بلوچستان اسمبلی کا اجلاس،ترقیاتی منصوبوں کے مسئلے پر حزب اختلاف کا احتجاج

اسمبلی نے 19 قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کے ناموں کی منظوری دے دی

بلوچستان اسمبلی کا 25 مارچ کو شروع ہونے والا سیشن جو 2 اپریل کو اختتام پذیر ہوا، مسلسل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے مسئلے پر شور شرابے اور بدمزگی کا شکار رہا۔ حزبِ اختلاف پی ایس ڈی پی کے معاملے کو ایشو بنانے کی کوشش کرتی رہی اور اجلاس کے دوران کارروائی کی روانی میں خلل ڈالتی اور واک آؤٹ کرتی رہی، گویا اس انداز سے احتجاج کرتی رہی۔ حالاں کہ اس بابت صوبائی حکومت بلکہ بذاتِ خود وزیراعلیٰ جام کمال بارہا معروضی حقائق پیش کرچکے ہیں۔ حزبِ اختلاف نے پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کی تفصیلات پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس میں شامل منصوبوں کی مد میں جاری ہونے والے فنڈز کی تفصیلات درست نہیں۔ حزب اختلاف کمیٹی بنانے کا مطالبہ کرچکی ہے جو پی ایس ڈی پی سے متعلق تحقیقات کرے۔ حزب اختلاف کی جانب سے صوبے میں امن وامان کی صورت حال اور دوسرے مسائل بھی پیش نظر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ اسمبلی کے فلور پر کہہ چکے ہیں کہ پی ایس ڈی پی کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کے قیام کے مطالبے کے بجائے اعتراضات کو قائمہ کمیٹی میں اٹھایا جائے یا ایوان میں سوالات رکھے جائیں۔ پی ایس ڈی پی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا جائے۔ دراصل اس طرح جام کمال کے لیے اپنی پارٹی کے اندر مسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔ یقینا حزب اختلاف حکومت پر پھول نچھاور نہیں کرے گی، وہ اپنی سمجھ اور دانست میں صوبے اور عوام کی بہبود کے تناظر میں تنقید کرے گی، احتجاج کے مختلف ذرائع استعمال کرے گی۔ لیکن جب اپنے لوگ حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں تو مسائل کا پیدا ہونا یقینی ہے، اور یہ لوگ ضرور مقاصد رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جام کمال تجوریاں کھول نہیں رہے۔ وہ اللوں تللوں کا باب بند کرنے کی اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں۔ مشتہر اسامیوں پر محتاط تعیناتیوں کی حکمت عملی رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ضلعی سطح پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کمیٹیاں تعیناتیوں کے لیے امیدواروں کی اہلیت دیکھیں گی۔ ایسے وزراء اور اراکین اسمبلی کی کمی نہیں جو چاہتے ہیں کہ یہ سارا عمل اُن کی صوابدید پر ہو۔ ماضی میں نوکریاں فروخت ہوئی ہیں، ناانصافیاں ہوئی ہیں، اقرباء پروری کی مثالیں قائم کی گئی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ جام کمال اپنی نیت و ارادے میں مطلق کامیاب ہوں گے۔ ان کے سامنے بہت سارے مسائل اور رکاوٹیں ہیں۔ ظاہر ہے تنہا شخص کے بس میں اتنا بڑا کام نہیں ہے۔ میں اپنی ذات کی حد تک جام کمال کو کھرا آدمی سمجھتا ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک صاف ستھرا شخص بلوچستان عوامی پارٹی جیسی طفیلی جماعت کا حصہ ہے۔ جام کمال نوازشریف حکومت میں وفاقی وزیر مملکت برائے تیل و گیس تھے۔ نواز حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی تو جام کمال بھی وزارت سے مستعفی ہوگئے۔ یہ جام کمال کی بہت بڑی غلطی تھی، اُن پر سیاسی بددیانتی کا داغ لگ گیا ہے۔ جام کمال نے اس کے لیے روایتی جواز پیش کیے۔ وہی رٹے رٹائے جملے کہ ان کو اہمیت نہیں دی گئی، بلوچستان کو نظرانداز رکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسمبلیاں مدت پوری کرتیں تو وہ نون لیگ سے علیحدہ ہوتے، بے شک بلوچستان عوامی پارٹی ہی کا حصہ بنتے۔ ہم حقائق چھپانے کی کتنی ہی کوشش کریں، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی بہرحال بنوائی گئی ہے جس میں الیکٹ ایبلز اکٹھے کردیئے گئے، اور یہ شریف انسان اِس جماعت کے صدر بنائے گئے۔ درپردہ کھلاڑیوں کا ساتھ جمعیت علمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور بی این پی عوامی نے پوری طرح دیا۔ اب جب سردار اختر مینگل اس جماعت کے قیام پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ حزبِ اختلاف بے شک حکومت کے خلاف اپنے کارڈ کھیلے مگر سازش کا حصہ نہ بنے۔ عبدالقدوس بزنجو جیسے لوگوں کے ساتھ ان ہی جماعتوں نے مل کر عدم اعتماد کی تخریب میں حصہ لیا۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ عبدالقدوس بزنجو کے پیش نظر اپنی ذات، مراعات و اختیارات کا مسئلہ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ بلوچستان کے چیف ایگزیکٹو بنیں۔ حزب اختلاف صاف ستھری سیاست کرے اور اسٹیبلشمنٹ کے مہروں سے دور رہے۔ بالخصوص حزب اختلاف کے قائد ملک سکندر ایڈووکیٹ بھی کردار کے صاف ستھرے اور کھرے انسان ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ مولانا عبدالواسع کے کیے کو صاف کریں جنہوں نے بہت ہی گندی سیاسی روایات چھوڑی ہیں۔ حالیہ اجلاس میں حزب اختلاف کے احتجاج پر یقیناً عبدالقدوس بزنجو مسرور ہوئے ہوں گے۔ عبدالقدوس بزنجو اسپیکر اور جام کمال کے سخت ناقد ہیں، حزبِ اختلاف کو جام کمال کے خلاف ابھارنے میں اُن کا کردار ہے۔
کچھ مزید ذکر پی ایس ڈی پی کا ہوجائے۔ 2 اپریل کے اجلاس میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے ایوان میں کہا کہ ’’صوبے میں پی ایس ڈی پی کے مسائل ہیں، اب تک رواں مالی سال کے لیے88 ارب روپے میں سے33 ارب روپے ریلیز کیے گئے ہیں۔ پی ایس ڈی پی کا بمشکل 30 سے35 فیصد ریلیز ہوا۔ پی ایس ڈی پی پر عمل درآمد نہ ہوا تو نئی اور پرانی اسکیموں کو کس طرح سے مکمل کیا جائے گا! ‘‘ وزیراعلیٰ نے 28 مارچ کے اجلاس میں کہا کہ ’’پی ایس ڈی پی جام ہونے کا تاثر درست نہیں۔450 جاری منصوبے پہلے مکمل کریں گے۔ صوبے میں کوئی بحران نہیں ہے، کرپشن کرنے والے ضرور بحران میں ہیں۔ اب کم از کم محکمہ خزانہ کو ریلیز کے لیے پیسے نہیں دیئے جاتے، نہ ہی پی اینڈ ڈی کو آتھرائزیشن کے لیے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ صرف ٹھیکیداروں کی دکانیں بند ہوئی ہیں۔ پی ایس ڈی پی چل رہی ہے۔ اسکیموں اور تعمیراتی کام میں معیار کو اولیت دی جائے گی۔ ہم نے پی ایس ڈی پی کی کتاب کو 80فیصد صحیح کردیا ہے، جس روز یہ100فیصد صحیح ہوگی اُس دن سے بلوچستان کی تقدیر بدلنے میں اس کا اہم کردار ہوگا۔ پی ایس ڈی پی کے خرچ نہ ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔ سب کچھ قانون کے مطابق چل رہا ہے۔ آتھرائزیشن ہو یا ریلیز، سب کچھ درست طریقے سے ہورہا ہے۔
بلوچستان حکومت نے قائمہ کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی ہیں، اور یہ اس کی بڑی پیش رفت ہے۔ اسمبلی نے 19قائمہ کمیٹیوں کے ارکان کے ناموں کی منظوری دے دی۔ قائمہ کمیٹیوں کی تفصیل یہ ہے: وزیر قانون و پارلیمانی امور کی جانب سے وزیراعلیٰ کی مشیر و پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند، ڈاکٹر ربابہ بلیدی اور شاہینہ کاکڑ نے مجلس قائمہ برائے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے لیے اصغرخان اچکزئی، میر اسد بلوچ، نواب زادہ طارق مگسی، بشریٰ رند، سردار یار محمد رند، اصغرترین اور ثناء بلوچ، مجلس قائمہ برائے محکمہ ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ شاہرات و تعمیرات کے لیے محمد رحیم مینگل، حاجی محمد نواز، سید محمد فضل آغا، احمد نواز بلوچ، نصراللہ زیرئے، دنیش کمار اور گہرام بگٹی، قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات، کھیل و ثقافت، سیاحت، آثار قدیمہ میوزیم (عجائب گھر) و لائبریریز کے لیے فریدہ بی بی، نواب زادہ گہرام بگٹی، میر نعمت اللہ زہری، نور محمد دمڑ، محمد خان طور اتمانخیل، شکیل نوید قاضی اور مکھی شام لعل، مجلس قائمہ برائے محکمہ سماجی بہبود، ترقی نسواں، زکوٰۃ، عشر و اوقاف، حج، اقلیتی امور و امور نوجوانان کے لیے احمد نواز بلوچ، مولوی نوراللہ، زبیدہ خیر خواہ، ٹائٹس جانسن، نصراللہ زیرئے، محمد عارف محمد حسنی اور محمد خان