بنتِ ارشد ساہی۔ ترجمہ: امجد عباسی
یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جو اسلام قبول کرنے سے قبل ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس کا انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا سے تعلق تھا۔ یہ اس لڑکی کا انٹرویو ہے جس کا نام کویتا تھا اور قبولِ اسلام کے بعد اس کا نام نور فاطمہ رکھا گیا۔
سوال: اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کا کیا نام تھا؟
جواب: میرا نام کویتا تھا اور پیار سے مجھے پونم کہتے تھے۔
سوال: آپ کہاں پیدا ہوئیں اور اب آپ کی عمر کتنی ہے؟
جواب:میں ممبئی میں پیدا ہوئی تھی اور 30 برس کی ہوں۔ لیکن میں اپنی عمر پانچ سال سمجھتی ہوں، کیونکہ میرا اسلام کے متعلق علم ایک پانچ سالہ مسلمان بچے سے زیادہ نہیں ہے۔
سوال:کیا آپ اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیں گی؟
جواب: ممبئی میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونیورسٹی چلی گئی۔ وہاں سے ماسٹر کی ڈگری کے حصول کے بعد میں نے کمپیوٹر کے مختلف کورس بھی کیے۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میں نے اس دنیا کے لیے بہت سی ڈگریاں حاصل کیں لیکن اس دنیا کے بعد کی دنیا کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب میں اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔
سوال: کیا آپ اپنی زندگی کے کچھ حقائق بتانا پسند کریں گی؟
جواب: میں نے ممبئی میں ایک اسکول میں ملازمت شروع کی تھی جو ایک بڑا اسکول تھا اور صرف امیر خاندانوں کے بچے وہاں پڑھتے تھے۔
سوال:آپ کی شادی کب ہوئی اور آپ کے کتنے بچے ہیں؟
جواب: میری شادی ممبئی میں ہوئی تھی لیکن پھر میں اپنے شوہر کے ساتھ بحرین منتقل ہوگئی۔ میرے دو بیٹے ہیں۔
سوال:آپ نے اسلام کیسے قبول کیا؟
جواب: سب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہوں گی جس نے مجھ پر رحمت فرمائی۔ جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’جب اللہ کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے دین کی ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے‘‘۔ میں کہتی ہوں کہ اللہ نے مجھ پر اپنی رحمتوں کی بارش کردی۔
میں جس ماحول میں پلی بڑھی تھی وہ شدت پسند ہندوئوں کا تھا، جہاں مسلمانوں سے سخت نفرت کی جاتی تھی۔ میں نے اپنی شادی کے بعد اسلام قبول کیا تھا لیکن میں بچپن ہی سے بتوں کی پرستش کو پسند نہیں کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے گھر میں ایک بت کو غسل خانے میں رکھ دیا۔ اس پر جب میری والدہ نے سرزنش کی تو میں نے کہا کہ جب یہ اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتا تو آپ اس سے رحمت کا سوال کیوں کرتی ہیں؟ آپ اس کے آگے کیوں جھکتی ہیں؟ یہ آپ کو کیا دیتا ہے؟
ہمارے خاندان میں ایک رسم ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنے خاوند کے پائوں دھوتی ہے اور پھر اس پانی کو پی لیتی ہے، لیکن میں نے اپنی شادی کے موقع پر ایسا کرنے سے انکار کردیا جس پر سختی سے سرزنش کی گئی۔
