گزشتہ سے پیوستہ
جیل کے دن تو خوش گوار ہوسکتے ہیں لیکن راتیں دلکش نہیں ہوتیں۔ گزرے ہوئے لمحات یاد آتے ہیں اور ذہن اکثر ماضی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ میں جس طرح کی تقریریں کرتا رہا تھا اُس سے اندازہ تھا کہ ایک دن حُسنِ خطابت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ضرور پہنچا دے گی۔ زمانۂ طالب علمی میں رات کو چارپائی پر بغیر گدے کے سوتا تھا، والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ اس طرح نہ سویا کرو، لیکن میں یہ سب اس لیے کرتا تھا کہ ہوسکتا ہے ایک دن جیل جانا پڑے۔ یوں ایک لحاظ سے یہ جیل کی تیاری تھی اور جس تقریر پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اُس تقریر کے بعد ذہنی طور پر تیار ہوگیا تھا کہ اب جیل کا دروازہ کھل جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ ذہن تیار تھا اس لیے کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ جیل اس طرح گیا جیسے ہوٹل میں چائے پینے جارہا ہوں، اور اعصاب کو مضبوط رکھا۔ میں جیل میں نماز فجر کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کرتا، اس کے بعد لان میں یوگا کی مشق کرتا رہتا۔ یہ عمل جیل کے پورے عرصے رہا، ساتھ ساتھ کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ بولنے پر بھی جیل گیا اور لکھنے پر بھی۔
دوستوں کے ساتھ جیل ہی میں تھا کہ شیرباز خان مزاری نے نواب بگٹی کے خلاف جلسے کرنے کا اعلان کیا۔ نواب بگٹی اُس وقت گورنر بلوچستان تھے۔ انہوں نے بڑا دلچسپ بیان جاری کیا کہ سردار شیرباز خان مزاری کو احتجاج اور جلسے کرنے کی اجازت ہے اور اگر وہ کوئی قتل بھی کردیں تو انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ بیان بڑا حیرت انگیز تھا۔ جب جیل سے رہا ہوا اور نواب بگٹی سے سیاسی یارانہ بن گیا تو اُن سے پوچھا کہ آپ کا یہ بیان کچھ عجیب نہیں تھا کہ قتل بھی کریں تو گرفتار نہ کیا جائے جبکہ ہمیں آپ نے تقریر کے بعد گرفتار کرلیا، اور چوکوں پر تقاریر کی اجازت نہ تھی اور آرڈیننس جاری کیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اس پر وہ خوب ہنسے اور کہا: شیر باز مزاری کی تقریر کون سنتا ہے! اور واقعی ایسا ہی تھا، جب شیر باز مزاری نے جناح روڈ ڈان چوک پر تقریر کی تو چالیس کے لگ بھگ لوگ ہوں۔ سردار بگٹی نے کہا کہ آپ کی تقریر ہماری حکومت کے لیے پریشانی کا سبب بن گئی تھی، عوام آپ دوستوں کی تقریر سے متاثر تھے اور ہماری حکومت کے لیے عوامی رجحان خطرناک ہورہا تھا۔ ہم آپ لوگوں کو کس طرح آزاد چھوڑ سکتے تھے! یاد رہے کہ سردار شیرباز مزاری نواب بگٹی کے داماد تھے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد جنوری 1974ء سے بلوچستان کے حوالے سے مضامین لکھ رہا تھا تو حزب اختلاف کے قائدین سے تعلقات بن گئے تھے۔
جب سردار شیر باز خان مزاری نے NAP پر پابندی کے بعد NDP بنائی تو وہ کوئٹہ تشریف لائے۔ وہ کوئٹہ کینٹ میں قائم ایک ہوٹل میں ٹھیرے تھے، بیگم شمیم ولی بھی ساتھ تھیں۔ ان سے ملاقات کی۔ وہ پریس کانفرنس کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بعض مسائل پر گفتگو کی، اور میں نے انہیں بعض نکات کی نشاندہی کی اور اہم معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے انہی نکات پر پریس کانفرنس کی اور مجھ سے مشورہ کیا کہ ہم NDP کی صوبائی تشکیل چاہتے ہیں، کس کو اس کا صوبائی سربراہ بنائیں؟ اُن سے کہا: محمود عزیز کرد سب سے موزوں ہوں گے۔ وہ اُن دنوں مچھ جیل میں قید تھے۔ سردار شیرباز مزاری نے اُن سے ملاقات کی اور انہیں صوبائی ذمہ داری سونپ دی۔ اسی طرح محمود علی قصوری کوئٹہ تشریف لائے۔ خدائے نور کے ہمراہ اُن سے مقامی ہوٹل میں ملاقات کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس دورے کے بعد قومی اسمبلی میں بلوچستان کے حوالے سے تقریر کرنا چاہتا ہوں، آپ کل صبح آجائیں، میرے ساتھ ناشتا بھی کریں اور مجھے بریف بھی کردیں۔ محمود علی قصوری مرحوم اُس وقت ایئرمارشل اصغر خان کی پارٹی میں تھے اور میرا خیال ہے وہ اُس وقت پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے۔ صبح ہوٹل پہنچا، پھر ہم دونوں ناشتے کے لیے ہوٹل کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ناشتے کے بعد انہوں نے نوٹ بک نکالی اور اہم نکات لکھتے رہے۔ انہوں نے 19 نکات پر مشتمل تقریر کی۔ وہ بہت ہی سادہ اور مخلص انسان تھے، جب اُن سے ملاقات ہوئی وہ دھوتی پہنے ہوئے تھے۔ ان کی سادگی کو میں فراموش نہیں کرسکا۔
اور جب نواب بگٹی 1971ء کے بعد ایک طویل عرصہ تک خاموش رہنے کے بعد اپنی سیاست کا دوبارہ آغاز کررہے تھے اور کوئٹہ کے سرآب کے علاقے میں خطاب کرنا چاہ رہے تھے اُس سے ایک دن پہلے ان سے بگٹی ہائوس میں ملاقات کی۔ کھانے کے بعد سیاست کے حوالے سے ان سے بات چیت کی اور پوچھا کہ کل آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ انہون نے کہا کہ اس وقت تو میرا ذہن بالکل Blank ہے، آپ بتائیں کیا بولوں۔ انہوں نے اپنا گتہ اٹھایا اور بال پین ہاتھ میں تھام لیا۔ جو نکات اس ماحول اور سیاسی حالات میں کہنا چاہتا تھا وہ نوٹ کرلیے گئے، اور پھر انہوں نے بیشتر انہی نکات پر تقریر کی۔ میں نے اُن سے کہا کہ ایک پہلو کو آپ نظرانداز نہ کریں، اِس وقت فضا بلوچ پشتون قوم پرستی میں الجھی ہوئی ہے، اس سے دامن بچائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جلسے کے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ اس طرح وہ سیاست میں دوبارہ داخل ہوگئے اور وزیراعلیٰ بن گئے۔ ان کا یہ دور کشمکش سے پُر تھا۔
جب جیل سے رہا ہوا تو بلوچستان میں مسلح جدوجہد شروع ہوچکی تھی، اس کی تمام معلومات نیپ کے کارکن اور بی ایس او کے دوست مجھ تک پہنچاتے تھے، اس لیے میرے پاس تازہ ترین معلومات ہوتی تھیں۔ یہ بھی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔
پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ کوئٹہ جیل نیپ اور بی ایس او کے کارکنوں سے بھرتی چلی جارہی تھی۔ ایوب اسٹیڈیم میں نواب بگٹی جلسے میں موجود تھے اور پی پی پی جلسہ کرنا چاہی تھی۔ اس جلسے پر نیپ کے ورکروں نے چوہے چھوڑ دیے، جس سے افراتفری پیدا ہوگئی۔ اس کی پاداش میں مقامی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس پکڑ دھکڑ میں نیپ کے سالار مجید شاہ بھی گرفتار ہوگئے۔ اسی طرح ایک اور اہم شخصیت آغا نواب شاہ بھی گرفتار ہوئے۔ وہ مذہبی رجحان کے حامل انسان تھے۔ کوئٹہ میں ایک بار بازار حسن پر عوام نے یورش کی تو آغا نواب شاہ اس میں پیش پیش تھے۔ عوام بازارِ حسن لُوٹ رہے تھے لیکن ان کے ہاتھ کوئی حسن نہیں لگا، بلکہ بالا خانے سے ایک مسلح شخص نے بلوائیوں پر فائرنگ کی اور لوٹ مار کرنے والا ایک شخص مارا گیا۔ میں اتفاق سے اس لوٹ مار کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ آغانواب شاہ ہمارے احتجاجی جلوس اور جلسے میں شریک ہوتے تھے اور ایک دلچسپ نعرہ ضرور لگاتے تھے ’’خان قلات زندہ باد‘‘ خان قلات کو گورنر بنائو‘‘۔
ہم نے جیل میں آغا نواب شاہ کا نام ہی خان قلات رکھ دیا تھا۔ ان کے ذہن پر خان قلات کا جنون سوار تھا۔ اور اتفاق دیکھیے کہ نواب بگٹی کے بعد خان قلات پرمیر احمد یار خان بلوچستان کے گورنر بن گئے، اور انہوں نے آغا نواب شاہ کو اپنا پریس معاون بنا دیا۔
