہے۔ اور کوئی آپ کو بتانے والا نہیں ہے، کوئی آپ کو سکھانے والا نہیں ہے۔ سلیم احمد کا انتقال ہوگیا تھا، اور اگر وہ زندہ ہوتے تو شاید میں اُن کے پاس جانے کی کوشش کرتا، باقی جتنے بھی لوگ تھے کراچی کے اندر جن کو میں جانتا تھا براہِ راست، یا جن کے بارے میں میں نے سنا ہوا تھا اُن میں مجھے کوئی آدمی اس قابل نہیں لگا کہ میں اس کے پاس جاتا۔ ان کے مسائل کچھ اور تھے۔ نہ ان کا کوئی علمی مسئلہ تھا، نہ کوئی ادبی مسئلہ تھا، بلکہ ان کا مسئلہ شہرت تھا، یا اسی طرح کے چھوٹے موٹے مسئلے تھے، اور یہ کبھی بھی مجھے متاثر نہیں کرتے تھے۔ پھر خود ہی میں نے سلیم احمدکو پڑھا اور ان کے ہاں جن لوگوں کا ذکر ہے، اُن کو پڑھا۔ ان کے توسط سے عسکری صاحب تک پہنچا۔ پھر جن جن لوگوں کی عسکری صاحب نے نشاندہی کی ہے، ان کی چیزیں پڑھنے کی کوشش کی، تو اس طرح مطالعہ وسیع ہوتا چلا گیا۔
سوال: سلیم احمد صاحب سے آپ کا غائبانہ تعارف تھا اُن کے توسط سے عسکری صاحب تک پہنچے۔ان شخصیات کی اردو ادب میں کیا خدمات ہیں اور ان کے فن کا کیا تجزیہ کریں گے ؟
شاہنواز فاروقی:سلیم احمد میں عسکری صاحب سے زیادہ عبقریت نظر آتی ہے لیکن ان کا مطالعہ عسکری صاحب کے مطالعے سے کم تھا۔ اگر ان کا مطالعہ عسکری صاحب کے مطالعے کا نصف بھی ہوتا تو وہ عسکری صاحب سے زیادہ بڑا کام کرکے جاتے۔ یہ ان کے بارے میں بنیادی بات ہے۔ پھر عسکری صاحب اور سلیم احمد کا جب ہم ذکر کرتے ہیں تو عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد ہیں اور انہوں نے تنقید کو تہذیب بنادیا، انہوں نے زندگی کے بارے میں اور لٹریچر کے بارے میں جو سوالات اٹھائے نہ ان سے پہلے کسی نے اٹھائے اور نہ بعد میں سلیم احمد کے سوا کسی نے اٹھائے۔ مزید اہم بات یہ کہ عسکری صاحب نے ان سوالات کے جو جوابات دیئے ہیں وہ نہ ان سے پہلے کسی کے پاس موجود تھے، نہ ان کے زمانے میں کسی کے پاس موجود تھے اور نہ ان کے بعد کسی کے پاس موجود ہیں۔ سلیم احمد صاحب کی مشکل یہ ہوئی کہ انہوں نے خود اپنا کیس یہ کہہ کر کمزو ر کیاکہ ہم نے تو جو کچھ سیکھا ہے عسکری صاحب سے سیکھا ہے، اور ہم تو جو کچھ پوچھتے ہیں وہ عسکری صاحب سے پوچھتے ہیں۔ اور میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے کراچی میں شاعروں، ادیبوں کی کمیونٹی میں سلیم احمد صاحب کے بارے میں جتنے تعصبات دیکھے اور اُن سے لوگوں کو جتنا حسد کرتے ہوئے دیکھا، اتنا میں نے کسی سے بھی کسی کو حسد کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ اس حسد کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ جو نقاد ٹائپ کے لوگ تھے وہ کہتے تھے کہ نقاد تو خیر وہ ایسے ہی ہیں، وہ تو سارا کا سارا انہوں نے عسکری سے لیا ہے، البتہ شاعر وہ بہت اچھے ہیں۔ اور جو شاعر تھے وہ کہتے تھے کہ شاعر تو وہ ایسے ہی ہیں، شاعری واعری تو ان کو آتی نہیں ہے البتہ تنقید انہوں نے اچھی لکھی ہے۔ اور جب آپ ان کی تنقید پڑھتے ہیں، ان کی شاعری پڑھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تنقید بھی غیر معمولی ہے اور ان کی شاعری بھی غیر معمولی ہے۔ یعنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اردو کی جدید غزل کی روایت میں بڑی شاعری کا امکان صرف دو لوگوں میں تھا، ایک عزیز حامد مدنی صاحب میں، اور دوسرا سلیم احمدصاحب میں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے بڑی شاعری کی ہے، لیکن اگر ہمارے عصر کے شاعروں میں سے کسی کے اندر اس کے امکانات تھے تو وہ ان دو لوگوں میں تھے۔ سلیم احمد صاحب کی تنقید اسی طرح تنقید کو تہذیب بناتی ہے جس طرح عسکری صاحب کی تنقید، تنقید کو تہذیب بناتی ہے۔ اور سلیم احمد صاحب نے عسکری صاحب کا جو کینوس تھا اس کو بہت زیادہ وسیع کیا، اور کہنے والے تو خیر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ عسکری صاحب سے انہوں نے سیکھا سب ہی کچھ۔ ٹھیک ہے انہوں نے بہت کچھ عسکری صاحب سے سیکھا۔ مگر اجمال اور تفصیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں غالب کا مسئلہ دنیا ہے، اب اس فقرے کی بنیاد پر آپ مجھے سلیم احمد کی طرح سو صفحے کی کتاب ’غالب کون؟‘ لکھ کر دکھایئے۔ میں نے آپ کو بتادیا اقبال کا بنیادی مسئلہ مسئلۂ موت ہے، اب آپ اس فقرے کی بنیاد پر اقبال پر پورے دو سو صفحے کی کتاب لکھ کر دکھائیے جیسے کہ سلیم احمد صاحب نے لکھی۔ میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ عسکری صاحب کا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ وہ انسان تھے اور آدمی بننا چاہتے تھے، اب اس پر آپ مجھے ڈیڑھ سو صفحے کی کتاب لکھ کر دکھائیے۔ ایک جملہ کسی کو بتادینا ایک بات ہے اور اس کی تفصیل مہیا کرنا دوسری بات ہے۔ تو عسکری صاحب نے اگر سلیم احمد صاحب کو بتایا بھی ہوگا تو کوئی اس طرح کی بنیادی بات بتائی ہوگی کہ فلاں کا یہ بنیادی مسئلہ ہے، لیکن اس کی جو تفصیل انہوں نے مہیا کی ہے وہ تو وہی مہیا کرسکتے تھے۔ ویسی تفصیل صرف عسکری صاحب مہیا کرسکتے تھے اور ان کے ہم عصر لوگوں میں سے کوئی نہیں تھا جو وہ تفصیل مہیاکرسکتا ہو جو انہوں نے مہیاکی ہے، اور ایک چیز جو سلیم احمد صاحب کی عسکری صاحب سے بہتر ہے وہ ہے ان کی نثر۔ عسکری صاحب کی نثر کمال کی نثر ہے، لیکن سلیم احمد نے اپنی نثر کو زبان کا رقص بنادیا، اور اس کو پڑھتے ہوئے آپ کے اندر وفور کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی دوسرے آدمی کو پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس نہیں ہوتی۔ عسکری صاحب کا اور سلیم احمد صاحب کا اردو ادب میں ایسا کنٹری بیوشن ہے جو اردو تنقید میں کسی اور کا نہیں ہے۔ عسکری صاحب ایک صاحبِ سلسلہ نقاد ہیں، یعنی عسکری صاحب جب انتقال کرگئے تو وہ مر نہیں گئے بلکہ اپنے پیچھے تلامذہ کا ایک پورا سلسلہ چھوڑ کر گئے۔ اسی طرح سلیم احمد کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جس آدمی نے احمد جاوید اور سراج منیر جیسے شاگرد پیدا کردیئے ہوں اُسے کچھ اور پیدا کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ دونوں کے دونوں نقاد صاحبِ سلسلہ ہیں
سوال: سلیم احمد برصغیر کے بڑے نقاد، شاعر اور منفرد نثر نگار تھے لیکن جتنی بڑی وہ شخصیت تھی ان کے فن پر ہمیں کوئی بڑا کام ہوا نظر نہیں آتا؟
شاہنواز فاروقی: جی یہ بات ٹھیک ہے اور سلیم احمد کی شاعری کی جو قدر وقیمت (Worth) ہے وہ ابھی تک asses ہی نہیں ہوسکی ہے۔ سلیم احمد پر صرف ایک مضمون لکھا گیا ہے، وہ ہے سراج منیر کا مضمون۔ احمد جاوید صاحب ان سے کتنی محبت کرتے ہیں، احمد جاوید صاحب کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ ان کے پاس پانچ سات منٹ بیٹھیں، وہ پانچ سات منٹ میں خودبخود کہیں نہ کہیں سے اپنے استاد کا ذکر نکال کر لے آتے ہیں، اور یہ بالکل صحیح کہتے ہیں، ان کی جو محبت ہے وہ غیر معمولی ہے، اس میں کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے بھی ان کی تنقید پر کبھی گفتگو نہیں کی، نہ کچھ لکھا، نہ انہوں نے ان کی شاعری پر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ان کی شاعری پر ایسی گفتگو بھی نہیں کی جیسی وہ میری شاعری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں میرے شعری مجموعے پر کرکے گئے۔ ان کی ایسی کوئی گفتگو بھی میری نظر سے نہیں گزری، اگر کہیں کی ہو تو مجھے معلوم نہیں۔ پھر سلیم احمد کے ملنے والوں کا جو پورا حلقہ تھا اس میں پندرہ بیس نام آپ کو گنوا سکتا ہوں وہ ان کے ہاں روز کے آنے والے لوگوں میں سے تھے۔ ان میں ایک نام ہے فراست رضوی صاحب کا۔ ان کی عمر دیکھیں ماشاء اللہ 187سال ہے،(ہنستے ہوئے)۔ تیس سال مجھے ہوگئے دیکھتے ہوئے، سلیم احمد صاحب سے متعلق جو تقریب ہوتی ہے وہ صرف سلیم احمد کی شخصیت پر گفتگوکررہے ہوتے ہیں کہ سلیم بھائی ایسے تھے، ایک دفعہ یہ ہوا، ایک دفعہ وہ ہوا۔ اچھا، سلیم احمد صاحب کی شخصیت بھی بہت اہم ہے، اس پر بھی گفتگو ضروری ہے، لیکن کیا تیس سال تک آپ شخصیت پر ہی گفتگو کرتے رہیں گے؟ بھئی! انہوں نے تنقید کی سات آٹھ کتابیں لکھی ہیں، چار شعری مجموعے انہوں نے تخلیق کیے ہیں۔آپ ان کے کسی شعری مجموعے پر بات کریں، ان کی کسی تنقیدی کتاب پر بات کریں، ان کے کسی نظریے پر بات کریں۔ چلیے ان کی کسی غزل کو ہی ڈسکس کریں تاکہ ان کا جو فن ہے وہ زیر بحث آسکے۔ تو ان کا فن ابھی تک زیر بحث نہیں آیا، اور عسکری صاحب کو تو خیر سمجھنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ عسکری صاحب پر اس لیے بھی شاید کام نہیں ہوا کہ ان کو سمجھنے والا برصغیر میں دو چار لوگوں کے سوا کوئی بھی نہیں ہے۔
