قیادت کا بحران، سیاست اور جمہوریت کو کیسے بچایا جائے؟

پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بحران آج کا پیدا کردہ نہیں، بلکہ کئی دہائیوں سے جاری سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں سمیت قیادت کے طرزِعمل کا بھی ہے۔ قیادت سے مراد محض سیاسی قیادت ہی نہیں، بلکہ تمام اداروں اور ہر شعبے کی قیادت اس بحران کی براہِ راست ذمے دار ہے۔ سیاسی اور فوجی قیادتوں نے ماضی میں جس انداز سے ملک چلایا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو قانون کی حکمرانی کے تابع بن کر چلانا مقصود نہیں تھا۔ تمام فریق جب ذاتی مفادات پر مبنی سیاسی طرزِعمل اختیار کرلیں تو ملک کا مفاد ہمیشہ پس پشت چلا جاتا ہے۔
ہم عملی طور پر قومی سطح پر سیاسی بونوں کے شکنجے میں ہیں۔ جس قسم کا طرزعمل ہماری سیاسی قیادتیں پیش کررہی ہیں وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ بحران کی سنگینی کی نوعیت کیا ہے۔ ہمارا سیاسی بحث ومباحثہ نظام، مسائل اور مسائل کی درجہ بندی کے بجائے شخصیات اور ان کے ذاتی مسائل کے گرد گھوم رہا ہے۔ سیاست دان ہوں، اہلِ دانش ہوں یا میڈیا کا محاذ… سب ہی افراد کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس لڑائی میں الزام تراشی، دشنام طرازی، محاذآرائی، عدم برداشت، کردارکشی اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش غالب ہے۔
ہماری سیاسی قیادت جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتی ہے۔ اس جنگ میں جمہوریت و قانون کی حکمرانی ان کے لیے محض ایک سیاسی ہتھیار ہے۔ کیونکہ ساری قیادت جمہوریت کا درس تو دیتی ہے لیکن اپنی اپنی جماعتوں کی داخلی سطح پر جمہوریت کو مضبوط کرنا ان کا ایجنڈا نہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابلے میں جرائم پیشہ افراد بالادست ہیں، یا ان کا مقصد سیاست کی مدد سے دولت کا حصول ہے۔ یہ جو عالمی سطح پر کارپوریٹ جمہوریت کا مسئلہ ہے جس میں پیسے کو بنیادی فوقیت حاصل ہوگئی ہے، اس کی وجہ سے سیاست اور جمہوریت دولت مند افراد کے قبضے میں ہیں۔ اس قبضے سے کیسے سیاست اور جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے، یہ سوال توجہ طلب ہے۔کیونکہ جب قیادت ہی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو خود بڑے مجرم کی حیثیت رکھتے ہوں، تو ان سے کیسے اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے!
پارلیمنٹ کو ہی لے لیں۔ کیا پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو ایسے چلایا جاتا ہے جیسے ہمارے یہاں چلایا جارہا ہے؟ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف، دونوں کا کردار اس حوالے سے مایوس کن ہے۔ پارلیمنٹ قومی اور علاقائی سیاسی، سماجی، معاشی اور داخلی و خارجی بحران سے نمٹنے کا ایسا فورم ہے جس کو متبادل حل پیش کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو وزیراعظم، وفاقی کابینہ، حزبِ اختلاف، اسٹینڈنگ کمیٹیاں، پارلیمانی سیکریٹری ہوں یا ارکان اسمبلی… سب کی عدم دلچسپی نے پارلیمانی نظام کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔ یہ جو سیاسی نظام کے بارے میں بداعتمادی پائی جاتی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ قومی قیادت کا طرزعمل بھی ہے۔ قومی سطح پر ہر طبقے کی قیادت کی کامیابی کی کنجی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی یا اداروں کی مضبوطی کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ہر شعبے کی قیادت اداروں کو بالادست بنانے سے گریز کرتی ہے، کیونکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو ان کو ان اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے برعکس ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اداروں کے تابع ہونے کے بجائے اپنی پالیسی سے اداروں کو مجبور کریں کہ وہ ہمارے تابع ہوں۔ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو قومی سطح پر ادارہ سازی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اور یہ رویہ اختیار کرکے ہم کبھی بھی اداروں کو مضبوط نہیں بناسکتے۔
قیادت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں موجود ہر سطح کی تقسیم کو ختم کرکے لوگوں میں یک جہتی پیدا کرنے کا کام کرتی ہے۔ لیکن جب قیادت خود اپنے طرزعمل سے لوگوں کی تقسیم کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے اور یہ ثابت کرے کہ بس وہی محب وطن ہے اور باقی سب غدار… یہ عمل بلاوجہ نہ صرف لوگوں میں تقسیم پیدا کرتا ہے بلکہ اس کا ایک عملی نتیجہ نفرت اور تعصب کی صورت میں پیدا ہوتا ہے، اور بعض دفعہ یہ عمل پُرتشدد سیاست کو بھی جنم دیتا ہے۔ اسی طرح قوم میں ایک مسئلہ طبقاتی نظام کا بھی ہے۔ ایک اچھی اور بہتر قیادت طبقاتی نظام کے خاتمے کو اہمیت دیتی ہے اور یہ مسئلہ اس کی ترجیحات کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن آج ہماری سیاست، معیشت، سماجیات سمیت ہر شعبے میں طبقاتی مسئلہ غالب ہے، اور انصاف بھی طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ کمزور یا طاقت ور کی بنیاد پر انصاف پر مبنی نظام معاشرے کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے اور لوگوں میں لاتعلقی کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ لوگ حیران ہوجاتے ہیں کہ کیسے طاقت ور لوگوں کو بچانے کے لیے ریاست کے تمام ادارے ایک صف میں ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے ان کے ملازم ہوں۔ یہی دُہرا معیار ریاست کے پورے نظام اور ڈھانچے کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ ان بڑے طاقت ور اداروں کو کوئی فرق پڑتا ہو، یا یہی ادارے کبھی کمزور افراد کے لیے بھی ایسے ہی کھڑے ہوں جیسے یہ طاقت ور افراد کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہمیں عملی طور پر ایسی قیادت درکار ہے جو ہجوم کو ایک قوم میں تبدیل کرے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ جب قیادت کے سامنے قومی اہداف واضح ہوں، اور قوم کا اس پر اتفاق ہو، تو یہ مل کر اس جنگ کو جیت بھی سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ قیادت خود بھی شفاف اور جوابدہی پر مبنی نظام پر یقین رکھتی ہو۔ سیاست اور جمہوریت کی کامیابی کی ایک بڑی شرط خود احتسابی پر مبنی نظام ہے، اور یہی ہماری بڑی ترجیح بھی ہونی چاہیے۔ اس وقت ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے روایتی طور طریقوں کے بجائے غیر معمولی اقدامات کو فوقیت دینی ہوگی۔