ہمارا نظام انصاف اور اہلِ سیاست کا امتحان

کیا کوئی معاشرہ یا ریاست کا نظام بغیر انصاف کے چل سکتا ہے؟ یقینی طور پر جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ جو سماج عدم انصاف کی بنیاد پر کھڑا ہو، اُس میں سوائے انتشار اور تقسیم کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عمومی تصور ہماری ریاست اور اداروں کے بارے میں یہ موجود ہے کہ یہاں سب کچھ ہے، بس انصاف کا نظام موجود نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان کا سیاسی نظام بنیادی طور پر عدم انصاف پر کھڑا ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کی ناکامی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کی ناکامی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ناکامی کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتی۔ ہر ناکامی کا تعلق مختلف معاملات سے منسلک ہوتا ہے، اور کوئی بھی فریق یا ادارہ خود کو اس ناکامی سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا۔ وجہ صاف ہے کہ جب ریاست کے مجموعی نظام میں انصاف کی فراہمی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہ ہو تو انصاف پر مبنی نظام نہ صرف اپنی افادیت کھودیتا ہے بلکہ ایسے نظام کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف کا نظام دہرا بھی ہے اور طاقتور اور کمزور کے درمیان فرق بھی رکھتا ہے۔ ایسے نظام کو سیاسی لغت میں طبقات پر مبنی نظام انصاف سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہ نظام طبقات کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے، اس میں کمزور افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سماج طاقتور کا سماج ہے، اور اس میں اس کے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ موجود نہیں کہ وہ طاقتور کے سامنے اپنی بے بسی کو ظاہر کرے۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہونے والی نیشنل کانفرنس ’’فوری انصاف معینہ کم میعاد میں کریمنل مقدمات کے فیصلے کرنے کے روڈمیپ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چند بنیادی نکات اٹھائے ہیں جو قابلِ غور ہیں۔ اول: بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ ہماری سیاسی اور پارلیمنٹ کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ دوئم: ہم نے انصاف کی فوری فراہمی کے تناظر میں پارلیمنٹ میں 17رپورٹیں پیش کیں، لیکن ایوان نے کسی پر مکمل عمل نہیں کیا۔ سوئم: امریکی سپریم کورٹ سال میں 80 جبکہ برطانوی سپریم کورٹ 100 مقدموں کا فیصلہ کرتی ہے، مگر اس کے برعکس ہم نے سال میں 26ہزار مقدمات نمٹائے ہیں، ججوں کو ڈومور نہیں کہہ سکتے۔ چہارم: ہم پارلیمنٹ اور تمام ارکانِ اسمبلی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی طرح قوم کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے قانون سازی کریں۔ پنجم: موجودہ عدالتی پالیسی ہم نے یہ بنائی ہے کہ اب وکیل کے ہونے یا نہ ہونے سے سماعت نہیں رکے گی، گواہوں کو پیش کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی، چند روز میں فیصلہ ہوگا اور جانشینی کے لیے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے عدالتوں میں جانا نہیں ہوگا۔
بنیادی طور پر چیف جسٹس نے قومی سیاست، پارلیمنٹ، حکومت اور سیاسی قیادت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ انصاف کے نظام میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں، یا ان کی ترجیحات میں انصاف کا نظام نہیں ہے۔ عمومی طور پر انصاف کا نظام عدلیہ، حکومت اور اداروں کے باہمی تعاون یا اصلاحات سمیت نئی پالیسیوں، قانون سازی یا عمل درآمد کے نظام میں مؤثر تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پارلیمانی نظام کی افادیت وہ نہیں جو کسی پارلیمانی جمہوری نظام کا خاصہ ہوتا ہے۔ مسئلہ محض عدالتی نظام یا انصاف تک محدود نہیں، بلکہ ہم کسی بھی شعبے میں درکار اصلاحات کا تجزیہ کریں تو پارلیمان کا کردار بہت محدود، کمزور اور عدم ترجیحات کا شکار نظر آتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملک میں حکمرانی کا نظام شفافیت اور جوابدہی یا احتساب سے جڑا ہوا نہیں ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریاں ہیں۔ کیونکہ جب ملک میں اداروں کے مقابلے میں طاقتور افراد کی حکمرانی ہو تو ادارے افراد ہی کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ امر شفاف جمہوری حکمرانی کے نظام میں بنیادی رکاوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ شفاف حکمرانی کے جو بنیادی اصول ہیں ان میں ایک اہم اصول انصاف کا نظام بھی ہوتا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نظام عدل کیسا ہے اور اس کے نتائج کس حد تک عام آدمی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔
ہماری سابقہ اور موجودہ حکومت کو انتہاپسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو عدالتی اصلاحات کرنی تھیں تاکہ فوجی عدالتوں کے مقابلے میں عدالتوں کو مضبوط اور فعال بنایا جاسکے اس پر بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا۔ اب اگر چیف جسٹس کا یہ مؤقف ہے کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے تناظر میں پارلیمنٹ کے سامنے 17رپورٹیں پیش کرچکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت وہ کچھ نہیں کرسکیں جو ان کی بنیادی ذمہ داری تھی! بدقسمتی سے ہم نے پارلیمنٹ کو قانون سازی، پالیسی سازی یا اہم قومی مسائل پر بات چیت کے فورم کے بجائے ایک ڈیبیٹنگ کلب بنادیا ہے۔ یہ کلب محض الزام تراشیوں، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کا ایسا فورم بن چکا ہے جس سے ہماری پارلیمانی سیاست کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اس کا کوئی احساس ہمارے سیاست دانوں، سیاسی قیادتوں اور ارکانِ اسمبلی کو نہیں ہے کہ ان کا طرزعمل عملی طور پر پارلیمانی سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔
پارلیمانی نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں حکومت اور حزبِ اختلاف اپنی اپنی سطح پر ایک ایسا فعال کردار ادا کرتے ہیں جس کا مقصد ملک میں اچھی حکمرانی، قانون سازی اور اصلاحات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ لیکن ہماری پارلیمانی ترجیحات میں ذاتیات کی سیاست کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ نوازشریف کے بعد عمران خان بھی پارلیمنٹ میں شریک ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ جب وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنی شرکت کو یقینی نہیں بنائے گا تو اس کا براہِ راست اثر وزراء، ارکانِ اسمبلی اور حزبِ اختلاف کے لوگوں پر بھی ہوگا۔ پارلیمانی نظام کی ایک خوبی پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہوتی ہیں، لیکن ان کو بھی دیکھا جائے تو بظاہر لگتا ہے کہ سب کچھ روایتی انداز سے چلایا جارہا ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ کا کام قومی مسائل کا نہ صرف احاطہ کرنا ہوتا ہے بلکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے حل بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔
اصل میں ہمارے پارلیمانی نظام کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں جو لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں اُن کی ترجیحات میں قانون سازی، پالیسی سازی اہم نہیں ہوتی۔ ان کا ایجنڈا علم، معلومات اور سنجیدہ معاملات پر گفتگو کبھی نہیں ہوتا۔ ان کا موضوعِ بحث ترقیاتی فنڈ کا حصول، ذاتی مفاد پر مبنی سیاست، یا اپنی جماعتوں کی جھوٹ پر مبنی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ پارلیمانی نظام کی ایک بڑی کنجی مضبوط سیاسی نظام ہوتا ہے۔ سیاسی نظام سے مراد مضبوط سیاسی جماعتوں کا ہونا اہم ہوتا ہے۔ لیکن جب سیاسی جماعتیں ہی اپنی افادیت کھودیں گی اور ان کو غیر جمہوری عمل اور خاندانوں کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری سیاست کا تماشا بننا فطری امر ہوگا۔ پارلیمانی ارکان کو اہم قانونی اورسیاسی معاملات پر کوئی بریفنگ بھی نہیں دی جاتی، اورنہ ہی یہ لوگ اس میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ سیاسی اورقانونی ماہرین اورارکانِ پارلیمنٹ کے درمیان بھی ہمیں کوئی خاص تبادلہ خیال نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگ ذاتی حیثیت میں فعالیت دکھاتے ہیں، جو اُن کا اپنا شوق ہوتا ہے۔کیونکہ اس نظام میں پارٹی قیادت اپنے ارکان سے بس یہی توقع رکھتی ہے کہ وہ صرف اورصرف ان کے ایجنڈے کو تقویت دیں۔ اگر اس ایجنڈے میں قومی مسائل نظرنداز بھی ہوجائیں تو قیادت کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کا سیاسی کردار بالکل سامنے نہیں آتا اور اُن کی ترجیح قومی مسائل کم اور اپنے ذاتی مسائل زیادہ ہوتی ہے۔
اس لیے جس دکھ کا اظہار چیف جسٹس نے کیا ہے وہ محض اُن کا دکھ نہیں ہے۔ ہر معاملے پر پارلیمانی نظام کی افادیت کمزور ہوگئی ہے۔ البتہ جہاں حکومت اور حزبِ اختلاف باہمی طور پر یکجا نظر آتے ہیں وہ ان کی ذاتی مراعات پر ہونے والی قانون سازی ہوتی ہے۔ یہ عمل اور بھی زیادہ پریشان کرتا ہے۔ جب ہماری قیادتیں جمہوری، سیاسی، قانونی بالادستی، پارلیمانی خودمختاری اور عوامی مفاد پر مبنی نعروں کی بنیاد پر شور مچاتی ہیں تو کاش وہ اپنے داخلی مسائل، تضادات اور بدنیتی کا بھی جائزہ لیں کہ وہ خود کیا کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست جس انداز سے چل رہی ہے اس کا ایک بڑا نتیجہ عام لوگوں، مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم اعتماد یا بڑھتی ہوئی خلیج کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ یہ جو سیاسی نظام سے لوگوں کی مایوسی ہے اس کی وجہ بھی ہماری پارلیمنٹ، حکومت اور حزب اختلاف کا وہ رویہ ہے جو ان کو عام آدمی سے لاتعلقی پر مجبور کرتا ہے۔ سیاست دان جمہوریت کا ماتم کرتے ہیں اور الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے ہیں جس میں وہ بہت حد تک ٹھیک بھی ہیں، لیکن اپنا داخلی ماتم بھی کریں کہ ان سے کیا کچھ غلط ہورہا ہے۔
سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی ساکھ سیاسی نظام سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ سیاسی نظام براہِ راست عوامی مفاد سے جڑا ہوتا ہے، لیکن اگر ہماری مجموعی سیاست عوامی مفاد سے غیر متعلق ہے تو سیاسی نظام محض خوش نما نعروں کی بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ عدالتی نظام کی تقرریوں سے لے کر پوری ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی تقرریوں کا نظام عملاً سیاسی مداخلتوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ موجودہ چیف جسٹس فوری انصاف کے حامی ہیں اور ماڈل کورٹس کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن جب تک ہمارے عدالتی اور انصاف کے نظام کے پیچھے حکومت اپنی سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی اور اداروں کو مضبوط بنانا اس کی ترجیح نہیں ہوگی اُس وقت تک کوئی بڑا کام ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ اس وقت ملک کو بڑی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ اصلاحات کیے بغیر ادارہ جاتی عمل کی مضبوطی کا ایجنڈا بھی پس پشت ہی رہے گا، لہٰذا اس پر توجہ دینی ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پارلیمانی نظام کی داخلی کمزوریوں کا درست انداز میں تجزیہ کریں اور ایسے امور کی نشاندہی کرکے ایک درست حکمت عملی اختیار کریں جو ہمیں بہتر نظام حکمرانی کی طرف لے جاسکے۔ لیکن کیا موجودہ سیاسی نظام اور اس سے جڑے فریق ایسا کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟ اس کا جواب بہت کمزور نظر آتا ہے، اور یہی ہماری سیاست کا المیہ بھی ہے۔