سوال: اس کا سبب کیا ہے کہ لوگوں نے سلیم احمد صاحب کے فن پر بات نہیں کی ہے؟
شاہنواز فاروقی: مجھے اس کا سبب معلوم نہیں ہے۔ یہ ان کے سارے تلامذہ کی نااہلی ہے، اور یہ سلیم احمد سے ان کے تعلق پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا۔
سوال: فرائیڈے اسپیشل کو انٹرویو میں آصف فرخی نے یہی بات ذرا وضاحت کے ساتھ ایک سوال کے جواب میں کہی تھی کہ ان (عسکری صاحب) کے ذہنی سفر کے اس حصے کو میں سمجھ نہیں پایا، اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عسکری صاحب کی تحریر یا فکر گنجلک تھی یا پیچیدہ تھی۔ میں اس فکر کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ مابعد الطبعیات اور مذہب کے بارے میں میری ذہنی تربیت اس طرح نہیں ہوئی۔ مذہب پر مجھے انگریزی کے بہت بڑے نقاد ایف آرلیوس (جو عسکری صاحب کو بہت پسند تھا) کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، جسے عسکری صاحب کی زبانی کہیں سنا تھا۔ اس نے تحریروں میں کہیں لکھا ہے کہ ’’کاش مجھے اتنی مابعدالطبعیات آتی جسے میں اپنی تحریروں سے دور رکھ سکتا۔‘‘ تو ناسمجھی میں بہت سی مابعدالطبعیات آجاتی ہے۔ میرا چونکہ اس کا مطالعہ نہیں ہے اس لیے عسکری صاحب جس راستے پر لے جارہے ہیں میں اس راستے پر ان کے پیچھے نہیں چل سکا‘‘ اتنی وضاحت کا کیا مطلب ہے؟
شاہنواز فاروقی: عسکری صاحب اگر مذہب سے لادینیت کی طرف یا مابعدالطبعیات سے طبعیات کی طرف چلے گئے ہوتے تو آصف فرخی صاحب کو عسکری صاحب کی ہر بات سمجھ میں آجاتی۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ مابعدالطبعیات کو نہیں سمجھ سکتے تو اسے اپنی معذوری قرار دیں اور اس پر ’’فخریہ‘‘ گفتگو نہ فرمائیں۔ آپ کہیں: عسکری صاحب زندگی کے آخری حصے میں اتنی بلند فکر کی جانب چلے گئے کہ جو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سلسلے میں ایف آر لیوس کا حوالہ غیر ضروری ہے، اس لیے کہ لیوس Liberal Humanist تھا اور وہ تھوڑی مابعدالطبعیات کو سمجھ سکتا تھا نہ زیادہ مابعدالطبعیات کونہ کم مابعد الطبیعات کو۔
سوال: سلیم احمدصاحب بھی اسی عصبیت اور تنگ نظری کا شکار ہوئے؟
شاہنواز فاروقی: جی! یہی سلیم احمد صاحب کا مسئلہ تھا۔ وہ جسارت میں لکھتے تھے، جسارت جماعت اسلامی کا ترجمان اخبار ہے، اور بائیں بازو کے سیکولر اور لبرل لوگ جماعت اسلامی کو سیاسی نقطہ نظر سے دائیں بازو کی ایک انتہا پسند جماعت سمجھتے ہیں۔ آپ ان کے اخبار سے وابستہ ہوں گے تو وہ آپ کو بھی یہی سمجھیں گے اور آپ کو بھی اسی طرح سے کیٹگرائز کریں گے جس طرح سے وہ جماعت اسلامی کو کیٹگرائز کرتے ہیں۔ یہی واحد سبب ہے، اور کوئی سبب نہیں ہے، یعنی اگر آپ ان کے ادبی میرٹ یا ڈی میرٹ کی بات کررہے ہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے، مثلاً آپ کہہ رہے ہیں کہ عسکری صاحب کی تنقید ہی اچھی نہیں ہے، مثال کے طور پر انہوں نے اچھا افسانہ نہیں لکھا، سلیم احمد نے اچھی شاعری نہیں کی، یا ان کی تنقید میں آپ کو کوئی نقص نظر آنے لگا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن اگر آپ کا نقطۂ نظر یہ ہو کہ چونکہ وہ مذہب کے نمائندے اور ترجمان ہیں اور مذہب کی نمائندگی اور ترجمانی آپ کو اچھی نہیں لگتی لہٰذا آپ ان کا ذکر کانفرنسز میں بھی نہیں کرتے اور ان کو نظر انداز کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں، یہ مسئلہ مذہب سے متعلق ہے، یہ سلیم احمد یا عسکری صاحب سے متعلق نہیں ہے۔ فرض کرلیں، اگر یہ دونوں لبرل ہوتے تو ہر ادبی کانفرنس کی جان ہوتے اور ان پر وہاں گفتگو ہورہی ہوتی۔ ہر اخبار اور ہر ٹی وی چینل پر ان کا ذکرِ خیر ہورہا ہوتا۔
سوال:آپ کی زندگی میں پڑھنا آپ کا اوڑھنا بچھونا رہا، انگریزی اور غیر ملکی ادب میںکن لوگوں کو پڑھا ہے یا کن کن کو زیادہ پڑھا؟
شاہنواز فاروقی: غیر ملکی لٹریچر میں جو سب سے زیادہ پڑھا وہ دوستووسکی (Fyodor Dostoyevsky) کو پڑھا۔ ان کے چار بڑے ناول ’ایڈیٹ‘،’ذلتوں کے مارے لوگ‘، ’جرم و سزا‘ اور ’کراموزوف برادران‘ میں نے پڑھے، بہت جم کر پڑھے، اور بار بار پڑھے۔ دوستووسکی کو میں دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار سمجھتا ہوں۔ اس کو پڑھتے ہوئے آپ کو یہ خیال آتا ہے کہ یہ وہ انسان ہے، یہ وہ لکھنے والا ہے جو انسان کی روح میں اتر کر اس کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کی روح اور اس کے نفس کو اور انسانی تہذیب کو جس طرح ڈسکرائب کرسکتا ہے ناول کے فن میں، کوئی اور اس طرح سے ڈسکرائب نہیں کرسکتا۔ اس کا میں نے بہت مطالعہ کیا ہے۔ انگریزی لٹریچر میں مَیں نے چیدہ چیدہ چیزیں پڑھی ہیں۔ بالاستیعاب مطالعہ کرنے کا موقع مجھے نہیں ملا۔ اس کو ہم Grazingکہتے ہیں اصطلاح میں۔ کچھ یہاں سے پڑھ لیا، کچھ وہاں سے پڑھ لیا، ایک کتاب کا ذکر یہاں سے سن لیا، ایک کتاب کا ذکر وہاں سے سن لیا، اِس کو دیکھ لیا، اُس کو دیکھ لیا۔ لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ چیزیں اس طرح کی پڑھی ہیں۔ ان کے رومانوی شاعروں کو پڑھا ہے جیسے کیٹس اور بائرن ہیں، شیلے ہیں۔ شیکسپیئر کی کچھ چیزیں دیکھی ہیں۔ البتہ مغربی ادب کے مقابلے پر مغرب کا فکری لٹریچر مَیں نے کافی زیادہ پڑھا ہے، اور مغرب کے جو اہم لکھنے والے ہیں جیسے ٹوائن بی، اسپنگلر، سارتر، شاخِ زریں والے جیمز فریزر، ڈی ایچ لارنس، ایلون ٹوفلر وغیرہ، ان کو اچھی طرح پڑھا ہے۔
سوال: سلیم احمد کی صاحبزادی آپ کی اہلیہ ہیں۔ والد صاحب بڑے ادیب، نقاد، ڈرامہ نگار… اور رفیقِ سفر بھی شاعر، دانشور، صحافی… یعنی لکھنا پڑھنا ہی سب کچھ ہے، توکیا بھابھی نے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھایا؟
شاہنواز فاروقی: جی، عینی کہانیاں لکھتی تھیں اور ڈرامے بھی۔ ان میں افسانہ لکھنے کی غیر معمولی استعداد تھی۔ یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ سلیم احمد کی بیٹی ہیں اور میری بیوی ہیں، بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان کے اندر افسانہ لکھنے کی ایک فطری استعداد موجود تھی، لیکن انہوں نے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھا اور ان کا ٹیلنٹ سکڑ کر، سمٹ کر اور ٹھٹھر کر رہ گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری صلاحیت کو اگر نشوونما نہ دی جائے اور اسے مسلسل برتا اور بہتر نہ بنایا جائے تو صرف فطری صلاحیت کام نہیں آتی۔
سوال: بچوں نے اس علمی ادبی ماحول کا کیا اثر لیا؟