آغا نواب شاہ مرحوم جب جیل گئے تھے تو نیپ کے ورکر تھے، اور رہا ہوئے تو پیپلزپارٹی کے حامی بن گئے۔ انہوں نے رنگ کا ڈبہ لیا اور اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کوئٹہ شہر کے در ودیوار پر نعرے لکھے ’’بلوچ پہاڑوں سے اتر آئیں‘‘۔ ایک دن ڈان ہوٹل میں مجھ سے کہا کہ’’ امان صاحب آپ پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں‘‘۔ اُن سے کہا کہ ’’کل تک آپ پیپلزپارٹی کو بلوچستان کا دشمن سمجھتے تھے اور اس کے خلاف تقریریں کرتے تھے اور آج اس کے لیے نعرے لگا رہے ہیں، اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ بھی پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں۔ ‘‘
جیل کی دوستی بھی بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے اور فراموش نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ بے غرض ہوتی ہے، خاص طور پر جب کوئی سیاسی قیدی ہو۔ جیل میں نیپ کے ورکر ہی تھے، باقی کسی پارٹی کے ورکر نہیں تھے۔ ایک دن حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ خیر بخش مری نے پارٹیوں سے پوچھا کہ آپ کی پارٹی کا کون کون ورکر جیل میں ہے۔اس پر عبدالمجید خان (مرحوم) نے کہا کہ نہیں، کوئی کارکن اور لیڈر جیل میں نہیں ہے۔ خیر بخش مری نے کہا کہ خان صاحب امان اللہ شادیزئی آپ کی پارٹی کا ہے۔ تو عبدالمجید خان مرحوم نے کہا کہ نہیں اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ ہمارا کارکن نہیں ہے۔ اس پر نواب خیر بخش حیران ہوکر اُن کو دیکھنے لگے۔ یہ بات مجھے نیپ کے لیڈر نے بتائی۔
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا، اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں۔ میرے اور تمام دوسروں کے مقدمات باقری حنفی صاحب نے لڑے، وہ نیپ کے ممتاز لیڈر اور بلوچستان کے ممتاز قانون دان تھے۔ جب ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تو حیدرآباد ٹریبونل کے تمام مقدمات ختم کردیے لیکن ہمارا مقدمہ واپس نہیں لیا، یہ شاید 1979ء یا 1980ء میں واپس لیا گیا جب حزب ِاختلاف نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی۔ بھٹو کی حکومتی دھاندلی کے خلاف جدوجہد چل رہی تھی اور تاریخ کا المیہ ملاحظہ ہو کہ انہوں نے ایک فوجی حکومت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ جنرل کے زیرسایہ وزارتیں بھی حاصل کرلیں۔ ہر جمہوری اقتدار سے انحراف کے لیے ہمیشہ دلائل موجود رہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سیاست کا المناک اور سیاہ ترین دور تھا۔ جو ملک ووٹ کی بنیاد پر وجود میں آیا اس پر ہمیشہ شب خون مارا گیا، اور ہر بار ایک نئے اندازسے مطلق العنانی جمہوری روپ میں جلوہ گر ہوئی ہے۔
اب تو جمہوریت سیاسی پارٹیوں میں سے بھی نکل گئی اور وراثت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ حکومت اور وراثت کے زہر سے سیاسی اور مذہبی پارٹیاں بھی اس کا شکار ہوگئی ہیں۔ مقتدر قوتوں کے لیے ان کی حیثیت ایک تر نوالے کی سی ہوگئی ہے۔ بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے، اب لوٹتا ہوں عبدالمجید شاہ کی طرف، جو نیپ کے سالار تھے، ان سے خوب دوستی ہوگئی تھی۔ ایک دن وہ خوشگوار موڈ میں تھے، مسکراتے ہوئے انہوں نے پوچھا ’’آپ صبح سویرے ٹائون ہال کے پارک میں آتے تھے‘‘۔ اُن سے کہا ’’درست ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’پہلے آپ گھر سے نکلتے تو فلاں روڈ سے آتے تھے، پھر اسی راستے سے واپس جاتے تھے‘‘۔ ان سے حیران ہوکر پوچھا ’’لیکن میں نے تو آپ کو صبح پارک میں نہیں دیکھا‘‘۔ تو انہوں نے کہاکہ ’’آج آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ آپ کو ماریں گے‘‘۔ انہیں حیرت سے کچھ دیر دیکھا۔ بعد میں وہ بھی ہنسے اور مجھے بھی ہنسی آگئی۔ ان سے کہا کہ ’’شاہ صاحب کیسا اتفاق ہے کہ آپ لوگ مجھے جان سے مارنا چاہتے تھے اور آپ کی حکومت ختم ہوئی تو پہلا احتجاج میں نے کیا، اور میں آپ کا ہمدرد نکلا ‘‘۔ وہ میرا بڑا احترام کرتے تھے، انہیں علم تھا کہ بغاوت کا مقدمہ قائم اس لیے ہوا تھا کہ نیپ کی حکومت ختم کرنے پر تقریر کی تھی۔ کبھی دوست دشمن بن جاتے ہیں اور کبھی دشمن دوست۔