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ میں نے بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے ایک اسکول میں ملازمت اختیار کرلی تھی اور اپنی گاڑی خود چلایا کرتی تھی۔ میرے اسکول کے قریب ایک اسلامک سینٹر تھا، میں نے وہاں جانا شروع کردیا۔ وہاں لوگوں سے ملاقات کے دوران مجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ مسلمان بتوں کی پوجا نہیں کرتے، وہ کسی اور ہستی سے رحمت کے طلب گار ہوتے ہیں، ان کا بھگوان کوئی اور ہے۔ مجھے ان کی باتیں اچھی لگیں، بعد میں مجھے پتا چلا کہ وہ اللہ ہے جو ہر چیز پر حاوی ہے۔
سوال:آپ اسلام کی طرف کیسے راغب ہوئیں؟
جواب: مجھے مسلمانوں کی نماز نے متاثر کیا۔ مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ اسے نماز کہتے ہیں، بعد میں یہ بات میرے علم میں آئی کہ تمام مسلمان ایسا کرتے ہیں۔ ابتدا میں مَیں نے سوچا کہ یہ ورزش کی طرح کوئی چیز ہے، یہ مجھے اُس وقت پتا چلا کہ اسے نماز کہتے ہیں جب میں نے اسلامک سینٹر جانا شروع کیا۔
جب کبھی میں سونے کے لیے بستر پر لیٹتی تو خواب میں ایک چیز نظر آتی تھی۔ یہ چار سمتوں والا ایک کمرہ تھا جو مجھے روز خواب میں نظر آتا تھا۔ میں خوف زدہ ہوجاتی، اور جب اٹھتی تو پسینے میں شرابور ہوتی۔ میں جب دوبارہ سوتی تو یہ کمرہ پھر مجھے خواب میں دوبارہ نظر آنے لگتا۔ مجھے اس کمرے کے بارے میں بہت دیر بعد پتا چلا۔
سوال:آپ کے قبولِ اسلام کے بارے میں آپ کے خاندان والوں کو کیسے پتا چلا؟
جواب: شادی کے بعد میں بحرین منتقل ہوگئی جہاں مجھے اسلام کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ یہ چونکہ ایک مسلم ملک ہے اس لیے ہمارا گھر مسلمانوں کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ ایک مسلمان لڑکی سے میری دوستی ہوگئی، وہ میرے ہاں کبھی کبھار ملنے کے لیے آیا کرتی تھی، لیکن میں اُس کے ہاں اکثر جایا کرتی تھی۔ ایک روز اُس نے مجھے اپنے ہاں آنے سے منع کردیا کہ ماہِ رمضان آگیا ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ تمہارے آنے سے میری عبادت متاثر ہوتی ہے۔ مسلمان بطور عبادت جو رسومات ادا کرتے ہیں میں چونکہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے تجسس رکھتی تھی، لہٰذا میں نے اُس سے گزارش کی کہ مجھے اپنے گھر آنے سے نہ روکے۔ میں نے اُس سے کہاکہ جو تم چاہتی ہو وہ کرو۔ میں تمہیں وہ سب کرتا ہوا دیکھوں گی۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی اور صرف سنوں گی جس کی تم تلاوت کرتی ہو۔ چنانچہ اُس نے مجھے اپنے گھر آنے سے منع نہ کیا۔ میں نے سوچا کہ میں جب اسے عبادت کرتا ہوا دیکھوں گی تو میرا بھی دل چاہے گا کہ اس کی نقل اتاروں۔ پھر میں نے اُس سے ’’ورزش‘‘ (نماز) کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ اسے نماز کہتے ہیں، اور جس کتاب کی وہ تلاوت کیا کرتی ہے وہ قرآن پاک ہے۔ میں نے بھی یہ سب کچھ کرنا چاہا۔ میں اپنے گھر میں ایک کمرہ بند کرلیتی تھی اور اپنی سہیلی کی طرح نماز ادا کرتی تھی اگرچہ میں اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی۔
ایک روز میں کمرے کا دروازہ بند کرنا بھول گئی اور نماز پڑھنا شروع کردی کہ میرا خاوند کمرے میں آگیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کررہی تھیں؟ میں نے جواب دیا:’’نماز پڑھ رہی تھی‘‘۔ اس نے کہا: ’’کیا تم ہوش میں ہو؟ کیا تم جانتی ہو کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