شاہنواز فاروقی: میرے چار بچے ہیں۔ بڑی بیٹی نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے۔ اس کی بی اے آنرز میں فرسٹ کلاس تھرڈ، اور ایم اے میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی۔ اب وہ انگریزی ادب میں ایم فل کررہی ہے۔ اس کو مطالعے کا شوق ہے اور اس کی تفہیم بھی عمدہ ہے۔ وہ کچھ اپنے باپ کے زیراثر اور کچھ اپنے مطالعے کی وجہ سے مغرب کے اتنے خلاف ہے کہ توازن پیدا کرنے کے لیے مجھے اُس کے سامنے مغرب کی تعریف کرنی پڑجاتی ہے۔ اگر وہ مزید پڑھے گی تو بہت آگے جاسکتی ہے۔ دوسری بیٹی کو بھی مطالعے کا شوق ہے۔ اس نے بھی جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے۔ بڑا بیٹا غزالی پڑھنا چاہتا ہے مگر محنت سے بھاگتا ہے۔ چھوٹا بیٹا تو آپ کو پتا ہی ہے کہ Autistic ہے۔ وہ پڑھ لکھ ہی نہیں سکتا۔
سوال: آپ جامعہ کراچی میں دوحیثیتوں میں رہے، طالب علم بھی رہے اور استاد بھی،یہ تجربہ کیسا رہا۔؟
شاہنواز فاروقی: میں اپنے اسکول اور کالج کے ماحول سے بہت عاجز تھا کیونکہ وہاں بات کرنے کی آزادی نہیں تھی، ایک طرح کی پابندی تھی، استاد برا مانتے تھے اس بات کا کہ آپ اُن سے بحث کریں۔ جس دن میرا کراچی یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوا میں اتنا خوش تھاکہ بتا نہیں سکتا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں نے کوئی خزانہ دریافت کرلیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ کراچی یونیورسٹی جائوں گا تو وہاں میرے ٹیلنٹ، علم اور میری سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت ہے اس میں غیر معمولی اضافہ ہوگا، وہاں کھلی فضا ہوگی، ہم کلاس میں بیٹھیں گے اور ٹیچرسے بحث کریں گے۔ لیکن میری یہ غلط فہمی دو تین مہینے کے اندر دور ہوگئی اور مجھے معلوم ہوا کہ کراچی یونیورسٹی ایک بہت بڑا اسکول، ایک بہت بڑا کالج ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جو پابندیاں میں نے اسکول اور کالج میں دیکھیں اور جن مسائل کا شکار اساتذہ کو میں نے اسکول اور کالج میں دیکھا اسی طرح کے مسائل وہاں کے اساتذہ کے بھی تھے، اور وہاں آزادی کے ساتھ بات کرنے کی کوئی بھی گنجائش نہیں تھی۔ جہاں میں نے اس آزادی کو ایکسرسائز کرنے کی کوشش کی وہاں استاد کو ناراض کیا، اس سے جھگڑا ہوا اور اس کا اثر میرے امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں تک پر پڑا، اور میں واحد آدمی نہیں ہوں، اور بھی وہاں بہت سی ایسی شہادتیں اور گواہیاں موجود تھیں۔ پھر میں نے یہ جان لیاکہ کراچی یونیورسٹی کے کلاس روم میں سیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے، البتہ وہاں کی جو مجموعی فضا تھی، طلبہ کی سیاست تھی، جمعیت کی جدوجہد تھی اور اس کا دائرہ تھا، اس دائرے میں رہتے ہوئے جامعہ کراچی سے ہم نے بے شمار چیزیں سیکھیں کہ کس طرح سے کام کیا جاتا ہے، کس طرح سے لوگوں سے ملا جاتا ہے، کس طرح روابط استوار کیے جاتے ہیں۔ مباحثے بھی بہت ہوئے وہاں پر، کیونکہ وہاں ہمارے ڈپارٹمنٹ کے اندر ہی این ایس ایف کے کئی دوست تھے، اب بھی میرے دوست ہیں وہ، پی ایس ایف کے لوگ تھے اُن سے مارکس ازم پر اور اسلام پر کئی طرح کی بحثیں ہوتی تھیں، کینٹین میں بیٹھ گئے، چائے پی جارہی ہے اور کتابوں کا تبادلہ ہورہا ہے۔ اس فضا سے بہت زیادہ سیکھا اور بہت زیادہ اس سے مثبت اثرات بھی قبول کیے، لیکن جو کلاس روم کا ماحول ہے اس سے کوشش کے باوجود بھی کچھ سیکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
سوال: یعنی آپ نے کینٹین میں بیٹھ کر سیکھا؟
شاہنواز فاروقی: جی بالکل یہی بات ہے، اور یہ بات میں مذاق میں نہیں کہتا، کیونکہ کینٹین کی ایسی ہی فضا تھی۔ مختلف الخیال لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی فلسفے کا اسٹوڈنٹ آگیا، لٹریچر کا اسٹوڈنٹ آگیا، ایک بائیں بازو کے خیالات رکھنے والا ہے، ایک دائیں بازو کے نظریات رکھنے والا آدمی ہے، ایک ایم کیو ایم کا ایکٹیوسٹ آگیا ہے، وہاں تبادلۂ خیال چل رہا ہے، گفتگو ہورہی ہے، اور ظاہر ہے مکالمے سے آپ سیکھتے ہیں۔
سوال: آپ طالب علمی کے جس تجربے سے گزرے اور جو بات آپ بیان کررہے ہیں اُس پر آپ نے ایک کالم بھی لکھا جس کی بنیاد حال کی ایک خبر بنی، لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے جن اساتذہ سے پڑھا، اُن سے تعلیم حاصل کی، اُن کے بارے میں نام لے کر نہیں لکھنا چاہیے تھا۔کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرے میں اساتذہ کا وقار پہلے ہی کم ہے، آپ نے اُن کا وقار مجروح کرکے نئی نسل کو کیا پیغام دیا ہے؟
شاہنواز فاروقی: دیکھیے اگر میرا کوئی ایجنڈا ہوتا تو میں اسی وقت ردعمل کی نفسیات کا مظاہرہ کرلیتا، کیونکہ میں 1990ء میں جب وہاں اسٹوڈنٹ تھا تب سے میں نے کالم لکھنا شروع کردیا، تو اگر ان سے مجھے کوئی شکایت ہوتی یا ان کے خلاف کوئی بات کرنا ہوتی تو میں اُسی وقت لکھ دیتا، مجھے ستائیس اٹھائیس سال انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ میرا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا، کوئی پرسنل چیز میرا کبھی مسئلہ تھی، نہ ہے، نہ الحمدللہ ہوگی۔ جس خبر نے مجھے کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ جسارت ہی کی ایک خبر تھی کہ وہاں کے کسی ڈپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹ نے وائس چانسلر سے شکایت کی ہے کہ اس کے شعبے کا کوئی استاد ہے جو اسے ہراساں کرتا ہے اور سوال نہیں پوچھنے دیتا، سوال پوچھ لے تو ناراض ہوتا ہے اور نمبر کاٹ لیتا ہے، فیل کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ بعد میں اس نے کہا کہ مجھے فیل کردیا گیا۔ اس پر مجھے لگا کہ ستائیس سال پہلے بھی وہاں پر یہی ہورہا تھا اور آج بھی یہی ہورہا ہے۔ جب ہم بوڑھے ہوجائیں گے ستائیس سال بعد، شاید پھر ہم کہیں یہ خبر پڑھ رہے ہوں کہ جامعہ کراچی کے کسی شعبے کے طالب علموں نے احتجاج کرتے ہوئے کسی سے کہا ہے کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ کے اندر یہ ہورہا ہے۔ اس کو بنیاد بنا کر میں نے یہ سوال اٹھایا کہ بھئی کراچی یونیورسٹی کا کلچر یا کسی بھی یونیورسٹی کا کلچر کب بدلے گا؟ اور اس میں ظاہر ہے میرے اپنے ذاتی تجربات یا مشاہدات بھی شامل تھے۔ میں نے وہی کیا جو درکار تھا، اور اس میں اگر میں نے اپنے تجربات یا مشاہدات لکھے ہیں تو ان اساتذہ کے نام بھی لکھ دیے ہیں۔ اگر میں کہتا ہوں کہ مجھ سے اس ٹیچر نے یہ کہا تو ظاہر ہے اس ٹیچر کا کوئی نام ہوگا، اس کا کوئی تشخص ہوگا۔ جیسے آپ بات کرتے ہیں تو آپ یہ تھوڑی کہتے ہیں کہ پرائم منسٹر نے یہ کہا۔ پرائم منسٹر کا نام عمران خان اور حزب اختلاف کے رہنما کا نام شہبازشریف ہے۔ آرمی چیف کا نام جنرل قمر جاوید باجوہ ہے، تو آپ ان کا نام لے کر بات کریں گے ناں! آپ خبر یا ایونٹ ڈسکس کریں گے تو اس میں کسی متعلقہ آدمی کا نام بھی ہوگا۔ اس کا تعلق کسی بھی منفی خیال یا منفی جذبے سے نہیں، بلکہ وہ امر واقع کو بیان کرنے کے ایک طریقے اور اسلوب کا حصہ ہے اور اس کا کوئی بھی پس منظر نہیں ہے۔
سوال:آپ خودجامعہ کراچی میںپڑھانا نہیں چاہتے تھے یا کوئی خاص رکاوٹ پیدا کی گئی؟