لہڑی، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ، قبائلی امور، جیل خانہ جات، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے لیے لیلیٰ ترین، سردار سرفراز چاکر ڈومکی، فریدہ بی بی، سردار عبدالرحمان کھیتران، مٹھا خان کاکڑ، حاجی محمد نواز کاکڑ اور میر اکبر مینگل، مجلس قائمہ برائے صحتِ عامہ، بہبود آبادی کے لیے ڈاکٹر ربابہ، محمد عارف محمد حسنی، انجینئر زمرک خان اچکزئی، ظہور بلیدی، سردار صالح بھوتانی، میر حمل کلمتی، زبیدہ خیر خواہ، قائمہ کمیٹی برائے محکمہ تعلیم، خواندگی و غیر رسمی تعلیم، اعلیٰ تعلیم، صدارتی پروگرام، سی ڈی ڈبلیو اے، معیاری تعلیم، سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے عبدالواحد صدیقی، میر زابد ریکی، شکیلہ نوید قاضی، زینت شاہوانی، بانو خیل، عمرخان جمالی اور بشریٰ رند، مجلس قائمہ برائے محکمہ لوکل گورنمنٹ، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( بی ڈی اے)، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)، بی سی ڈی اے، شہری منصوبہ بندی و ترقیات کے لیے قادر علی نائل، مسعود علی خان لونی، میر اکبر آسکانی، ملک نعیم خان بازئی، سلیم احمد کھوسہ، سید محمد فضل آغا اور ملک نصیر شاہوانی، مجلس قائمہ برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، بی واسا بشمول کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی پراجیکٹ کے لیے مولوی نوراللہ، محمد رحیم مینگل، حاجی محمد نواز، ثناء اللہ بلوچ، نصراللہ خان زیرئے، مبین خان خلجی اور میر نصیب اللہ مری، مجلس قائمہ برائے محکمہ آب پاشی و توانائی، ماحولیات، جنگلات و جنگلی حیات کے لیے محمد اکبر مینگل، میر زابد علی ریکی، سید محمد فضل آغا، میر حمل کلمتی، زینت شاہوانی، محمد خان لہڑی اور عمر خان جمالی، مجلس قائمہ برائے محکمہ زراعت و کوآپریٹو سوسائٹی، لائیواسٹاک، ڈیری ڈویلپمنٹ، ماہی گیری و خوراک کے لیے میر یونس عزیز زہری، ملک نصیر شاہوانی، شکیلہ نوید قاضی، اصغر خان ترین، حمل کلمتی، عبدالرشید، لیلیٰ ترین، مجلس قائمہ برائے محکمہ مالیات، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، بورڈ آف ریونیو اور ٹرانسپورٹ کے لیے میر جان محمد خان جمالی، سردار یار محمد رند، احسان شاہ، ڈاکٹر ربابہ، دنیش کمار، اصغرخان ترین، یونس عزیز زہری، مجلس قائمہ برائے صنعت و حرفت، کان کنی و معدنی ترقی، محنت و افرادی قوت کے لیے نواب زادہ گہرام بگٹی، سردار عبدالرحمان کھیتران، سردار محمد صالح بھوتانی، میر نصیب اللہ میر، احسان شاہ، زابد علی ریکی، مکھی شام لعل، مجلس قائمہ برائے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی، بین الصوبائی رابطہ، قانون و پارلیمانی امور، پراسیکیوشن اور انسانی حقوق کے لیے مستورہ بی بی، محمدخان اتمانخیل، مبین خان خلجی، دنیش کمار، سکندر علی عمرانی، ملک نصیر شاہوانی، حاجی محمد نواز، مجلس حساباتِ عامہ کے لیے اختر حسین لانگو، سید محمد فضل آغا، ملک نصیر شاہوانی، ثناء اللہ بلوچ، نصراللہ زیرئے، زابد علی رکی، میر اسد اللہ بلوچ، سردار یار محمد رند، ظہور احمد بلیدی، عبدالخالق ہزارہ اور انجینئر زمرک خان اچکزئی، مجلس برائے قواعد وانضباط کار و استحقاقات کے لیے شاہینہ کاکڑ، ماہ جبین شیران، ظہور احمد بلیدی، میر اسداللہ بلوچ، انجینئر زمرک خان اچکزئی، نصراللہ زیرئے اور زینت شاہوانی، مجلس برائے مالیات کے لیے اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی، وزیر خزانہ، میر جان محمد جمالی، اختر حسین لانگو، اصغرخان اچکزئی، اصغر علی ترین، بشریٰ رند، مجلس برائے سرکاری مواعید کے لیے ڈاکٹر ربابہ، سلیم احمد کھوسہ، میر ضیاء اللہ لانگو، ظہور احمد بلیدی، بشریٰ رند، عبدالواحد صدیقی، ثناء بلوچ اور مجلس برائے ہائوس اینڈ لائبریری کے لیے ڈپٹی اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی، شاہینہ خان کاکڑ، بانو خلیل، ٹائٹس جانسن، ڈاکٹر ربابہ اور مبین خان خلجی کو منتخب کرنے کے لیے الگ الگ تحاریک ایوان میں پیش کیں، جن کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دی۔