پہلے تو میں خوف زدہ ہوگئی تھی، ڈر کے مارے میری آنکھیں بند ہورہی تھیں، لیکن اچانک میں نے اپنے اندر ایک بھرپور قوت محسوس کی جس نے مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے بڑا حوصلہ دیا۔ میں زور سے چلاّئی کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے، اس لیے میں نماز پڑھ رہی تھی۔ اس نے کہا: ’’کیا! تم نے کیا کہا؟ کیا تم اپنے الفاظ دہرائو گی؟‘‘ میں نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا: ’’ہاں، میں نے اسلام قبول کرلیا ہے‘‘۔
یہ سنتے ہی اس نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ شور سن کر میری بہن وہاں آگئی۔ اس نے مجھے بچانے کی کوشش کی۔ لیکن جب میرے خاوند نے ساری کہانی بیان کی تو وہ بھی آگے بڑھ کر مجھے مارنے لگی۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے روکا: ’’تمہیں میرے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔ میں جانتی ہوں کہ میرے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا‘‘۔ یہ سنتے ہی میرا خاوند جنونی ہوگیا۔ اس نے مجھ پر اتنا تشدد کیا اور اتنی زیادہ اذیت دی کہ میں بے ہوش ہوگئی۔
سوال: جب آپ پر تشدد کیا جارہا تھا تو آپ کے بچے کہاں تھے؟ ان کی عمر کتنی تھی؟ آپ وہاں سے جان بچاکر نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئیں؟
جواب: میرے بچے اس وقت گھر میں تھے جب یہ خونیں کھیل کھیلا گیا۔ اس وقت میرا بڑا بیٹا نویں جماعت میں تھا اور چھوٹا بیٹا آٹھویں جماعت میں۔ اس واقعے کے بعد مجھے کسی سے بھی ملنے نہ دیا گیا۔ مجھے کمرے میں بند کردیا گیا۔ اگرچہ میں نے باقاعدہ اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن میں اس پر پختگی کے ساتھ جم گئی کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔
ایک رات جب میں کمرے میں بند تھی تو میرا بڑا بیٹا میرے پاس آیا اور مجھ سے لپٹ کر رونے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا گھر کے دوسرے افراد کہاں ہیں؟ اس نے کہاکہ وہ کسی فنکشن پر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں کوئی نہیں ہے (اس رات ہمارا مذہبی تہوار تھا)۔ میرے بیٹے نے مجھ سے التجا کی کہ آپ گھر سے بھاگ جائیں کیونکہ گھر والے آپ کو مار ڈالیں گے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، وہ مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے اور اپنا اور اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھو۔ لیکن وہ ہچکیوںکے ساتھ روتا ہوا اس بات پر زور دیتا رہا کہ آپ کو یہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح میں آپ لوگوں سے نہیں مل سکوں گی۔ اس نے جواب دیا کہ آپ ہمیں تب ہی مل سکیں گی اگر آپ زندہ بچیں گی۔ ماما آپ چلی جائیں، وہ آپ کو قتل کردیں گے۔ آخرکار میں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
میں ان تلخ لمحات کو کبھی نہ بھول سکوں گی جب میرا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو اٹھانے کے لیے گیا اور اس سے کہا: ’’اٹھو! ماما سے مل لو، وہ گھر چھوڑ کر جارہی ہیں۔ پھر پتا نہیں کہ وہ ہمیں دوبارہ مل بھی سکیں گی یا نہیں‘‘۔ میرا چھوٹا بیٹا مجھے بہت دنوں کے بعد ملا تھا۔ وہ اپنی آنکھیں مَل رہا تھا جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا۔ لیکن جب میں آگے بڑھی تو وہ مجھ سے چمٹ گیا اور رونے لگا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: ’’ماما کیا آپ جارہی ہیں؟‘‘ میں نے اپنا سر ہلایا اور کہاکہ ہم جلد ملیں گے۔ میں نے اپنے دونوں بچوں کو سمجھایا اور انہیں سخت سرد رات میں الوداع کہا۔ میں اپنے قدموں تلے ماں کی مامتا کو کچل رہی تھی۔ ایک طرف بچوں کی محبت اور ان کی جدائی تھی اور دوسری طرف اسلام کی محبت تھی جو اول الذکر پر غالب آرہی تھی۔ میں اپنے بچوں کو چمٹائے ہوئے رو رہی تھی اور سسکیاں بھر رہی تھی اور ان کے لیے اپنی مامتا کو کچل رہی تھی۔ میرے زخم تازہ تھے۔ میرے لیے پیدل چلنا ممکن نہ تھا۔ جیسے تیسے میں نے چلنا شروع کیا۔ دونوں بچوں نے ہاتھ ہلا کر مجھے گیٹ پر رخصت کیا، جب کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔میں ان لمحوں کو کبھی فراموش نہ کرسکوں گی۔ جب کبھی مجھے یہ منظر یاد آتا ہے، تو مجھے وہ مسلمان یاد آتے ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے اپنے گھربار اور خاندان کو ترک کردیا۔
سوال: پھر آپ کہاں گئیں اور کہاں آپ نے اسلام قبول کیا؟
جواب: میں اپنے گھر سے سیدھی پولیس اسٹیشن گئی۔ وہاں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ میری زبان نہ جانتے تھے۔ تاہم، ان میں سے ایک انگریزی سمجھ سکتا تھا۔ میں بمشکل سانس لے پا رہی تھی اور بول بھی نہیں پا رہی تھی، اس لیے کہ میں بہت زیادہ خوف زدہ تھی۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے سانس لینے دو تاکہ اپنے اوسان بحال اور اپنی قوت مجتمع کرسکوں۔ جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں نے اسے بتایا کہ میں اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں اور میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے بڑی بے تابی سے اسے تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ تاہم، اس نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور جتنا ممکن ہوسکا وہ میری مدد کرے گا۔ وہ مجھے اپنے اہلِ خانہ کے پاس لے گیا اور اپنے گھر میں مجھے پناہ دی۔
صبح کے وقت میرا خاوند پولیس اسٹیشن پہنچ گیا اور مدد چاہی کہ اس کی بیوی کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ لیکن اسے بتایا گیا کہ اس کی بیوی کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ خود یہاں آئی ہے۔ چونکہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتی ہے اور ایک غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا وہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔ اس نے بہت زور دیا اور بہت سی دھمکیاں بھی دیں۔ میں نے خود اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ میں نے کہا کہ وہ میرے تمام زیورات، بینک بیلنس اور جائداد لے سکتا ہے لیکن میں اس کے ساتھ نہیں جائوں گی۔ پہلے تو وہ نہ مانا لیکن میرے مسلسل انکار پر اس نے میری تمام ملکیت حاصل کرنے کے لیے ایک تحریری بیان حاصل کرلیا۔
وہ شخص جس نے مجھے پناہ دی تھی، اس نے کہا کہ اب آپ کے خاندان کے لوگ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، لہٰذا آپ اسلام قبول کرسکتی ہیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسپتال چلی گئی کیونکہ میرا تمام جسم بری طرح زخمی تھا۔ میں اسپتال میں کچھ دن تک داخل رہی۔ ایک بار ایک ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ کہاں سے آئی ہیں؟ آپ کے گھر والوں میں سے کبھی کوئی اسپتال نہیں آیا‘‘۔ میں خاموش رہی اور کوئی جواب نہ دیا۔ اس لیے کہ میں نے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا صرف ایک چیز کی تلاش میں…!