شاہنواز فاروقی: اب میں یہ بتائوں گا تو پھر کچھ نہ کچھ لوگوں کے نام آئیں گے اور میں نام لینے پر مجبور ہوجائوں گا۔ مجھے پڑھانے کے سوا زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، نہ میں لکھنے والا بننا چاہتا تھا، نہ مجھے لکھنے کا کوئی شوق تھا، اب بھی نہیں ہے۔ میں صرف پڑھانا چاہتا تھا، اس لیے کہ پڑھانا میری شخصیت کے سب سے قریب اور مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ انسانوں سے ملنا اور ان سے انٹریکٹ کرنا، ان سے گفتگو کرنا یہ مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ اپنے ماحول کے تجربے کی وجہ سے تو میں پڑھانا چاہتا تھا، لیکن جب میرے ذہن میں خیال آیا تو مجھے یہ خیال بھی آیا کہ میرا تعلق جمعیت سے ہے۔ اگر کہیں میرا وہاں Appointment ہوگیا تو لوگ کہیں گے کہ ایک اور پولیٹکل اپائنٹمنٹ ہوگیا ہے۔ میں نے اس خیال کے تحت وہاں کوشش کی کہ میری کوئی پوزیشن آجائے۔ میں پوزیشن لانے کو بہت ہی بے وقوفی (Stupidity) کا کام سمجھتا ہوں، کیونکہ پوزیشن لانے کے لیے آپ کو جس طرح منظم ہوکر پڑھنا پڑتا ہے وہ کوئی بہت اچھی ایکٹیویٹی نہیں ہوتی، لیکن میں نے پڑھا اور میری وہاں پوزیشن بھی آئی۔ آنرز میں فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن آئی اور ایم اے میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن آئی۔ ساڑھے تین سال کا تجربہ میرا ’’آنکھ مچولی‘‘ کا تھا، کالم میں لکھ رہا تھا، ریسرچ تھیسس میرے دو موجود تھے جو کسی کے بھی نہیں تھے وہاں۔ بعد میں خود شعبہ ابلاغ عامہ نے کتابی صورت میں شائع بھی کیے۔ تو میرا خیال تھا کہ میرا وہاں پر اپائنٹمنٹ ہوجائے گا، لیکن نہیں ہوا۔ اور اس کی اصل وجہ مجھے بہت عرصے بعد معلوم ہوئی۔
سوال: اصل وجہ کیا تھی؟
شاہنواز فاروقی: ہمارے ڈپارٹمنٹ کے ایک استاد تھے جن کا نام میں آپ کو نہیں بتائوں گا کیونکہ انہوں نے بتانے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ شعبے کے دو اساتذہ چیئرمین کے پاس گئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان کا اپائنٹمنٹ کیا تو ہم یہاں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ اور ظاہر ہے چیئرمین یہ کیسے ہونے دے سکتا تھا کہ اپنے دو سینئر اساتذہ کو کھو دے اور کہہ دے کہ اچھا جی آپ جائیے۔ اور شاہنواز فاروقی کے اندر کوئی ایسی خوبی بھی تو انہیں نظر نہ آتی تھی کہ ان کو وہاں رکھ لیا جاتا، اور دو سینئر صاحبان رخصت ہوجاتے۔ لیکن ان سے یہ تو پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے یہ دبائو کیوں قبول کیا؟ اور جنہوں نے وہاں جاکر یہ کہا تھا کہ اگر ان کو اپائنٹ کیا تو ہم مستعفی ہوجائیں گے ان سے بھی پوچھا جانا چاہیے تھا کہ آپ نے یہ کیوں کہا؟ خیر دنیا میں نہیں پوچھا جائے گا تو آخرت میں تو پوچھا ہی جائے گا۔
سوال: آپ نے فلسفہ کا ذکر کیا اور آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو فلسفے سے بھی گہری دلچسپی ہے۔
شاہنواز فاروقی: جہاں سے ہاتھ لگا، جو ہاتھ لگا وہ پڑھ لیا۔ کوئی اس طرح کا براہِ راست مطالعہ جو جم کر پڑھا ہو، نہیںکیا۔ البتہ کچھ کتابیں ہیں جو میں نے جم کر پڑھی ہیں، مثال کے طور پر جو کلاسیکل یونانی فلسفہ ہے اس پر Staceکی کتاب جب میں اسٹوڈنٹ تھا اُس زمانے میں پڑھی تھی۔ پھر میں نے رسل کی جو History Of Western Philosophyہے وہ بھی بہت دل لگا کر پڑھی، اور کئی اس طرح کے لوگ ہیں، ان کی کتابیں بھی میں نے پڑھیں۔ لیکن اس میں وہی صورت نکلی جس کا انگلش لٹریچر کے حوالے سے ذکر ہوا کہ کچھ اِس جگہ سے پڑھ لیا، کچھ اُس جگہ سے پڑھ لیا۔ اس میں کوئی رہنمائی کرنے والا بھی نہیں تھا جو یہ بتاتا کہ یہاں سے پڑھو۔ بس وہی رہنمائی کام آئی جو عسکری صاحب کو پڑھنے کی وجہ سے، یا سلیم احمد صاحب کو پڑھنے کی وجہ سے، یا مولانا مودودی کو پڑھنے کی وجہ سے ہوئی۔
سوال: بعض لوگوں کا فلسفے سے متعلق خیال ہے کہ غزالی کے رد سے مسلمانوں میں اِرتقا کا عمل رک گیا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ گئے۔آپ اس خیال کے بارے میں کیا کہیں گے؟
شاہنواز فاروقی: جو لوگ یہ بات کہتے ہیں وہ بالعموم یہ نہیں جانتے کہ غزالی نے یونانی فلسفے کا جو رد لکھا اس کی پشت پر محرکات کیا تھے۔ چونکہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں اس لیے وہ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ غزالی کے زمانے تک آتے آتے جو یونانی فلسفہ تھا وہ مسلم دنیا میں عام ہوچکا تھا، اور لوکلائزڈ ہونا شروع ہوگیا تھا، اور اس کا سب سے ہولناک اثر یہ تھا کہ مسلم فلاسفر کا جو ایک گروپ تھا جس میں ابن سینا اور ابن رشد کے پائے کے لوگ شامل تھے، وہ عقل پر وحی کی فوقیت کے قائل نہیں رہ گئے تھے، اور اگر آپ وحی کی فوقیت کے قائل نہ رہیں تو مذہب کی پوری کی پوری بنیاد منہدم ہوجاتی ہے کیونکہ آپ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ عقل کو وحی کی روشنی کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اسلام کے حوالے سے جب بھی عقل اور وحی کے تصورات زیر بحث آتے ہیں تو لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام عقل کے خلاف ہے، حالانکہ خود قرآن کہتا ہے کہ افلا یعقلون افلا تعقلون، طرح طرح سے مسلمانوں کو عقل کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام عقل کے خلاف ہے بلکہ وہ عقل کو ایک Legitimate آلہ سمجھتا ہے، مگر وہ یہ چاہتا ہے کہ عقل وحی کی روشنی میں کام کرنا سیکھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عقل کے پاس حتمی علم نہیں ہوتا، وہ قیاس کے اوپر آپریٹ کرتی ہے اور قیاس بدلتا رہتا ہے تجربے سے، مشاہدے سے، علم میں اضافے سے۔ ایک عمر میں چیزوں کے بارے میں آپ کی ایک رائے ہوتی ہے، پھر آپ کی عمر بڑھ جاتی ہے اور آپ کی رائے بدل جاتی ہے۔ پھر اور عمر بڑھ جاتی ہے تو اور رائے بدل جاتی ہے، تجربہ آپ کا بدل جاتا ہے، مشاہدہ آپ کا بدل جاتا ہے، رائے آپ کی ایک دفعہ پھر تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس طرح انسان کی زندگی ایک ایسے تلون کا شکار ہوجاتی ہے جو زندگی کے استحکام کو ناممکن بنادیتا ہے۔ اس لیے اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ عقل اپنی جگہ کام کرے لیکن وہ وحی کی بالادستی کو تسلیم کرے۔
سوال: امام غزالی نے یونانی فکر کا رد کن بنیادوں پر لکھا؟
شاہنواز فاروقی:امام غزالی نے جو یونانی فکر کا رد لکھا اُس کی دو بنیادیں تھیں، ایک طرف انہوں نے یہ بتایا کہ عقل پر وحی کی بالادستی کیوں ضروری ہے، اور انہوں نے ثابت کیا کہ کیوں ضروری ہے۔ دوسری طرف انہوں نے یونانی فکر کے تناقضات اور فلسفیانہ فکر کے جو داخلی نقائص تھے ان کو نمایاں کیا اور یہ بتایا کہ فلسفہ قابلِ بھروسا نہیں ہے۔
سوال: بعض لوگ کسی نہ کسی فریم ورک میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ معاشرہ اور سماج مذہب کے بغیر بھی رہ سکتا ہے، معاشرے میں جو اچھائیاں ہیں وہ مذہب کے بغیر بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ باتیں ہمارے یہاں کیوں ہوتی ہیں، اور ایک سماج کے اندر مذہب کی کیا واقعی کوئی اہمیت نہیں؟
