حکومتِ سندھ نے صوبے میں خون کے کینسرکے مریضوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ (ہڈیوں کے گودے کی منتقلی) کے مفت علاج کے لیے دو بڑے اسپتالوں کا انتخاب کرلیا جہاں خون کے کینسر کے مریضوں کا مفت علاج کیاجائے گا۔ خون کے کینسر کے علاج کے لیے حکومتِ سندھ نے سالانہ500 ملین روپے مختص کیے ہیں جو دونوں اسپتالوں کو مساوی جاری کیے جائیں گے۔ جن اسپتالوں میں خون کے کینسرکا مفت علاج کیا جائے گا ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز، اور ڈائو انٹرنیشنل اسپتال شامل ہیں۔ ڈائو انٹرنیشنل اسپتال میں حال ہی میں بون میرو ٹرانسپلانٹ یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے منتخب کیے جانے والے دونوں اسپتالوں میں بون میرو فزیشن اور تربیت یافتہ ڈاکٹر اور دیگر عملہ موجود ہے۔ ان دونوں اسپتالوں میں سے ایک اسپتال میں بڑی عمرکے افرادکا بون میرو، جبکہ دوسرے اسپتال میں بچوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کیے جائیں گے، جبکہ حکومتِ سندھ نے آغا خان اسپتال کو بھی بون میرو کے لیے رابطے میں لیا ہے اور پیچیدہ نوعیت کے بون میروکے لیے مریضوںکو آغا خان اسپتال علاج کے لیے بھیجا جائے گا۔
روزنِ سیاہ یا بلیک ہول
دوسرے بہت سے اجرام فلکی کی طرح بلیک ہول بھی ایک جرمِ فلکی ہے۔ اسے بلیک ہول کیوں کہا جاتا ہے؟
آئن اسٹائن کے خصوصی اور عمومی نظریۂ اضافیت سے بہت پہلے جب نیوٹن کے نظریۂ ثقلی کشش کو قبولیتِ عام حاصل ہوگئی تو یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی سیارے یا ستارے کی کشش ثقل سے مکمل آزادی کے لیے ایک مخصوص رفتار کی ضرورت ہوتی ہے جسے Escape Velocith یا ’’رفتارِ آزادی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس رفتار کا کلیہ کچھ اس طرح ہے Vescp=( 2GM/R)^(1/2)اس میں M ستارے کی مقدار مادہ، R اس کا رداس اور G آفاقی ثقلی مستقل ہے۔ اٹھارہویں صدی میں جان مائیکل اور سائمن لپلاس نے اس کلیہ کی بنیاد پر یہ معلوم کرلیا تھا کہ ستارے میں کتنی مقدارِ مادہ ہو اور اس کا رداس (radius) کتنا ہو کہ اس سے ثقلی آزادی کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہو۔ اب اس صورت میں اصولی طور پر روشنی بھی اس ستارے کی ثقلی کشش سے آزاد نہیں ہوسکتی، چنانچہ یہ ستارہ ’’دیکھا‘‘ نہ جا سکے گا، کیونکہ یہ روشنی کو اپنی کشش سے آزاد ہی نہیں کرے گا۔ البتہ 1916ء میں کرل شوارزچلڈ نے آئن اسٹائن کے عمومی نظریۂ اضافیت کی مساوات کا پہلا حل پیش کیا جس نے بلیک ہول کی خصوصیات دنیا کے سامنے رکھیں۔ البتہ بلیک ہول کو خلاء کے ایسے علاقے کے طور پر جس میں سے کچھ بھی باہر نہیں نکل سکتا (روشنی بھی نہیں)، سب سے پہلے ڈیوڈ فنکل اسٹائن نے 1958ء میں شائع کیا۔ آج ہم سیاہ سوراخ(Black Hol) کو اسی طرح جانتے ہیں جس طرح دوسرے اجرام فلکی کے وجود میں آنے کے بارے میں جدید طبعیاتی فلکیات میں ٹھوس ریاضیاتی نظریات موجود ہیں اور جن کا مشاہداتی ثبوت بھی حاصل ہوچکا ہے۔ اسی طرح سیاہ سوراخ کیونکر وجود میں آتے ہیں` طبعیاتی فلکیات اس کے بارے میں بھی واضح تصورات پیش کرتی ہے۔ دراصل سیاہ سوراخ ایک ستارہ ہی ہوتا ہے۔ البتہ یہ ’’ستارہ‘‘ کیونکر خلا کے ایسے خطے میں بدل جاتا ہے کہ اس سے کچھ بھی خارج نہیں ہو سکتا؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ستاروں کی ’’زندگی‘‘، ان کی ’’پیدائش‘‘ اور ان کی ’’اموات‘‘ کے عمل کو سمجھنا ہوگا۔
( ڈاکٹر پروفیسر محمد شاہد قریشی، جامعہ کراچی، کراچی)
فیس بک میں بڑی تبدیلی کے امکانات
ماضی میں فیس بک نے اسمارٹ فون صارفین میں دوستوں سے چیٹ کے لیے میسنجر ایپ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی تھی اور موبائل ایپ پر سے پیغامات بھیجنے کا آپشن ہی ختم کرکے میسجنگ ایپ کو لازمی بنادیا۔ مگر اب لگتا ہے کہ فیس بک اپنی اس حکمت عملی پر یوٹرن لینے والی ہے اور ایک بار پھر اپنی مرکزی ایپ میں میسجنگ کو واپس لانے والی ہے۔ ایپ محقق اور ٹوئٹر صارف جین مین چون وونگ نے فیس بک کی اس نئی تبدیلی کا اسکرین شاٹ ٹویٹ کیا جس پر ابھی کام کیا جارہا ہے۔ اس وقت فیس بک ایپ اور موبائل ویب سائٹ پر یہ چیٹ بٹن میسنجر ایپ کے شارٹ کٹ کا کام کرتا ہے، اور اگر میسنجر ڈیوائس میں انسٹال نہ ہو تو یہ شارٹ کٹ ایپ اسٹور یا گوگل پلے اسٹور کی جانب بھی لے جاتا ہے، تاہم موبائل ویب پر ریٹرن جاکر چیٹ کرنا ممکن ہے۔ جین مین چون وونگ نے ایک اور ٹویٹ میں بتایا کہ فیس بک میں چیٹ میں فیچرز کم ہوں گے یعنی بس میسج بھیج یا موصول ہوسکیں گے، جبکہ کالز، فوٹوز یا ویڈیو کال کے لیے میسنجر ایپ کی ہی مدد لینا ہوگی۔ اب 5 سال بعد فیس بک میسنجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو اکٹھا کرنے پر کام کررہی ہے، تو مرکزی ایپ پر چیٹ کی سہولت بھی واپس آرہی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ فیس بک میں یہ تبدیلی کب تک تمام صارفین کے لیے دستیاب ہوگی۔