اب نہ میرا کوئی گھر تھا اور نہ کوئی خاندان۔ اب میرا واحد تعلق اسلام تھا جس نے مجھے پہلے ہی قدم پر بڑی محبت دی۔
مسلمان پولیس والے نے مجھے اپنی بہن کہا اور اپنی بہن کی طرح مجھے اپنے گھر رکھا۔ اُس نے مجھے اس سخت سرد رات کو پناہ دی تھی جب میں اپنے تمام تعلقات کھو چکی تھی۔ میں اس کی مددکو کبھی نہ بھلا سکوں گی۔
جب میں اسپتال میں تھی تو اپنے اگلے اقدام کے لیے بے قرار تھی۔ میں سوچتی تھی کہ امن اور تحفظ کی تلاش میں کہاں جائوں گی؟ اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد میں سیدھی اسلامک سینٹر گئی۔ اُس وقت وہاں کوئی نہ تھا سوائے ایک بزرگ کے، جو غالباً وہاں رہتے تھے۔ میں ان کے پاس گئی اور اپنا مقصد بیان کیا۔ انہوں نے کچھ توقف کیا اور کہا: ’’بیٹی ساڑھی مسلمانوں کا لباس نہیں ہے۔ جائو اپنا سر ڈھانپو اور مسلمانوں کی طرح کپڑے پہنو‘‘۔ جب میں نے پولیس اسٹیشن چھوڑا تھا تو میرے پاس کچھ پیسے تھے۔ میں نے ان پیسوں سے ایک سوٹ خریدا اور واپس اسلامک سینٹر آگئی۔ اس بزرگ نے مجھے غسل کا طریقہ بتایا۔ جب میں غسل کرچکی تو وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک بڑی تصویر دیکھی۔ تصویر دیکھتے ہی میں رک گئی، اس لیے کہ یہ تو اسی کمرے پر مشتمل تھی جو مجھے اپنے خواب میں نظر آتا تھا۔ میں فوری طور پر پکار اٹھی: ’’یہ تو وہی ہے جو میں اپنے خوابوں میں دیکھتی رہی ہوں… جو میری نیند میں مخل ہوتا تھا‘‘۔ وہ بزرگ مسکرائے اور کہا کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔ دنیا بھر سے مسلمان یہاں حج اور عمرہ کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اسے بیت اللہ کہتے ہیں۔ یہ جان کر میں بہت حیران ہوئی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا اللہ ایک گھر میں رہتا ہے‘‘؟ وہ بڑی محبت سے مسکراتے ہوئے میرے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔ غالباً وہ اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ مجھے اُن سے بات کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی تھی۔ وہ ہر بات کی وضاحت میری زبان میں ہی کررہے تھے۔
اس وقت مجھے ایک عجیب خوشی محسوس ہورہی تھی جسے میں اُس وقت نہ سمجھ سکی۔ بزرگ نے مجھے کلمہ پڑھایا اور پھر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق بتایا۔ اب میں نہ تو بے چین تھی اور نہ میرے ذہن پر کوئی بوجھ تھا۔ میں اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کررہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں بدبودار پانی سے تیر کر صاف پانی میں آگئی ہوں۔
اس سینٹر کے مالک نے جہاں میں نے اسلام قبول کیا تھا، مجھے اپنی بیٹی بنا لیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک مسلم گھرانے میں میری شادی کردی۔ میری پہلی خواہش اللہ کا گھر دیکھنے کی تھی، لہٰذا میں نے سب سے پہلے عمرہ ادا کیا۔
سوال: کیا آپ اسلام قبول کرنے کے بعد بھارت گئی تھیں؟
جواب: اسلام قبول کرنے کے بعد نہ میں بھارت گئی اور نہ میں وہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرے خاندان کے مذہبی اور سیاسی تنظیموں سے روابط ہیں۔ انہوں نے میرے سر کی قیمت کا اعلان کررکھا ہے۔ میں مسلمان ہوں، ایک مسلمان بیٹی… اور مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ میں اپنی زندگی اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں گزارنا چاہتی ہوں۔
سوال: اسلام قبول کرنے سے پہلے مجاہدین کے بارے میں آپ کی سوچ کیا تھی؟
جواب: ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ انتہا پسند ہیں اور انتہا پسندی کی ہر حد پار کرجاتے ہیں۔ ہمیں ان سے نفرت کرنا سکھائی جاتی تھی۔ اب مجھ پر سچائی آشکار ہوچکی ہے اور اب میں ان سے محبت کرتی ہوں۔ میں ہر نماز میں ان کی کامیابی کی دعا کرتی ہوں۔ میں اللہ سے یہ دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اپنی رحمت سے بیٹے عطا کرے تو میں انہیں مجاہد دیکھنا پسند کروں گی۔ میں اسلام کی عظمت کے لیے ان کو وقف کردوں گی۔
(muslimconverts.com)
(www.islamway.com)