شاہنواز فاروقی: مذہب زندگی کا فعال اور معاشرہ زندگی کا غیر فعال اصول یا Passive Principleہے۔ یہ مذہب ہے جو انسان کو انسان، زندگی کو زندگی، معاشرے کو معاشرہ اور تہذیب کو تہذیب بناتا ہے۔ پانچ ہزار سال کی جو معلوم تاریخ ہے وہ بتاتی ہے کہ جیسے ہی انسان کی اجتماعی یا انفرادی زندگی سے مذہب خارج ہوتا ہے انسان حیوانِ محض بن کر رہ جاتا ہے اور اس کی ساری انسانیت تحلیل ہوجاتی ہے، اس کی ساری بشری خوبیاں ختم ہوجاتی ہیں، اور ایک ایسا انسان ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے جس کو آپ تہذیب کے کسی بھی معیار پر پرکھیں اُس کو انسان نہیں کہہ سکتے۔ میں تاریخ سے آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں، مثال کے طور پر جو مغربی تہذیب ہے، جدید مغربی تہذیب… وہ اپنے آپ کو سب سے مہذب تہذیب کہتی ہے۔ اور اس کو اپنے مہذب ہونے پر بھی بڑا فخر ہے، اس کو اپنے صاحبِ عقل ہونے پر بھی بڑا فخر ہے، صاحبِ علم ہونے پر بھی بڑا فخر ہے۔ لیکن اگر آپ جدید مغرب کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال لیں، میں اس کے چند موٹے موٹے واقعات آپ کے گوش گزار کردیتا ہوں۔ امریکہ کی آپ بات کرلیں، وہ جدید مغربی تہذیب کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن امریکہ ایک ملک کی حیثیت سے نسل کشی یا Genocideکے اوپر کھڑا ہوا ہے، مطلب یہ کہ ایک پوری انسانی نسل انہوں نے ختم کردی، آٹھ سے دس کروڑ لوگ ’’امریکاز ‘‘میں یعنی خود امریکہ اور اس سے متصل علاقے میں سفید فاموں نے مار ڈالے۔ یہی سفید فام پورے براعظم آسٹریلیا پر قابض ہوگئے۔ وہاں کے ’’صرف‘‘ 45 لاکھ مقامی ایب اوریجنل لوگ انہوں نے مار ڈالے اور وہاں پر قبضہ کرلیا۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایرک فرام نے اپنی کتاب The Anatomy of Human Destructiveness میں کہا ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال کے دوران یورپی طاقتوں نے آپس میں جو جنگیں لڑی ہیں ان کی تعداد 2600 سے زیادہ ہے۔ یہ جدید مغرب کی مہذب اقوام ہیں، صاحبِ علم اور صاحبِ طاقت اقوام ہیں جنہوں نے دو عالمی جنگیں ایجاد کیں، اور ان عالمی جنگوں میں بھی آٹھ سے دس کروڑ لوگ مارے گئے۔ یہ مہذب امریکہ ہی ہے جس نے ایٹم بم جیسا ہتھیار ایک دفعہ نہیں دو دفعہ استعمال کیا، اور ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دھمکی دی، ڈھائی کروڑ انسانوں کے ایک ملک کو دھمکی دی کہ اگر تم نے ہماری بات نہ سنی تو ہم ایٹم بم استعمال کرکے تمہارے ملک کو اڑا دیں گے۔ بلاشبہ انہوں نے عمل نہیں کیا لیکن امریکہ کا کیا بھروسہ! جو ملک دو دفعہ ایٹمی حملہ کرچکا ہو وہ تیسری دفعہ بھی کرسکتا ہے،پوری انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے، اور اس بات کی دلیل ہے۔ اور سب سے بڑی دلیل خود جدید مغربی تہذیب اور اُس کے علَم بردار ہیں جنہوں نے خون آشامی کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس کی پوری انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے پر اگر مذہب اثر انداز نہیں ہوگا تو معاشرہ دیر یا سویر حیوانوں کا معاشرہ بن جائے گا۔ تو یہ جان لیں آپ کہ جہاں جہاں مذہب انسان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی سے نکلتا ہے وہاں اقبال کی اصطلاح میں چنگیزیت آجاتی ہے، جو اپنا پورا ناچ دکھاتی ہے اور انسانوں کے سینوں پر مونگ دلتی ہے۔ ماضی میں بھی یہ ہوچکا ہے، اب بھی یہ ہورہا ہے، اور اگر مذہب کی طرف پوری انسانیت راغب نہ ہوئی تو انسانیت کا مستقبل بھی تاریک ہے، یہ بالکل واضح بات ہے۔
سوال: ہمارے ہاں قحط الرّجال ہے، نہ کوئی بڑا ادیب پیدا ہورہا ہے نہ بڑا شاعر، علما کے شعبے میں بھی ایسے قدآور علماء جن کا خواص و عوام میں احترام ہو، نظر نہیں آتے۔ آپ کے خیال میں اس جمود کی کیا وجہ ہے، اس سے کیسے نکلا جاسکتا ہے؟
شاہنواز فاروقی: قحط الرجال خود بہت ہی بسیط موضوع ہے۔ دیکھیے، میں اپنے کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ایک ایسی قوم جس نے قائداعظم جیسا لیڈر پیدا کیا ہو، جس نے اقبال جیسا شاعر پیدا کیا ہو، جس نے مولانا مودودی جیسا مفکر پیدا کیا ہو، جس نے اپنے عہدِ زوال میں اردو کی صورت میں سب سے جدید زبان تخلیق کی ہو، اپنے آپ کو مکمل طور پر زوال پذیر کیسے کہہ سکتی ہے! ارے بھائی کیسا عہدِ زوال ہے؟ ذرا کوئی زوال پذیر قوم یہ کرکے تو دکھائے۔ دنیا کی کسی اور قوم نے کوئی زبان تخلیق کی ہے تین چار سو برس میں؟ اردو جیسی کوئی زبان! تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر ہمارے اندر وہ تہذیبی قوت نہ ہوتی، ہمارے اندر وہ تخلیقی قوت نہ ہوتی تو ہم یہ زبان تخلیق کرہی نہیں سکتے تھے۔ نہ مولانا مودودی پیدا ہوسکتے تھے، نہ اقبال پیدا ہوسکتے تھے، نہ قائداعظم محمد علی جناح پیدا ہوسکتے تھے۔ ہماری تہذیب میں جان تھی تو ہم نے پیدا کیے ناں! لیکن قدرت کا اصول یہ ہے کہ اگر آپ نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے، اس کی تحسین نہیں کرتے اور اس کو ماڈل نہیں بناتے، اس کو آپ فالو نہیں کرتے تو یہ نہیں ہے کہ کسی نے آپ کا نام لکھ دیا ہے کہ بڑے آدمی آپ کے ہاں ہی پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس لیے جو نعمت ہے اُس کا شکر ادا کرنا پڑتا ہے۔ پھر وہ اور دیتا ہے، اور اس کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں اور دوں گا۔ آپ نے شکر ادا ہی نہیں کیا۔ آپ نے قائداعظم کی کیا قدر کی؟ آپ نے اقبال کی کیا قدر کی؟ آپ نے مولانا مودودی کی کیا قدر کی؟ ایک پاکستانی قوم کی حیثیت سے ہم نے کیا قدر کی ان کی؟ ہمارے حکمرانوں نے اقبال کی یا قائداعظم کی کیا قدر کی؟ پورا پاکستان ان اصولوں اور ضابطوں کے بالکل برعکس کام کرتا ہے کہ جن کو اقبال نے اپنی شاعری کے اندر بیان کیا ہے، اور جن کی قائداعظم نے اپنی زندگی میں تلقین کی ہے، اور اپنی سیاسی جدوجہد میں ان کو پن پوائنٹ کیا ہے۔ آپ دیکھیے خان لیاقت علی خان شہید ہوگئے۔ خواجہ ناظم الدین جیسے شریف آدمی کے زمانے میں اشیائے ضرورت کی کمی ہوگئی تھی تو انہیں قائدِ قلّت قرار دے کر ان کو رفتِ گزشت کردیا، ان کے اقتدار کو ختم کردیا۔ جب اپنے محسنوں کے ساتھ آپ یہ سلوک کریں گے تو ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے نام ایسی دستاویز لکھوا لائے ہیں کہ آپ اپنے ہیروز کی تذلیل کریں گے، ان کی تحقیر کریں گے اور خدا آپ کو بڑے لوگ دیتا رہے گا۔ ایک تو اس کے اندر یہ فیکٹر ہے، دوسرا فیکٹر یہ ہے کہ بڑا انسان بڑی آرزو سے بنتا ہے۔ اب جو لوگ ہمیں فراہم ہیں، جو رہنما فراہم ہیں، جو دانشور فراہم ہیں اُن کے پاس کوئی بڑی آرزو نہیں ہے، سب دنیا پرستی میں مبتلا لوگ ہیں۔ مطلب یہ کہ اقتدار چاہیے ذات کے لیے، خاندان کے لیے، اپنے کسی گروہ کے لیے، کسی ایک طبقے کے لیے، کسی ایک ادارے کے لیے۔ پوری قوم کے لیے، پوری ملت ِاسلامیہ کے لیے نہیں، پوری امت کے لیے نہیں، بس اپنی ذات کے لیے۔ ظاہر ہے اگر آپ کی آرزو اتنی چھوٹی ہوگی تو آپ کی سوچ بھی اتنی ہی چھوٹی ہوگی۔ اس لیے کہ جیسی آپ کی آرزو ہوتی ہے ویسی آپ کی سوچ ہوتی ہے، ویسا آپ کا زاویۂ نظر ہوتا ہے، ویسے آپ کے امکانات ہوتے ہیں۔ تو یہ وہ مشکل ہے جو ہمیں لاحق ہوگئی، اور ہمارے پاس کوئی بڑی آرزو نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم چھوٹے علماء پیدا کررہے ہیں، چھوٹے دانشور پیدا کررہے ہیں، چھوٹے شاعر پیدا کررہے ہیں، چھوٹے سیاستدان پیدا کررہے ہیں، چھوٹے جرنلسٹ پیدا کررہے ہیں، چھوٹے اساتذہ پیدا کررہے ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں چھوٹے لوگ پیدا کررہے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بڑے لوگ پیدا ہوں تو اس کے دو ہی اصول ہیں، ایک یہ کہ آپ اپنی تاریخ سے حقیقی معنوں میں زندہ تعلق پیدا کرکے دکھائیں، اور آپ کی زندگی واقعی آپ کی تاریخ کی جو بڑی شخصیات ہیں اُن کے فریم ورک کے اندر بسر ہونے والی زندگی بن جائے تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو بڑے لوگ عطا کرے گا۔ آپ اپنی آرزو کو بڑا کریں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے بڑی چیز مانگیں۔ اس کا اصول ہے جو آپ مانگیں گے وہ ملے گا، دنیا مانگیں گے دنیا دے دے گا۔ آپ مانگ ہی نہیں رہے اُس سے کوئی بڑی چیز، تو وہ آپ کو بڑی چیز کہاں سے دے گا؟ آپ اپنی آرزو کو بڑا کریں اور پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
