مقام جنون

ایک دفعہ جلال الدین خوارزم (1220۔ 1231ء) شاہی پاگل خانے کا معائنہ کررہا تھا۔ وہاں ایک خوش صورت دیوانہ دیکھا جس کی حرکات و سکنات سے شائستگی ٹپکتی تھی۔ بادشاہ نے اس سے کئی سوال پوچھے۔ اس نے برجستہ جواب دیے، جن سے بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد پاگل نے کہا: ’’بادشاہ سلامت، میرے ایک سوال کا جواب بھی دیتے جایئے اور وہ یہ کہ سونے والے کو نیند کی لذت کب ملتی ہے؟‘‘
بادشاہ: جب وہ سویا ہوا ہو۔
دیوانہ: خفتہ اور مُردہ برابر ہوتے ہیں، اس میں احساسِ لذت کہاں؟
بادشاہ: نیند سے پہلے۔
دیوانہ: یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی چیز کی لذت اس کے وجود سے پہلے موجود ہو؟
بادشاہ: نیند کے بعد۔
دیوانہ: یہ بھی ناممکن، لذت ایک صفت ہے جو موصوف کے بغیر نہیں ہوسکتی، جب نیند (موصوف) ختم ہوگئی تو لذت کیسے باقی رہی؟
بادشاہ اس دیوانے کی منطق سے اس قدر محظوظ ہوا کہ ساقی سے کہاکہ ایک جام مجھے پلائو اور دو اسے۔ جب ساقی نے جام دیوانے کی طرف بڑھایا تو وہ بول اٹھا:
’’میرے لیے شراب بے کار ہے، آپ کو تو یہ فائدہ ہوگا کہ پینے کے بعد مقامِ خرد سے نکل کر میری بلندیوں (دیوانگی) کو پالیں گے لیکن میں پی کر کہاں جائوں گا؟‘‘۔

دنیا کا طویل ترین قبرستان

کراچی سے 98 کلو میٹر دور نیشنل ہائی وے پر واقع ’’مکلی قبرستان‘‘ دنیا کو طویل ترین قبرستان ہے جو دس مربع کلو میٹر کے دائرہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں ایک لاکھ 25 ہزار کے قریب اولیا، صوفی، عالم، ادیب، شاعر، مفکر، بادشاہ، رانیاں، گورنر اور دوسرے لوگ مدفون ہیں۔ قبرستان کے مین گیٹ کے کتبے پر لکھا ہے:’’مکلی کا شہر خموشاں، بزرگان دین، امرا، وزرا اور شاہان الصالحین کے قدیم مقابر14 صدی عیسوی تا 18 صدی عیسوی‘‘۔
(استفادہ ازماہنامہ حق نوائے احتشام، پاکستان نمبر)

اکبر الٰہ آبادی

سید اکبر حسین رضوی (1846ء۔ 1921ء) لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ پہلے وکالت کی اور پھر مختلف عدالتوں میں منصف کی حیثیت سے کام کیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہوئے، پھر ہائی کورٹ کی ججی بھی پیش ہوئی، مگر آنکھوں کی تکلیف کے باعث اسے قبول نہ کیا۔ علامہ اقبال، اکبر کے زبردست مداح تھے۔ ایک دور میں ان کے رنگ میں شاعری بھی کی۔ آپس میں تفاوتِ عمر کے باوجود مراسلت اور گاہے ملاقات بھی رہی۔ اکبر نے بھی اقبال کو اپنا روحانی دوست قرار دیا۔ دونوں کے ہاں مغربی تہذیب و ثقافت سے نفرت اور ملتِ اسلامیہ کے احیا کی تڑپ موجود ہے۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت سے جس علمی اور قلمی جنگ کا آغاز ہوا، اُس کا اختتام بھی اکبر کی مشاورت اور مفاہمت سے ہوا۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

حکایت

ایک مرتبہ ہاتھ، پائوں، منہ، زبان، دانت، حلق، تمام اعضا پیٹ سے باغی ہوگئے اور سب نے باخود ہا صلاح کی کہ: ’’دیکھو ہم سب کے سب رات دن پیٹ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور بے سبب ہم کو اس کی غلامی کرنی پڑتی ہے‘‘۔
ہاتھ نے کہا: ’’میں پیٹ کے واسطے کام کرتے کرتے تھک گیا‘‘۔
پائوں نے کہا: ’’پیٹ کے لیے دوڑتے دوڑتے میں عاجز آگیا‘‘۔
منہ نے کہا:’’پیٹ نے مجھ کو اپنی چکی بنا رکھا ہے‘‘۔
غرض اسی طرح ہر ایک عضو پیٹ کا شاکی ہوا اور سب نے عہد کیا کہ آئندہ پیٹ کی خدمت نہ کریں گے۔ جب یہ تمام لشکر پیٹ سے منحرف ہوا تو پیٹ کو ہر طرح کی تکلیف ہونے لگی۔ پیاس معلوم ہوئی تو ہاتھ پانی لینے کو نہیں ہلتا۔ پائوں گھڑونچی تک نہیں چلتا۔ بھوک لگی تو ہاتھ روٹی تک نہیں توڑتا، منہ لقمہ نہیں لیتا۔ تب پیٹ نے بھی سب لشکر کی تنخواہیں اور جاگیریں موقوف اور ضبط کیں۔ خون کا راتب بند ہوا تو باغیوں کا لشکر لگا بھوکوں مرنے۔ ہر ایک سپاہی کمزور ہوگیا۔ ناچار تمام اعضا نے پیٹ کے حضور حاضر ہوکر خطا معاف کرائی اور بدستورِ سابق پیٹ کی خدمت کرنی قبول کی۔
حاصل: رعیت اور بادشاہ، آقا اور نوکر دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ہم اگر نوکروں کو روپیہ دیتے ہیں تو نوکر ہماری ٹہل کرتے ہیں۔ احسان کسی کا کسی پر نہیں۔
(’’منتخب الحکایات‘‘۔نذیر احمد دہلوی)

اشعار

غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا
افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا
اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
َََِِِ
َََََََََََََََبھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
برق گر جائے گی اک دن اور اڑ جائے گی بھاپ
دیکھنا اکبر بچائے رکھنا اپنے آپ کو

(اکبر الہ آبادی)