نوجوان صحافی احسان کوہاٹی ’سیلانی‘ کے نام سے اخبارامت میں مضامین لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ کوہاٹ سے تعلق ہونے کے باوجود اردو پر عبور ہے۔ آج کل ترکی کی سیر پر نکلے ہوئے ہیں اور کسی دوست کے ’’شوگے‘‘ میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ترکی زبان میں ’’شوگا‘‘ فلیٹ یا اپارٹمنٹ کو کہتے ہیں۔ یہ ترکی زبان کا نہیں، عربی کا لفظ ہے۔ اور ہرچند کہ عربی میں ’’گ‘‘ نہیں ہے لیکن یہ حرف شاید مصر سے آگیا ہے، گوکہ وہاں بھی عربی ہی بولی جاتی ہے۔ مصر میں ’ج‘ کو ’گ‘ کرلیا گیا تو سعودی عرب میں ’ق‘ کو ’گ‘ میں بدل دیا گیا۔ شوگا کو عام زبان میں ’’شگہ‘‘ کہا جارہا ہے۔ ہم نے جگہ جگہ شگہ لل ایجارلکھا ہوا دیکھا، یعنی اپارٹمنٹ یا فلیٹ کرائے پر دستیاب ہے۔ یہ لفظ نہ تو شوگا ہے اور نہ ہی شگہ، بلکہ یہ ’شُقہ‘ ہے۔ اس کا مصدر شَق ہے۔ شق القمر تو سنا اور پڑھا ہوگا جب چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ Appart کا عربی میں مفہوم شُقہ ہی ہے۔ اس کا مطلب کسی چیز کا نصف اور کپڑے کا مستطیل ٹکڑا ہے۔ جمع اس کی ’’شقق‘‘ ہے۔ شقہ میں ’ش‘ بالکسر ہو یعنی’ شِقہ‘ تو اس کا مطلب ہوگا: بُعد، دوری، وہ کنارا جس کا مسافر ارادہ کرے۔ شَقہ بالفتح کا مطلب ہے: کسی بھی چیز کا ٹکڑا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ ’مشقت‘ شقہ ہی سے مشتق ہے، اور مشقت سفر کے معنوں میں آتا ہے، کیونکہ عربوں کو سفر ہی میں مشقت پیش آتی تھی۔ شِق (’ش‘ بالکسر) اردو میں عام ہے۔ اردو لغت کے مطابق کسی چیز کا آدھا، کسی چیز کا ٹکڑا، کسی چیز کا کنارا، جانب، دوست، رفیق۔ آئے دن عدالتوں اور اسمبلیوں میں آئین و قانون کی شِق کا حوالہ دیا جاتا ہے جیسے ’’آپ نے صرف ایک شق پر بحث کی دوسری شق چھوڑ دی‘‘۔ طرف اور جانب کے معنوں میں شق کا استعمال عموماً نہیں ہوتا، البتہ لغت میں ہے ’’مکان کی ایک شِق غیر محفوظ ہے‘‘۔ شِق نکالنے کا مطلب: شبہ کرنا، جھگڑا نکالنا بھی ہے۔
مشقت کے حوالے سے آتشؔ کا بڑا دلچسپ شعر ہے:
مشقت سی مشقت کی ہے راہِ عشق میں ہم نے
پسینہ پائوں کا کس روز یاں سر تک نہیں آیا
یہ کمال حیدر علی آتشؔ ہی دکھا سکتے تھے کہ پائوں کا پسینہ سر پر چڑھ جائے۔ اس کے لیے الٹا کھڑا ہونا پڑتا ہوگا۔ بعض لوگ سر کے بل کھڑے ہونے کی مشق کرتے اور مشقت جھیلتے ہیں۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی سیاست میں نہیں عملاً سر کے بل کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس حوالے سے یہ لطیفہ بھی مشہور ہے کہ پنڈت جی نے ابوالکلام آزادؔ سے کہاکہ جب میں الٹا کھڑا ہوتا ہوں تو سارا خون دماغ کی طرف آجاتا ہے، جبکہ سیدھا کھڑے ہونے سے خون پیروں میں جمع نہیں ہوتا۔ ابوالکلام آزاد نے سمجھایا کہ خون خالی جگہ ہی میں جمع ہوتا ہے۔ بہت پہلے کسی نے اس مصرعے کی طرف توجہ دلائی تھی ’’بہا ایڑی سے چوٹی تک پسینہ‘‘ اور اس پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے! مگر کسی نے آتشؔ سے یہ سوال نہیں کیا۔ اب جو معیشت کی صورتِ حال ہے اس میں بعید نہیں کہ عام آدمی پائوں سے سر تک پسینہ پسینہ ہوجائے۔ یہ اور بات کہ اب تو پسینہ بھی خشک ہوگیا۔
گزشتہ اتوار کو عزیزم شاہنواز فاروقی نے اپنے کالم میں نظیر اکبر آبادی کی یاد تازہ کردی۔ ان کے ’بنجارا نامہ‘ کی بڑی شہرت تھی، تاہم جسارت میں بنجارہ اور انگارہ کا املا غلط شائع ہوا ہے۔ ان دونوں کے آخر میں ’ہ‘ نہیں الف ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں مستزاد ہیں۔ایک لفظ ’گوئیں‘ ہے جو ’’گویں‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس کی تصحیح کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کمپوزر نے اتفاق نہیں کیا۔ بنجارا نامہ کا مصرع ہے ’’کیا بدھیا، بھینسا، بیل شتر، کیا گوئیں، پلاسربھارا‘‘۔ انگریزی میں ’گومیں‘ کا ترجمہ BAGS کیا گیا ہے۔ پلاسر بھارا بھی وزن کے معنوں میں آتے ہیں، یعنی Bushels اور Cans۔
نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا تھا اور نقادوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوگئے۔ اس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اُن کی تاریخ پیدائش پر اتفاق نہیں ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ وہ 1732ء میں پیدا ہوئے، لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ وہ 1739ء یا 1740ء میں پیدا ہوئے۔ یہ طے ہے کہ وہ پیدا ضرور ہوئے اور غالباً دہلی میں، جہاں سے وہ اکبر آباد (آگرہ) چلے گئے اور پھر وہیں رہے۔ انہوں نے شاعری کے لیے عوامی موضوعات کا انتخاب کیا۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ انہوں نے جن الفاظ کا استعمال کیا وہ عوام تو کیا اب خواص کی سمجھ میں بھی نہیں آتے۔ مثلاً گوئیں یا ہانڈا۔ ہانڈا کا استعمال دو مصرعوں میں کیا ہے، مثلاً ’’ملکوں ملکوں ہانڈا ہے‘‘ اور دوسرے میں ’’پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے‘‘۔ پہلے مصرع میں نایک کا استعمال بھی خوب ہے، یعنی جب نایک تن کا نکل گیا۔ یہاں نایک سے مراد روح ہے یا جسم کو چلانے والی طاقت، جس کا ترجمہ PILOT کے طور پر کیا گیا ہے۔ ملکوں ملکوں ہانڈا کا مطلب ہے: گھومنا، پھرنا۔ ہانڈنا ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: آوارہ، بے کار پھرنا، آوارہ گرد ہونا۔ اس کا ہانڈی سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی اسے ہانڈی کا مذکر نہ سمجھ لے۔ نایک کا مطلب ہندی میں مردِ دانا، قافلہ سالار، اور وہ شخص جو فنِ موسیقی میں استاد ہو۔
بنجارا نامہ میں ایسے کئی الفاظ ہیں جو نامانوس ہوگئے ہیں، ان الفاظ کی تشریح ہونی چاہیے۔ مگر کیا فائدہ۔ غالب، اقبال کے اشعار کی تشریح یا مشکل الفاظ کے معانی سے کتنے لوگ استفادہ کرتے ہیں! بنجارا نامہ میں حلوا مانڈا بھی آیا ہے۔ یہ الفاظ ایک ساتھ اردو میں مستعمل ہیں اور حلوے کا مطلب سب جانتے ہیں لیکن مانڈا کا مطلب کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ یہ پراٹھے کو کہتے ہیں۔ ایک اور لفظ ’’گون‘‘ استعمال ہوا ہے، یعنی ’’یہ گون تری ڈھل جاوے گی‘‘۔ اب یہ کون سی گون ہے؟ گون بھی غالباً دولت اور سرمائے کو کہتے ہیں۔ بنجارا نامہ کے انگریزی ترجمے میں اسے ’منی بیگ‘ یا ’روپے پیسے سے بھرا ہوا تھیلا‘ لکھا گیا ہے۔ انوار اللغات میں اسے انگریزی کا لفظ گون (گائون) قرار دیا گیا ہے اور مطلب معروف ہے کہ ایک قسم کا ڈھیلا ڈھالا انگریزی وضع کا زنانہ لباس۔ حالانکہ گائون یا گون تو مرد بھی پہنتے ہیں۔ شاید صاحبِ لغت مولوی نورالحسن نیر (مرحوم) کے دور میں اس کا رواج نہ ہو، اور انہوں نے صرف خواتین ہی کو اس کا استعمال کرتے دیکھا ہو گوکہ اُن کے دور میں اس کا امکان بھی نہیں تھا۔ تاہم مولوی صاحب نے یہ گون ججوں اور وکلا کو بھی پہنا دی ہے۔ لیکن نظیر نے جن معنوں میں استعمال کیا ہے وہ مختلف ہیں کہ گون ڈھل جاوے گی۔ ممکن ہے کہ اس کا مطلب فرہنگِ آصفیہ میں مل جائے، یا جناب رئوف پاریکھ کچھ روشنی ڈالیں۔
یاد آیا کہ ’قومی زبان‘ کے اپریل کے شمارے میں صفحہ 94 پر خبریں کے عنوان سے ایک خبر میں ’’اشیاے خوردونوش‘‘ نظر سے گزرا۔ لغت میں تو یہ خورونوش ہے اور ہم اپنے ساتھیوں کو بھی یہی سمجھاتے رہتے ہیں۔ کہیں وہ قومی زبان میں اس سہو کو نظیر نہ بنا لیں۔ مدیروں کو نظر رکھنی چاہیے کہ ہم خود اس جریدے سے سیکھتے ہیں۔