سوال: پورے عالمِ اسلام میں کوئی بڑی آرزو کا طلب گار نہیں رہا؟
شاہنواز فاروقی: جی، یہ مسئلہ جو ہے بہت سنگین ہوجاتا ہے، اس لیے کہ اقبال کا ایک شعر ہے جو میں اپنی تقریروں اور تحریروں میں اکثر کوٹ کرتا ہوں۔ اقبال نے کہا ہے:
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ غلامی جو ہے وہ صرف سیاسی مسئلہ ہے، اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ یہ آپ کے خوب اور ناخوب کو بدل دیتی ہے۔ جو غالب ہوتا ہے آپ کے اوپر، اُس کے اندر آپ کو خوبی ہی خوبی نظر آنے لگتی ہے اور خود اپنی ذات کے اندر کیڑے ہی کیڑے نظر آنے لگتے ہیں، یعنی آپ کو اپنی خوبیاں بھی بری لگنے لگتی ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا مائنڈ Colonized ہے، ہمارے قلوب Colonized ہیں، ہماری ذہنیت Colonized ہے۔ میں پوری امت ِمسلمہ کی بات کررہا ہوں اور Colonized Mentality کبھی بھی کوئی بڑی بات نہیں سوچ سکتی۔ اقبال نے بڑی بات سوچی اس لیے کہ اقبال کا ذہن Colonized نہیں تھا، مولانا مودودی نے بڑا آئیڈیا سوچا اس لیے کہ مولانا مودودی کی ذہنیت Colonized نہیں تھی، جتنے بھی بڑے لوگ آئے اُن میں سے وہ اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ وہ آزاد ہے۔ خدا کی جانب سے آزاد انسان کو کچھ اور عطا ہوتا ہے اور غلام انسان کو کچھ اور عطا ہوتا ہے۔
سوال: علامہ محمد اقبال اسلامی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے جنہوں نے امتِ مسلمہ پر کئی صدیوں سے طاری زوال اور جمود کی کیفیت کو توڑنے کے لیے کئی جہتوں سے خدمت انجام دی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری بلکہ نثر میں بھی ایسے فلسفیانہ و فکری نکات اٹھائے ہیں جنہوں نے عالمِ اسلام میں مذہبی و فلسفیانہ علوم کے ارتقاء کے لیے نئی راہیں دکھائی ہیں۔ اقبالیات یا اقبال کے مطالعے کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے ؟
شاہنواز فاروقی: اقبال ہمارے لیے آج بھی اتنے ہی متعلقہ یا Relevant ہیں جتنے کہ آج سے سو سال پہلے تھے۔ اس لیے کہ اُس وقت سے اب تک فکر کاParadigm نہیں بدلا، اسی Paradigm میں ہم آپریٹ کررہے ہیں۔ وہی مسلمان ہے، وہی مغرب ہے، وہی مغرب کے چیلنج ہیں، اور اقبال کی شاعری اسی کشمکش کا رزمیہ ہے۔ اقبال ہمارے لیے اتنے ہی متعلق ہیں جتنے 1907ء میں یا 1910ء میں، یا 1920ء میں تھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اقبال ہمارے نصاب میں، ہمارے اخبارات میں، ہمارے ریڈیو پر، ہمارے ٹیلی ویژن پر تو ہیں، لیکن ہماری زندگی میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال کا موجود ہونا ہمارے حکمران طبقے کو سوٹ نہیں کرتا۔ اقبال کا ذکر تو سوٹ کرتا ہے لیکن اقبال کی فکر کی موجودگی اس طبقے کو سوٹ نہیں کرتی۔ اگر اقبال واقعی پاپولر ہوگئے اور اگر واقعی قوم نے اقبال کے پیغام کو ریسیو کرلیا تو پھر یہ جو آپ پر حکمرانی کررہے ہیں… نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری، اسٹیبلشمنٹ… یہ پھر تھوڑی کرسکیں گے۔ پھر قوم اقبال کی فکر کے مطابق اپنے حکمران طلب کرے گی اور وہ بہت مختلف طرح کے حکمران ہوں گے۔
سوال: جدید اور قدیم کی بحث کے پس منظر میں اقبال پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی پرست تھے؟
شاہنواز فاروقی: یہ بات کہتے ہیں سوشلسٹ عناصر، یہ بات کہتے ہیں سیکولرعناصر، یہ بات کہتے ہیں لبرل عناصر۔ اور یہ بات وہ اقبال کے بارے میں تھوڑی کہتے ہیں، یہ بات تو وہ پوری امت ِمسلمہ کے بارے میں کہتے ہیں اور وہ اس اعتبار سے صحیح کہتے ہیں کہ ہمیں اپنا ماضی واقعی Fascinateکرتا ہے۔ ہمارا ماضی ہمیں اس لیے Fascinate کرتا ہے کہ وہ غیر معمولی ہے، ایسا ماضی کسی بھی امت کا اس روئے زمین کے اوپر نہیں ہے جیسا ہمارا ہے۔ کس امت کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ذات ہے؟ کس امت کے پاس ابو بکرؓ ہیں؟کس امت کے پاس فاروق اعظمؓ ہیں؟ کس امت کے پاس عثمان غنیؓ ہیں؟ کس امت کے پاس علی مرتضیٰؓ ہیں؟ کس امت کے پاس غزالیؒ جیسا عالم ِدین ہے؟ کس امت کے پاس مولانا رومیؒ جیسا شاعر ہے؟ کسی کے پاس ہے؟ اور کون سی ایسی امت ہے جو گلوبلائزڈ ہے؟ کون سی ایسی امت ہے جس نے ہر خطے کے اندر ایک نیا تہذیبی تجربہ خلق کرکے دکھایا ہے؟ کون سا مذہب سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے؟ کیا کوئی مذہب اسلام کی طرح تیزی کے ساتھ پھیلا؟ کیا دنیا میں کسی دوسرے مذہب کے پاس 57آزاد ریاستیں ہیں؟ نہیں ہیں۔ اگر ہمارا ماضی اتنا شاندار ہے تو ہم اس پر فخر کیوں نہ کریں! اور اس لیے بھی فخر کرنا ضروری ہے کہ ہمارا ماضی مُردہ نہیں ہے، ہمارا ماضی ابھی تک زندہ ہے۔ ہم اس سے انسپائرہوتے ہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے انسپریشن لیتے ہیں، ہم خلفائے راشدین سے انسپریشن لیتے ہیں، ہم اپنی تاریخ کی بڑی شخصیات سے انسپریشن لیتے ہیں۔
سوال: ادیب نظمیں لکھ رہے ہیں۔ افسانے بھی لکھے جارہے ہیں۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ اس میں سے مزاحمت ختم ہوگئی ہے ۔ آپ اس تاثر کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
شاہنواز فاروقی: مزاحمت خیر و شر میں سے کسی کے ساتھ گہری وابستگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اب ہمارے شاعروں اور ادیبوں کا کسی چیز سے گہرا تعلق ہی نہیں۔ ہمارے شاعر اور ادیب گہرائی اور شدت کے ساتھ نہ رحمان کے ساتھ ہیں، نہ شیطان کے ساتھ ہیں۔ انہیں مشرق سے محبت ہے نہ مغرب سے انہیں کوئی ایسا مسئلہ ہے کہ وہ مغرب کی مزاحمت میں زندگی کھپائیں۔ شاعروں، ادیبوں، دانش وروں اور صحافیوں کی اکثریت کا مسئلہ یا تو پیسہ اور شہرت ہے یا عہدہ و منصب۔ اس سلسلے میں دائیں اور بائیں بازو کی بھی اب کوئی تخصیص نہیں۔ شعر و ادب محبت کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے، خاص طور پر غزل کی شاعری تو ہے ہی عشقیہ تجربے کا بیان، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ غزل کی شاعری میں عشقیہ تجربے کی موت واقع ہوچکی ہے۔
سوال: بڑا ادیب بڑے سوال اٹھاتا ہے۔ برصغیر میں دوسری زبانوں میں بڑا ادب پیدا ہوا ہے۔ عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، مرزا اطہر بیگ اور کچھ ادیبوں نے بہت عمدہ ناول لکھے ہیں۔ لیکن ویسا عالمی کلاسیکی ادب جیسا دوسرے ملکوں میں سامنے آیا، وہ نہیں ہے ۔ ہمارے ادیب اتنا بڑا ناول نہیں لکھ سکے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
شاہنواز فاروقی: ڈی ایچ لارنس نے ایک جگہ ناول کے بارے میں کہا ہے کہ ناول ایٹم بم سے بھی زیادہ بڑی ایجاد ہے، اور لارنس کی بات درست ہے۔ مگر خود لارنس نے تین چار بڑے ناول لکھے ہیں۔ ناولوں کے حوالے سے روس ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ کچھ لوگ روس کے ناول نگار دوستو وسکی کو سب سے بڑا ناول نگار کہتے ہیں اور کچھ روس کے دوسرے ناول نگار ٹالسٹائے کو دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار مانتے ہیں، مگر دوستو وسکی نے چار بڑے ناول لکھے اور ٹالسٹائے نے صرف دو بڑے ناول لکھے۔ گورکی کے ناول ’ماں‘ کو بھی شامل کرلیا جائے تو روس کے صرف سات ناول زیر بحث آئے ہیں۔ انگریزی اور فرانسیسی میں بلاشبہ زیادہ ناول لکھے گئے، مگر ان زبانوں کی عمر بھی بہت ہے اور ان کے عالمگیر اثرات بھی بہت ہیں۔ اردو میں بھی ایک درجن سے زیادہ بڑے ناول لکھے جاچکے ہیں۔ ایسے ناول جنہیں عالمی سطح پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ چار ناول تو خود قرۃ العین کے ہی ہیں جنہیں ہم بڑے ناول قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اس لیے بڑی بات ہے کہ اردو کی عمر ہی کیا ہے؟ البتہ اردو نے شاعری اور مذہبی ادب کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ برصغیر کی کوئی اور زبان کیا، دنیا کی بہت سی زبانیں اس کی مثال پیش نہیں کرسکتیں۔ برصغیر کی کس زبان کے پاس میر، غالب، اقبال، اکبر الٰہ آبادی اور ن۔ م۔ راشد جیسے شاعر ہیں؟ اردو میں گزشتہ سو سال میں ایک درجن سے زیادہ بڑی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ اس عرصے میں دنیا کی کس زبان میں یہ کام ہوا ہے؟ آئندہ کیا ہوگا یہ کہنا تو دشوار ہے، مگر اتنی بات واضح ہے کہ جب قومیں اپنے ماضی اور حال کے سلسلے میں سنجیدہ ہوجاتی ہیں تو ان کا مستقبل ضرور بدلتا ہے۔ ہر دائرے میں، شعر و ادب کے دائرے میں بھی۔
سوال: ہمارے سیکولر اورنیم سیکولر دانشوروں کا اصرار ہے جس کا اظہار وہ بار بار کرتے ہیں کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو کام ہے وہ مغرب کا ہی ہے، اور مسلمانوں کا اس حوالے سے کوئی کام ہی موجود نہیں ہے۔ آخر وہ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ اور کیا مسلمانوں نے واقعی دنیا کو کچھ نہیں دیا؟ جون ایلیا کے بقول مسلمانوں نے ہزار سال تک تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کی ہے۔ تو وہ ایسا کیوں کہتے ہیں، اس کا کیا مقصد ہے؟
شاہنواز فاروقی: اصل میں اس طرح کی باتیں کرنے والوں کی اکثریت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کو اپنے مذہب سے، اپنی تہذیب سے اور اپنی تاریخ سے نفرت ہے، اور اس نفرت کی مختلف بنیادیں ہیں۔ اب وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں مذہب سے نفرت ہے، اپنی پوری تہذیب سے نفرت ہے، اپنی پوری تاریخ سے نفرت ہے… تو وہ پکڑ لیتے ہیں مولوی کو، وہ پکڑ لیتے ملّا کو، وہ پکڑ لیتے ہیں کسی مذہبی جماعت کو، وہ پکڑ لیتے ہیں کسی عالم دین کو، وہ پکڑ لیتے ہیں کسی رویّے کو، کسی ٹرینڈ کو… اور اس بنیاد پر وہ جزلائرڈ قسم کی بات کردیتے ہیں۔ رابرٹ بریفالٹ کی کتاب اور مائیکل ہیملٹن کی کتاب کے مطابق ،جو مغرب ہی کے دو دانشور ہیں کہ مغرب کے پاس جتنی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی ہے وہ ساری کی ساری مسلمانوں کی دی ہوئی ہے، اور اس سائنس اور ٹیکنالوجی سے پہلے خود مغرب گنواروں کی زندگی بسر کررہا تھا۔ یہ اصطلاح بھی مائیکل ہیملٹن اور رابرٹ بریفالٹ نے استعمال کی ہے، میری نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کچھ بھی نہیں تھے، مسلمانوں نے انہیں سب کچھ دے دیا اور آگے بڑھا دیا۔ مائیکل ہیملٹن نے ایک اضافی بات کی ہے، اس نے کہا کہ مغرب کا عروج Inevitable یا ناگزیر نہیں تھا، یہ تقدیر نہیں تھا۔ نہ تاریخ کی تقدیر تھا نہ مغرب کی تقدیر تھا۔ بس یہ اتفاقی امر ہے کہ ایسا ہوگیا۔ اُس کے نزدیک مسلمانوں کو ہی دوبارہ عروج پر جانا تھا، مسلمانوں کو ہی عروج پانا تھا، لیکن منگولوں نے حملہ کردیا اور مسلمانوں کا سارا کام متاثر ہوگیا، اور پھر مسلمان کولونائزڈ ہوگئے، اور جو یورپی طاقتیں ہیں ان کے سارے وسائل لوٹ کر لے گئیں۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ کس طرح وہ لوٹ کر لے گئے ہیںاور کس طرح ہمیں تہی دست بنایا ہے۔ ہمارا جو تاریخی تجربہ تھا اسے متاثر کیا، اپنی عسکری طاقت کی بنیاد پر، اس لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائرے میں کام نہیں ہوسکا۔ رابرٹ بریفالٹ نے تو صاف کہا ہے اور کوٹ کیا ہے ایک کرسچن بادشاہ فیڈرک کا تجربہ۔ اس نے کہا کہ وہ اسلامی تہذیب سے متاثر تھا اور اس بات کے قابل تھا کہ وہ پورے یورپ کو لیڈ کرتا، لیکن اس کے زمانے کے جو مذہبی پیشوا تھے انہوں نے اس پر اسلامی تہذیب کا اثر دیکھتے ہوئے اس کے خلاف سازش کی اور اس کو ناکام بنادیا۔ اور ہوسکتا تھا کہ اگرمغربی تہذیب آگے بڑھتی تو اسلامی تہذیب کے جلو میں آگے بڑھتی۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں ایسا ہوتا ہی رہا ہے کہ ایک تہذیب عروج کی طرف چلی جاتی ہے اور ایک تہذیب کی قوت نسبتاً گھٹ جاتی ہے۔ جب مغرب ایک ہزار سال تک کچھ نہیں کررہا تھا تو مسلمان عروج کی طرف جارہے تھے۔ اس وقت اگر آپ مغرب کے بارے میں سوال اٹھائیں کہ وہ کیا کررہا تھا، اور سارا کا سارا جو علم ہے وہ اس نے مسلمانوں سے لیا ہے تو یہ تو مانگے تانگے کا علم ہے ناں! لیکن اس کے بارے میں بھی یہ کہنا غلط ہے، کیونکہ تاریخ کے سفر میں یہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ خود قرآن نے بھی یہی اصول بیان کیا ہے کہ کبھی کوئی قوم عروج کی طرف چلی جاتی ہے، کبھی کوئی قوم زوال کی طرف چلی جاتی ہے، اور مسلمانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مکمل طور پر زوال پذیر ہوگئے ہیں، غلط ہے۔ جو بھی آدمی یہ بات کہتا ہے وہ غلط کہتا ہے۔ مسلمانوں کا جو زوال ہے وہ حتمی نہیں ہے، عارضی ہے۔ مطلق نہیں ہے، جزوی ہے۔ چونکہ مسلمانوں کے عقائد زندہ ہیں، مسلمانوں کی عبادات کا پورا نظام زندہ ہے، اور مسلمان خواہ اپنی اخلاقیات کے نظام کو پوری طرح فالو نہ کررہے ہوں، لیکن اس سے چمٹے ہوئے ہیں اور اس کو مانتے ہیں۔ یعنی ابھی بھی کوئی آدمی حلال کو حرام نہیں کہتا، اور حرام کو حلال نہیں کہتا۔ میں اکثریت کی بات کررہا ہوں۔ تو ابھی تک اس بات کا امکان موجود ہے کہ مسلمانوں کا احیا ہوسکتا ہے۔
سوال: احمد جاوید صاحب نے ایک جگہ فرمایا کہ معاشرے کی تشکیل کا کام کم از کم ریاست کی مدد کے بغیر کوئی نہیں کرسکتا، ہمیں اسلامی معاشرے میں ڈھلنے کے لیے بہت زیادہ نظریاتی پن یا بہت زیادہ قانونی پن کی حاجت نہیں ہے۔ اس کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ اور ایک بات اور، ہم ریاست اور حکومت کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں حالانکہ حکومت جزو اور معاشرہ کُل ہے؟
شاہنواز فاروقی :۔ کلاسیکلPositioning تو واقعی یہی ہے کہ معاشرہ کُل ہے اور ریاست اس کا جزو ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے ریاست اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ تقریباً خدا بن کر بیٹھ گئی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی Functioning کے اعتبار سے کہ اب ریاست کُل ہے اور معاشرہ اس کا جزو ہے۔ ریاست نے اتنی طاقت حاصل کرلی ہے کہ ساری سیاسی طاقت اس کے پاس ہے، ساری معاشی طاقت اس کے پاس ہے، ساری ابلاغی طاقت اس کے پاس ہے، قانون سازی کی طاقت، کسی کو محب وطن قرار دینے اور کسی کو غدار قرار دینے کی طاقت اس کے پاس ہے، جنگ کرنے اور امن قائم کرنے کی طاقت اس کے پاس ہے۔ کون سی طاقت ہے جو ریاست کے پاس نہیں ہے؟ اور ریاست کا یہی کردار ہے جو ریاست کو Significant یا اہم بناتا ہے، یہ خیال آپ کے ذہن میں فطری طور پر آتا ہے کہ اتنی بڑے انسٹی ٹیوشن کو، اتنے طاقتور انسٹی ٹیوشن کو مشرف بہ اسلام کیے بغیر معاشرے کے اندر خیر کے غلبے کی راہ آسانی کے ساتھ ہموار نہیں ہوسکتی۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ مسلمانوں کی جو تاریخ ہے اس کے طویل سفر میں مسلمانوں نے ریاست کی قوت کے بغیر بھی مذہب کو زندہ رکھ کر دکھایا ہے۔ اور یہ ایسی بات ہے جو بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے قائداعظم پر اپنی کتاب میں لکھی ہے، اُن تک کو یہ بات معلوم ہے کہ اسلام ریاست کی قوت کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام کے کئی تقاضے ایسے ہیں جو ریاست کے بغیر پورے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر جہاد کا نظام۔ ریاست تو اس کی اجازت ہی نہیں دے گی۔ ریاست نے تو اب پابندی لگا دی ہے کہ آپ ریاست کے بغیر جہاد نہیں کرسکتے۔ آپ کو معلوم ہے ہمارے جو حکمران ہیں وہ تو قیامت تک جہاد نہیں کرسکتے۔ کیا گزشتہ 70سال میں کسی مسلم ریاست نے جہاد کرکے دکھایا ہے؟ جنگیں تو بہت دفعہ لڑی ہیں، جہاد ایک دفعہ بھی کرکے نہیں دکھایا۔ یعنی عربوں نے چار جنگیں لڑیں اسرائیل کے ساتھ، کبھی جہاد کا اعلان کیا انہوں نے؟ پاکستان نے تین جنگیں لڑیں ہندوستان کے ساتھ، کبھی جہاد کا اعلان کیا کسی حکمران نے؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ تقاضا ریاست کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جو قوانین کا نفاذ ہے، مثلاً حدود کی سزائوں کا نفاذ ہے، یہ کام میں اور آپ تو نہیں کرسکتے۔ جو نظامِ عدل ہے اسے تشکیل کرنے میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے۔ جب اتنے بڑے بڑے ادارے فنکشن نہیں کررہے ہوں گے تو وہ کس طرح کا معاشرہ ہوگا! یعنی نہ اسلام کا نظام عدل کام کررہا ہوگا، نہ اسلام کا نظام تعلیم کام کررہا ہوگا، نہ اسلام کا نظام قانون کام کررہا ہوگا، نہ جہاد کا نظام متحرک ہوگا تو ایسا معاشرہ تو بڑا ہی لنگڑا لولا اور بڑا ہی لونجا قسم کا معاشرہ ہوگا۔ اس لیے ریاست کو مشرف بہ اسلام کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ بات صحیح ہے کلاسیکل ڈیفی نیشن کے اعتبار سے کہ جو معاشرہ ہے وہ ریاست سے زیادہ اہم رہا ہے، اور اس کو دوبارہ زیادہ اہم بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام خود ایک جدوجہد کا متقاضی ہے۔
سوال: اسلام اور مغرب آپ کا خاص موضوع ہے۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ مغربی تہذیب کو اپنانے کے حوالے سے عالم اسلام میں تین مختلف مکاتبِ فکر پائے جاتے ہیں۔ بعض نے مغربی تہذیب کو مکمل طور پر اپنا طرزِ حیات بنالیا، بعض نے درمیانی راہ نکال کر اس سے ایک طرز کی مفاہمت پیدا کرلی، اور بعض نے اس تہذیب کا پُرزور رد کیا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا مغربی تہذیب کے بارے میں کیا رویہ ہونا چاہیے، وہ اسے رد کردیں، قبول کرلیں یا اس سے مفاہمت کرلیں؟
شاہنواز فاروقی: دیکھیے، نظریاتی طور پر اور نظری اعتبار سے مغرب کو بالکل ہی مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اساسی اعتبار سے مغرب باطل پر کھڑی ہوئی ایک حقیقت ہے۔ تھیوریٹیکلی مغرب کو بالکل ہی رد کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض ادارے غیر فعال ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ کہوں کہ خلافت کا نظام ہونا چاہیے تو اس حوالے سے معاشرے میں ایک ہنگامہ برپا ہوجائے گا، اور اس سلسلے میں معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مکالمہ تک ممکن نہیں ہوگا۔ یعنی مسلمانوں کا جو اخلاقی، علمی اور روحانی حال ہے اس میں تو یہ مسئلہ ایک نئی تقسیم پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔ یہ میں مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں۔ تو اس لیے ہمیں جمہوریت کو بھی نہ چاہتے ہوئے تحفظات کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مثال کے طور پر میں کہہ رہا ہوں کہ ہمارا جو معیشت کا پورا ماڈل ہے وہ مغرب سے ماخوذ ہے، تو اگر آپ اس ماڈل کو ختم کرکے ایک بالکل نیا ماڈل اچانک درآمد کریں گے جو انٹرنیشنل سسٹم کے ساتھ آپریشنل نہیں نظر آئے گا تو آپ کو اس حوالے سے بہت سارے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس طرح کی مشکلات اور اس طرح کی مجبوریاں ہمیں مغرب کو جزوی قبول کرنے پر مجبور کرتی ہیں، لیکن ہمیں انہیں مجبوری سمجھنا چاہیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا ہماری ضرورت ہے اور دین ہماری محبت ہے۔ مسلمانوں کی ایک مشکل یہ ہے کہ انہوں نے دنیا کو اپنی محبت اور دین کو اپنی ضرورت بنالیا ہے۔ اس پورے تصور کو الٹنے کی ضرورت ہے۔ دین ہماری محبت ہے، محبت کے دائرے میں ہم دین ہی کو غالب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، آرزو رکھتے ہیں، جہاں جہاں ہمیں موقع ملے گا ہم اسے غالب کریں گے۔ لیکن یہ ایک مرحلہ وار عمل ہے کیونکہ ڈیڑھ سو دو سو سال سے ہمارے کئی انسٹی ٹیوشنز اپنی جگہ موجود اور Functional نہیں ہیں۔
سوال: مغربی تہذیب کے بہت سے افکار ونظریات مسلم معاشرے میں سرایت کرگئے ہیں۔ اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ تہذیبِ مغرب کی دلدل سے نکلنے کا حل تجویز کریں تو اس ضمن میں آپ کیا کہیں گے؟
شاہنواز فاروقی: ہماری مشکل یہ ہے کہ معاشرے میں اس بات کا شعور ہی عام نہیں ہے کہ مغرب کیا ہے۔ مغرب کو بہت سرسری اور سطحی طور پر ہم جانتے ہیں۔ کسی کو مغرب فحاشی و عریانی کا مرکز نظر آتا ہے، کوئی اس کو فلم کے حوالے سے جانتا ہے، کوئی اس کو شراب کے حوالے سے جانتا ہے۔ بلاشبہ یہ مغرب ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن جو مغرب کے فنڈامینٹلز ہیں، اساسی تصورات ہیں، ان سے ہم واقف نہیں ہیں۔ تو پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہ علماء ہوں، شاعر ہوں، ادیب ہوں، صحافی ہوں، لکھنے والے ہوں، کچھ بھی ہوں… سب سے پہلے اس بات کا شعور حاصل کریں کہ مغرب کن بنیادوں پر کھڑا ہوا ہے، خود ہماری تہذیب کہاں پر کھڑی ہوئی ہے، اور ان دو تہذیبوں کے درمیان ان بنیادوں کے حوالے سے تعلق کی کیا نوعیت ہے؟ جب آپ یہ جان لیں گے تو پھر آپ اپنے مائنڈ سیٹ کو ڈی کولونائزڈ کرنے کے پراسیس کا آغاز کرسکیں گے۔ ہم نے زہر کھا لیا ہے، اب ہمیں اپنا معدہ صاف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس زہر کے اثر سے ہم اپنے وجود کو پاک کرسکیں… انفرادی وجود کو بھی اور اجتماعی وجود کو بھی۔ ڈی کولونائزیشن دراصل اپنے آپ کو مغرب کے زہر سے پاک کرنے کی مہم ہے۔ یہ کام پہلے مرحلے پر دانش ورانہ سطح پر ہوگا۔ دوسرا تقاضا جو مسلمانوں سے کیا جانا چاہیے، اور جو پہلے تقاضے سے بھی زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان یہ جان لیں کہ ان کا مذہب صرف فلسفہ نہیں بلکہ بسر کی جانے والی حقیقت ہے۔ مذہب بسر کرنے کے لیے ہے۔ اگر ہم اس پر نظریاتی اور نظری بحث و مباحثہ کرتے رہیں گے اور مذہب کو ہم بسر نہیں کررہے ہوں گے تو پھر ایسا مذہب نہ ہماری انفرادی زندگی کو بدل سکے گا، نہ ہماری اجتماعی زندگی کو بدل سکے گا، اور نہ ہم مغرب کی گرفت سے آزاد ہوسکیں گے۔ دونوں تقاضے ہمیں پورے کرنے ہوں گے۔ اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ مذہب ہمارے یہاں بہت زیادہ ظاہر سے متعلق ہوچکا ہے اور اس کا ہمارے باطن پر اثر کم سے کم ہورہا ہے۔ ہمیں اپنے مذہب کو اپنے باطن پر اثرانداز ہونے والی حقیقت بنانا ہے، اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی جہاں جہاں ممکن ہے ریاست کی مدد کے بغیر ہمیں وہاں انقلاب برپا کرکے دکھانا ہے۔ ہمیں ایک ایسا تصورِ دین درکار ہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ ٔ حیات کے طور پر پیش کرتا ہو۔
(جاری ہے)
صد شُکر زندگی میں کثافت نہیں ملی
چاہی اگر کبھی تو رعایت نہیں ملی
وہ عشق تھا کہ موت سے آگے تھی زندگی
وہ حُسن تھا کہ آنکھ کو فرصت نہیں ملی
اک عمر ہوگئی ہے تمنا کے چاک پر
لیکن شعورِ عصر کو صورت نہیں ملی
سچ بولتا میں سچ کے سوا کچھ نہ بولتا
کیا کیجیے کہ اِس کی اجازت نہیں ملی
اپنے ہزار رنگ میں دنیا تھی چار سُو
لیکن ترے خیال سے رُخصت نہیں ملی
(شاہنواز فاروقی)